مسئلہ وفات مسیح ؑکی اہمیت
وفات مسیح پر قرآن ہمارے ساتھ ہے۔ معراج والی حدیث ہمارے ساتھ ہے۔ صحابہؓ کا اجماع ہمارے ساتھ ہے۔ کیاوجہ ہے کہ تم حضرت عیسیٰؑ کو وہ خصوصیت دیتے ہو جو دوسرے کے لئے نہیں
موجودہ دَور میں غیر احمدی علماء کی طرف سے موضوع’’مسئلہ وفات مسیح ؑ‘‘ یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات،کو اہمیت نہیں دی جاتی۔جب بھی اختلافی مسائل پر گفتگو ہو تو اس اہم مسئلہ پر بات کرنے کی بجائے اور موضوعات کی تلاش میں رہتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے دیگر موضوعات کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔خاص طور پر مخالفین انبیاء کے طریق کار کے مطابق نبی کی ذات پر گفتگو کو اپنے لیے محفوظ میدان تصور کرتے ہیں۔جس طرح اسلام مخالف علماء آج بھی اسلامی تعلیمات اور عقائد پر بحث کی بجائے آنحضرتﷺ کی ذات مبارک پر ہی اعتراضات کرتے ہیں۔اس طرح آنحضرتﷺ کے حوالے سے بدزبانی کرکے وہ آپؐ سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں اپنے لیے منفی جذبات ہی پیدا کرتے ہیں۔
اگر عقائد اور نظریات کو مدنظر رکھ کر دلائل اور استدلال سے گفتگو کی جائے تو زیادہ سود مند ثابت ہوتی ہے۔جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعویٰ کی بنیاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات بیان فرماتے ہیں۔
ہمارے دعویٰ کی بنیاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہے
آپؑ فرماتے ہیں’’اس جگہ یاد رہے کہ ہمارے دعویٰ کی بنیاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہے۔ اب دیکھو یہ بنیاد کس قدر مضبوط اور محکم ہے جس کی صحت پر قرآن شریف گواہی دے رہا ہے۔‘‘(ایام الصلح،روحانی خزائن جلد۱۴صفحہ۲۶۹)
اس لیے آپ علیہ السلام بار بار اسی موضوع پر بات کرنے کے لیے فرماتے رہے۔
ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے صدق و کذب آزمانے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات حیات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’یاد رہے کہ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے صدق و کذب آزمانے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات حیات ہے۔ اگر حضرت عیسیٰ درحقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں۔ اور اگر وہ درحقیقت قرآن کی رُو سے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں۔ اب قرآن درمیان میں ہے اس کو سوچو۔‘‘(تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۶۴،حاشیہ)
آپ علیہ السلام نے اپنے زمانے کے بڑے اور نامور علماء سید مولوی محمد نذیر حسین دہلوی اور مولوی عبد الحق مؤلف تفسیر حقانی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر مسیح ابن مریم کی حیات …ثابت ہو جائے تو میں اپنے الہام سے دستبردار ہو جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ قرآن کریم سے مخالف ہو کر کوئی الہام صحیح نہیں ٹھہر سکتا۔ پس کچھ ضرور نہیں کہ میرے مسیح موعود ہونے میں الگ بحث کی جائے۔ بلکہ میں حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ اگر میں ایسی بحث وفات عیسیٰ میں غلطی پر نکلا تو دوسرا دعویٰ خود چھوڑ دوں گا۔ اور ان تمام نشانوں کی پروانہیں کروں گا جو میرے اس دعوے کے مصدق ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم سے کوئی حجت بڑھ کر نہیں۔‘‘(اشتہار ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۲۷۸،ایڈیشن۲۰۱۹ء)
سب سے پہلے بحث کے لائق مسیح ابن مریم کی وفات کا مسئلہ ہے
ایک اور مقام پر آپ علیہ السلام نے فرمایا:’’سب سے پہلے بحث کے لایق وہی امر ہے جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ قرآن اورحدیث اس دعوے کے مخالف ہیں اور وہ امر مسیح ابن مریم کی وفات کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر درحقیقت قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی رُو سے حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ہی ثابت ہوتی ہے تو اس صورت میں پھر اگر یہ عاجز مسیح موعود ہونے کے دعوے پر ایک نشان کیابلکہ لاکھ نشان بھی دکھاوے تب بھی وہ نشان قبول کرنے کے لائق نہیں ہوں گے کیونکہ قرآن ان کے مخالف شہادت دیتا ہے۔ غایت کار وہ استدراج سمجھے جائیں گے۔ لہٰذا سب سے اول بحث جو ضروری ہے مسیح ابن مریم کی وفات یا حیات کی بحث ہے جس کا طے ہو جانا ضروری ہے کیونکہ مخالف قرآن و حدیث کے نشانوں کا ماننا مومن کا کام نہیں۔ ہاں ان نادانوں کا کام ہے جو قرآن ا ور حدیث سے کچھ غرض نہیں رکھتے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ۲۸۱۔۲۸۲ اشتہار ۶؍اکتوبر۱۸۹۱ء،ایڈیشن۲۰۱۹ء)
ایک اور اشتہار میں مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی جو پورے ہندوستان میں اہلحدیث کے بہت بڑے عالم سمجھے جاتے تھے جنہوں نے نصف صدی کے قریب حدیث پڑھائی تھی اور پورے ملک میں شیخ الکل مشہور تھے، کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:’’اس قدر تو خود میں مانتا ہوں کہ اگر میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا مخالف نصوص بینہ قرآن وحدیث ہے اور دراصل حضرت عیسیٰ ابنِ مریم آسمان پر زندہ بجسدہ العنصری موجود ہیں جو پھر کسی وقت زمین پر اتریں گےتو گو یہ میرا دعویٰ ہزار الہام سے مؤید اور تائید یافتہ ہو اور گو نہ صرف ایک نشان بلکہ لاکھ آسمانی نشان اس کی تائید میں دکھاؤں، تاہم وہ سب ہیچ ہیں۔ کیونکہ کوئی امر اور کوئی دعویٰ اور کوئی نشان مخالف قرآن اور احادیث صحیحہ مرفوعہ ہونے کی حالت میں قابل قبول نہیں۔ اور صرف اس قدر مانتا ہوں بلکہ اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر آپ یا حضرت!! ایک جلسۂ بحث مقرر کرکے میرے دلائل پیش کردہ جو صرف قرآن اور احادیث صحیحہ کی رُو سے بیان کروں گا توڑ دیں اور ان سے بہتر دلائل حیات مسیح ابن مریم پر پیش کریں اور آیات صریحیہ بینہ قطعیہ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ کے منطوق سے حضرت مسیح ابنِ مریم کا بجسدہ العنصری زندہ ہونا ثابت کر دیں تو میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کروں گا اور تمام کتابیں جو اس مسئلے کے متعلق تالیف کی ہیں جس قدر میرے گھر میں موجود ہیں سب جلا دوں گا اور بذریعہ اخبارات اپنی توبہ اور رجوع کے بارے میں عام اطلاع دے دوں گا۔‘‘(اشتہار ۱۷؍اکتوبر ۱۸۹۱ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۲۸۴، ایڈیشن۲۰۱۹ء)
پھر ایک اور اشتہار میں مولوی سید نذیر حسین صاحب کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا(یہ اشتہار آپ نے مولوی نذیر حسین صاحب کی وفات و حیات مسیح پر بحث سے انکار پر تحریر فرمایا)’’میں نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ اگر میں اپنے اس الہام میں غلطی پر نکلا اور آپ نے نصوص صریحہ بینہ قطعیہ سے مسیح ابن مریم کی جسمانی حیات کو ثابت کر دکھایا تو تمام عالم گواہ رہے کہ میں اپنے اس دعوے سے دست بردار ہو جاؤں گا۔ اپنے قول سے رجوع کر وں گا۔ اپنے الہام کو اَضْغَاثُ اَحْلَام قرار دے دوں گا اور اپنے اس مضمون کی کتابوں کو جلا دوں گا ۔ اور میں نے اللہ جَلّ شَانُہٗکی قسم بھی کھائی کہ در حالت ثبوت مل جانے کے میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘(اشتہار۲۳؍اکتوبر ۱۸۹۱ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۳۰۲،ایڈیشن۲۰۱۹ء)
ہمارے دعویٰ کی جڑھ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ہمارے دعویٰ کی جڑھ حضرت عیسٰیؑ کی وفات ہے۔ اس جڑ ھ کو خدا اپنے ہاتھ سے پانی دیتا ہے اور رسول اس کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘ (لیکچر سیالکوٹ،روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۲۴۶)
آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر فرماتے ہیں: ’’اےناظرین !میں اللہ جَلّ شَانُہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی کا قرآن احادیث میں ایک ذرہ نشان نہیں ملتا، لیکن ان کی وفات پر کھلے کھلے نشان اور نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ موجود ہیں۔‘‘(اشتہار ۲۳؍اکتوبر ۱۸۹۱ء مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ۲۹۸،ایڈیشن۲۰۱۹ء)
مسئلہ وفات مسیح ؑ کی بنیا د الہام الٰہی پر ہے
آغاز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے مروجہ عقائد ہی بیان فرمائے لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے الہاماً خبر دی کہ ’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔ وَکَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا‘‘(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد ۳صفحہ۴۰۲)
میرا دعویٰ صرف مبنی بر الہام نہیں بلکہ قرآن شریف،حدیث اور عقل اس کی مصدق ہے
الہام الٰہی کی تصدیق قرآن شریف حدیث اور عقل نے کی۔چنانچہ اشتہار ۲۶؍مارچ ۱۸۹۱ء میں تحریر فرماتے ہیں:’’میں بآواز بلند کہتا ہوں کہ میرے پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور القاء سے حق کو کھول دیا ہے اور وہ حق جو میرے پر کھولا گیا ہے وہ یہ ہے کہ در حقیقت مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے اور اس کی روح اپنے خالہ زاد بھائی یحییٰ کی روح کے ساتھ دوسرے آسمان پر ہے۔اس زمانہ کے لیے جو روحانی طور پر مسیح آنے والا تھا جس کی خبر احادیث صحیحہ میں موجود ہے وہ میں ہوں۔یہ خدا تعالیٰ کافعل ہے جو لوگوں کی نظروں میں عجیب اور تحقیر سے دیکھا جاتا ہے۔ اور میں کھول کر کہتا ہوں کہ میرا دعویٰ صرف مبنی بر الہام نہیں بلکہ سارا قرآن شریف اس کا مصدق ہے۔تمام احادیث صحیحہ اس کی صحت کی شاہد ہیں۔ عقل خدا داد بھی اس کی مؤید ہے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۲۲۱۔۲۲۲،ایڈیشن۲۰۱۹ء)
ایک پیشگوئی مسئلہ وفات مسیح کے متعلق
آپؑ فرماتےہیں:’’مسیح موعود کا آسمان سے اُترنا محض جھوٹا خیال ہے۔ یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا۔ ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسیٰ ؑبن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا۔ اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسیٰ ؑبن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا۔ اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسٰیؑ اب تک آسمان سے نہ اُترا۔ تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے۔ اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۶۷)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تیسری صدی تک حیات مسیح ؑ کے جھوٹے عقیدہ کو چھوڑنے کا فرمایا۔اس کے آثار اس طرح ظاہر ہو رہے ہیں کہ ابھی ایک صدی ہی گزری ہے کہ اکثر علماء حیات ووفات مسیح ؑ کے موضوع پر گفتگو نہیں کرتے بلکہ کئی علماء دوران گفتگو برملا فرض کرکے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں،بات اور طرف لے جاتے ہیں۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ پر بات کرنی ہے توسب سے اہم موضوع یہی ہے۔اسی طرح اگر کسی عیسائی سے آنحضرتﷺ کے حوالے سے بحث کرنی ہو تو اسی پر بات ہونی چاہیے۔
اگر دنیا میں کسی کی زندگی کا قائل ہونا ہے تو آنحضرتﷺ کی زندگی کا قائل ہونا چاہیے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’وفات مسیح پر قرآن ہمارے ساتھ ہے۔ معراج والی حدیث ہمارے ساتھ ہے۔ صحابہ ؓ کا اجماع ہمارے ساتھ ہے۔ کیاوجہ ہے کہ تم حضرت عیسیٰؑ کو وہ خصوصیت دیتے ہو جو دوسرے کے لئے نہیں۔ مجھے ایک بزرگ کی بات بہت ہی پیاری لگتی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ اگر دنیا میں کسی کی زندگی کا مَیں قائل ہوتا تو آنحضرتﷺ کی زندگی کا قائل ہوتا۔ دوسرے کی زندگی سے ہم کو کیا فائدہ؟ تقویٰ سے کام لو۔ ضد اچھی نہیں۔ دیکھو! پادری لوگ گلی اور کوچوں اور بازاروں میں یہی کہتے پھرتے ہیں کہ ہمارا یسوع زندہ ہے اور تمہارا رسُول مر چکا ہے۔ اس کا جواب تم ان کو کیا دے سکتے ہو؟یہ زمانہ تو اسلام کی ترقی کا زمانہ ہے۔ کسوف خسوف بھی پیشگوئی کے مطابق ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے واسطے وہ پہلو اختیار کیا ہے جس کے سامنے کوئی بول نہیں سکتا۔ سوچو ۱۹۰۰ سال تک مسیحؑ کو زندہ ماننے کا کیا نتیجہ ہوا؟ یہی کہ چالیس کروڑ عیسائی ہو گئے۔ اب دُوسرے پہلو کو بھی چند سال کے واسطے آزما ؤ اور دیکھو کہ اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی عیسائی سے پوچھو کہ اگر یسوع مسیح کی وفات کو تسلیم کر لیا جائے تو کیا پھِر بھی کوئی عیسائی دنیا میں رہ سکتا ہے۔ تمہارایہ طیش اور یہ غضب مجھ پر کیوں ہے؟ کیا اسی واسطے کہ مَیں اسلام کی فتح چاہتا ہوں۔‘‘(ملفوظات جلد۸صفحہ۴۵۔۴۶، ایڈیشن۲۰۲۲ء)
یہی ایک بحث ہے جس میں فتحیاب ہونے سے تم عیسائی مذہب کی روئے زمین سے صف لپیٹ دوگے
’’اے میرے دوستو! اب میری ایک آخر ی وصیت کو سنو اور ایک راز کی بات کہتا ہوں اس کو خوب یاد رکھو کہ تم اپنے ان تمام مناظرات کا جو عیسائیوں سے تمہیں پیش آتے ہیں پہلو بدل لو اور عیسائیوں پر یہ ثابت کر دو کہ درحقیقت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لئے فوت ہو چکا ہے۔ یہی ایک بحث ہے جس میں فتحیاب ہونے سے تم عیسائی مذہب کی روئے زمین سے صف لپیٹ دوگے۔ تمہیں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ دوسرے لمبے لمبے جھگڑوں میں اپنے اوقاتِ عزیز کو ضائع کرو۔ صر ف مسیح ابن مریم کی وفات پر زور دو اور پُر زور دلائل سے عیسائیوں کو لاجواب اور ساکت کر دو۔ جب تم مسیح کا مردوں میں داخل ہونا ثابت کردو گے اور عیسائیوں کے دلوں میں نقش کردو گے تو اُس دن تم سمجھ لو کہ آج عیسائی مذہب دنیا سے رخصت ہوا۔ یقیناً سمجھو کہ جب تک ان کا خدا فوت نہ ہو اُن کا مذہب بھی فوت نہیں ہو سکتا۔ اور دوسری تمام بحثیں اُن کے ساتھ عبث ہیں۔اُن کے مذہب کا ایک ہی ستون ہے اور وہ یہ ہے کہ اب تک مسیح ابن مریم آسمان پر زندہ بیٹھا ہے۔ اس ستون کو پاش پاش کرو پھر نظر اُٹھا کر دیکھو کہ عیسائی مذہب دنیا میں کہاں ہے۔ چونکہ خدائے تعالیٰ بھی چاہتا ہے کہ اِس ستون کو ریزہ ریزہ کرے اور یوروپ اور ایشیا میں توحید کی ہو ا چلا دے۔ اِس لئے اُس نے مجھے بھیجا اور میرے پر اپنے خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے۔ چنانچہ اس کا الہام یہ ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے وکان وعداللّٰہ مفعولا انت معی وانت علی الحق المبین انت مصیب ومعین للحق۔
میں نے اس کتاب میں نہایت زبردست ثبوتوں سے مسیح کا فوت ہوجانا اور اموات میں داخل ہونا ثابت کردیا ہے اور میں نے بداہت کی حد تک اس بات کو پہنچا دیا ہے کہ مسیح زندہ ہو کر جسم عنصری کے ساتھ ہرگز آسمان کی طرف اُٹھایا نہیں گیا بلکہ اَور نبیوں کی موت کی طرح اُس پر بھی موت آئی اور دائمی طورپر وہ اس جہان سے رخصت ہوا۔ اگر کوئی مسیح کا ہی پرستار ہے تو سمجھ لے کہ وہ مر گیا اور مرنے والوں کی جماعت میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوگیا۔ سو تم تائید حق کے لئے اس کتاب سے فائدہ اٹھاؤ اور سرگرمی کے ساتھ پادریوں کے مقابل پر کھڑے ہوجاؤ۔ چاہئے کہ یہی ایک مسئلہ ہمیشہ تمہار ے زیر توجہ اور پورا بھروسہ کرنےکے لائق ہو جو درحقیقت مسیح ابن مریم فوت شدہ گروہ میں داخل ہے۔‘‘(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۴۰۲ ،۴۰۳)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس مسئلہ کو بدلائل سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
ابن مریم مر گیا حق کی قسم
داخلِ جنت ہوا وہ محترم
مارتا ہے اُس کو فرقاں سر بسر
اس کے مرجانے کی دیتا ہے خبر
وہ نہیں باہر رہا اموات سے
ہوگیا ثابت یہ تیس آیات سے
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: خلیفۂ وقت سے وابستگی کی ضرورت و اہمیت