خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ25؍ اپریل 2025ء
نبی اکرمﷺ نے غزوۂ موتہ پر لشکر روانہ کرتے ہوئے نصیحت فرمائی: تمہیں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے اور
اپنے ساتھ کے مسلمانوں سے بھلائی کی وصیت کرتا ہوں۔ اللہ کے نام کے ساتھ اللہ کے منکرین سےمقابلہ کرو۔
نہ دھوکادینا، نہ خیانت کرنا، نہ کسی شیر خوار بچے کو قتل کرنا، نہ کسی عورت کو اور نہ کسی عمر رسیدہ کو قتل کرنا۔نہ کسی کھجور کے درخت کو کاٹنا نہ کسی درخت کو کاٹنا بلکہ کسی بھی درخت کو نہیں کاٹنا اور نہ کسی عمارت کو گرانا
سنہ سات اور آٹھ ہجری کے بعض غزوات اور سرایا کےتناظر میں نبی کریمﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا بیان
مکرم لئیق احمد چیمہ صاحب شہید آف کراچی ، مکرمہ صاحبزادی امة المصور نوری صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹرمسعودالحسن نوری صاحب آف ربوہ اورمکرم حسن سانوغو ابوبکر صاحب لوکل مبلغ برکینافاسوکا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
آج بھی ایک اطلاع ہے قصور میں ایک قصبے میں ایک احمدی نوجوان کو شہید کیا گیا ہے …اللہ تعالیٰ ظالموں کی جلد پکڑ کے سامان فرمائے۔ان کے لیے تو اَب یہی ہے: اَللّٰھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَ سَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ25؍ اپریل 2025ء بمطابق25؍ شہادت 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی مختلف مہمات کا ذکر ہو رہا ہے اس ضمن میں ایک سریہ
سریّہ حضرت غالب بن عبداللہ لیثیؓ بطرف فدک
کا ذکر بھی ملتا ہے۔ حضرت بشیر بن سعدؓ شعبان سات ہجری میں تیس افراد کے ساتھ فدک میں بنو مُرَّة کی طرف گئے۔ بنو مُرَّة نے حضرت بشیر بن سعدؓ کے تمام ساتھیوں کو شہید کر دیا۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ132دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حضرت بشیر بن سعدؓ کے ساتھیوں کی شہادت کی خبر موصول ہوئی تو آپ نے حضرت زبیر بن عوامؓ کو تیار کیا اور فرمایا کہ جاؤ! یہاں تک کہ اس جگہ پہنچو جہاں حضرت بشیر بن سعدؓ کے ساتھی شہید ہوئےتھے اور اگر اللہ نے تمہیں فتح دے دی تو ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑنا۔ جو دشمن ہیں جنہوں نے ظلم کیا تھا، قتل کیا تھا، مسلمانوں کو شہید کیا تھا ان کو نہیں چھوڑنا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے ساتھ دو سو صحابہ کو تیار کیا اور ان کے لیے جھنڈا باندھا۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ140دارالکتب العلمیۃ بیروت)
جب حضرت غالب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کَدِیْر کے سریّہ سے فتح یاب ہوکر واپس تشریف لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم بیٹھ جاؤ (یعنی تم نہ جاؤ) اور حضرت غالب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ان دو سو صحابہ کے ساتھ روانہ فرمادیا۔ چنانچہ حضرت غالبؓ جب دشمن کے قریب پہنچ گئے تو انہوں نے جاسوس بھیجےیعنی حضرت غالبؓ نے جاسوس بھیجے، انہوں نے حضرت عُلْبَہ بن زیدؓ کو دس افراد کے ساتھ دشمن کی قیام گاہ کی طرف بھیجا۔ انہوں نے ایک جماعت دیکھی اور حضرت غالب کے پاس واپس آکر سارے حالات بیان کیے۔ حضرت غالب آگے بڑھ کر دشمن کے اتنے قریب ہو گئے کہ انہیں دیکھ سکتے تھے۔ دشمن پُرسکون ہو کر سو گیا تھا۔ حضرت غالب نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور پھر انہوں نےاپنے ساتھیوں کو یہ تقریر کی کہ میں تمہیں اللہ وَحدہٗ لا شریکَ لہٗ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ اپنے ساتھیوں کو کہا کہ میں تمہیں اللہ وَحدہٗ لا شریکَ لہٗ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور یہ کہ تم میری اطاعت کرو اور میری نافرمانی نہ کرو اور میرے کسی حکم کی مخالفت نہ کرو کیونکہ جو اطاعت نہیں کرتا اس کی کوئی رائے نہیں اور ایک روایت میں یہ الفاظ اس طرح ہیں کہ تم میری نافرمانی نہ کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے میرے امیر کی اطاعت کی تو اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی تو اس نے میری نافرمانی کی۔ پس اگر تم میری نافرمانی کرو گے تو تم اپنے نبی کی نافرمانی کرو گے۔ پھر انہوں نے ان کے درمیان مواخات قائم کی اور کہا کہ اے فلاں! تم فلاں شخص کے ساتھ ہو اور اے فلاں! تم فلاں شخص کے ساتھ ہو۔ تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے الگ نہ ہو اور ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی میرے پاس آئے اور میں اس سے پوچھوں کہ تمہارا ساتھی کہاں ہے تو تم کہو کہ میں نہیں جانتا۔ پھر آپؓ نے کہا کہ جب مَیں تکبیر کہوں تو میرے ساتھ تکبیر کہو۔ جب جنگ شروع ہوئی اور مسلمانوں نے دشمن کو گھیر لیا تو حضرت غالب نے تکبیر کہی۔ دیگر صحابہ کرامؓ نے بھی تکبیر کہی اور تلواریں سونت لیں۔ دشمن بھی جنگ کے لیے تیار ہو کے نکل آیا۔ کچھ دیر جنگ ہوتی رہی اور مسلمانوں نے جیسے چاہا انہیں قتل کیا۔ اس دن مسلمانوں کا شعار اَمِت اَمِت تھا۔ مسلمان کئی اونٹ اور بکریاں مال غنیمت کے طور پر ہانک کر لائے۔ ہر شخص کے حصہ میں دس اونٹ یا ایک اونٹ کے بدلے میں دس بکریاں آئیں۔
(السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ266دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ایک سریہ ہے
سریہ حضرت شُجاع بن وَہَبؓ
جو سِیّ (Siyii) کی طرف ہوا۔ یہ سریہ ربیع الاول آٹھ ہجری میں حضرت شجاع بن وہب کی قیادت میں سِیّ کی طرف ہوا۔ سِیّ مدینہ سے پانچ راتوں کی مسافت پر مکہ اور بصرہ کے درمیان ایک مقام تھا۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ142دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد3صفحہ337دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت شجاعؓ کے والد کا نام وَہَب بن رَبِیْعَہ تھا۔ حضرت شجاع کا شمار ان بزرگ صحابہ میں ہوتا ہے جنہوں نے ابتداہی میں اسلام قبول کیا تھا۔ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ سال بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایما پر مہاجرین حبشہ کے دوسرے قافلے میں شریک ہو کر حبشہ چلے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد یہ افواہ سن کر کہ اہل ِمکہ مسلمان ہو گئے ہیں حضرت شجاع حبشہ سے واپس مکہ آ گئے۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن دیا تو یہ اپنے بھائی عُقْبَہ بن وَہَب کے ساتھ ارضِ مکہ کو خیرباد کہہ کر مدینہ چلے گئے۔ حضرت شجاعؓ بدر،احد ،خندق سمیت تمام غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل رہے اور چالیس برس سے کچھ زائد عمر پا کر جنگ یمامہ میں شہادت پائی۔
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد5صفحہ21دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(اسد الغابہ جلد 2صفحہ611،جلد4صفحہ59دارالکتب العلمیۃ بیروت)
بہرحال اس سریہ کی تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلسل اطلاعات مل رہی تھیں کہ سِیّ کے علاقے سے بنو ہَوَازِن دشمنانِ اسلام کی مدد کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے حلیف قبائل کے افراد کو لُوٹ کر جنگلات میں چھپتے ہیں۔
ماہ ربیع الاول سنہ آٹھ ہجری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شجاعؓ کو چوبیس مجاہدین دے کر بنوہَوَازِن کی سرکوبی پر مامور فرمایا۔ ان کو بنو عامر بھی کہا جاتا تھا۔ حضرت شجاع مجاہدین کے ساتھ رات کو سفر کرتے اور دن کو چھپے رہتے یہاں تک کہ اچانک صبح کے وقت بنو عامر کے سر پر جا پہنچے اور ان پر حملہ کر دیا۔ حضرت شجاع نے اپنے مجاہدین کو حکم دیا کہ ان کا تعاقب نہ کریں۔ انہیں بہت سے اونٹ اور بکریاں ملیں جنہیں وہ ہانک کر مدینہ لے آئے اور مالِ غنیمت بانٹ لیا۔ ان میں سے ہر شخص کے حصہ میں پندرہ اونٹ آئے۔ اس سریہ میں پندرہ دن صرف ہوئے۔
(غزوات وسرایا از محمد اظہر فرید شاہ صفحہ415فریدیہ پبلشرز ساہیوال)
(السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ267دارالکتب العلمیۃ بیروت)
پھر ایک ذکر
سریہ حضرت کعب بن عُمَیرؓ بطرف ذَاتِ اَطْلَاحْ
کا ملتا ہے۔ یہ سریہ آٹھ ربیع الاول آٹھ ہجری میں ہوا۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد06صفحہ143دارالکتب العلمیۃ بیروت)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب بن عُمَیر غِفَارِیؓ کو ذَاتِ اَطْلَاحْ کی طرف بھیجا جو سرزمین شام میں وادِی القرٰی کی پشت پر تھا اور مُؤْتہ کے نواح میں تھا جو مدینہ سے تقریباً چھ سو میل کے فاصلے پر تھا۔
حضرت کعبؓ کے ہمراہ پندرہ صحابہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تھی کہ بنوقُضَاعَہ نے وادِی القرٰی سے آگے ذَاتِ اَطْلَاحْ میں مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لیے بڑی جمعیت ترتیب دینے کی تیاری شروع کر رکھی ہے۔
( غزوہ مُؤْتہ والسرایا والبعوث از بریک بن محمد صفحہ 219)
(غزوہ مؤتہ از باشمیل صفحہ325نفیس اکیڈمی کراچی)
(غزوات وسرایا از محمد اظہر فرید شاہ صفحہ416فریدیہ پبلشرز ساہیوال)
ذَاتِ اَطْلَاحْ پہنچ کر حضرت کعب کو دشمن کا بہت بڑا لشکر ملا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ حضرت کعب روانہ ہو کر جب ذات اطلاح کے قریب پہنچے تو دشمن کے ایک جاسوس نے ان کو دیکھ لیا اور اس نے فوراً ہی اپنے آدمیوں کو مسلمانوں کی پیش قدمی کی اطلاع دے دی۔
انہوں نے تیاری کی اور بڑا لشکر تیار کر لیا۔ صحابہ نے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور انہوں نے صحابہ پر تیر اندازی شروع کر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے ان کی اس حرکت کو دیکھا تو ان سے جانفشانی سے لڑائی کی یہاں تک کہ لڑتے لڑتے سب شہید ہو گئے۔
ان صحابہ میں سے ایک صحابی مقتولین میں زخمی حالت میں تھے وہ وہاں سے بچ نکلے۔ ایک روایت کے مطابق وہ حضرت کعب بن عُمَیرؓ خود تھے۔
(السیرۃ الحلبیہ جلد03صفحہ 267دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(غزوات وسرایا ازمحمداظہرفریدشاہ صفحہ416فریدیہ پبلشرز ساہیوال)
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد06صفحہ143دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1993ء)
بہرحال لکھا ہے کہ جب رات ٹھنڈی ہوئی تو وہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپؐ کو یہ خبر انتہائی گراں گزری۔
(کتاب المغازی للواقدی جلد2صفحہ202دار الکتب العلمیۃ بیروت)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت ان کی طرف ایک لشکر بھیجنے کا ارادہ فرمایا مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا کہ وہ لوگ اس مقام سے ہٹ کر کہیں اور چلے گئے ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ ملتوی کر دیا۔
(السیرۃ الحلبیہ جلد03صفحہ267دارالکتب العلمیۃ بیروت)
غزوۂ مُؤْتَہ
یہ جُمَادیَ الاُولیٰ آٹھ ہجری یا ستمبر 629ء میں ہوا۔ مُؤْتہ شام کی حدود میں بَلْقَاء کی سرزمین پر ایک بستی ہے جو مدینہ سے تقریباً چھ سو میل کے فاصلے پر تھی۔ اسے غزوۂ جیش الامراء بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کے روانہ ہونے سے قبل اس کے ایک سے زائد امیر مقرر کردیے تھے۔
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم ۔اے صفحہ740)
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد6صفحہ 144دارالکتب العلمیۃ بیروت)
( غزوہ احد از علامہ باشمیل صفحہ 325 نفیس اکیڈمی کراچی)
(انارة الدجى في مغازي خير الورى از حسن بن محمد المشاط صفحہ 558دارالمنہاج للنشر والتوزیع)
اس غزوہ کے اسباب
میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حَارِث بن عُمَیرؓ کو بُصْرٰی کے حاکم کی طرف قاصد بنا کر اپنا خط دے کر روانہ فرمایا۔ جب وہ مُؤْتہ کے مقام پر پہنچا تو شُرَحْبِیْل بن عَمْرو غَسَّانِی ان کے پاس آیا اور پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ شام جا رہا ہوں۔ شرحبیل نے پوچھا کہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد تو نہیں۔ انہوں نے کہا ہاں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغامبر ہوں۔ شرحبیل نے حکم دیا تو انہیں باندھ دیا گیا۔ اپنے ساتھیوں کو اس نے کہا اِن کو باندھ دو۔ پھر شرحبیل نے انہیں شہید کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو یہ بات آپ پر بہت گراں گزری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بلایا اور انہیں حضرت حارث بن عمیرؓ کی شہادت اور ان کو شہید کرنے والوں کے متعلق بتایا۔ اسی سبب سے غزوۂ مُؤْتہ ہوا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد4صفحہ 255دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مصلح موعودؓ اس جنگ کے اسباب اور پس منظر کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’جب آپ زیارتِ کعبہ سے واپس آئے تو آپ کو اطلاعات ملنی شروع ہوئیں کہ شام کی سرحد پر عیسائی عرب قبائل یہودیوں اور کفار کے اکسانے پر مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے پندرہ آدمیوں کی ایک پارٹی اس غرض کے لیے شام کی سرحد پر بھجوائی کہ وہ تحقیقات کریں کہ یہ افواہیں کہاں تک صحیح ہیں۔ جب یہ لوگ شامی سرحد پر پہنچے تو وہاں دیکھا کہ ایک لشکر جمع ہو رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ لوگ واپس آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیتے۔ تبلیغ کا جوش جو اس زمانہ میں مومن کی سچی علامت ہوا کرتا تھا ان پر غالب آگیا اور دلیری سے آگے بڑھ کر انہوں نے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دینی شروع کر دی۔ جو لوگ دشمنوں کے اکسائے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وطن پر حملہ کر کے اسے فتح کرنا چاہتے تھے وہ اِن لوگوں کی توحید کی تعلیم سے بھلا کہاں متاثر ہو سکتے تھے‘‘۔ ان کو تو تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہونا تھا۔ ’’جونہی اِن لوگوں نے ان کو اسلام کی تعلیم سنانی شروع کی چاروں طرف سے سپاہیوں نے (دشمنوں نے ) کمانیں سنبھال لیں اور ان پر تیر برسانے شروع کر دئیے۔ جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ہماری تبلیغ کا جواب بجائے دلائل اور براہین پیش کرنے کے یہ لوگ تیر پھینک رہے ہیں تو وہ بھاگے نہیں اور اس سینکڑوں اور ہزاروں کے مجمع سے انہوں نے اپنی جانیں نہیں بچائیں بلکہ سچے مسلمان کے طور پر وہ پندرہ آدمی ان سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کے مقابلہ پر ڈٹ گئے اور سارے کے سارے وہیں مر کر ڈھیر ہو گئے‘‘۔
آج یہ نام نہاد مسلمان احمدیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کر رہے ہیں۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ ایک اور لشکر بھیج کر ان لوگوں کو سزا دیں جنہوں نے ایسا ظالمانہ فعل کیا تھا۔ اتنے میں آپ کو اطلاع ملی کہ وہ لشکر جو وہاں جمع ہو رہےتھے پراگندہ ہو گئےہیں ‘‘ اِدھر اُدھر ہوگیا ہے ’’اور آپ نے کچھ مدت کے لیے اس ارادہ کو ملتوی کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی دوران میں غَسَّان قبیلہ کے رئیس کو جو رومی حکومت کی طرف سے بصرہ کا حاکم تھا یا خود قیصرِ روما کو ایک خط لکھا۔ غالباً اس خط میں مذکورہ بالا واقعہ کی شکایت ہو گی کہ بعض شامی قبائل اسلامی علاقہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور یہ کہ انہوں نے بِلاوجہ پندرہ مسلمانوں کو قتل کر دیا ہے۔ یہ خط اَلحارِثْ نامی ایک صحابی کے ہاتھ بھجوایا گیا تھا۔ وہ شام کی طرف جاتے ہوئے مُؤْتہ نامی ایک مقام پر ٹھہرے جہاں غسّان قبیلہ کا ایک رئیس سرجیل نامی’’آپؓ نے سرجیل لکھا ہے‘‘جو قیصر کے مقرر کردہ حکام میں سے تھا انہیں ملا‘‘۔ میرا خیال ہے سہو کتابت ہے۔ اصل نام شرحبیل ہے۔’’اور اس نے ان سے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو؟ شاید تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامبر ہو؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس پر اس نے ان کو گرفتار کرلیا اوررسیوں سے باندھ کر مار مار کر انہیں مار دیا۔ گو تاریخ میں اس کی تشریح نہیں آئی لیکن یہ واقعہ بتاتا ہے کہ جس لشکر نے پہلے پندرہ صحابیوں کو مارا تھا یہ شخص اس کے لیڈروں میں سے ہو گا‘‘ یہ شرحبیل جو ہے۔’’ چنانچہ اس کا یہ سوال کرنا کہ شاید تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامبروں میں سے ہو بتاتا ہے کہ اس کو خوف تھا کہ محمدرسول اللہ قیصر کے پاس شکایت کریں گے کہ تمہارے علاقہ کے لوگ ہمارے علاقہ کے لوگوں پر حملہ کرتے ہیں اور وہ ڈرتا ہو گا کہ شاید بادشاہ اس کی وجہ سے ہم سے باز پرس نہ کرے۔ پس اس نے اپنی خیر اِسی میں سمجھی کہ پیغامبر کو مار دے تاکہ نہ پیغام پہنچے اور نہ کوئی تحقیقات ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے ان بدارادوں کو پورا نہ ہونے دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حَارِثْ ؓ کے مارے جانے کی خبر کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی گئی اور آپ نے اس پہلے واقعہ اور اس واقعہ کی سزا دینے کے لیے تین ہزار کا لشکر تیار کر کے زید بن حارثہ ؓ (جو آپ کے آزاد کردہ غلام تھے…) کی ماتحتی میں شام کی طرف بھجوایا‘‘۔
(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20صفحہ 331۔333)
اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کالشکر کے امراء مقرر کرنے کا ذکر
اس طرح ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہؓ کو تین ہزار افراد پر امیر لشکر مقرر کیا اور فرمایا کہ اگر حضرت زیدؓ شہید ہو جائیں تو حضرت جعفر بن ابو طالبؓ امیر ہوں گے اور اگر حضرت جعفر بن ابوطالبؓ شہید ہو جائیں تو حضرت عبداللہ بن رَوَاحَہؓ امیر ہوں گے اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو مسلمان جسے چاہیں اپنا امیر مقرر کر لیں۔
ایک یہودی نعمان نام کا وہاں موجود تھا اس نے کہا اے ابوالقاسم! (یہودی لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نام سے پکارتے تھے) صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اگر آپؐ نبی ہیں تو آپؐ نے جن جن کا نام لیا ہے خواہ وہ تھوڑے ہیں یا زیادہ وہ سب شہید ہو جائیں گے۔ پھر یہ کہنے لگا کہ انبیائے بنی اسرائیل جب کسی شخص کو قوم کا امیر مقرر کرتے اور پھر کہتے کہ اگر فلاں مارا گیا تو فلاں امیر ہوگا۔ اگر وہ سو آدمیوں کا بھی نام لیتے تو وہ سب کے سب مارے جاتے۔ پھر اسی یہودی نے حضرت زیدؓ سے کہا زید! وصیت کرلو۔ اگر محمد سچے نبی ہیں صلی اللہ علیہ وسلم تو پھر تم واپس لوٹ کر نہیں آ سکوگے۔ حضرت زید نے جواب میں کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ سچے اور پاکباز رسول ہیں۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امراء مقرر کر رہے تھے تو اس وقت کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت جعفرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے والدین آپ پر قربان۔ مجھے گمان نہ تھاکہ آپؐ مجھ پر حضرت زید کو امیر بنائیں گے۔ میر ا خاندان تو اعلیٰ ہے مجھے نہیں مقرر کیا۔ آپؐ نے فرمایا تم جاؤ۔ تم نہیں جانتے کہ بہتر کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفید جھنڈا حضرت زید کو دیا اور انہیں نصیحت کی کہ حضرت حارِث بن عُمَیرکی شہادت کی جگہ پہنچ کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ اگر وہ قبول کر لیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر ان سے جنگ کریں۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد06صفحہ 145دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد 3 صفحہ 340 تا342دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ مُؤْتہ روایت 4261)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو الوداع کیا اور وصیت بھی کی۔
اس بارے میں تفصیل اس طرح ہے کہ لوگ تیار ہو کر روانہ ہوئے اور مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر جُرُفْ مقام پر لشکر اکٹھا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو وداع کرنے کے لیے ثَنِیَّةُ الْوَدَاع تک آئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے لیے روانگی سے قبل اسلامی لشکر کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:
تمہیں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے اور اپنے ساتھ کے مسلمانوں سے بھلائی کی وصیت کرتا ہوں۔ اللہ کے نام کے ساتھ اللہ کے منکرین سےمقابلہ کرو۔ نہ دھوکادینا، نہ خیانت کرنا، نہ کسی شِیر خوار بچے کو قتل کرنا، نہ کسی عورت کو اور نہ کسی عمر رسیدہ کو قتل کرنا۔ نہ کسی کھجور کے درخت کو کاٹنا نہ کسی درخت کو کاٹنا بلکہ کسی بھی درخت کو نہیں کاٹنا اور نہ کسی عمارت کو گرانا۔
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد 3 صفحہ 342 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
نیز آپؐ نے جو فوج کے سپہ سالار تھے، کمانڈر تھے ان کو فرمایا کہ تم جب کسی مشرک سے ملو تو اسے تین امور میں سے کسی ایک امر کی طرف دعوت دینا۔ جو بھی وہ مان لے اسے قبول کر لینا اور انہیں اذیت نہ دینا۔ انہیں دعوت دینا کہ وہ اپنے شہر سے مہاجرین کے شہر میں منتقل ہو جائیں۔ اگر وہ اس طرح کر گزریں تو انہیں بتانا کہ ان کے لیے وہی ہے جو مہاجرین کے لیے ہے اور ان پر وہی ہے جو مہاجرین پر ہے۔ اگر وہ انکار کر دیں تو انہیں کہنا کہ مسلمانوں میں سے اہلِ بادیہ کی طرف جائیں، جو گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ان کے لیے اللہ کا وہی حکم ہو گا جو باقی مسلمانوں کے لیے ہو گا لیکن انہیں مالِ غنیمت اور مالِ فَے میں سے کچھ نہیں ملے گا یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے ہمراہ جہاد کریں۔ اگر وہ اس کا بھی انکار کر دیں تو ان سے جزیہ کا مطالبہ کرنا۔ اگر وہ مان جائیں تو ان سے قبول کر لینا اور انہیں اذیت دینے سے رُک جانا۔ اگر وہ اس کا بھی انکار کر دیں تو اللہ تعالیٰ سے ان کے خلاف مدد مانگنا اور ان کے خلاف جہاد کرنا۔ اگر تم کسی قلعہ یا شہر کا محاصرہ کر لو اور وہ تم سے اللہ اور اس کےرسول کا ذمہ مقرر کرنے کا ارادہ کریں تو ان کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کا ذمہ مقرر نہ کرنا یعنی ان کا واسطہ دے کے معاہدے نہ کرنا بلکہ اپنا اور اپنے آباء کا ذمہ مقرر کرنا۔ اگر تم اپنے عہد اور اپنے آباء کے عہد کو توڑو گے تو یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے عہد کو توڑنے سے زیادہ نرمی والی بات ہو گی۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد6صفحہ146دار الکتب العلمیۃ بیروت )
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے’’حکم دیا کہ زید بن حارثہ ؓ فوج کے کمانڈر ہوں گے اور اگر وہ مارے گئے تو جعفر بن ابی طالب کمانڈر ہوں گے اور اگر وہ مارے گئے تو عبداللہ بن رواحہؓ کمانڈر ہوں گے اور اگر وہ بھی مارے جائیں تو مسلمان اپنے میں سے کسی کو منتخب کر کے اپنا افسر بنا لیں۔ اس وقت ایک یہودی آپ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا اے ابو القاسم !اگر آپ سچے ہیں تو یہ تینوں آدمی ضرور مارے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کو پورا کر دیتا ہے۔ پھر وہ زیدؓ کی طرف مخاطب ہوا اور کہا میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں اگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خد اکے سچے نبی ہیں تو تم کبھی زندہ واپس نہیں آؤ گے۔
زیدؓ نے جواب میں کہا مَیں واپس آؤں یا نہ آؤں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خد ا کے سچے نبی ہیں۔
دوسرے دن صبح کے وقت یہ لشکر روانہ ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اس کو چھوڑنے کے لیے گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپؐ کی افسری کے بغیر اتنا بڑا لشکر کسی مسلمان جرنیل کے ماتحت کسی اہم کام کے لیے نہیں گیا تھا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس لشکر کے ساتھ ساتھ چلتے جاتے تھے اور انہیں نصیحتیں کرتے جاتے تھے۔ آخر مدینہ کے باہر اس مقام پر جا کر جہاں سے آپؐ مدینہ میں داخل ہوئے تھے اور جس جگہ پر عام طور پر مدینہ والے اپنے مسافروں کور خصت کیا کرتے تھے، آپؐ کھڑے ہو گئے اور کہا۔ میں تم کو اللہ کے تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں‘‘۔ وہاں کھڑے ہو کے آپؐ نے لشکر والوں کو نصیحت کی کہ
’’میں تمہیں اللہ کے تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں اور تمہارے ساتھ جتنے مسلمان ہیں ان سے نیک سلوک کرنے کی۔ تم اللہ کا نام لے کر جنگ پر جاؤ اور تمہارے اور خدا کے دشمن جو شام میں ہیں ان سے جا کر لڑائی کرو‘‘۔ تمہارے اور خدا کے دشمن جو شام میں ہیں ان سے جا کر لڑائی کرو۔’’جب تم شام میں پہنچو گے تو وہاں تمہیں ایسے لوگ ملیں گے جو عبادت گاہوں میں بیٹھ کر خدا کا نام لیتے ہیں تم ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنا‘‘ان سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرنا ’’اور نہ انہیں تکلیف پہنچانا اور نہ دشمن کے ملک میں کسی عورت کو مارنا اور نہ کسی بچے کو مارنا اور نہ کسی اندھے کو مارنا اور نہ کسی بڈھے کو مارنا۔ نہ کوئی درخت کا ٹنا نہ عمارت گرانا۔ یہ نصیحت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپس لوٹے اور اسلامی لشکر شام کی طرف روانہ ہوا‘‘۔
(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20صفحہ333۔334)
ایک اور جگہ بھی اس کی تفصیل میں ساری بات بیان کرنے کے بعد آپؓ نے اسی طرح فرمایا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ یہ واقعہ بالکل اسی طرح پورا ہوا۔‘‘ یعنی جو شہداء امرا ءکے بارے میں شہید ہونے کا آپ نے فرمایا تھا۔’’پہلے حضرت زیدؓ شہید ہوئے اور ان کے بعد حضرت جعفرؓ نے لشکر کی کمان سنبھالی وہ بھی شہید ہوگئے اور ان کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے لشکر کی کمان سنبھالی لیکن وہ بھی مارے گئے اور قریب تھا کہ لشکر میں انتشار پیدا ہو جاتا کہ حضرت خالد بن ولید ؓنے بعض مسلمانوں کے کہنے سے جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ مسلمانوں کو فتح دی اور وہ خیریت سے لشکر کو واپس لے آئے‘‘۔
(فریضہ تبلیغ اور احمدی خواتین ۔انوارالعلوم جلد 18صفحہ406)
یہ ذکر ابھی مزید چل رہا ہے۔ باقی ان شاء اللہ آئندہ چلے گا۔
اس وقت میں
ایک شہید اور بعض مرحومین کا ذکر
کرنا چاہتا ہوں اور ان کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔ ان شاء اللہ۔
شہید کا جو ذکرہے وہ یہ ہے کہ گذشتہ ہفتے کراچی میں
لئیق احمد چیمہ صاحب
شہید ہوئے تھے۔ یہ چودھری نذیر احمد چیمہ کے بیٹے تھے۔ ان کو18؍اپریل کو شہید کیا گیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ۔ ہجوم نے ان پر حملہ کیا اور نہایت ظالمانہ طریق سے شہید کیا۔ مرحوم کی عمر سینتالیس سال تھی۔
تفصیلات
کے مطابق وقوعہ کے روز یہ اطلاع ملی کہ مخالفین جلوس کی شکل میں احمدیہ ہال کے باہر جمع ہو کر ہنگامہ آرائی کررہے ہیں۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ جس پر حالات کا جائزہ لینے کے لیے مکرم لئیق احمد چیمہ صاحب کو بھجوایا گیا۔ شہید مرحوم موقع پر پہنچے۔ مخالفین نے لئیق چیمہ صاحب کو پہچان لیا اور ان پر حملہ کر دیا اور گھسیٹتے ہوئے کچھ فاصلے پر چوک میں لے گئے۔ وہاں جا کر اینٹوں اور پتھروں سے مار مار کر انہیں ظالمانہ طریق سے شہید کر دیا۔ نزع کے عالم میں وہاں موجود ایک دکاندار نے انہیں پانی پلانے کی کوشش کی تو اسے بھی جبراً پانی پلانے سے روک دیا۔ وقوعہ کے نصف گھنٹہ سے زائدتاخیر کے بعد پولیس موقع پر پہنچی جس کے بعد میت کو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ان کی وفات کی تصدیق کر دی گئی۔
شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا مکرم چودھری حاکم علی صاحب آف چشتیاں ضلع بہاول نگر کے ذریعہ سے ہوا تھا جنہوں نے خلافت اولیٰ کے دور میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت کی سعادت پائی تھی۔ شہید مرحوم کی تعلیم تو زیادہ نہیں تھی لیکن اپنا ایک ورکشاپ انہوں نے کھولا ہوا تھا اور گاڑیوں کی اور موٹر سائیکلوں کی مرمت کا کام کرتے تھے اور ان کا ورکشاپ کا یہ کاروبار بہت وسیع ہو گیا تھا۔ ان کی نیک نامی اور اچھی شہرت کی وجہ سے مختلف سرکاری ادارے بھی اپنی گاڑیاں ان سے ہی ٹھیک کروایا کرتے تھے۔ اس وجہ سے ان کے سماجی تعلقات بھی بڑے وسیع تھے۔ اللہ کے فضل سے شہید موصی تھے۔ جماعتی امور کی انجام دہی اور خدمت کے لیے ہمیشہ تیار رہتے۔ تہجد اور پنجگانہ نمازوں کے پابند تھے۔ بچوں کو باقاعدگی سے باجماعت نماز کے لیے اپنے ساتھ لے کر جاتے۔ ورکشاپ میں کام کرنے والے احمدی ورکرز اور گھر میں فیملی ممبران کی نمازوں کی ادائیگی کا جائزہ لیتے۔ کام میں مصروفیت کے باوجود کام چھوڑ کر نماز کی ادائیگی کو فوقیت دیتے۔ یہ نہیں کہ کاروبار میں لگے ہوئے ہیں۔ نہیں۔ عام طور پہ اس قسم کے کاروباری لوگ اور اس طرح مصروف نمازوں پہ توجہ نہیں دیتے لیکن انہوں نے کبھی نماز قضانہیں کی۔ نہایت ملنسار اور محبت کرنے والے تھے۔ ہر ایک سے اپنائیت کا تعلق رکھا تھا۔ خلافت سے ایک خاص تعلق تھا۔ ایم ٹی اے کے پروگرامزبالخصوص میرا خطبہ جو ہے ایم ٹی اے پر آتا تھا وہ ضرور سنتے تھے۔ جماعتی مقدمات کی پیروی اور ڈیوٹی کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ شہادت کے واقعہ سے دو روز پہلے بھی عدالت میں مخالفین کی طرف سے انتہائی جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے انہیں دھمکیاں دی گئی تھیں ۔
ان کو دھمکیاں پہلے بھی مل رہی تھیں۔ قرآن کریم سے ان کا والہانہ عشق تھا اور پہلے ان کو اس طرح اچھی طرح پڑھنا نہیں آتا تھا لیکن بڑی عمر میں انہوں نے قرآن کریم سیکھا اور پھر مستقل اس کی تلاوت بھی کیا کرتے تھے اور ریکارڈنگ بھی سنا کرتے تھے۔ اپنی ورکشاپ میں قرآن کریم کی ریکارڈنگ لگائے رکھتے تھے۔
واقعہ شہادت سے قبل ایک دوست نے آپ سے اپنی بیماری کے پیش نظر خون کا انتظام کرنے کی درخواست کی اس پر شہید مرحوم نے جواباً کہا کہ نماز جمعہ کے بعد مَیں جا کے تمہیں اپنا خون دے دیتا ہوں مگر خدا کو کچھ اَور ہی منظور تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت کا رتبہ دیا۔
ان کی دو بیویاں تھیں۔ ان کی اہلیہ اول مریم لئیق کہتی ہیں کہ میری ضروریات کا خیال رکھتے۔ بچوں کی احسن رنگ میں تربیت کرتے اور نمازکی ادائیگی کی طرف بہت توجہ دلاتے۔
دوسری اہلیہ بھی کہتی ہیں کہ دونوں کو انہوں نے اس طرح رکھا تھا کہ ہم دونوں بہنوں کی طرح رہتی تھیں۔ دنیاوی تعلیم کم تھی مگر جنرل نالج بہت زیادہ تھا۔ ان کی گفتگو کا موضوع اکثر انبیائے کرام ہوتے تھے۔ مختلف امور میں میری بھی تربیت کرتے رہے۔ یہ دوسری اہلیہ فرح لئیق جو ہیں وہ کہتی ہیں کہ میری بھی تربیت کرتے تھے۔ میرے والدین نے میری وہ تربیت نہیں کی جو میرے خاوند نے شادی کے بعد عرصہ دو سال میں میری تربیت کی ہے۔
شہید مرحوم کے بھائی موصوف نے کہا کہ بھائی بار بار شہادت ملنے کا تذکرہ کرتے تھے اور کہتے تھے یہ نعمت نصیب والوں کو ملتی ہے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر میری قربانی کا وقت آیا تو سینے پرگولی کھاؤں گا۔ مزید کہتے ہیں کہ جیسے بھی مخالفانہ حالات ہوں وہ ہمیشہ اپنے بھائیوں کو بھی یہ کہا کرتے تھے کہ مسجد میں جا کے نماز ادا کرنی چاہیے کیونکہ یہی وقت حوصلہ دکھانے کا ہے۔
ان کا بیٹا حزقیل احمد بیچارہ ابھی بارہ سال کا ہے۔ کہتا ہے کہ مجھے باپ نے نصیحت کی تھی کہ گھبرانا نہیں ہے اس لیے میں اپنے والد کی شہادت پر بالکل نہیں گھبرایا۔ اور بڑی جرأت اور ہمت کا اس نے مظاہرہ کیا۔ بڑے صبر کا مظاہرہ کیا ہے اور کہتا ہے کہ میں بھی اسی طرح، اپنے باپ کی طرح بہادر ہوں اور سینے پر گولی کھانے کو تیار ہوں۔
انہوں نے پسماندگان میں دو بیگمات کے علاوہ سات بچے اور ایک ہمشیرہ اور ایک بھائی چھوڑے ہیں۔ بڑی بیٹی کی عمر سترہ سال ہے جبکہ چھوٹی بچی کی عمر ڈیڑھ سال ہے۔ اور انہوں نے خواب کی بناپر اپنی اہلیہ کو بتایا تھا کہ میں نے ایک اَور بچہ ہونے کی خواب دیکھی ہے تو دوسری اہلیہ کہتی ہیں جب میں نے ٹیسٹ کرایا تو مجھے بھی اللہ تعالیٰ اولاد کی نعمت سے نواز رہا ہے۔
مربی حلقہ سوسائٹی توصیف صاحب کہتے ہیں۔ مرحوم پنجوقتہ نماز باجماعت سینٹر میں ادا کرتے تھے۔ تہجد ادا کرنے والے، نفلی عبادات کی بجا آوری کرنے والے، خلافت کے مطیع و فرمانبردار، غریب پرور، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں حتی الوسع کوشش کرنے والے، راہ چلتے ضرورت مندوں کو بھی اگر ضرورت ہوتی تو فوراً مدد کرتے۔ کسی کی گاڑی خراب دیکھتے تو راستے میں رک کے ان کی مدد کرتے۔ حاجت مندوں کی خاموشی سے مدد کرتے۔ نیکیوں پر مداومت اختیار کرنے والے، ہر لحاظ سے بے لوث خدمت کرنے والے تھے۔ خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین رکھنے والے تھے۔ اپنے ہر کام اور کامیابی کو خدا تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔ حالات کی تنگی اور مخالفت کے باوجود ہمیشہ نمازیں بروقت باجماعت سینٹر میں ادا کرتے تھے۔ نرم مزاج انسان تھے۔کسی نے غصہ میں انہیں کچھ کہہ دیا ہوتا تو خاموش رہتے۔ کبھی پلٹ کر جواب نہیں دیتے تھے بلکہ مسکرا کر اس مجلس سے چلے جاتے تھے۔
اسی طرح سیکرٹری مال نے یا صدر جماعت نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ ہمارا حساب غلط تھا۔ غلطی سے ہم نے ان کو کہہ دیا کہ کچھ چندہ بقایا ہے تو انہوں نے نہیں پوچھا کہ بقایا نہیں ہے اور وہ ادا کر دیا اور وہ ایک لاکھ روپے کی بڑی رقم تھی۔ بعد میں ان کو انہوں نے اطلاع کی کہ ہمارا حساب غلط تھا۔ آپ کا بقایا نہیں بلکہ یہ زائد رقم ہے تو انہوں نے کہا کوئی نہیں جو میں نے خدا کی راہ میں دے دیا اب اس کو واپس نہیں لوں گا۔ انہوں نے اہل و عیال کے ساتھ بیرون ملک منتقل ہونا تھا۔ تیاری پوری تھی تو روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ ایک روز پہلے انہوں نے مجھے کہا کہ ہم بیرون ملک منتقل ہونے والے ہیں جہاں مذہبی آزادی ہے۔ میری خواہش ہے کہ بچوں کو اذان اور تکبیر بلند آواز اور اچھی طرز پر سکھا دوں تاکہ جب وہاں جا کر گھر میں باجماعت نماز ادا کریں تو اہتمام کے ساتھ اذان دیں اورپھر نمازیں ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کے اہل و عیال کو بھی اپنی حفاظت میں رکھے۔
دشمن کی پکڑ کے جلد سامان پیدا فرمائے۔
آج بھی ایک اطلاع ہے۔ قصور میں ایک قصبے میں ایک احمدی نوجوان کو شہید کیا گیا ہے۔ تفصیلات ابھی نہیں آئیں۔
اللہ تعالیٰ ظالموں کی جلد پکڑ کے سامان فرمائے۔
ان کے لیے تو اب یہی ہے: اَللّٰھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَ سَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔
دوسرا ذکر ہے
امة المصور نوری صاحبہ
کا جو ڈاکٹر مسعود الحسن نوری صاحب کی اہلیہ تھیں۔ گذشتہ دنوں وفات پا گئی ہیں اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی پوتی، حضرت نواب امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ کی نواسی اور مرزا داؤد احمد صاحب کی بیٹی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ یہ میری چچا زاد ہمشیرہ بھی تھیں۔
ڈاکٹر مسعود الحسن صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا رشتہ خود کروایا تھا۔ حضورؒ نے نہ ان سے پوچھا اور نہ ان کے والدین سے اور میرے والد صاحب سے میرے بارے میں پوچھا کہ اس کی شادی کر دوں؟ اس موقع پر کرنل داؤد صاحب اور ان کی اہلیہ کو جب رشتہ حضرت خلیفہ ثالثؒ نے بتایا تو انہوں نے عرض کیا کہ ہم کچھ دن تھوڑا استخارہ کر لیں۔ حضورؒ نے فرمایا کہ مَیں استخارہ کر چکا ہوں۔ اب مزید استخارے کی ضرورت نہیں ہے۔ شادی کرو۔ بہرحال شادی ہوئی۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکاون سالہ ازدواجی زندگی میں نہایت ہی محبت اور پیار اور اطاعت اور دوستی کا تعلق رہا۔ نمازوں اور عبادت کی پابند تھیں۔ غریب پرور اور مہمان نواز تھیں توکل بہت زیادہ تھا اور کچھ سالوں سے تو ان کو قرآن کریم کی گہرائی میں پڑنے کا بڑا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ جماعت کے مختلف علماء سے اکثر سوالات کیا کرتی تھیں۔ مختلف مذاہب کے پڑھنے کا بھی شوق تھا۔
پھر ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میرے وقف اور میری تعلیم کے حصول میں ان کا بہت بڑا کردار تھا۔ اگر کوئی خوشی کا موقع ہوتا یا کہیں سیر پہ جانا ہوتا اور مجھے ہسپتال کی ایمرجنسی ہوتی تو خود بھی قربانی دیتیں اور کہتیں میں بھی نہیں جاؤں گی۔گذشتہ تین چار سال سے کافی بیمار تھیں۔ بڑے صبر سے اپنی بیماری کو اور تکلیف کو برداشت کیا،کبھی اظہار نہیں کیا۔
ان کے بیٹے ڈاکٹر خالد نوری امریکہ میں ہیں۔ فضل عمر ہسپتال میں یہ بھی وقفِ عارضی پہ آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میری والدہ جماعت کی ایک مخلص خادمہ تھیں۔ خلافت سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتی تھیں۔ کبھی کسی لغو مشغلے جیسے جھوٹ، غیبت، چغلی وغیرہ میں ملوث نہیں ہوتی تھیں۔ قرآن کریم کو مکمل مفہوم کے ساتھ پڑھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ بھی کرتی تھیں۔ تذکرے کو بڑے غور سےپڑھتی تھیں۔ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتی تھیں۔ تاریخی نوادرات جمع کرنے کا بھی ان کو شوق تھا اور عجائب گھروں کے کیوریٹرز اور محققین سے ان کے بارے میں گفتگو کرتی تھیں۔ اس شوق میں تو مجھے بھی انہوں نے شامل کیا ہوا تھا۔ ربوہ کے ارد گرد خاص طور پر دریا کے ساتھ پہاڑیوں میں انہوں نے بعض چیزیں دیکھیں، تلاش کیں، زمینیں کھدوائیں اور جب یہاں لندن آتی تھیں تو مجھ سے بھی یہی باتیں کرتی تھیں۔ مجھے دکھاتی تھیں وہ چیزیں۔ ان کے بیٹے مزید لکھتے ہیں کہ وہ کم وسائل رکھنے والے لوگوں کی شادیوں میں بھرپور مالی تعاون کرتیں اور تمام ملازمین کے بچوں کی دیکھ بھال کرتیں۔ لڑکیوں کو قرآن کریم پڑھاتیں۔ اس بات کو یقینی بناتیں کہ ان کی تمام ضروریات پوری ہوں اور لوگوں سے ملتے وقت ان کے چہرے پر مسکراہٹ رہتی۔
ان کی بیٹی مبارکہ کہتی ہیں۔ امی کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہوں یا عیسائیت کے بارے میں باتیں ہوں یا ہندوازم کے بارے میں کتابیں ہوں، مختلف موضوعات پر پڑھتی تھیں اور اس کا کافی علم حاصل کر لیا تھا۔ واقف زندگی کی بہت عزت کرنے والی تھیں۔ میرے باپ کو بھی ہمیشہ انہوں نے سپورٹ کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے وقف کیا تو آ گئیں حالانکہ اس کے بعد بھی ان کو کافی دنیاوی مفاد والی نوکری مل سکتی تھی۔ کہتی ہیں کہ میرے والد کے غیر احمدی رشتہ دار بھی افسوس کرنے آئے تو وہ کہتے تھے کہ خاندان کو جوڑنے والی تھیں اور سب سے تعلق رکھتی تھیں۔ پھر کہتی ہیں مجھے بھی نصیحت کی کہ اپنے گھر کی باتیں کہیں باہر نہیں کرنی اور خلیفہ وقت کو لکھو جو بات تم نے لکھنی ہے اور جو وہ نصیحت کریں تو پھر اس پہ عمل ضرور کرنا ہے۔ اور یہ کہا کرتی تھیں کہ لڑائیوں جھگڑوں میں وقت ضائع نہ کیا کرو۔
جلال احمد خان طاہر ہارٹ کے ڈرائیور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت نیک، بااخلاق، ہمدرد اور غریب پرور تھیں۔ ہمیشہ سفر کے دوران ہمارا خیال بھی رکھتیں اور سفر کے دوران ترجمہ قرآن کریم کی سی ڈی لگوا لیتیں اور اسی کو سارا رستہ سنتیں۔ پھر کہتے ہیں میرے بیوی بچوں کا بہت خیال رکھا۔ پھر کہتے ہیں کہ بڑے شہروں میں جب ہم جاتے تھے تو دکاندار اور خاص طور پر پنڈی اسلام آباد کے دکاندار جو ان کو جانتے تھے کیونکہ آنا جانا تھا تو وہ پوچھا کرتے تھے کہ بڑےعرصے بعد آئی ہیں۔ شروع میں انہوں نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اب ہم ربوہ شفٹ ہو گئے ہیں جہاں جماعت کا ہسپتال ہے اور میرے خاوند وہاں کام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں بغیر کسی خوف کے بتا دیا۔ ہم پریشان ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
اگلا ذکر ہے
مکرم حسن سانوغو ابوبکر صاحب
کا جو برکینا فاسو میں لوکل مبلغ تھے۔ گذشتہ دنوں تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ ۔رمضان المبارک میں روزانہ جولا زبان میں درس قرآن مجید دیتے تھے اور یہ درس ریڈیو اسلامک احمدیہ پر نشر ہوتا تھا۔ وفات سے ایک روز قبل بائیس مارچ کو بھی انہوں نے درس دیا۔ابتدائی تعلیم بوبوجلاسو میں حاصل کی۔ یہ برکینا فاسو کا ایک شہر ہے اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے موریطانیہ چلے گئے جہاں پڑھنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے بعد جامعة الازہر مصر میں چلے گئے۔ عربی زبان میں اعلیٰ تعلیم اور بول چال کی خوب مہارت حاصل کر کے واپس آئے۔ عربی زبان پر عبور حاصل کر لیا تھا اور عمدہ زبان بولتے تھے۔ الازہر سے واپس آ کر آئیوری کوسٹ میں قیام پذیر ہوئے اور یہاں ایک مدرسہ قائم کیا جس میں سینکڑوں طلبہ تھے اور اپنی شعلہ بیانی اور عمدہ انداز بیان کی وجہ سے آئیوری کوسٹ میں مشہور ہو گئے، ابھی یہ احمدی نہیں ہوئے تھے۔ جب احمدی مبلغین نے اس علاقے میں تبلیغ کی تو مخالفین نے احمدیوں سے مقابلہ کرنے کے لیے ابوبکر صاحب کو پیش کیا۔ ان کو اپنی زبان دانی پر بڑا ناز تھا۔ خود کہتے ہیں کہ جس دن بحث شروع ہوئی، مقابلہ تھا مَیں اس دن بڑا سا جبہ پہن کے بڑا اتراتا ہوا آیا کہ آج میں احمدیوں کو شکست دے کر بڑا مشہور ہو جاؤں گا اور بڑا مقام حاصل کر لوں گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں نیکی رکھی تھی۔ ان کو بہت جلد احساس ہو گیا کہ صداقت احمدیوں کے ساتھ ہے اور دلائل ان کے پاس ہیں۔ انہیں ’’القول الصریح‘‘ دی گئی جس کا مطالعہ کرنے کے بعد آبی جان میں جماعت کے مبلغ عبدالرحمٰن کوناتے صاحب سے ان کا مباحثہ ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی فرمائی اور جلد ہی انہوں نے جرأت کے ساتھ احمدیت قبول کر لی۔ ان کی بیعت کا واقعہ 1986ء کا ہے۔ اس وقت نوجوان ہی تھے۔ چوبیس پچیس سال ان کی عمر تھی۔
بیعت کے بعد اپنا مدرسہ اور اپنی جاہ و حشمت کو ترک کر دیا۔ اس زمانے میں آئیوری کوسٹ میں فرنچ احمدی طلبہ کے لیے ایک شارٹ کورس ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے اس میں داخلہ لیا اور زندگی وقف کر دی۔ بہت جلد جماعت کے بہترین مبلغ بن گئے۔ اپنی مادری زبان جُولا میں تقریر کا بہت ملکہ تھا۔ بلند آواز کے مالک اور شعلہ بیان مقرر تھے۔ بہت جلد سامعین کو مسحور کر لیتے تھے۔ ادریس شاہد صاحب کی تقرری 1990ء میں برکینافاسو میں ہوئی۔ انہوں نے آئیوری کوسٹ سے مکرم ابوبکر سانوغو صاحب کو بھی برکینا فاسو لانے کی منظوری لے لی۔ یہاں تبلیغ کے جہاد میں انہوں نے حصہ لیا اور بہت جلد جُولا بولنے والے علاقوں میں کامیابیاں ملنی شروع ہوئیں اور یہاں تبلیغ کے ذریعہ سے بہت ساری نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔
1999ء میں برکینا فاسو کا علاقہ ہے ڈوری جہاں ہماری شہادتیں بھی ہوئی تھیں وہاں ان کو بھجوایا گیا۔ اس علاقے میں عربی بول چال عام ہے۔ یہاں کے علماء عربی دانی کو دکھا کر لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہاں انہوں نے بڑے بڑے علماء سے مناظرے کیے اور انہیں شکست دی۔ دور دراز دیہات میں تبلیغ کی یہاں تک کہ غیر احمدی علماء آپ کے سامنے آنے سے کتراتے اور مناظرہ کرنے سے گھبرانے لگے۔ آپ علاقے بھر میں بڑے شیخ اور عالم کے طور پر مشہور ہو گئے۔ بہت کثرت سے اس علاقے میں جماعتیں قائم ہوئیں۔ اسی طرح 1991ء میں آپ کا رابطہ امام ابراہیم بدیگا صاحب شہید مہدی آباد اور ان کے ساتھیوں سے ہوا جنہوں نے جلد بیعتیں کر لیں اور بعد ازاں 2023ء میں مقامِ شہادت پا کر احمدیت کے چمکتے ستارے بن گئے۔
2002ء میں بوبوجلاسو میں عالمِ احمدیت کے پہلے ریڈیو کا قیام ہوا تو ابوبکر صاحب ریڈیو پر اول نمبر کے مقرر تھے۔ آپ بہت پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ آپ کی تبلیغ سے لاکھوں لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچا اور ہزاروں لوگوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ کئی سال نیشنل مجلس عاملہ میں خدمت کی توفیق عطا ہوئی۔ وفات کے وقت بھی آپ سیکرٹری رشتہ ناطہ تھے۔ 2012ء میں ان کی تقرری مالی کے شہر سیکاسو میں ہوئی۔ یہاں آپ کو غیر معمولی خدمات کی توفیق ملی۔ 2019ء میں جب بوبوجلاسو میں چندنوجوانوں نے نظام جماعت کے خلاف شرارت کی تو پھر مَیں نے ان کو واپس بوبوجلاسو بھیج دیا، وہاں ان کا تقرر کیا اور یہاں ان کو صدر جماعت بھی مقرر کیا گیا۔ انہوں نے بڑی جرأت سے اور حکمت سے اور بڑی محنت سے اور دعا سے اس فتنے کو ختم کر دیا اور سب لوگوں نے تجدید بیعت کی۔
پسماندگان میں والدہ، اہلیہ، بھائی، تین بچے اور پوتے پوتیاں شامل ہیں۔
ان کی اہلیہ عائشہ کولی بالی کہتی ہیں کہ آپ ہر وقت خدمت اسلام کے لیے تیار رہتے۔ صحت کی خرابی کے باوجود ہمیشہ جماعتی پروگرام اور تبلیغی دوروں کو ترجیح دیتے۔ بعض اوقات مَیں انہیں کہتی کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، کچھ آرام کر لیں تو کہتے میں نے زندگی وقف کی ہے اور اپنی آخری سانس تک خدمت دین کے لیے کوشاں رہوں گا۔ کہتی ہیں کہ جب سےہماری شادی ہوئی ہے میں نے دیکھا ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں آیا کہ انہوں نے کہا ہو کہ آج میں بیماری کی وجہ سے تہجد ادا نہیں کر سکتا۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی جماعتی مسئلہ یا دینی خدمت کے لیے آتا تو آپ فوری اس کی مدد کرتے، بےشک بعد میں بیمار ہی کیوں نہ پڑ جائیں۔ ملنے والوں عزیز و اقارب، ہمسایوں سے بہت حسن سلوک کرتے۔ ہر فرد سے محبت سے ملتے۔ ایک مثالی شخصیت کے مالک تھے۔ قرآن کریم سے بہت محبت کرنے والے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق تھے۔
یہ ہے نمونہ ایک واقف زندگی کا اور مربی کا جسے ہمارے مربیان کو اپنےسامنے رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ایسی وقف کی روح رکھنے والے جماعت کو عطا فرماتا رہے۔
ادریس شاہد صاحب سابق امیر جماعت برکینا فاسو لکھتے ہیں کہ بہت محنت سے تبلیغ کا کام کیا انہوں نے اور خوب کیا۔ ہنستا چہرہ، علمی لحاظ سے ٹھوس دلائل اور ہر وقت خدمت کا اعلیٰ معیار قائم کرنے کی کوشش میں رہتے۔ لوکل مبلغ درابوالحسن کہتے ہیں کہ استاد ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق تھے۔ ایک دن سورہ احزاب کی آیت اڑتیس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت زینبؓ سے شادی والے معاملے پر غیر احمدی مولویوں کے بے سروپا بیانات کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی آنکھوں میں باقاعدہ آنسو آ گئے کہ کس طرح ان لوگوں نے اپنی ناسمجھی اور بیہودہ قسم کے بیانات سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیے ہیں۔ اب یہ لوگ بھی باتیں کرتے ہیں تو یہ کوئی توہین رسالت نہیں ہے لیکن احمدی عزت بھی کریں تو وہ توہین رسالت کرتے ہیں۔ وہ نام بھی لیں تو توہین رسالت ہے۔ پھر کہتے ہیں یہ کہ دوروں کے دوران بھی تہجد کی بہت پابندی کرتے۔ خلافت سے وفا کا بہت تعلق رکھتے۔ اگر کوئی نظام جماعت کے خلاف بات کرتا تو ہمیشہ ننگی تلوار کی طرح نظام جماعت کے دفاع میں سامنے آ جاتے۔ کبھی کسی سے بغض اور کینہ نہ رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کی دعاؤں کا وارث بنائے۔
٭…٭…٭