مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن اور مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْن میں فرق
بعض علماء کے نزدیک مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی دوسری قراءت مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْن بھی ہے۔ لیکن علامہ فخرالدین رازی کہتے ہیں کہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی قراءت کو ترجیح دیتا ہوں، اس کے لئے وہ لکھتے ہیں کہ لفظ مَلِک کی نسبت مَالِک بندے کو اپنے ربّ کے فضلوں پر کہیں زیادہ امید دلانے والا ہے کیونکہ مَلِک یعنی بادشاہ سے زیادہ سے زیادہ جو امید رکھی جا سکتی ہے وہ عدل و انصاف ہے اور یہ کہ انسان اس سے کلیۃً بچ جائے۔ جبکہ مَالِک وہ ہے جس سے بندہ اپنا لباس، کھانا، رحمت اور تربیت و پرورش ہر چیزکا طالب ہوتا ہے۔ پس مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن میں مالک کا لفظ رکھ کر گویا اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ اے میرے بندو! مَیں تمہارا مالک ہوں، تمہارا کھانا پینا، لباس، جزا، ثواب اور جنت سب میرے ذمہ ہے۔
پھر دوسری بات وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ایک مَلِک، بادشاہ ایک مالک کی نسبت زیادہ مال و دولت رکھنے والا ہوتا ہے۔ کیونکہ مالک مختلف نوعیت کے ہوسکتے ہیں۔ تھوڑی چیز کا بھی جو مالک ہے وہ اس کا مالک کہلائے گا اور بادشاہ کے اختیارات زیادہ ہیں تو اس لحاظ سے وہ کہتے ہیں کہ پھر بھی مَلِک کی امید تجھ سے ہوتی ہے کہ وہ تجھ سے کچھ حاصل کرے جبکہ مَالِکْ وہ ہے کہ تُو اس سے امید رکھتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہم سے نیکیاں اور اطاعتیں بجالانے کا طلبگار نہ ہو گا بلکہ یہ چاہے گا کہ ہم اس سے طلبگار ہوں کہ وہ محض اپنے فضل سے ہم سے عفو اور درگزر اور مغفرت کا سلوک کرے اور ہمیں اپنی جنت عطا فرمائے۔ اس لئے امام کسائی کہتے ہیں کہ مَیں مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی بجائے مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہی پڑھتا ہوں کیونکہ یہ قراءت اللہ تعالیٰ کے کثیر فضل اور وسیع رحمت پر دلالت کرتی ہے۔
تیسرا فرق ان کے نزدیک مَلِک اور مَالِک میں یہ ہے کہ جب بادشاہ کے سامنے سپاہی پیش کئے جاتے ہیں تو وہ ان میں بیماروں، کمزوروں کو ردّ کر دیتا ہے اور صرف قوی بدن اور تندرست افراد کو ہی قبول کرتا ہے اور کمزوروں، بیماروں کو کچھ بھی نہیں دیتا جبکہ مَالِک وہ ہے کہ اگر اس کا غلام بیمار پڑ جائے تو اس کا علاج معالجہ کراتا ہے، اگر غلام کمزور ہو تو مَالِک خود اس کی مدد کرتا ہے، اگر غلام کسی مصیبت میں پڑ جائے تو مَالِک اسے خلاصی دلاتا ہے، پس مَلِک کی بجائے مَالِک کی قراءت گناہگاروں اور بے سہاروں کے لئے زیادہ مناسب حال ہے۔
چوتھا فرق مَلِک اور مَالِک میں یہ ہے کہ مَلِک بادشاہ میں ہیبت اور ملکی انتظام و انصرام کرنے کی وجہ سے رعب و دبدبہ پایا جاتا ہے۔ جبکہ مَالِک میں رحمت و رأفت پائی جاتی ہے اور ہم بندوں کو ہیبت اور دبدبہ کی بجائے رحمت اور رأفت کی زیادہ احتیاج ہے۔ (التفسیر الکبیر لامام فخر الدین الرازیؒ جلد اول زیر آیت مالک یوم الدین)
(خطبہ جمعہ ۹؍ مارچ ۲۰۰۷ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل مورخہ ۳۰؍ مارچ ۲۰۰۷ء)
مزید پڑھیں: کسی غیر مسلم کی وفات پر دعا کرنا