سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

جن آیات قرآنیہ کے نزول کا مولف کو دعویٰ ہے اور اِن کے معانی خلاف ظاہر معانی قرآن مولف براہین نے بیان کئے ہیں وہ اِس وقت جبکہ وہ مولف براہین پر القا (یا نازل) ہوئے ہیں اور اِس نظر سے کہ ان کا مخاطب و ملہم مولف براہین احمدیہ ہے قرآن نہیں کہلاتیں

براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میں ابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو
مذہبی نکتہ چینی کی جواب کا بقیہ

(جس میں فریق دوم یعنی لدھیانہ کے مکفرین کا جواب ہے)

(گذشتہ سے پیوستہ)آیت نمبر ۲ و ۳ کا مؤلف نے ترجمہ نہیں کیا اس لئے ہم نے اِن کے الفاظ سے مراد مؤلف کی کلام سے نہیں بتائی لیکن بلقیاس ترجمہ و مراد بقیہ الفاظ آیات یہی یقین کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں تو وہ لفظ مدثر سے آیت نمبر ۲ میں آنحضرت صلعم کو ایسا ہی لفظ فَاصْدَع سے آیت نمبر ۳ میں آنحضرت صلعم کو مراد و مخاطب جانتے ہیں اور جب انہی الفاظ سے خدائے تعالیٰ نے ان کو مخاطب کیا تو اُن الفاظ میں (نہ آیات قرآن میں) وہ اپنا کسی وقت کپڑا لپیٹ کر لیٹ جانا اور باظہار حق مامور ہونا مراد خداوندی قرار دیتے ہیں۔

ایسا ہی اِس فقرہ عربی کا جس میں مؤلف کی نسبت لفظ اِخْتَرْتُک (حاشیہ: اس فقرہ میں لفظ وجاہت بھی شائد محل اعتراض ہو گا۔ اس کا جواب صفحہ (۳۱۷) میں آویگا۔ (انشاء اللہ تعالیٰ)(یعنی تجھے میں نے چن لیا)وارد ہے (اور وہ آیت نمبر۱۱ کے بعد رسالہ نمبر ۶ میں بصفحہ ۱۷۳ منقول ہے) مؤلف کی کلام سے مطلب ظاہر نہیں ہوتا مگر بہ قرینہ اور کلمات مؤلف کے جن میں صاف تصریح ہے کہ مؤلف کو پیغمبری کا دعویٰ نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں چن لینے سے وحی و رسالت سے چن لینا مراد نہیں جو انبیاء علیھم السلام سے مخصوص ہے اور متعدد آیات (منقولہ حاشیہ وغیرہ) میں اِن کے حق میں استعمال ہوا ہے۔

یٰمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ۔ (الاعراف ع ۱۷)

وَ اصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِیْ۔(طٰہٰ ع ۲)

وَ اِنَّہُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ۔ (ص ع ۴)

بلکہ اِس چن لینے سے خاص قرب و ولایت سے چن لینا جو انبیاء کے سوا اور اصفیاء و اولیاء میں بھی پایا جاتا ہے۔ یا عام ہدایت اسلام و ایمان سے چن لینا (جو گنہگاران اہل ایمان میں بھی موجود ہے) مراد ہے اور اِن دونوں معنوں میں اِس لفظ کا استعمال بھی بہت مواضع قرآن میں پایا گیا ہے۔ حضرت مریم علیھا السلام کے حق میں خدائے تعالیٰ نے فرمایا ہے:یَا مَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ۔(آل عمران ع ۵) ہم نے تجھے جہاں والوں کی عورتوں سے چن لیا۔ حضرت طالوت کے حق میں (جبکہ وہ نبی نہیں ہوئے تھے) ان کے نبی شمویل کا یہ قول قرآن میں منقول ہے۔اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَاہُ عَلَیْکُمْ۔ (بقرہ ع ۳۲) خدائے تعالیٰ نے ان کو چن لیا ہے۔

عام بنی اسرائیل کے حق میں خدائے تعالیٰ نے فرمایا ہے:وَ لَقَدِ اخْتَرْنَاھُمْ عَلٰی عِلْمٍ عَلَی الْعَالَمِیْنَ۔ (دخان ع۲) ہم نے اِن کو علم کے ساتھ جہان والوں سے چن لیا۔

عام مومنوں کے حق میں فرمایا ہے:ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْھُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ وَ مِنْھُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْھُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ۔(فاطر ع ۴) پھر ہم نے کتاب کا وارث اِن لوگوں کو کیا جن کو اپنے بندوں میں سے چن لیا پھر اِن میں سے کئی اپنی جان پر ظلم کرنے والے (گنہگار) ہیں کئی نیک و بد میں میانہ رو کئی خدا کی مرضی سے نیکیوں میں تیز رو ہیں۔ یہی بڑا فضل ہے۔

ان تمثیلات میں اِن یازدہ گانہ آیت قرآنیہ کی (جو استدلال فریق دوم کی تائید میں نمبر ۶ منقول ہوئی تھیں) مؤلف براہین احمدیہ پر نازل ہونے سے مراد کی ایسی تفصیل ہوئی ہے جس سے صاف ثابت ہے کہ مولف براہین احمدیہ کو مہبط وحی رسالت و مورد نزول و مخاطب قرآن ہونے کا دعویٰ نہیں اور ان آیات وغیرہ عربی فقرات کے جن کے الہام و نزول کا مولف براہین کو دعویٰ ہے معانی ایسے بیان ہوئے ہیں جن سے ثابت ہے کہ مولف براہین کو اُن کمالات کے حصول کا ادعا نہیں جو انبیاء سے مخصوص ہیں۔ ایسا ہی اِن سب باقی ماندہ آیات قرآنیہ کو سمجھنا چاہئے جن کے نزول و الہام کا مولف کو دعویٰ ہے۔

قرآن میں تو وہ اِن آیات کو اِن ہی مواقع اور معانی سے مخصوص سمجھتے ہیں جن سے وہ (قرآن یا پہلی کتابوں میں) مخصوص ہیں۔ اپنی شمولیت یا خصوصیت اور اپنے حال کے مناسب کوئی امر مراد خداوندی قرار دیتے ہیں تو انہی الفاظ آیات یا فقرات میں جو خدائے تعالیٰ نے اس زمانے میں اِن کے خطاب و الہام میں فرمائے ہیں جس کو بہ نظر و لحاظ ان کے مخاطب کے کوئی قرآن نہیں کہہ سکتا ہے اور نہ ان کے معانی و مراد کو جن کی مولف نے تشریح کی ہے کوئی خاصہ انبیاء سمجھتا ہے۔

بالجملہ جو اہل اسلام میں قرآن کہلاتا ہے (حاشیہ: جو لوگ اِس نکتے کو نہیں سمجھتے وہ مؤلف کے دعویٰ نزول آیات قرآنیہ پر کبھی تو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مؤلف براہین کو مہبط قرآن ہونے کا دعویٰ ہے اور کبھی (جب اِن آیات کے وہ معانی جو براہین احمدیہ میں بیان ہوئے اور ہم نے اِس کتاب سے سلسلہ وار بذیل آیات مذکورہ نقل کئے ہیں پڑھتے یا سنتے ہیں) یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مؤلف براہین نے قرآن کی اپنی رائے سے تاویل کی ہے جو تحریف کہلاتی ہے جس کو علماء اسلام نے ناجائز کہا ہے۔ چنانچہ شرح عقائد وغیرہ کتب عقائدو اصول میں لکھا ہے:النصوص من الکتاب و السنۃ تحمل علی ظواھر ما لم یصرف عنھا مانع قطعی (شرح عقاید) کہ نصوص کتاب و سنت کا ان کے ظاہر معانی پر حمل کرنا واجب ہے جب تک کہ کوئی مانع قطعی ظاہر معانی سے نہ پھرے۔

ہمارے اِس جواب نے اِن دونوں اعتراضوں کو دفع کیا اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ جن آیات قرآنیہ کے نزول کا مؤلف کو دعویٰ ہے اور اِن کے معانی خلاف ظاہر معانی قرآن مؤلف براہین نے بیان کئے ہیں وہ اِس وقت جبکہ وہ مؤلف براہین پر القا (یا نازل) ہوئے ہیں اور اِس نظر سے کہ ان کا مخاطب و ملہم مؤلف براہین احمدیہ ہے قرآن نہیں کہلاتیں۔ اور جو عام اہل اسلام اور مؤلف براہین احمدیہ کے نزدیک قرآن کہلاتا ہے اس کے مہبط و مورد نزول ہونے کا مؤلف کو دعویٰ نہیں اور نہ اِن کے معانی مراد سے اس نے کسی وجہ سے تعرض کیا ہے اِس جواب سے جو مولوی صاحب امرتسری کا یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ آیات قرآن نہیں تو مثل قرآن ہوئیں جو صورت و الفاظ میں قرآن کی برابری و مقابلہ کر سکتی ہیں اِس سے قرآن کا دعویٰ بے مثلی و تحدی باطل ہوتا ہے (اِس کا جواب ابھی متن میں دیا جاتا ہے )اِس کے نزول کا مؤلف کو دعویٰ نہیں ہے اور نہ اِن کمالات کے حصول کا دعویٰ ہے جو انبیاء سے مخصوص ہیں اور نہ معانی آیات قرآنی سے ان کو تعرض ہے اور جس کے نزول و حصول کا ان کو دعویٰ ہے اور اس کی تفسیر و تاویل سے انہوں نے تعرض کیا ہے وہ بلحاظ مخاطب قرآن نہیں کہلاتا۔ اور نہ ا س کا حصول خاصہ انبیاء ہے۔

اِس پر مولوی صاحب امرتسری (سرگروہ فریق اوّل) کا یہ اعتراض (جو بصفحہ ۱۷۴ نمبر ۶ جلد ۷ میں گزرا) کہ جو آیات غیر نبی کے الہام میں پائی جاتی ہیں وہ قرآن نہیں تو صورت و الفاظ میں مثل قرآن تو ہیں۔ اِس سے قرآن کا دعویٰ تحدی و اعجاز ٹوٹتا ہے نہایت تعجب کا مورث اور کمال افسوس کا محل ہے۔ خدا جانے اِس بزرگ کے فہم کو کیا ہو گیا کہ ایسی باتیں اس کی قلم و زبان سے نکلتی ہیں اور زیادہ تر افسوس اُن لوگوں پر ہے جو صاحب فہم سلیم و حواس مستقیم کہلاتے ہیں اور کسی قدر پڑھے لکھے بھی ہیں پھر وہ اپنے سرگروہ (معترض) کی ایسی باتوں کو بے سوچے بن سمجھے بسر و چشم قبول کر لیتے ہیں۔ یہ سب حضرات استاذ و شاگرد اتنا نہیں سمجھتے کہ اِن آیات کو جو غیر نبی کے الہام میں پائی جاتی ہیں مثل قرآن کیونکر کہہ سکتے ہیں جبکہ وہ بعینہا قرآن میں موجود ہیں۔ ان کو قرآن نہ کہنا تو صرف اِس نظر سے ہے کہ اِس وقت اِس کا مخاطبہ و ملہم غیر نبی ہے۔ حقیقت میں تو یہ وہی آیات ہیں جو قرآن میں موجود ہیں اور اِس نظر سے کہ قرآن میں اِن کے مورد نزول و مخاطب آنحضرت ہیں وہ قرآن کہلاتی ہیں اور ایک کلام کو ایک ہی وقت میں مخاطب (یامتکلم) کے لحاظ سے قرآن اور غیر قرآن کہنا اہل علم کے نزدیک مستبعد و محل اعتراض نہیں ہے اور کلام (حاشیہ :ہماری اِس بات کی تائید سرگروہ فریق اوّل کی کلام میں بھی پائی جاتی ہے۔ آپ اپنے رسالہ ابطال الہام کے حاشیہ صفحہ ۵۳ میں بجواب اپنے خصم کے (جو قول منافقین ’’لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ‘‘کے موافق قرآن نازل ہونے سے جواز الہام آیات نکالتا ہے) فرماتے ہیں۔ ’’قبل از نزول قرآن یہ کلمے اس کو القاء ہوئے قرآن کا الہام اِس کو نہیں ہوا کیونکہ یہ قرآن اس وقت نہیں ہوا جب وحی رسول اللہ صلعم پر لے کر آیا تب کلام اللہ تھا‘‘ اِس میں صاف اقرار ہے کہ پہلے یہ قول جبکہ منافقین نے کہا تھا قرآن نہ کہلاتا تھا جب حکایت حال منافقین کے ضمن میں اِس کلام کا متکلم خدا ہوا اور قرآن میں اُترا تب قرآن کہلایا) ہمیشہ مخاطب یا متکلم کے اختلاف سے (باوجودیکہ اس کے الفاظ صورت کچھ نہ بدلی) مختلف نام رکھواتا ہے۔ کبھی ایک کلام جبکہ اِس کا متکلم (مثلاً) خدا ئے تعالیٰ کو ٹھہرایا جائے کلام رحمانی کہلاتا ہے۔ کبھی وہی کلام جبکہ اِس کا متکلم شیطان یا فرعون ٹھہرایا جائے شیطانی یا فرعونی کلام کہلاتا ہے۔ اِس کی تمثیل میں ہم دو کلام قرآن سے پیش کرتے ہیں۔ قرآن میں ایک یہ کلام ابلیس سے منقول ہے۔ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ۔ترجمہ: میں آدم سے بہتر ہوں مجھے تو نے اے خدا آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے اور ایک یہ کلام فرعون سے ۔ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی ترجمہ: میں تمہارا بڑا رب ہوں۔ اِن دونوں کو اگر یوں خیال کریں کہ یہ ابلیس و فرعون کے کہے ہوئے ہیں۔ (خواہ کسی زبان میں اُنہوں نے کہے ہوں) (حاشیہ: اِس تعمیم میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ گو وہ کلام جو فرعون یا ابلیس نے کہا تھا عربی میں نہ تھا۔ عربی میں صرف اِس کا ترجمہ قرآن میں ہوا ہے مگر پھر بھی وہ بلحاظ اِس کے کہ اِس کا متکلم (خواہ کسی زبان میں ہو) فرعون یا ابلیس ہے۔ کلام فرعون یا کلام ابلیس کہلاتا ہے۔ سرگروہ فریق اول کا حاشیہ صفحہ ۵۳ رسالہ ابطال الہام میں یہ کہنا کہ کلام فرعون اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی عربی میں نہ تھا اِس لئے وہ قرآن نہیں ہو سکتا۔ ہماری اس بات کے مخالف نہیں بلکہ فی الجملہ موافق اور اُس کا مؤید ہے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اِس لفظ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی کو جب کلام فرعون ٹھہرایا جائے (خواہ وہ کسی زبان میں ہو) قرآن نہیں کہا جاتا۔ یہ لفظ قرآن میں آیا اور خدا نے حکایت حال فرعون میں فرمایا تب قرآن کہلایا گو اِس کی وجہ ہم اور بیان کرتے ہیں۔ اور وہ بزرگ اور جس سے ہم کو انکار نہیں۔) تو یہ کلام شیطانی و فرعونی کہلاتے ہیں۔ اور اگر بعینہٖ اِن دونوں کی نسبت یہ خیال کریں کہ بہ ضمن حکایت ابلیس و فرعون یہ کلام خدا میں پائے گئے ہیں تو یہ کلام رحمانی اور جزو قرآن کہلاتے ہیں۔ ایسا ہی اختلاف (حاشیہ: اس کی مثالیں ہزاروں کلام ہیں جو قرآن اور پہلی کتابوں میں مشترک ہیں۔ پہلی کتابوں میں وہ اور انبیاء کے خطاب میں فرمائے گئے ہیں۔ قرآن میں آنحضرت کے خطاب میں نازل ہوئے۔) مخاطب کے سبب اختلاف کلام کو سمجھنا چاہیے۔ جو کلام خدائے تعالیٰ نے آنحضرت کے خطاب میں فرمایا ہے اور وہ ایک کتاب (معروف) میں درج ہو کر مسلمانوں میں پڑھا جاتا ہے وہ قرآن کہلاتا ہے وہی کلام اگر کسی غیر نبی کے خطاب میں اور پہلی کتاب (توریت انجیل وغیرہ) میں یا کسی ولی کے الہام میں خدا نے فرمایا ہے تو وہ قرآن نہیں کہلاتا۔ گو حقیقت میں وہ بعینہٖ وہی کلام ہے جو قرآن میں پایا جاتا ہے بالجملہ یہاں بجز ایک کلام دوسرا کلام نہیں ہے۔ جس کو مثل یا نظیر کہا جا سکے۔

یہ بات معترض کے خیال میں بھی آئی ہے اور بناء علیہ اس نے اعتراض مقابلہ بالمثل سے آنکھ بند کر کے خود یہ خیال کر لیا یا کسی کو اِس خیال پر پایا ہے کہ اِن الہامات میں اقتباس بقرآن پایا جاتا ہے۔ پھر اِس پر یہ اعتراض جڑ دیا ہے کہ اقتباس بقرآن کو تو فقہاء نے کفر قرار دیا ہے ان الہامات میں اقتباس بقرآن کیوں کیا گیا ہے۔ لیکن اِس اعتراض کے وقت بھی اتنا نہ سوچا کہ فقہاء نے کس اقتباس کنندہ کو کافر کہا ہے اور یہاں اقتباس کنندہ کون ہے۔

بزرگ آدمی !فقہاء کے نزدیک (آپ کے زعم میں نہ نفس الامر میں) اقتباس کرنے سے کافر ہوتے ہیں تو انسان یا مسلمان جو انسان ہو کر کلام خداسے اقتباس کرتے ہیں اور ان الہامات میں (اگر اقتباس بہ قرآن ہے تو) اقتباس بہ قرآن کرنے والا خود خدا ہے جو کبھی کسی فعل سے اور کسی فقیہ کے فتویٰ سے کافر نہیں ہو سکتا۔ اور اگر خدا کی نسبت بھی اِس اقتباس کے سبب آپ فتویٰ کفر دیتے ہیں تو بتا دیں کہ اِس فتویٰ میں آپ کا پیشوا و مقتدا کون ہے اور کس کتاب فقہ چھوٹی یا موٹی نئی یا پُرانی میں لکھا ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ اپنی کسی کلام میں اپنی دوسری کلام سے اقتباس کرے تو وہ بھی کافر ہو جاتا ہے اِس کا جواب آپ دیں خواہ نہ دیں اِن الہامات میں آپ کی تجویز اقتباس اور اُس پر مقتبس کی تکفیر سے اتنا تو ثابت ہوا کہ آپ اِس کلام کو بعینہٖ قرآن سمجھتے ہیں تب ہی اِس پر اقتباس کا اعتراض کرتے ہیں۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک بھی وہ آیات مثل قرآن نہیں عین قرآن ہیں اور وہ اعتراض آپ کا بے سوچے بن سمجھے قلم سے نکل گیا ہے۔ اِس مقام میں پھر معترض کے فہم پر افسوس کرتا ہوں اور زیادہ تر ان لوگوں پر جو صاحب فہم و حواس کہلا کر معترض کے ایسے اعتراضوں کو تسلیم کر لیتے ہیں۔

(باقی آئندہ)

مزید پڑھیں: صحابہؓ کرام کا رسول کریمؐ اور خلفائے وقت کی بے مثال اطاعت اور ادب و احترام کا نمونہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button