حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مسجد کو آباد رکھنا ہماری ذمہ داری ہے

اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بنائی ہوئی مسجد کا کام مسجد کی تعمیر کے بعد ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا انسان تبھی حامل بنتا ہے جب اس کے حکموں پر چلنے والا ہو،اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والا ہو، حقوق العباد ادا کرنے والا ہو، وفا اور اخلاص سے دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا ہو، اپنی بیعت کا حق ادا کرنے والا ہو۔

ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو مانا ہے۔ ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننا اور آپؑ کی بیعت میں آنا ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے۔ ہمارا کام آپ علیہ السلام کی بیعت میں آ کر ختم نہیں ہو گیا بلکہ پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ تبھی ہم ان انعامات کے وارث ٹھہریں گے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے کیا ہے۔ پس اپنی ذمہ داریوں کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنا ہو گا۔

اس مسجد کو آباد رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ آپس میں پیارو محبت سے رہنا ہماری ذمہ داری ہے۔ رواداری اور بھائی چارے کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پیغام دنیا کو دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ مسلسل دعاؤں سے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ اپنی نسلوں کی اصلاح کی فکر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔تبھی ہم مسجد کا حق بھی ادا کر سکیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ جہاں اسلام کا تعارف کروانا ہو وہاں مسجد بنا دو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 7صفحہ 119 ایڈیشن 1984ء) اب اس مسجد کے بننے سے ظاہری طور پر تو اسلام کا تعارف اس علاقے میں ہو جائے گا۔ بعض ہمسائے آئے بھی اور انہوں نے اچھے خیالات کا اظہار بھی کیا باوجود آج کل زیادہ لوگوں کے آنے اور رَش اور پھر شور کے۔ ایک بالکل ساتھ والے ہمسائے چند دن ہوئے ملنے آئے تھے تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم خوش ہیں کہ ہمیں آپ لوگوں کی ہمسائیگی مل گئی لیکن ہمیں بہرحال اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا چاہیے اور غیر ضروری شور اور ہنگامہ یہاں نہیں کرنا چاہیے اور قانون کے دائرے میں رہ کر سب کام کرنے چاہئیں۔ تو بہرحال مسجد سے تعارف ہمسایوں کو بھی ہو گا اور یہاں سڑک پر سے گزرنے والوں کو بھی ہو گا اور یہ جو تعارف کا راستہ کھلا ہے اس سے آپ کے تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے۔ پس ہر احمدی کو اسلام کی تعلیم کا نمونہ بھی بننا پڑے گا اور بننا چاہیے۔ دنیا کو ایک واضح فرق نظر آنا چاہیے کہ اس دنیا دار معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے کام کرتے ہوئے پھر دین کو دنیا پر مقدم کرنےوالے بھی ہیں اور اپنے پیدا کرنے والے قادر و توانا خدا سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں اور مخلوق کی ہمدردی کرنے والے بھی ہیں اور مخلوق کے کام آنے والے بھی ہیں۔ جب یہ چیز دنیا دار دیکھتے ہیں تو ان میں تجسس پیدا ہوتا ہے اور پھر یہی اسلام کی تبلیغ کے راستے کھولتا ہے۔ پس اب ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اسلام کی تعلیم کی عملی تصویر بننے کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ ۷؍اکتوبر ۲۰۲۲ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳۱ اکتوبر ۲۰۲۲ء)

مزید پڑھیں: مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن اور مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْن میں فرق

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button