یادِ رفتگاں

میرے نانا سردار احمد خادم صاحب معلم وقف جدید

میرےنانا ۔دعاؤں کا خزانہ

یہ وہ جملہ ہے جو میں اکثر دہرایا کرتی تھی اور ابا جی یہ جملہ سن کر بے ساختہ مسکرا دیا کرتے تھے ۔آج اگر میں اس ہم قافیہ جملہ پر غور کرتی ہوں کہ آخر میں ایسا کیوں کہا کرتی تھی تو مجھے اس کا ایک ہی جواب ملتا ہے کہ میں نے ابا جی کو ہمیشہ نمازوں میں اور عبادات میں منہمک پایا۔ ایک نماز سے دوسری نماز کا انتظار اور درمیانی اوقات میں قرآن پاک پڑھنے اور پڑھانے کا شغف ۔میں اس لحاظ سے بھی ابا جی کی بہت ممنون احسان ہوں کہ انہوں نے مجھے قرآن کے ترجمہ اور عربی گرائمر کی سوجھ بوجھ دی، مجھے ماضی ، مضارع اور فعل امر کی پہچان سکھائی اور ترجمہ رٹنے کے بجائے جستہ جستہ عربی عبارات کا ترجمہ کرنا سکھایا۔الحمدلله علیٰ ذالک۔ اکثر لوگوں کے استفسار پر میں بڑے فخر سے اس بات کا اظہار کرتی ہوں کہ تبلیغ کا شوق اور قرآن فہمی کے لیے جستجو کی بنیاد میرے نانا سردار احمد خادم صاحب معلم وقف جدید نے رکھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو فردوس بریں میں جگہ دے۔آمین

ابا جی کے ساتھ والہانہ محبت کا ایک انوکھا واقعہ: ۱۹۸۲ء کی بات ہے خاکساردوسری جماعت کی طالبہ تھی چھوٹے چھوٹے جملے لکھنے سیکھے تو اباجی کو ایک خط لکھ ڈالا ۔ اباجی ان دنوں تھرپارکر سندھ کے علاقے میں میدان عمل میں بطور معلم متعین تھے مجھے ایڈریس کا تو کوئی اتا پتا نہیں تھا میں نےجو بھی تحریر لکھی اس کو لفافے میں ڈالا اور اوپر لکھا(اللہ میاں یہ خط میرے ابا جی کو مل جائے ) سندھ۔

اباجی نے ہمیں بتایا خدا کی قدرت دیکھیں ہم معلّمین مہینہ میں ایک دفعہ ڈاک وصول کرنے جاتے تھے۔ سینٹر میں مَیں نے وہ لفافہ دیکھا، اجازت مانگی کہ میں اس خط کو کھول لوں مجھے لگتا ہے یہ خط میری نواسی کا ہے۔ دیکھا تو وہ میری ٹوٹی پھوٹی تحریر!سبحان اللہ جس خدا کے سپرد میں نے وہ کاغذ کا ٹکڑا کر دیا اس خدا نے اپنی قدرت نمائی سے کیا خوب وہ امانت پہنچا دی۔ اس واقعے سے جہاں ایک طرف اُفَوِّضُ اَمۡرِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ کا مفہوم آج خوب کھل کر سمجھ آتا ہے وہاں اس دَور میں ایک مشفق ہستی جو سراپا شفقت تھی اس کا تصوریادوں کی قوس قزح میں رنگ بھر تا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

ابا جی ۱۹۸۵ء کے جلسہ سالانہ برطانیہ میں شامل ہوئے تو واپسی پر جہاز کا سفر بڑے دلچسپ انداز میں سنایا کرتے تھے اتنی وضاحت سے کہ جب خاکسار ۲۰۰۰ء میں جرمنی آئی تو ہوائی سفر کے دوران مجھے اباجی کی اکثر باتیں یاد آرہی تھیں۔ برطانیہ سے واپسی پر ابا جی میرے لیے ایک چھوٹا سا پرس جس کا رنگ سرمئی تھابطور تحفہ لے کر گئے جو اب بھی مجھے ایسا یاد ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ یہاں کہیں میرے آس پاس ہی ہے۔

اباجی کی زندگی سےجوکچھ میں نے سیکھا وہ ایک پوری زندگی پر محیط درس تھا۔مثلاً اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا، عبادت کی طرف توجہ ،محنت کرنا اور نتیجہ خدا کے حوالے کر دینا۔

ابا جی اسوۂ نبیؐ پر عمل کرنے کو حرزجان بنائے رکھتے تھے۔ چاہے وہ اپنی بوڑھی والدہ عائشہ بی بی صاحبہ کی خدمت ہو جن کے لیے وہ ہمیشہ اپنی شفقت کے پر جھکائے رکھتے تھے (اپنی بوڑھی والدہ کو کندھوں پر اٹھا کرنقل و حرکت میں ان کی مدد کیا کرتے تھے)، بچوں کے ساتھ حسن سلوک ہو یا پھر ربوہ کے گردا گرد ایک چھوٹی سی غار میں جاکر عبادات بجالانا ہو۔

میرے نانا مرحوم نے اہل تشیع سے احمدیت قبول کی تھی اور شیعیت سے احمدیت تک بے انتہا قربانیاں دیں جن کو چشم تصور میں لانے سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن خدائی تائیدات نے مشکل کی ہر گھڑی میں ان کی ڈھارس بندھائے رکھی۔

ایک دفعہ مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کسی سے جماعتی چندہ لینے جاؤ تو چاہے وہ چندہ تھوڑا بھی دے تو کبھی دل میں بھی برا نہیں منانا ۔

ابا جی کی ایک رؤیا: اسی طرح ابا جی ایک رؤیا خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جو انہوں نے اپنی بیعت کرنے کے بعد دیکھی تھی حرف بحرف پوری ہوئی ۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ ابا جی بیان کرتے ہیں کہ خاکسار ۱۹۴۶ء میں تحقیق حق کے لیے قادیان دارالامان گیا اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کا تعارف جناب قیس مینائی صاحب کے ذریعے حاصل کرتا رہا۔ایک دن مسجد مبارک گیا تو سیڑھیوں کے اوپر صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ  کھڑے تھے۔ آپ اس وقت نو عمر تھے سر پر کاسنی رنگ کی پگڑی باندھ رکھی تھی۔ نہایت خوبصورت جوان تھے۔ میں بغل گیر ہوا اور باتیں کیں تو ان کی مدلل گفتگو سے میں بہت خوش ہوا۔جب بیعت کرکے واپس گجرات آیا تو ایک دن خواب میں صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ؒکو اسی پگڑی میں دیکھا ۔کسی نے کہا یہ زین العابدین ہیں۔ میں اس کی تعبیر یہ کرتا رہا کہ حضرت میاں صاحب بہت عابد و زاہد انسان ہیں جب بھی آپ کو دیکھتا تو یہ بات یاد آجاتی۔ ۱۰؍جون۱۹۸۲ء کو تعبیر سامنے آگئی کہ خاکسار چونکہ اثناء عشریہ سے احمدی ہوا تھا اور اثناء عشری عقیدے کے لحا ظ سے زین العابدین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چوتھے امام تھے۔اور حضرت مرزا طاہر احمد صاحب حضرت اقدس مسیح مو عود علیہ السلام کے چو تھے خلیفہ اور امام جماعت احمدیہ بنے۔ (ماخوذ از مبشر رؤیا ،خوابیں اور الٰہی اشارے صفحہ۳۴۱ تا ۳۴۲)

غرض میرے نانا کی زندگی کا وہ سفر جو یکم جنوری ۱۹۳۲ء کو گجرات کے نواحی قصبے موضع چوہامل سے کس مپرسی کی حالت میں شروع ہوا اور ۲؍فروری ۲۰۰۲ء کو دعاؤں کے لازوال خزانے کی صورت میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ لیکن آپ نیکیوں کے ایسے بیج بوگئے اور دعاؤں کی ایسی آبیاری کر گئے کہ اب اگرچہ اباجی اپنی تربت میں آرام کی نیند سو رہے ہیں فرشتے ان کے نامہ اعمال میں وہ نیکیاں لکھ رہے ہوں گے جو نیکیاں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے شاگرد اور ان کی اولاد کسی نہ کسی رنگ میں کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قبولیت کا شرف بخشےاور ابا جی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرماتا چلا جا ئے۔ آمین

بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جان فدا کر

(غزالہ بھٹی۔ جرمنی)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: راؤ محمد اکبر خان صاحب

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button