خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوات اور سرایا کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز حالیہ پاک بھارت جنگ کے حوالے سےدعاؤں کی تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۹؍مئی ۲۰۲۵ء

٭…مسلمانوں کی تعداد تین ہزار جبکہ مشرکین کی تعداد دولاکھ سے زیادہ تھی۔ یہ تنہا ہی مسلمانوں کی فوقیت پر ایک مستقل دلیل ہے

٭… صحابہؓ نے فوراً عورتوں سے کہہ دیا کہ اپنے غم کو بُھلا کر رسولِ کریمؐ کے غم میں شریک ہو جاؤ۔
اِس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ اُن کے دلوں میں رسولِ کریمؐ  کا کیسا عشق تھا!

٭…جنگ موتہ سے واپس آنے والوں کے متعلق رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ یہ فرار ہونے والے نہیں بلکہ کَرَّار یعنی پلٹ کر حملہ کرنے والے ہیں

٭… حالیہ پاک بھارت جنگ کے تناظر میں نیز مظلومینِ فلسطین کے لیے دعاؤں کی تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۹؍مئی ۲۰۲۵ء بمطابق ۹؍ہجرت ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامسايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۹؍مئی۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

جنگِ موتہ کی مزید تفصیل

اس طرح بیان ہوئی ہے کہ حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں اِن لوگوں کے ہمراہ سفر میں شامل ہوا جو حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ نکلے تھے۔مجھے اہلِ یمن میں سے ایک شخص ملا۔اس کے پاس صرف تلوار تھی۔ایک مسلمان نے اونٹ ذبح کیا۔ اس شخص نے اُس سے کچھ جِلد(کھال) مانگی، وہ اُس نے اِسے دے دی۔اس نے اُسے ڈھال کی طرح بنا لیا۔

پھر کہتے ہیں کہ ہم سفر پر روانہ ہوئے۔ ہماری رومی لشکر سے مڈھ بھیڑ ہوئی۔ان میں سے ایک شخص جو بھورے گھوڑے پر سوار تھا۔اس پر سنہری زِین اور سنہری اسلحہ تھا، وہ رومی مسلمانوں کو للکارنے لگا۔ وہ یمنی شخص اُس کی طرف چٹان کے پیچھے سے آیادشمن کے گھوڑے کی پیچھے سے کونچیں کاٹ دیں، جنگ ہوئی، رومی نیچے گر پڑا۔ وہ تلوار لے کر اُس پر سوار ہو گیا اور مسلمان نے اُسے قتل کر دیا۔ اِس کا گھوڑا اَور اسلحہ لے لیا۔

جب الله تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا کی تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے اُس یمنی شخص کی طرف پیغام بھیجا اور اُس سے کچھ سامان لے لیا۔

حضرت عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں حضرت خالدؓ کے پاس آیا۔مَیں نے کہا کہ آپؓ کو علم ہے کہ الله تعالیٰ نے سامان کے بارے میں کیا فیصلہ کیا تھا کہ وہ قاتل کے لیے ہوگا؟ اُنہوں نے کہا کہ ہاں! مجھے پتا ہے، مگر مَیں نے اسے زیادہ سمجھا تھا ۔مَیں نے اُنہیں کہا کہ یہ سامان اُس شخص کوواپس کر دیں ورنہ مَیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کروں گا۔حضرت خالدؓ نے سامان واپس کرنے سے انکار کر دیا۔

یہ امر آنحضرتؐ کی خدمت میں پیش ہوا تو آپؐ نے حضرت خالدؓ سے پوچھا کہ تم نے کیا کیا؟ اُنہوں نے عرض کیا کہ مَیں نے اُسے کثیر مال سمجھا، اِس لیے کچھ اُس میں سے واپس لے لیا۔آپؐ نے فرمایا: جو اُس سے لیا تھا وہ اُسے واپس کر دو۔حضرت عوفؓ کہتے ہیں، مَیں نے کہا کہ خالد! اب اس سے لو! جب وہ حضرت خالدؓ  کو یہ کہہ رہے تو آنحضرتؐ نے سن لیا، آپؐ نے فرمایا! کیا ہوا؟ کہتے ہیں کہ مَیں نے پھر سارا واقعہ سنایا۔اِس پر آپؐ ناراض ہو گئے۔ آپؐ نے فرمایا:خالد! اُسے ساراسامان واپس نہ کرنا۔ پھر آپؐ نے تربیت کے لیے فرمایا کہ کیا تم میرے اُمراء کو اِس حالت میں چھوڑنا چاہتے ہو کہ تمہارے لیے معاملے کا نکھرا ہوا حصّہ ہو اور اُن کی گندگی اُن پر ہو؟

حضورِ انور نے فرمایا کہ اب یہاں امیر کا وقار قائم کرنا تھا ، تو آپؐ نے فرمایا کہ اِس طرح تم امیر کو طعنہ دے رہے ہو کہ تم نے پہلےغلط کام کیا۔اس لیے آپؐ نے پہلا فیصلہ واپس لیا۔

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ موتہ میں بعض مسلمان شہید ہو گئے۔ مسلمانوں کو مشرکین کا کچھ حصّہ بطور مالِ غنیمت ملا۔ حضرت خزیمہ بن ثابتؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے موتہ کی جنگ میں شرکت کی، رومیوں میں سے ایک شخص نے مجھے دعوتِ مبارزت دی، مَیں نے اِس کا کام تمام کر دیا۔ اُس نے خَود پہن رکھا تھا، جس میں یاقوت لگے ہوئے تھے، میرااِ رادہ وہ یاقوت تھے۔مَیں نے اُنہیں لیا۔جب مَیں آنحضورؐ کی خدمتِ اقدس میں پہنچا، تو مَیں نے آپؐ کی خدمت میں یاقوت پیش کر دیے۔ آپؐ نے وہ مجھے عطا کر دیے۔

حضرت خالد بن ولیدؓ بیان کرتے ہیں کہ موتہ کے دن میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹیں اور صرف ایک یمنی چوڑی تلوار ہی میرے ہاتھ میں رہ گئی۔ علّامہ محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ اِس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے مشرکین کو خوب قتل کیا تھا ورنہ وہ مشرکین سے نجات نہ پا سکتے۔

مسلمانوں کی تعداد تین ہزار جبکہ مشرکین کی تعداد دولاکھ سے زیادہ تھی۔ یہ تنہا ہی مسلمانوں کی فوقیت پر ایک مستقل دلیل ہے۔وَاللّٰهُ اَعْلَمُ!

ایک روایت میں ہے کہ حضرت یعلیٰ بن اُمیّہؓ اہلِ موتہ کی خبر لے کر آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تم پسند کرو تو تم مجھے بتا دو، اگر تم پسند کرو تو مَیں تمہیں اِن کے بارے میں بتا دیتا ہوں۔ اُنہوں نے عرض کیا کہ اَے الله کے رسولؐ! آپؐ مجھے بتا دیں۔آپؐ نے اُنہیں سارا واقعہ بتا دیا۔ اُنہوں نے عرض کی کہ مجھے اُس ذات کی قسم! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ آپؐ نے اِن واقعات میں سے ایک لفظ بھی نہیں چھوڑا۔ آپؐ نے فرمایا کہ

الله نے زمین کو میرے لیے بلند کیا یہاں تک کہ مَیں نے اُن کا معرکہ دیکھا۔

مَیں نے خواب میں اُنہیں دیکھا۔ وہ سونے کے بستروں پر تھے۔ مَیں نے حضرت عبدالله بن رواحہؓ کا بستر دیکھا۔ان کے بستر میں ذرا ٹیٹرھا پن تھا ۔ مَیں نے پوچھا کہ اِس کی کیا وجہ ہے؟ مجھے کہا گیا کہ یہ دونوں سیدھے گئے لیکن عبدالله نے کچھ تردّد کیا تھا، پھر آگے گئے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اِس تردّد کا ذکر پچھلے خطبہ میں ہوا ہے، اُنہوں نے خود کہا ہے کہ مجھے پہلے خیال گزرا تھا کہ مَیں نہ لڑوں۔

ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما، حضرت جعفرؓ کے بیٹے عبدالله کو سلام کرتے تو کہتے : اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا اِبْنِ ذِی الْجَنَاحَیْنِ کہ اَے دو پَروں والے کے بیٹے! تم پر سلامتی ہو۔

حضرت مصلح موعودؓ بعض مسائل بیان کرتے ہوئے ایک تفصیل میں بیان فرماتے ہیں کہ جو مشکل مسائل ہوتے ہیں، اُن کو بعض لوگ سمجھتے ہیں اور بعض نہیں سمجھتے، اور اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ جو باخبر ہیں، اُنہیں وہ مسائل سمجھائیں، خواہ اِس وجہ سے کہ وہ خود غور نہیں کرتے یا اِن کا دل کسی گناہ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا فضل جذب کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہ مشکل مضامین بالعموم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک علمی مضامین جو باریک فلسفے پر مبنی ہوتے ہیں مثلاً توحید ہے، اُس کا اتنا حصّہ تو ہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ خدا ایک ہے، مگر آگے یہ صوفیانہ باریکیاں کہ کس طرح انسان کے ہر فعل پر خدا تعالیٰ کی توحید کا اثر پڑتا ہے، اِس کے لیے ایک عارف کی ضرورت ہو گی اور یہ مسائل دوسرے کو سمجھانے کے لیے کوئی عالِم درکار ہو گا۔ہر شخص یہ باریکیاں نہیں نکال سکتا۔ لیکن اتنی بات ضرور سمجھ لے گا کہ قرآنِ کریم دوسرے خدا کا قائل نہیں ہے۔ دوسرے یہ مشکلات ایسے مطالب کے متعلق پیدا ہوتی ہیں جو علمی تو نہ ہوں مگر وہ اُس زبان میں بیان کیے گئے ہوں ، جسے تشبیہ یا اِستعارہ کہتے ہیں۔ عوام النّاس اُس زبان کو نہ جاننے کی وجہ سے اِس کے ایسے معنی کر لیتے ہیں جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے۔

مثلاً رسولِ کریم ؐکے زمانے میں ایک واقعہ پیش آیا۔ جب شام کی جنگ میں رسولِ کریم ؐ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو سالارِ لشکر بنا کر بھیجا اور فرمایا کہ اگر زید مارے جائیں تو جعفر بن ابی طالب کمان لے لیں اور اگر جعفر مارے جائیں تو عبداللہ بن رواحہ کمان لے لیں تو جیسے آپؐ نے فرمایا تھا ویسا ہی وقوع میں آیا۔آپؐ نے حضرت جعفرؓ کی شہادت پر فرمایا!جعفرپر تو کوئی رونے والا نہیں۔ آپؐ کا مطلب یہ نہ تھا کہ لوگ جا کر روئیں، بلکہ یہ دکھ کے اظہار کا ایک اِستعارہ تھا کہ ہمارا بھائی بھی مارا گیا اور ہم صبر کر رہے ہیں۔ مگر انصار نے اِس فقرہ کو لفظی معنے میں لے کر عورتوں کو حضرت جعفرؓ کے گھر بھیج دیاجنہوں نے وہاں رونا دھونا شروع کر دیا۔ جب آپؐ کو اِس کا علم ہوا تو فرمایا کہ میرا یہ مطلب تو نہیں تھا۔ پھر آپؐ نے فرمایا:اِن کے سروں پر مٹی ڈالو یعنی انہیں چھوڑ دو، وہ خود خاموش ہو جائیں گی۔ مگر ایک شخص نے اِس بات کو بھی لفظی معنے میں لے کر واقعی مٹی ڈالنا شروع کر دی۔ حضرت عائشہؓ نے اُسے ڈانٹا کہ تُو نے بات کو سمجھا ہی نہیں۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض دفعہ لفظی معنی ایسے لے لیتے ہیں کہ جو حقیقت کے خلاف ہوتے ہیں اور اِس طرح بات کہیں کی کہیں پہنچ جاتی ہے۔

اِس واقعہ سے صحابہؓ کے آنحضرتؐ سے عشق کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ واقعہ بیان کر کے ایک اور جگہ اِس طرح بیان فرمایا ہے کہ جب صحابہؓ نے اپنی عورتوں کو رونے کے لیے حضرت جعفرؓ کے گھر بھیجا تو اِس واقعہ سے صحابہؓ کے دلوں میں حضرت رسولِ کریمؐ کی جو محبّت تھی، اُس کا اظہار ہوتا ہے، اس نے انہیں یہ سوچنے کا موقع نہیں دیا کہ رسولِ کریمؐ  کیا چاہتے ہیں؟ بلکہ

اُنہوں نے فوراً عورتوں سے کہہ دیا کہ اپنے غم کو بُھلا کر رسولِ کریمؐ کے غم میں شریک ہو جاؤ۔ اِس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ اُن کے دلوں میں رسولِ کریمؐ کا کیسا عشق تھا!

آپؓ فرماتے ہیں کہ بظاہر یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے مگر جذبات کے اظہار کے لیے اِس سے بہتر واقعات بہت کم مل سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی خدمات محمدﷺکے سامنے تھیں، جن کی قربانیاں ہر آن اور ہر لمحہ رسولِ کریمؐ کی آنکھوں کے سامنے ہوا کرتی تھیں اور رسولِ کریمؐ سے یہ لوگ ایسی محبّت رکھتے تھے کہ جس کی نظیر کسی دنیوی رشتے میں نہیں مِل سکتی۔ پس اگر دنیا کے لحاظ سے دیکھا جائے، اگر احساسات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو محمدﷺکو اِن لوگوں کے خیالات کی پاسداری زیادہ ہونی چاہیے تھی اور ہماری نسبت رسولِ کریمؐ کی محبّت کم ہونی چاہیے تھی۔ لیکن محمدﷺکی غیر محدود محبّت نے،جہاں تک انسانی محبّت غیر محدود ہو سکتی ہے، یہ پسند نہ کیا کہ وہ تمہاری ہمتوں کو پست ہونے دیں، بلکہ رسولِ کریمؐ کی محبّت نے یہ بھی پسند نہ کیا کہ وہ درمیانی اُمّت کی ہمت کو پست ہونے دیں۔

چنانچہ ایک مجلس میں آپؐ نے بعد میں آنے والے لوگوں کا ذکر اِن الفاظ میں فرمایا کہ میرے بھائی! جو میرے بعد آنے والے ہیں، وہ ایسے ہوں گے۔ صحابہؓ  کو یہ سن کر رشک پیدا ہوا اور اُنہوں نے عرض کیا کہ وہ بھائی ہوئے اور ہم نہ ہوئے؟ آپؐ نے فرمایا کہ تم صحابہؓ ہو اَور وہ میرے بھائی ہیں۔ تمہیں کیا یہ کم نعمت حاصل ہے کہ تم مجھے دیکھ رہے ہو اَور میرے ساتھ رہ کر خدماتِ دینیہ بجا لا رہے ہو۔ اور وہ لوگ جو مجھے نہیں دیکھیں گے اور وہ لوگ جو میرے بعد آئیں گے، مجھے کوئی لفظ اُن کے متعلق بھی تو بولنے دو تا اُنہیں بھی تسلی ہو اور اُن کے حوصلے بھی بلند ہوں۔ چنانچہ دیکھ لو کہ رسولِ کریمؐ نے تمہارے حوصلے کس قدر بڑھا دیے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا کہ مَیں نہیں جانتا کہ میری اُمّت کا پہلا حصّہ بہتر ہے یا آخری حصّہ بہتر ہے۔

علّامہ ابنِ کثیرکی کتاب البدایہ والنّہایہ میں شہدائے موتہ کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اِن کی تعداد بارہ تھی۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض روایات میں شہداء کی تعداد زیادہ بھی بیان ہوئی ہے۔ لیکن بہرحال یہ بہت بڑا معجزہ ہے کہ دو لشکر آمنے سامنے ہوں ، جو خدا کی راہ میں لڑ رہا ہو، اُس کی تعداد تین ہزار ہو جبکہ دوسرے مخالف لشکر کی تعداد دو لاکھ ہو، ایک لاکھ رومی اور ایک لاکھ عیسائی، وہ ایک دوسرے کے ساتھ معرکہ آزما ہوں ، پھر بھی مسلمانوں کے صرف بارہ یا بہت تھوڑی تعداد میں افراد شہید ہوئے اور مشرکین کی کثیر تعداد واصلِ جہنّم ہو۔

جب مسلمان موتہ سے واپس آئے تو آنحضرتؐ اور صحابہ کرامؓ نے اُن کا استقبال کیا۔ بعض لوگوں کو یہ غصّہ تھا کہ یہ لوگ شہید ہو کےکیوں نہیں آئے، یہ تو کوئی فتح نہیں ہوئی، اور بعض لشکر پر مٹی پھینکنے لگے اور کہنے لگے کہ اَے راہِ فرار اختیار کرنے والو! تم الله کی راہ سے بھاگ نکلے ہو۔ اِس پر آنحضرتؐ نے فرمایا کہ

یہ فرار ہونے والے نہیں بلکہ کَرَّار یعنی پلٹ کر حملہ کرنے والے ہیں۔

پھر ایک سریّہ کا ذکر ہے، یہ

سریّہ حضرت عَمرو بن العاصؓ

کہلاتا ہے، یہ سریّہ جمادی الثانی ۸؍ہجری میں ہوا۔ ابنِ اسحٰق کے علاوہ سب اِس پر متفق ہیں کہ یہ سریّہ غزوۂ موتہ کے بعد ہوا اور غزوہ جمادی الاُولیٰ ۸؍ہجری میں ہوا تھا۔اِس سریّہ کا سبب یہ بنا کہ رسول اللهؐ  کو خبر ملی کہ بنو قضاعہ کا ایک گروہ مدینہ کے اطراف میں حملہ کرنے کے لیے اکٹھا ہو رہا ہے۔ اِن کی سرکوبی کے لیے رسولِ کریمؐ نے حضرت عَمرو بن العاصؓ کو روانہ فرمایا۔

آپؐ نے اِن کی زیرِ قیادت مہاجرین اور انصار پر مشتمل تین سو افراد کا لشکر تیار کیا، جس میں تیس گُھڑسوارتھے، آپؐ نے حضرت عَمروؓ کے لیے ایک سفید رنگ کا جھنڈا باندھا اور ساتھ ایک سیاہ رنگ کا جھنڈا بھی دیا۔ آپؓ جنگ میں خاص مہارت رکھتے تھے اور فنونِ حرب سے بھی آگاہی رکھتے تھے اور رسول اللهؐ نے اُنہیں اُن کی جنگی مہارت کی وجہ سے امیر بنایا تھا۔ اور آپؓ کو اِس سریّہ پر بھیجنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چونکہ اُن کی دادی کا تعلق قبیلہ بَلّی سے تھا، اِس لیے بنو بَلّی سے اچھے تعلقات اُستوار کرنے کے لیے آپؓ ایک اچھا ذریعہ ثابت ہو سکتے تھے۔

اسلامی لشکر روانہ ہوا، یہ رات کو سفر کرتا تھا اور دن کے وقت چھپ جاتا تھا، یہاں تک کہ وہ قبیلہ جذام کے علاقہ میں سلاسل نام کے ایک چشمے کے قریب پہنچ گیا۔ اِس کی مناسبت سے اِس کو سریّہ ذات السلاسل بھی کہا جاتا ہے۔ چشمے کے قریب پہنچنے پر مسلمانوں کو علم ہوا کہ دشمن کا لشکر بہت بڑا ہے، حضرت عمروؓ نے مزید امداد کے لیے حضرت رافع بن مکیثؓ  کو رسول اللهؐ کی طرف بھیجا، آپؐ نے حضرت ابو عُبَیْدہ بن الجراحؓ کے لیے جھنڈا تیار کیا اور دو سو مہاجرین اور انصار کا لشکر اُن کے ساتھ روانہ کیا، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ  بھی اِن میں شامل تھے۔ آپؐ نے حضرت ابوعُبَیْدہؓ کو روانہ کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ پہنچنے کے بعد حضرت عمرو کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ایک ہی لشکر بن جائیں اور باہم اختلاف نہ کریں ۔

بہرحال تفصیل میں لکھا ہے کہ مسلمان وہاں سے چل پڑے اور دشمن کے علاقے میں پہنچ کر اُسے روند ڈالا اور اُس پر غالب آگئے۔ یہاں تک کہ جب مسلمان اِس جگہ پہنچے، جہاں اُنہیں دشمن کے جمع ہونے کی خبر ملی تھی، تو دشمن مسلمانوں کی خبر پا کر بھاگ گئے اور منتشر ہو گئے۔ مسلمانوں نے اُن کا پیچھا کیا تو دشمن کے ایک چھوٹے سے گروہ سےاُن کا مقابلہ ہوا، جس پر اُنہوں نے حملہ کر کے اُنہیں شکست دی اور باقی سب بھاگ گئے۔

مسلمان چند دن یہاں ٹھہرے رہے اور جہاں بھی دشمن کے کسی گروہ کے متعلق سنتے تو اِس سے مقابلہ کے لیے گُھڑسوار بھیجتے، جو اُن سے مقابلہ کرتے اور بکریاں اور اونٹ لے کر واپس آتے۔ مسلمان واپس مدینہ آنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ حضرت عمروؓ نے عوف بن مالک اشجعیؓ  کو رسول اللهؐ کے پاس آگے روانہ کیا تاکہ وہ اُن کی واپسی ، سلامتی اور جنگ کے حالات کے متعلق آپؐ کو آگاہ کریں۔

پھر سریّہ ہے حضرت ابو عُبَیْدہ بن الجراحؓ، یہ سریّہ رجب ۸؍ہجری میں ہوا۔

اِس سریّہ کے دیگر نام بھی ہیں۔ اِس

سریّہ کو سریّہ سِیْفُ الْبَحْربھی کہا جاتا ہے۔

سِیْفُ الْبَحْر کے معنی ساحلِ سمندر کے ہیں۔اِس سریّہ میں چونکہ صحابہؓ  بحیرۂ احمر کے ساحل پر جا کر ٹھہرے تھے، اِس لیے اِسے سریّہ سِیْفُ الْبَحْرکہا جاتا ہے۔ اس لشکر کو پتے کھانے والا لشکر اِس لیے کہا جاتا ہے کہ چونکہ اِس سریّہ کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ صحابہؓ درختوں کے پتے کھانے پر بھی مجبور ہو گئے تھے۔

اِس سریّہ کے امیر حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ تھے۔ رسول اللهؐ نے اُنہیں تین سو مہاجرین اور انصار صحابہؓ  کا ایک لشکر دے کر بنو جُہَیْنَہ کی ایک شاخ کی طرف بھیجا۔ اِس لشکر میں حضرت عمرؓ بھی شامل تھے۔

اِس سریّہ کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قریشِ مکّہ کا ایک قافلہ، جو اناج لے کر ساحلِ سمندر کے ساتھ ساتھ شام سے مکّہ جا رہا تھا،اِس پر جُہَیْنَہ کے ایک قبیلے کی طرف سے حملے کا خطرہ تھا۔ یہ صلحٔ حدیبیہ کا زمانہ تھا اور چونکہ جُہَیْنَہ آنحضورؐ کے حلیف تھے، اِس لیے آپؐ نے دُور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ایک حفاظتی دستہ بطور ِاحتیاط اُن کی طرف بھیج دیا تاکہ شام سے آنے والے قریشی قافلے سےتعرض نہ ہو اور قریش کو نقضِ امن و نقضِ معاہدہ کا بہانہ نہ مِل جائے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اصحابؓ کسی سے لڑنے کے لیے نہیں گئے تھے، اِس لیے پندرہ دن سے زائد عرصے کے قیام میں کسی لڑائی کا ذکر نہیں ملتا۔

خطبہ ثانیہ سے قبل حضورِ انور نے پاکستان اور ہندوستان کی موجودہ جنگی کشیدگی کی صورتحال، فلسطین کے مظلوم مسلمانوں اور مسلم ممالک کے لیے دعائیہ تحریک فرمائی جس کی تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ ہو

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button