مسیح ومہدیؑ کی بعثت کایہی زمانہ تھا
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍فروری ۲۰۰۶ء)
پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ گو مسیح و مہدی نے چودہویں صدی میں آنا ہے لیکن ابھی نہیں آیا اور ابھی چودہویں صدی ختم نہیں ہوئی، بڑا عرصہ پڑا ہے اس کے ختم ہونے میں۔ پھر چودہویں صدی بھی ختم ہو گئی۔ بعض جاہل مولویوں نے تو (ویسے تو سارے ہی جاہل ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہیں مانا) کہا کہ چودہویں صدی لمبی ہوگئی ہے ابھی ختم ہی نہیں ہو رہی۔ پھرشاید کسی نے سمجھایا کہ یہ کیا جہالت کی باتیں کرتے ہو۔ پھر کچھ نام نہاد پروفیسروں اور ڈاکٹر علماء کو بھی اپنی علمیت کے اظہار کرنے کا موقع ملا، لوگوں کو اکٹھا کرنے کا موقع ملا۔ تو انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ مسیح و مہدی کی آمدتو قرب قیامت کی نشانی ہے اس لئے ابھی وقت نہیں آیا جیسا کہ مَیں نے ابھی بتایا۔ اور بعض عرب علماء نے اپنے پہلے نظریہ کے خلاف یہ تو تسلیم کر لیا اور یہ بات مان لی کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات ہو چکی ہے اور ساتھ یہ بھی کہنے لگ گئے کہ مسیح کی آمد ثانی کی جو احادیث ہیں وہ ساری غلط ہیں، اب کسی نے نہیں آنا۔ اور یہ کہ ہم جو علماء ہیں یا بعض ملکوں میں علماء کے ادارے ہیں دین کی تجدید کرنے کے لئے یہی کافی ہیں۔ بہرحال اس کو غلط ثابت کرنے کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی لیکن ہٹ دھرمی ہے۔ اور پھرانہوں نے جماعت کے خلاف جھوٹے فتووں کی بھرمار کر دی۔ بعض فتوے دینے والوں نے تو ہماری طرف ایسی باتیں منسوب کیں، ایسی تعلیم منسوب کی جس کا ہماری تعلیم سے دُورکا بھی واسطہ نہیں ہے، کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اور یہ فتوے صرف مسلمانوں میں احمدیوں کے خلاف نفرت اور فساد پھیلانے کے لئے جاری کئے گئے ہیں۔ اور ان باتوں پہ جو ہماری طرف منسوب کی گئی ہیں ان پر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے الفاظ میں صرف اتنا ہی کہتے ہیں بلکہ یہی دعا ہے کہ لَعْنَۃُاللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ وَالْفَاسِقِیْن۔ اور ان فتوے دینے والوں کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں دو نئے فتوے بھی جاری ہوئے ہیں۔ لیکن عام مسلمانوں سے ہمارے دل میں جو ہمدردی ہے اور جو پیغام ان تک پہنچانا ہمارے سپرد ہے یا جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے مَیں مسیح ومہدی کی بعثت کے بارے میں کچھ کہوں گا کہ آیا آنے کا یہ وقت اور زمانہ ہے یا نہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ ایک وقت تک تمام علماء اس بات پر متفق تھے کہ مسیح و مہدی کا ظہور چودہویں صدی میں ہو گا یا اس کے قریب ہو گا اور تمام پرانے ائمہ اور اولیاء اور علماء اس بات کی خبر دیتے آئے کہ یہ زمانہ جو آنے والا ہے مسیح و مہدی کے ظہور کا ہو گا اور جو اس زمانے کے لوگ تھے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کے یا قریب زمانے کے وہ تو مسلمانوں کے حالات دیکھ کر اس یقین پر قائم تھے کہ عنقریب مسیح ومہدی کا ظہور ہو گا۔ اس زمانے میں جن لوگوں کو دین کا درد تھا خدا سے دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کی اس ڈوبتی کشتی کو سنبھال لے۔ بہرحال ان خبر دینے والوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے قبل کے حالات پیش کرنے والوں کے حوالے مَیں پیش کرتا ہوں جو کہ جماعت احمدیہ سو سال سے زائد عرصے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے پیش کررہی ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی یہ باتیں پیش کی ہیں، سامنے رکھی ہیں۔ لیکن کیونکہ اب پھر لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں اس لئے میں دوبارہ اس کا ذکرکر رہا ہوں اور ہمیں تو کرتے بھی رہنا چاہئے، پیغام پہنچانے کے لئے ضروری بھی ہے تاکہ جماعت میں بھی پیغام پہنچانے کی طرف تیزی پیدا ہو، اور لوگوں پر بھی واضح ہو، کیونکہ اب خداتعالیٰ نے ہمیں ایسے ذرائع میسر فرما دئیے ہیں جس کے ذریعہ سے غیروں کی بہت بڑی تعداد کسی نہ کسی طریقے سے پیغام سن لیتی ہے۔
تو بہرحال پہلا حوالہ ہے حضرت نعمت اللہ ولی رحمۃ اللہ علیہ کا۔ وہ چھٹی صدی ہجری کے صاحب کرامات بزرگ ہیں، ایک فارسی قصیدے میں فرماتے ہیں۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ بارہ سو سال گزرنے کے بعد عجیب نشان ظاہر ہوں گے اور مہدی اور مسیح ظاہرہوں گے۔ (اربعین فی احوال المہدیین قصیدہ فارسی صفحہ2تا4۔ محمد اسماعیل شہید)
پھر’’حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جن کی وفات 1176ہجری میں ہوئی فرماتے ہیں کہ میرے ربّ نے مجھے بتایا ہے کہ قیامت قریب ہے اور مہدی ظاہر ہونے کو ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اسی طرح(یہ بات ان کی کتاب تفہیمات الٰہیہ میں چھپی ہوئی ہے) آپ نے امام مہدی کی تاریخ ظہور لفظ چراغ دین میں بیان فرمائی ہے جس کے حروف ابجد 1268 بنتے ہیں‘‘۔ (حجج الکرامہ صفحہ نمبر 394)
پھر نواب صدیق حسن خان صاحب کے بیٹے نواب نورالحسن خان، گوماننے والے تو نہیں لیکن انہوں نے بھی حضرت امام جعفر صادق ؒ سے مروی یہ بات کی ہے کہ’’امام مہدی سن 200میں نکل کھڑے ہوں گے یعنی بعد 1000ہجری کے‘‘ بارہویں صدی میں۔ پھر خود ہی کہتے ہیں کہ ’’مَیں کہتا ہوں کہ اس حساب سے مہدی کا ظہور شروع تیرہویں صدی پر ہونا چاہئے تھا۔ مگر یہ صدی پوری گزر گئی مہدی نہ آئے۔ اب چودہویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے اس صدی سے اس کتاب کے لکھنے تک چھ مہینے گزر چکے ہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ اپنا فضل و عدل رحم و کرم فرمائے‘‘۔ (اقتراب الساعۃ صفحہ221)
دعا تو یہ کرتے ہیں لیکن مانتے نہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نواب صدیق الحسن خان نے لکھا ہے کہ نزول مسیح میں کوئی شخص چودہویں صدی سے آگے نہیں بڑھتا۔ یعنی جو تمام باتیں اور خبریں اور مکاشفات اور اخبارہیں وہ تمام چودہویں صدی تک کی خبر دیتی ہیں۔ فرمایا کہ ترقی قمر بھی 14تک ہی معلوم ہوتی ہے جیسے قرآن شریف میں ہے وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰـہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ(یٰسٓ:40) (البدر جلد 1نمبر5، 6مورخہ26؍ نومبر)پھر ایک مولانا ہیں سید ابوالحسن علی ندوی معتمد تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء۔ یہ ماننے والوں میں سے تو نہیں ہیں بلکہ ہمارے خلاف ہی ہیں لیکن حالات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’مسلمانوں پر عام طور پر یاس و ناامیدی اور حالات و ماحول سے شکست خوردگی کا غلبہ تھا۔ 1857ء کی جدوجہد کے انجام اور مختلف دینی اور عسکری تحریکوں کی ناکامی کو دیکھ کر معتدل اور معمولی ذرائع اور طریقہ کار سے انقلاب حال اور اصلاح سے لو گ مایوس ہو چلے تھے اور عوام کی بڑی تعداد کسی مرد غیب کے ظہور اور کسی ملہم اور مؤید من اللہ کی آمد کی منتظر تھی۔ کہیں کہیں یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا تھا کہ تیرہویں صدی کے اختتام پر مسیح موعود کا ظہور ضروری ہے۔ مجلسوں میں زمانہ آخر کے فتنوں اور واقعات کا چرچا تھا‘‘۔ (قادیانیت صفحہ17از مولانا سید ابوالحسن علی ندوی۔ مکتبہ دینیات 134شاہ عالم مارکیٹ لاہور۔ طبع اول1959)
تو یہ بات ثابت کردی ہے، اپنی باتوں سے کہہ گئے اور لوگ بھی مانتے تھے کہ مسیح موعودؑ کا زمانہ ہے لیکن جب دعویٰ ہوا ماننے کو تیار نہیں تھے۔
مزید پڑھیں: غزوہ خندق یا غزوہ احزاب کی وجہ