متفرق مضامین

۸؍مئی: ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے’شعور، یکجہتی اور زندگی کی امید‘

ہر سال ۸؍مئی کو دنیا بھر میں ’’عالمی تھیلیسیمیا ڈے‘‘ (World Thalassemia Day) منایا جاتا ہے۔ یہ دن تھیلیسیمیا کے مریضوں، ان کے خاندانوں اور معالجین کے ساتھ یکجہتی کے اظہار، شعور کی بیداری اور بہتر علاج کی کوششوں کو اجاگر کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ اس دن کی بنیاد ۱۹۹۴ء میں انٹرنیشنل تھیلیسیمیا فیڈریشن نے رکھی، جب اس تنظیم کے بانی اور صدر Panos Englezos نے اپنے بیٹے کی موت کے بعد اس بیماری کے خلاف عالمی سطح پر شعور اجاگر کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

۲۰۲۵ء میں یہ دن تھیلیسیمیا کے لیے ایک ساتھ: کمیونٹیز کو متحد کرنا، مریضوں کو ترجیح دینا’’کے تھیم کے تحت منایا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر کی کمیونٹیز کو تھیلیسیمیا کے مریضوں کے بہتر علاج، تحفظ، اور حوصلہ افزائی کے لیے ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے۔

تھیلیسیمیا کیا ہے؟:تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ اس بیماری میں خون کے سرخ خلیات (Red Blood Cells) کے اندر پائے جانے والے ہیموگلوبن کی ساخت غیرمعمولی ہو جاتی ہے، جو جسم میں آکسیجن کی منتقلی کے عمل کو متاثر کرتی ہے۔ ہیموگلوبن دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے: ایک ’’ہیم‘‘ جو آئرن پر مبنی ہوتا ہے اور دوسرا ’’گلوبن‘‘ جو پروٹین پر مشتمل ہوتا ہے۔ تھیلیسیمیا میں گلوبن کی زنجیروں (Chains) یعنی الفا اور بیٹا میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔

تاریخی پس منظر:کہا جاتا ہے کہ تھیلیسیمیا کا تعلق قدیم یونان سے ہے۔ بعض مؤرخین کے مطابق سکندرِ اعظم اس بیماری کو یونان سے بحیرہ روم سے منسلک علاقوں میں لایا۔ لفظ ’’تھیلیسیمیا‘‘ یونانی زبان کے لفظ Thalassa (یعنی سمندر) سے ماخوذ ہے، کیونکہ اس بیماری کے ابتدائی کیسز بحیرہ روم کے اردگرد کے علاقوں میں رپورٹ ہوئے تھے، اسی لیے اسے ’’بحیرہ روم انیمیا‘‘بھی کہا جاتا ہے۔

تھیلیسیمیا کی اقسام: تھیلیسیمیاکی بنیادی طور پر دو اقسام ہوتی ہیں:

۱۔ الفا تھیلیسیمیا

۲۔بیٹا تھیلیسیمیا

ہر قسم کو اس کی شدت کے لحاظ سے مزید تین درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:

(ا) تھیلیسیمیا میجر: شدید نوعیت

(ب)تھیلیسیمیا انٹرمیڈیا: درمیانی شدت

(ت) تھیلیسیمیا مائنر: ہلکی شدت (ٹریٹ)

بیٹا تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کو ہر مہینے خون کی منتقلی کی ضرورت پڑتی ہے، ورنہ جسم میں آئرن کی زیادتی دیگر اعضاء جیسے دل، جگر اور غدود کو شدید متاثر کر سکتی ہے۔

تھیلیسیمیا کی علامات اور تشخیص:تھیلیسیمیا مائنر کے مریض اکثر کسی علامت کے بغیر زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی تشخیص صرف خون کے مخصوص ٹیسٹ کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے۔ تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں میں کمزوری، پیلاہٹ، سست روی، ہڈیوں کی ساخت میں بگاڑ، بار بار بخار اور نشوونما میں کمی جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

علاج اور احتیاط: تھیلیسیمیا کا مکمل علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ کے ذریعے ممکن ہے، جو عموماً نوجوان بچوں میں زیادہ کامیاب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مسلسل خون کی منتقلی اور آئرن کی زیادتی کو کم کرنے والی ادویات مریض کی زندگی کا لازمی حصہ بن جاتی ہیں۔

مریضوں کو فولک ایسڈ، وٹامن ڈی، کیلشیم کا استعمال، متوازن غذا اور باقاعدہ ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔ انفیکشن سے بچنے کے لیے ویکسینیشن اور صفائی کا خاص خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

روک تھام کیسے ممکن ہے؟: تھیلیسیمیا سو فیصد موروثی بیماری ہے، اس لیے اس سے بچاؤ کے لیے سب سے مؤثر طریقہ ’’پری میریٹل اسکریننگ‘‘یعنی شادی سے پہلے خون کے ٹیسٹ کروانا ہے۔ اگر دونوں میاں بیوی تھیلیسیمیا کے کیریئر ہوں، تو ان کے بچوں میں تھیلیسیمیا میجر ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔بدقسمتی سے شادی سے پہلے اکثر طبی ٹیسٹ کو قبولیت نہیں دی جاتی، جس کے باعث ہر سال ہزاروں بچے تھیلیسیمیا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت اور نجی اداروں کو مل کر عوام میں شعور بیدار کرنا ہو گا۔

ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ تھیلیسیمیا کے خلاف مہم کا حصہ بنیں۔ سب سے آسان اور مؤثر قدم خون کا عطیہ دینا ہے۔ تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے آپ کا ایک یونٹ خون زندگی کا پیغام بن سکتا ہے۔ یاد رکھیں، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا:جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔(المائدہ:۳۳)

جماعت احمدیہ کی ذیلی تنظیمیں اور ہیومنیٹی فرسٹ جیسے فلاحی ادارے مختلف ممالک میں عطیہ خون اور چیریٹیز کے ذریعے تھیلیسیمیا کے مریضوں اور اس مرض کے خلاف برسرپیکار NGOs کو مدد فراہم کرتی ہیں۔

(مرسلہ:انیس احمد مربی سلسلہ سیرالیون)

مزید پڑھیں: کانچ کے کھلونے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button