تاریخ انسانی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ جنگوں کے خون سے لال ہے۔ جنگیں ہمیشہ سے انسانی معاشرے کا تکلیف دہ حصہ رہی ہیں، ہر دور میں ظالم مظلوم کے خلاف اپنی برتری قائم کرنے کی یا اپنا نظریہ اس پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے، ساتھ ہی مظلوم اپنے دفاع کی بھرپور کوشش میں بھی نظر آتا ہے۔ ہمیشہ انسان نے اختلافات کو اکثر، خواہ وہ نظریاتی ہوں یا مادی، میدانِ جنگ میں طے کرنے کی کوشش کی ہے۔ طاقت کے نشے، اقتدار کی ہوس، اور وسعتِ سلطنت کے خبط نے زمین کو بارہا خون میں نہلایا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔آج کا انسان جو خود کو سب سے زیادہ مہذب اور تعلیم یافتہ گردانتا ہے وہ بھی بزور بازو اپنی برتری ثابت کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ افغانستان، عراق اور دیگر ملکوں میں نام نہاد قیام امن کی کوششوں کے نام پر جنگ کر رہا ہے، اسرائیل مظلوم فلسطینیوں پر مقدس زمین پر قبضہ کے نام پر جنگ کر رہا ہے۔ روس اور یوکرائن اور اب تازہ دنوں میں بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ لیکن کیا جنگیں واقعی مسائل کا مستقل یا دیرپا حل فراہم کرتی ہیں؟ یا یہ صرف وقتی تسکینِ انا اور دائمی تباہی کی داستان ہے؟ یہ سوال آج بھی انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے، اور اس پر غور و فکر کرنا ناگزیر ہے۔؟ اس مضمون میں ہم اس سوال کا جائزہ مختلف پہلوؤں سے مختصراً لیں گے اور اس نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں گے کہ امن زیادہ بہتر حل ہے یا جنگ۔اگر ہم تاریخ کے اوراق کو کھنگالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جنگوں نے وقتی طور پر فتح مند فریق کو اگرچہ فائدہ دیا ہو، مگر ان کے نتائج مجموعی طور پر تباہ کن ہی رہے۔ ٹروجن جنگ سے لے کر منگولوں کے حملوں، صلیبی جنگوں، نپولین کی فتوحات، دو عالمی جنگیں اور حالیہ دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر جاری جنگ نے انسانیت کو زخم ہی زخم دیے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں انسانی تاریخ کی سیاہ ترین مثالیں ہیں، جن میں کروڑوں افراد مارے گئے، شہروں کے شہر مٹی میں ملا دیے گئے اور پوری نسلیں ذہنی و جسمانی معذوری کا شکار ہو گئیں۔ گویا جنگ ایک ایسا آسیب ہے جو اپنا وار ہر دو فریق پر کرتا ہے۔جنگوں کے بظاہر فوائداگرچہ جنگوں کے نقصانات زیادہ ہیں، تاہم بعض لوگ ان کے کچھ فوائد بھی گنواتے ہیں۔ مثلاً:۱۔طاقت کا توازن قائم ہونا: بعض اوقات جنگیں طاقت کے توازن کو تبدیل کر کے ایک نئے عالمی نظام کی راہ ہموار کرتی ہیں۔۲۔سیاسی تبدیلیاں: کئی جگہوں پر جنگوں نے ظلم و جبر کے نظام کو ختم کر کے عوام کو آزادی دی، جیسے کہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف جنگیں۔جنگوں کے نقصاناتجہاں کچھ لوگ جنگوں کے ایک یا دو فوائد گنواتے ہیں وہیں اس سے ہونے والے نقصانات کی ایک لمبی فہرست ہے۔۱۔ معصوم انسانی جانوں کا ضیاع: جنگوں کا سب سے پہلا اور سنگین نقصان انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ لاکھوں بے گناہ لوگ جن کا جنگ سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، وہ مارے جاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے اس کی ایک افسوسناک مثال ہیں جہاں پلک جھپکتے ہی ہزاروں معصوم جانیں لقمۂ اجل بن گئیں، لاکھوں افراد تاحیات معذوری کا شکار ہو گئے اور اس کے بداثرات ابھی تک قائم ہیں۔یہ ضائع ہونے والی تمام جانیں نہ صرف انسانی وسائل کا حصہ تھیں بلکہ ان کا ہر فرد ایک خاندان کی امید، سہارا اور محبت کا مرکز تھا۔۲۔ معاشی نقصان: جنگوں کا دوسرا بڑا نقصان معیشت پر ہوتا ہے۔ جنگ میں شامل ممالک کو بھاری اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں، جو اکثر تعلیم، صحت اور ترقیاتی منصوبوں جیسے اہم شعبوں کے بجٹ سے پورےکیےجاتےہیں۔ انفراسٹرکچر تباہ ہوجاتا ہے، صنعتیں بند ہو جاتی ہیں، زرعی زمینیں تباہ ہوجاتی ہیں اور روزگار کے مواقع معدوم ہو جاتے ہیں۔ جنگ کے بعد کی تعمیر نو کا عمل نہایت سست اور مہنگا ہوتا ہے۔ جرمنی، جاپان،لیبیا اور عراق جیسے ممالک اس کی واضح مثالیں ہیں جہاں جنگوں نے نہ صرف معیشت کو تباہ کیا بلکہ پوری نسل کو غربت، بھوک اور بیروزگاری کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور پھر دہائیوں بعد جا کر کچھ استحکام حاصل کیا اور کچھ ابھی تک اس کی کوشش میں لگی ہیں۔۳۔ نفرت اور دشمنی کا تسلسل: جنگ صرف جسموں کو ہی نہیں زخمی کرتی بلکہ دلوں کو بھی زخم دیتی اور شکستہ کر دیتی ہے۔ جنگوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرتیں نسلوں تک قائم رہتی ہیں۔ جب ایک قوم یا ملک دوسری قوم پر ظلم ڈھاتا ہے، تو متاثرہ فریق کے دل میں ایک دائمی غصہ، نفرت اور انتقامی جذبہ جنم لیتا ہے۔ جاپانی عوام میں امریکہ کے خلاف اور جرمن عوام میں برطانیہ و دیگر اتحادی ممالک کے خلاف جو جذبات پیدا ہوئے، وہ برسوں بعد بھی مکمل طور پر ختم نہ ہو سکے۔ یہ نفرتیں نہ صرف عوامی سطح پر تعلقات کو متاثر کرتی ہیں بلکہ سیاسی، سفارتی اور اقتصادی سطح پر بھی رکاوٹ بنتی ہیں۔پھر یہ نفرتیں تعلیمی نصاب، عوامی بیانیے، فلموں اور میڈیا کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں، اور اس طرح دنیا میں ایک مستقل کشمکش اور بداعتمادی کی فضا قائم رہتی ہے۔۴۔مہاجرین کا بحران: جنگوں کے نتیجہ میں لاکھوں افرادبےگھر ہو جاتے ہیں اور اُن کے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز، کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔۵۔ نفسیاتی مسائل: جنگیں لوگوں کی ذہنی صحت کو شدید متاثر کرتی ہیں۔ جنگوں سے واپس آنے والے سپاہی اور ان سے متاثرہ ایک پورا سماج PTSD جیسی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے۔۶۔ عالمی بدامنی: آج کی دنیا ماضی کے مقابلے میں زیادہ مربوط اور باہم جڑی ہوئی ہے۔ ایک ملک میں جنگ کے اثرات دوسرے ممالک پر بھی مرتب ہوتے ہیں، جیسا کہ یوکرین اور روس جنگ یا مشرقِ وسطیٰ کی جنگیں۔ ان کے اثرات عالمی معیشت، تیل کی قیمتوں، پناہ گزینوں کے بحران اور بین الاقوامی تعلقات پر پڑتے ہیں اور پڑ رہے ہیں۔ عالمی طاقتیں بلاکس کی صورت میں بٹتی نظر آرہی ہیں اور دنیا ایک عالمی جنگ کی طرف خاموشی سے گامزن ہے جو کسی بھی وقت برپا ہوتی نظر آتی ہے۔امام جماعت احمدیہ سیدنا حضر ت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے آج سےتقریباً ۱۳ سال قبل ۸؍ماچ ۲۰۱۲ء کو کینیڈا کے وزیراعظم کو لکھے گئے اپنے ایک مکتوب میں دنیا کے عمومی حالات کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے:’’ آج دنیا میں غیر معمولی بے چینی اور اضطراب پھیلا ہوا ہے۔ بعض خطوں میں چھوٹے پیمانہ پر جنگیں لڑی جا رہی ہیں اور بد قسمتی سے عالمی طاقتیں ان شورش زدہ علاقوں میں قیام امن کے لیے اس حد تک مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہیں جس کی اُن سے توقع کی جاتی ہے۔صاف دکھائی دے رہا ہے کہ آج دنیا کا ہر ملک یا تو کسی دوسرے ملک کا حمایتی ہے یا پھر کسی ملک کی دشمنی پر کمر بستہ ہے اورسبھی نے انصاف کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ آج عالمی حالات پر نظر ڈالنے والا جان سکتا ہے کہ ایک نئی عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے جو نہایت دکھ کی بات ہے۔ دنیا کے کئی چھوٹے بڑے ممالک ایٹمی ا ثاثوں کے مالک ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک کی باہمی دشمنیاں، کینہ اور عداوتیں اپنے عروج پر ہیں۔ اس گمبیھر صورت حال میں تیسری عالمی جنگ کے بادل ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں اور ایسی جنگ میں ضرور ایٹمی ہتھیار بھی استعمال ہوں گے۔ گویا یقیناً ہم خطرناک تباہی کے دہانہ پر کھڑے ہیں۔ اگر جنگ عظیم دوم کے بعد عدل و انصاف سے پہلو تہی نہ کی جاتی تو آج ہم اس دلدل میں نہ پھنستےجہاں ایک بار پھر خطر ناک جنگ کے شعلے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کو تیار کھڑے ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بنیادی محرکات میں لیگ آف نیشنز کی ناکامی اور۱۹۳۲ء میں رونما ہونے والا معاشی بحران سر فہرست تھا۔ آج دنیا کے چوٹی کے ماہرین معاشیات بر ملا کہہ رہے ہیں کہ موجودہ دور کے معاشی مسائل اورر۱۹۳۲ء والے بحران میں بہت سی قدریں مشترک دکھائی دے رہی ہیں۔سیاسی اور اقتصادی مسائل نے کئی چھوٹے ممالک کو ایک بار پھر جنگ پر مجبور کر دیا ہے اور بعض ممالک داخلی بدامنی اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ ان تمام اُمور کا منطقی نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں ہی نکلے گا۔ اگر چھوٹے ممالک کے جھگڑے سیاسی طریق اور سفارت کاری کے ذریعہ حل نہ کیے گئے تو لازم ہے کہ دنیا میں نئے جتھے اور بلاک جنم لیں گے اور یقینا ًیہ امر تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہو گا۔ ایسی صورت حال میں دنیا کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے زیادہ ضروری بلکہ ناگزیر ہے کہ ہم دنیا کو اس عظیم تباہی سے بچانے کی کوشش کریں۔ آج اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ بنی نوع انسان خدائے واحد کو پہچانے جو سب کا خالق ہے۔ انسانیت کی بقا کی یہی ایک ضمانت ہے ورنہ دنیا تیزی سے اپنی تباہی کے سامان کر رہی ہے۔‘‘ (عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ۱۸۳تا ۱۸۴ )۷۔ جدید جنگ۔ شکل بدلی، حقیقت وہی: آج کی جنگیں صرف ٹینکوں، بندوقوں اور جنگی جہازوں کی محتاج نہیں۔ ’ہائبرڈ وار‘،’سائبر وار‘، ’میڈیا وار‘اور اکنامک وار‘ اس کی نئی شکلیں ہیں، جن کا زہرُ اتنا ہی مہلک ہے۔ قومیں اندر سے ٹوٹ رہی ہیں، نظریاتی انتشار بڑھ رہا ہے اور نوجوان نسل ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ یہ جنگیں دکھائی کم دیتی ہیں، مگر ان کے اثرات کہیں زیادہ گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔جنگوں کا حل؟اگر جنگیں مسائل کا حل نہیں، تو پھر کیا ہے؟ اس کا جواب تین اہم عناصر میں پوشیدہ ہے:۱۔ انصاف: جس معاشرہ میں عدل و انصاف ہو، وہاں ظلم اور استحصال کی گنجائش نہیں ہوتی اور نظام انصاف کی عدم موجودگی ہی وہ اصل وجہ ہے جس کی بنا پر اکثر جنگیں جنم لیتی ہیں۔حضر ت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ا نصاف کی اہمیت یاد دلاتے ہوئے فرماتےہیں: ’’ حقیقت یہ ہے کہ امن اور انصاف کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ یہ وہ اصول ہے جسے دنیا کے تمام باشعور اور دانا لوگ سمجھتے ہیں۔ در حقیقت مفسدوں کے سوا کبھی بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کسی معاشرہ، ملک یا دنیا میں عدل و انصاف قائم ہونے کے باوجود فساد ہو سکتا ہے۔ تاہم ہمیں دنیا کے بہت سے حصوں میں امن کا فقدان اور فساد نظر آتا ہے۔ یہ بدامنی اور فساد مختلف ممالک میں اندرونی طور پر بھی پایا جا تا ہے اور دیگر اقوام سے تعلقات کے لحاظ سے بیرونی طور پر بھی موجود ہے حالانکہ حکومتیں انصاف پر مبنی پالیسیاں بنانے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ باوجود اس کے کہ قیام امن کو بھی اپنا اولین مقصد قرار دیتے ہیں اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بالعموم دنیا میں بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا ہے اور نتیجۃ ً فساد پھیل رہا ہے۔ اس سے یہ یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں انصاف کے تقاضے پامال ہو رہے ہیں۔ چنانچہ اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ جب بھی اور جہاں کہیں بھی بے انصافی پائی جائے تو اس کا تدارک کیا جائے۔‘‘ (خطاب کیپیٹل ہل۲۷ جون ۲۰۱۲ء، عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ۷۳)۲۔ تعلیم: تعلیم انسان کو شعور، برداشت اور مکالمے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ قوم جھگڑوں کو بات چیت سے حل کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ آج کی دنیا میں میڈیا، سوشل میڈیا اور تعلیم یافتہ طبقے کا کردار بہت اہم ہو گیا ہے۔ ان کے ذریعے لوگوں کو جنگ کے نقصانات اور امن کے فوائد سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔۳۔ مکالمہ و گفت و شنید: تمام مہذب معاشروں میں اختلافات کو بات چیت کے ذریعے سلجھانے کی روایت رہی ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین جیسے ادارے اسی فلسفے پر قائم کیے گئے ہیں تاکہ ممالک کے درمیان کشیدگی کو جنگ کی بجائے مذاکرات سے ختم کیا جا سکے۔اگر یہ ادارے اپنے قیام کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کریں تو بہت سی جنگیں شروع ہی نہ ہوں۔اس طرح دوست ممالک ثالث کا کردار بطر یق احسن نبھائیں تو بھی بہت سی جنگوں کو روکا جاسکتا ہے۔اس معاملہ میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جنگ کے بعد بھی بالآخر تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر ہی آنا پڑتا ہے۔دنیا میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں، چاہے وہ کتنی ہی خونی اور تباہ کن کیوں نہ رہی ہوں، بالآخر ان کا اختتام مذاکرات، معاہدات اور صلح پر ہی ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اختتام صلح پر ہی ہونا ہے تو ابتدا میں جنگ کی کیا ضرورت ہے؟ امن، صبر، برداشت اور سفارت کاری ہی وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے پائیدار اور مثبت حل نکالے جا سکتے ہیں۔مذہبی اور اخلاقی نقطۂ نظراسلام سمیت تمام مذاہب نے جنگ کو آخری اور انتہائی مجبوری کے طور پر جائز قرار دیا ہے اور امن کا راستہ اپنانے کا حکم دیا ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی واضح ہدایت ہے کہ اگر دشمن صلح کی طرف مائل ہو تو تم بھی صلح کی طرف جھکو۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَاِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَہَا(الانفال:۶۲) اور اگر وہ صلح کے لیے جُھک جائیں تو تُو بھی اُس کے لیے جُھک جا۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس اصول کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ آپس میں صلح کاری اختیار کرو۔ صلح میں خیر ہے۔ جب وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ۔ خدا کے نیک بندے صلح کاری کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں۔ اور اگر کوئی لغو بات کسی سے سنیں جو جنگ کا مقدمہ اور لڑائی کی ایک تمہید ہو تو بزرگانہ طور پر طرح دے کر چلے جاتے ہیں اور ادنیٰ ادنیٰ بات پر لڑنا شروع نہیں کر دیتے۔ یعنی جب تک کوئی زیادہ تکلیف نہ پہنچے اس وقت تک ہنگامہ پر دازی کو اچھا نہیں سمجھتے۔ اور صلح کاری کے محل شناسی کا یہی اصول ہے کہ ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو خیال میں نہ لاویں۔ اور معاف فرماویں…صلح کاری کی یہ علامت ہے کہ ایسی بے ہودہ ایذا سے چشم پوشی فرماویں۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد۱۰صفحہ۳۴۹)دنیا کے کامیاب ترین لیڈران وہی ہیں جنہوں نے جنگ نہیں، بلکہ امن کو ترجیح دی۔ ہمارے پیارے رسول ﷺ اس کی سب سے بڑی مثال ہیں جنہوں نے صلح حدیبیہ جیسا معاہدہ (جس میں بظاہر وقتی نقصان نظر آتا تھا)کرکے امن کو ترجیح دی۔ اسی طرح نیلسن منڈیلا، مہاتما گاندھی، قائداعظم محمد علی جناح، اور دیگر کئی شخصیات نے مسائل کے حل کے لیے بات چیت، سمجھوتے اور پرامن ذرائع کو اختیار کیا۔نتیجہ: جنگ بظاہر مسئلے کا ’’واحد اور آخری حل‘‘ دکھائی دیتی ہے، مگر درحقیقت یہ مسائل کا آغاز ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے جس میں داخل ہونا آسان، مگر نکلنا انتہائی دشوار ہے۔انسانی جانوں کا ضیاع، معیشت کی تباہی، نفرت و انتقام کا فروغ اور معاشرتی اقدار کی پامالی جنگوں کے نمایاں نقصانات ہیں۔ لہٰذا ایک دانشمندانہ، باشعور اور ترقی یافتہ معاشرہ صرف امن، افہام و تفہیم اور انصاف کے راستے کو ہی اپنا کر مسائل کا حل تلاش کر سکتا ہے۔اگر ہمیں دنیا کوواقعی ایک بہتر، پرامن، اور خوشحال جگہ بنانا ہے، تو جنگوں کے بجائے مکالمہ، تعاون، اور مصالحت کو فروغ دینا ہوگا۔ خون اپنا ہو یا پرایا ہونسل آدم کا خون ہے آخرجنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میںامن عالم کا خون ہے آخربم گھروں پر گریں کہ سرحد پرروح تعمیر زخم کھاتی ہےکھیت اپنے جلیں کہ اوروں کےزیست فاقوں سے تلملاتی ہےٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیںکوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہےفتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگزندگی میتوں پہ روتی ہےجنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہےجنگ کیا مسئلوں کا حل دے گیآگ اور خون آج بخشے گیبھوک اور احتیاج کل دے گیاس لئے اے شریف انسانوجنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہےآپ اور ہم سبھی کے آنگن میںشمع جلتی رہے تو بہتر ہے(ساحر لدھیانوی) ان تمام باتوں کے ساتھ سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ ہم اپنے خالق و مالک کو پہچانیں اس کی بھیجی ہوئی تعلیم پر عمل کریں اور ا س زمانے کے جری اللہ کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ جڑ جائیں۔ حضرت اقد س مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ایسے نازک وقت میں یہ راقم آپ کو صلح کے لئے بلاتا ہے جب …صلح کی بہت ضرورت ہے۔دنیا پر طرح طرح کے ابتلا نازل ہو رہے ہیں۔زلزلے آرہے ہیں۔قحط پڑ رہا ہے اور طاعون نے بھی ابھی پیچھا نہیں چھوڑا۔اور جو کچھ خدا نے مجھے خبردی ہے وہ بھی یہی ہے کہ اگر دنیا اپنی بدعملی سے باز نہیں آئے گی اور بُرے کاموں سے توبہ نہیں کرے گی تو دنیا پر سخت سخت بلائیں آئیں گی۔اور ایک بلا ابھی بس نہیں کرے گی کہ دوسری بلا ظاہر ہو جائے گی۔آخر انسان نہایت تنگ ہو جائیں گے کہ یہ کیاہونے والا ہے۔اور بہتیری مصیبتوں کے بیچ میں آکر دیوانوں کی طرح ہو جائیں گے۔سو اے ہموطن بھائیو! قبل اس کے کہ وہ دن آویں ہوشیار ہوجاؤ۔… اور جس قوم میں کوئی زیادتی ہے جو وہ صلح کی مانع ہو اس زیادتی کو وہ قوم چھوڑ دےورنہ باہم عداوت کا تمام گناہ اسی قوم کی گردن پر ہوگا۔‘‘ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳، صفحہ ۴۴۴)نیز آپؑ فرماتے ہیں :’’سو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں۔ دلوں کو پاک کر یں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور درد مندوں کے ہمدرد بنیں۔ زمین پر صلح پھیلا ویں کہ اسی سے ان کا دین پھیلے گا اور اس سے تعجب مت کریں کہ ایسا کیونکر ہو گا۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے جسمانی ضرورتوں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اور ریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی زیادہ دوڑا کر دکھلا دیا ہے۔ ایسا ہی اب وہ روحانی ضرورتوں کے لئے بغیر توسط انسانی ہاتھوں کے آسمان کے فرشتوں سے کام لے گا۔ بڑے بڑے آسمانی نشان ظاہر ہوں گے اور بہت سی چمکیں پیدا ہوں گی جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی۔ تب آخر میں لوگ سمجھ جائیں گے کہ جو خدا کے سوا انسانوں اور دوسری چیزوں کو خدا بنایا گیا تھا۔ یہ سب غلطیاں تھیں۔ سو تم صبر سے دیکھتے رہو کیونکہ خدا توحید کے لئے تم سے زیادہ غیرت مند ہے اور دعا میں لگے رہو ایسا نہ ہو کہ نافرمانوں میں لکھے جاؤ۔ اے حق کے بھوکو اور پیاسو! سن لو کہ یہ وہ دن ہیں جن کا ابتداسے وعدہ تھا۔خدا ان قصوں کو بہت لمبانہیں کرے گا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب ایک بلند مینار پر چراغ رکھا جائے تو دور دور تک اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور یا جب آسمان کے ایک طرف بجلی چمکتی ہے تو سب طرفیں ساتھ ہی روشن ہو جاتی ہیں ایسا ہی ان دنوں میں ہو گا۔ ‘‘ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۱۵) مزید پڑھیں:وہ جنگیں اور دیگر اقدامات جو امن کو قائم کرنے کی خاطر کیے جار ہے ہیں ایک اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہیں۔