خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍مارچ ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ احدمیں آنحضرتﷺاورحضرت سعدؓ کےدشمنوں پر تیر برسانے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: عائشہ بنت سعدؓ نے اپنے والد حضرت سعدؓ سے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں جب لوگوں نے پلٹ کر حملہ کیا تو میں ایک طرف ہو گیا۔ میں نے کہا ان کو خود سے ہٹا دوں گا۔ یا تو میں خود نجات پا جاؤں گا اور یا میں شہید ہو جاؤں گا تو اچانک میں نے ایک سرخ چہرے والے شخص کو دیکھا۔ کہتے ہیں قریب تھا کہ مشرکین ان پر غالب ہو جائیں تو اس شخص نے اپنا ہاتھ کنکریوں سے بھر کر ان کو مارا تو اچانک میرے اور اس شخص کے درمیان مقداد آگئے۔ میں نے مقداد سے پوچھنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ اے سعد! یہ رسول اللہﷺ تھے اور پھر کہا کہ تجھے بلا رہے تھے۔ میں کھڑا ہوا اور مجھے ایسا لگا گویا کہ مجھے کوئی تکلیف ہی نہیں پہنچی۔ پہلے زخمی حالت میں تھے یا تکلیف تھی۔ کہتے ہیں اس کے بعد میں اس آواز کو سن کر ایک دم کھڑا ہوا اور مجھے لگا جیسے مجھے کوئی تکلیف نہیں۔کہتے ہیں کہ میں آپﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا۔ اور میں تیر مارنے لگا تو میں کہتا اے اللہ! تیرا تیر ہے، تُو اس کو اپنے دشمن کو مار دے اور رسول اللہﷺ کہتے اے اللہ! تُو سعد کی دعا قبول کر لے۔ اے اللہ! سعد کے نشانے کو درست کر دے۔ اے سعد! تجھ پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں۔ پس میں نے جو تیر بھی چلایا، رسول اللہﷺ اس کے ساتھ یہ فرماتے تھے۔ اے اللہ! اس کے نشانے کو درست کر دے اور اس کی دعا کو قبول کرلے۔حتیٰ کہ جب میں اپنے ترکش کے تیر چلا کر فارغ ہوا تو رسول اللہﷺ نے اپنے ترکش کے تیر پھیلا دیے اور مجھے ایک بغیر پیکان اور بغیر پَر کے تیر دیا اور نہ اس کا کوئی سرا تھا نہ پیچھے سے صحیح طرح اس کی بناوٹ تھی۔ کہتے ہیں وہ تیر دوسرے تیروں سے زیادہ تیز نکلا۔ علامہ زہریؒ نے لکھا ہے کہ اس دن سعد نے ایک ہزار تیر چلائے تھے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارے میں یوں لکھا ہے کہ سعد بن وقاص کوآنحضرتﷺ خود تیرپکڑاتے جاتے تھے اور حضرت سعدؓ یہ تیر دشمن پربے تحاشا چلاتے جاتے تھے۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے حضرت سعد ؓسے فرمایا: تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں! برابر تیرچلاتے جاؤ۔سعد ؓ اپنی آخری عمر تک ان الفاظ کونہایت فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺ کی احد سے مدینہ واپسی کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آنحضرتﷺ کی اُحد سے مدینہ واپسی کے متعلق روایات میں مذکور ہے کہ غزوہ اُحد کے دن آنحضرتﷺ شہدائے اُحد کی تکفین و تدفین کے بعد مدینہ واپس تشریف لے آئے۔اور یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ مغرب کی نماز مدینہ میں ادا کی گئی۔ چنانچہ ایک مصنف نے لکھا ہے کہ میدان اُحد سے مدینہ واپسی ہوئی تو نماز مغرب کا وقت ہونے پر حضرت بلالؓ نے اذان دی۔ نماز کی ادائیگی کے لیے رسول اللہﷺ حضرت سعد بن عُبادہؓ اور سعد بن معاذؓ کے سہارے مسجد تشریف لائے۔ نماز ادا کرکے آپﷺ پھر گھر تشریف لے گئے۔ نماز عشاء کا وقت ہونے پر حضرت بلالؓ نے پھر اذان کہی لیکن رسول اللہﷺ نیند کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے۔ آرام فرما رہے تھے، نیند لے رہے تھے تو اس اذان کے بعد جو نماز کا وقت تھا وہ اس پہ تشریف نہیں لاسکے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہﷺ کے دروازے پر ہی آپﷺ کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ یہ نہیں کہ واپس آکے نماز پڑھا دی بلکہ ان کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ رات کا کافی حصہ گزر جانے پر حضرت بلالؓ نے رسول اللہﷺ کو نماز کے لیے آواز دی۔ آپﷺ نماز کے لیے تشریف لائے تو آپﷺ کی حالت اب پہلے سے قدرے بہتر تھی۔ عشاء کی نماز پڑھا کر آپﷺ گھر تشریف لے گئے۔ نماز کی جگہ سے گھر تک اصحابِ رسول صفیں بنائے کھڑے تھے۔ان کے درمیان میں سے آپﷺ اکیلے ہی گھر کو چلے گئے۔ اب کی بار کسی سہارے کی ضرورت نہیں پڑی۔ پہلے مغرب کی نماز پہ آئے تھے تو سہارے سے آئے تھے پھر آرام فرمایا۔ عشاء کی نماز لیٹ پڑھی اور پھر آتے جاتے سہارے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اس دوران میں کچھ عورتوں کو حضرت حمزہؓ کے لیے آہ وبکا کرتے پایا تو آپﷺ نے انہیں اس عمل سے روک دیا جیساکہ پچھلے خطبہ میں اس کا ذکر بھی ہو چکا ہے۔ آپﷺ کے گھر تشریف لے جانے پر سوائے پہرے داروں کے تمام مرد و خواتین اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔پھر وہ جو ڈیوٹی پر موجود تھے وہ وہاں رہے۔ اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ یوں لکھتے ہیں کہ ’’سارے انتظامات سے فارغ ہوکر آنحضرتﷺ شام کے قریب مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔‘‘ یعنی کہ سارے کام ہوئے۔ یہ نہیں کہ زخمی تھے تو فوری طور پر آ گئے بلکہ تمام کام سرانجام دیے۔
سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت حمنہ بنت جحشؓ کےجذبات کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: رسول اللہﷺ جب غزوہ اُحد کے بعد مدینہ لوٹے تو آپؐ کو حضرت مصعب بن عمیرؓ کی بیوی حضرت حمنہ بنت جحشؓ ملیں۔ لوگوں نے انہیں ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن جحش ؓکی شہادت کی خبر دی۔ اس پر انہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ پھر لوگوں نے انہیں ان کے ماموں حضرت حمزہؓ کی شہادت کی خبر دی۔ اس پر انہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ پھران لوگوں نے ان کے خاوند حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شہادت کی اطلاع دی اس پر وہ رونے لگیں اور بے چین ہو گئیں۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عورت کے لیے اس کے خاوند کا ایک خاص مقام و مرتبہ ہوتا ہے۔ ایک دوسری روایت میں حضرت حَمنہ بنت جحشؓ کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ جب ان سے کہا گیا کہ تمہارا بھائی شہید کر دیا گیا ہے تو انہوں نے کہا اللہ اس پر رحم کرے اور کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ لوگوں نے کہا تمہارے خاوند بھی شہید کر دیے گئے ہیں۔ کہنے لگیں کہ ہائے افسوس۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عورت کو خاوند سے ایسا تعلق ہے جو کسی اَور سے نہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے بھی ایک خطاب میں حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شہادت کے اس واقعہ کا اپنے انداز میں ذکر کیا ہے۔ جس میں حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شہادت کا واقعہ اور ان کی شہادت پر ان کی بیوی کے جو جذبات تھے ان کا ذکر کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ صحابہؓ یا صحابیاتؓ جن کے اقرباء کی تعداد ایک سے زیادہ ہوتی ان کو ٹھہر ٹھہر کر اس انداز میں خبر دیتے کہ صدمہ یکلخت دل کو مغلوب نہ کرلے یعنی ان شہداء کی تعداد جن کے قریبی رشتے دار تھے اگر ایک سے زیادہ ہوتی تو یہ نہیں کہ ساروں کے بارے میں ایک دم بتا دیا بلکہ آہستہ آہستہ بتاتے تھے۔ پہلے ایک کے بارہ میں بتایا۔ پھر دوسرے کا۔ پھر تیسرے کا۔ اس لیے کہ زیادہ صدمہ نہ پہنچے۔ چنانچہ جس وقت حضورؐ کی خدمت میں حضرت عبداللہ ؓکی بہن حمنہ بنت جحشؓ حاضر ہوئیں تو آپﷺ نے فرمایا اے حمنہ!تو صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ!کس کے ثواب کی؟ آپؐ نے فرمایا اپنے ماموں حمزہ کی۔ تب حضرت حمنہؓ نے کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ غَفَرَ لَہٗ وَ رَحِمَہٗ ھَنِیئًا لَہُ الشَّھَادَةَ۔ اس کے بعد حضورﷺ نے فرمایا اے حمنہ! صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ۔ اس نے عرض کی کہ یہ کس کے ثواب کی؟ آپﷺ نے فرمایا اپنے بھائی عبداللہ کی۔ اس پر حمنہ نے پھر یہی کہا کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ غَفَرَ لَہٗ وَ رَحِمَہٗ ھَنِیئًا لَہُ الشَّھَادَةَ۔ پھر آپؐ نے فرمایا اے حمنہ!صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ۔ انہوں نے عرض کیا حضور یہ کس کے لیے؟ فرمایا مصعب بن عمیر کے لیے۔ اس پر حمنہ نے کہا ہائے افسوس۔ یہ سن کر حضورﷺ نے فرمایا کہ واقعی شوہر کا بیوی پر بڑا حق ہے جوکسی اَور کا نہیں۔ حضرت حمنہؓ سے پوچھا گیا کہ تُو نےصرف خاوند کے لیے ایسا کلمہ کیوں کہا؟ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! مجھے اس کے بچوں کی یتیمی یاد آ گئی تھی جس سے میں پریشان ہو گئی اور پریشانی کی حالت میں یہ کلمہ میرے منہ سے نکل گیا۔ یہ سن کر حضورﷺ نے مصعب کی اولاد کے حق میں دعا کی کہ اے اللہ! ان کے سر پرست اور بزرگ ان پر شفقت اور مہربانی کریں اور ان کے ساتھ سلوک سے پیش آویں۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت ہندؓ کےآنحضرتﷺسےعشق ومحبت کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت ہندؓ جن کا ذکر میں گذشتہ کسی خطبہ میں کر چکا ہوں ان کے آنحضرتﷺ سے عشق و محبت اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے بارے میں یوں ذکر ملتا ہے کہ ان کے خاوند بھائی اور بیٹے کی شہادت کا جب انہیں پتہ چلا کہ تینوں شہید ہو گئے تھے۔ تو یہ تینوں کو پہلے مدینہ لانے کے لیے لے کر آرہی تھیں لیکن پھر واپس لے گئیں۔ اور اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی مرضی تھی کہ اُحد کے شہداء اُحدمیں ہی دفن ہوں۔ حضرت عائشہؓ جو اُحد کی خبر لینے کے لیے نکلی تھیں انہوں نے حضرت ہندؓ سے جو اُحد سے آ رہی تھیں خیر معلوم کی تو اس پر حضرت ہندؓ نے جواب دیاکہ رسول اللہﷺ بخیریت ہیں اور آپﷺ کے بعد ہر مصیبت آسان ہے۔ جب آپﷺ خیریت سے ہیں تو پھر کوئی ایسی بات نہیں۔ اس کے بعد حضرت ہند نے یہ آیت پڑھی وَرَدَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِغَیۡظِہِمۡ لَمۡ یَنَالُوۡا خَیۡرًا ؕ وَکَفَی اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الۡقِتَالَ ؕ وَکَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیۡزًا (الاحزاب:26)۔یعنی اور اللہ نے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا ان کے غیظ سمیت اس طرح لوٹا دیا کہ وہ کوئی بھلائی حاصل نہ کرسکے اور اللہ مومنوں کے حق میں قتال میں کافی ہوگیا اور اللہ بہت قوی اور کامل غلبہ والا ہے۔حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا کہ اونٹنی پر کون کون ہیں؟ تب حضرت ہندؓ نے بتایا کہ میرا بھائی ہے، میرا بیٹا خلاد ہے اور میرے شوہر عَمرو بن جَمُوح ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا کہ تم انہیں کہاں لے جاتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ انہیں مدینہ میں دفن کرنے کے لیے لے جا رہی ہوں۔ پھر وہ اپنے اونٹ کو ہانکنے لگیں تو اونٹ وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ اس پر وزن زیادہ ہے؟ جس پر حضرت ہندؓ کہنے لگیں کہ یہ تو دو اونٹوں جتنا وزن اٹھا لیتا ہے لیکن اس وقت یہ اس کے بالکل الٹ کر رہا ہے۔ پھر انہوں نے اونٹ کو ڈانٹا تو وہ کھڑا ہو گیا۔ جب انہوں نے اس کا رُخ مدینہ کی طرف کیا تو وہ پھر بیٹھ گیا پھر جب انہوں نے اس کا رُخ اُحد کی طرف پھیرا تو اونٹ جلدی جلدی چلنے لگا۔ پھر حضرت ہندؓ رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور آنحضورﷺ کو اس واقعہ کی خبر دی۔ آپﷺ نے فرمایا یہ اونٹ مامور کیا گیا ہے یعنی اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی کام پر لگایا گیا تھا کہ یہ مدینہ کی طرف نہ جائے بلکہ اُحد کی طرف ہی رہے۔ فرمایا کہ کیا تمہارے شوہر نے جنگ پر جانے سے پہلے کچھ کہا تھا؟ کہنے لگیں جب عمرو اُحد کی جانب روانہ ہونے لگے تھے تو انہوں نے قبلہ رُخ ہو کر یہ کہا تھا کہ اے اللہ! مجھے میرے اہل کی طرف شرمندہ کرکے نہ لوٹانا اور مجھے شہادت نصیب کرنا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اسی وجہ سے اونٹ نہیں چل رہا تھا۔ فرمایا کہ اے انصار کے گروہ! تم میں سے بعض ایسے نیکو کارلوگ ہیں کہ اگر وہ خدا کی قسم کھا کر کوئی بات کریں تو خدا تعالیٰ ان کی وہ بات ضرور پوری کرتا ہے اور عمرو بن جموح بھی ان میں سے ایک ہیں۔ پھر آپؐ نے عمرو بن جموح کی بیوی کو فرمایا۔ اے ہند! جس وقت سے تیرا بھائی شہید ہوا ہے اس وقت سے فرشتے اس پر سایہ کیے ہوئے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ اسے کہاں دفن کیا جائے۔ رسول اللہﷺ ان شہداء کی تدفین تک وہیں رُکے رہے۔ پھر فرمایا اےہند! عمرو بن جموح، تیرا بیٹا خلاد اور تیرا بھائی عبداللہ جنت میں باہم دوست ہیں۔ اس پر ہند نے عرض کی یا رسول اللہﷺ! میرے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان کی رفاقت میں پہنچا دے۔