غزوہ خندق یا غزوہ احزاب کی وجہ
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۶؍ستمبر ۲۰۲۴ء)
اس جنگ کی وجہ تسمیہ کہ جنگ کا یہ نام کس طرح رکھا گیا۔ اس جنگ کو جنگِ خندق بھی کہا جاتا ہے کیونکہ عرب کے دستورکے، رواج کے خلاف پہلی مرتبہ مسلمانوں نے خندق کھود کر دفاعی جنگ لڑی تھی اور اس کو جنگِ احزاب بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس کو یہ نام دیا ہے۔ احزاب حِزب کی جمع ہے جس کے معنی جماعت اور گروہ کے ہیں۔ چونکہ اس جنگ میں عرب کی مختلف جماعتیں اور گروہ اکٹھے مل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے اس لیے اس جنگ کو جنگِ احزاب کہا گیا ہے۔
اس کی وجہ بیان کی جاتی ہے کہ ربیع الاوّل چار ہجری میں یہود کا قبیلہ بنو نضیر اپنی عہد شکنی، بغاوت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے جیسی سازشوں کی وجہ سے مدینہ سے جلا وطن کر دیا گیا۔ اس عہد شکن باغی قبیلہ کی سزا تو اس سے کہیں سخت تھی لیکن ان کی درخواست پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عفو و درگزر اور رحم فرماتے ہوئے ان کو جلاوطن کر دیا جس پر یہ قبیلہ اپنا سارا سازو سامان لے کر مدینہ سے کچھ دور خیبر جا کر آباد ہو گیا لیکن ابھی چار مہینے ہی گزرے تھے کہ احسان فراموش اور سازشی کردار کے حامل یہود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف ایک ایسا خوفناک منصوبہ بنایا کہ جس کے مطابق مسلمان مکمل طور پر تباہ ہو جائیں۔ منصوبے کے مطابق بنو نضیر کا سردار حُیَّی بِنْ اَخْطَبْ جو اپنے غرور اور تکبر اور اسلام کے خلاف کینہ اور جوش کی وجہ سے یہود کا ابوجہل کہلائے جانے کا مستحق ہے اپنے سرکردہ ساتھیوں کے ساتھ مکہ گیا اور ابوسفیان اور دیگر قریشی عمائدین سے ملاقات کی اور قریش کو کہا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کا نام و نشان مٹانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ہم تمہارے پاس آئے ہیں تا کہ ہم سب مل کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ایک معاہدہ کریں۔ مشرکینِ قریش کو اَور کیا چاہیے تھا وہ تو پہلے ہی یہ خونی عزائم رکھتے تھے اور بدر اور احد جیسی جنگی کارروائیاں کر چکے تھے لیکن اپنی دلی مراد پوری نہیں کر سکے تھے۔ بدر کے انتقام اور احد کی ندامت کے زخم پھر سے تازہ ہو گئے۔ ابوسفیان نے بنو نضیر کے ان سرداروں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ تم اپنے گھر آئے ہو اور تمام لوگوں میں سے ہمیں وہ زیادہ محبوب ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی دشمنی پر ہماری مدد کرے۔ باہم گفت و شنید کے بعد قریش کے پچاس لوگوں اور ان یہود نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑتے ہوئے پختہ عہد کرتے ہوئے قسمیں کھائیں کہ وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف ان سب کی بات ایک ہو گی اور ہم سب مل کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کو ملیا میٹ کر دیں گے۔ بہرحال ابوسفیان کے ساتھ مدینہ پر ایک زبردست حملہ کرنے کی سکیم اور تاریخ طے کرنے کے بعد بنو نضیر کا یہ وفد عرب کے ان دوسرے قبائل کی طرف گیا جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے اور کئی ایک ناکام حملے بھی کر چکے تھے۔ چنانچہ سب سے پہلے وہ بنو غطفان کے پاس گیا۔ یہ ملک عرب میں ایک بہادر قبیلہ شمار ہوتا تھا اور مسلمانوں کے خلاف بغض اور کینے میں نمایاں تھا۔ یہود نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کرنے کی دعوت دی اور ساتھ خیبر کی ایک سال کی کھجوریں دینے کا لالچ بھی دیا اور یہ بھی بتایا کہ قریش مکہ بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ اس پر بنو غطفان نے بھی حمایت کا وعدہ کر لیا اور اپنی طرف سے چھ ہزار فوج کی ضمانت دی۔ اس کے بعد یہود کا یہ گروہ بنو سلیم کے پاس گیا۔ یہ ایک دوسرا قبیلہ تھا جو مسلمانوں پر پہلے سے حملہ کرنے کے عزائم رکھتا تھا لیکن ناکام ہو چکا تھا۔ جب اتنے بڑے اتحادی فوجی حملہ کا اس قبیلے کو علم ہوا تو بخوشی اس نے بھی حامی بھرلی۔(ماخوذ ازسبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ363-364 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)(غزوہ احزاب از علامہ محمد احمد باشمیل صفحہ 62 مطبوعہ نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
اسی طرح بنو فَزَارَہ اپنے سردار عُیَینہ کی سربراہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے اور عیینہ نے اپنے دوست قبیلے بنو اسد کو دعوت دی، چنانچہ بنو اسد کے سردار طُلَیْحَہ اَسَدِی نے بھی یہ دعوت قبول کرلی اور بنو مُرَّة اور بنو اشجع قبائل نے بھی اس جنگ کی افرادی قوت میں خاصہ اضافہ کیا۔ یہ سارے وہ قبائل تھے جو اپنی بہادری میں پورے عرب میں ایک نام رکھتے تھے۔ (ماخوذ از سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 07صفحہ 270-271 دار السلام ریاض)
اس کی تفصیل لکھتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’مکہ کے قریش اورنجد کے قبائل غَطَفَان وسُلَیم گوپہلے سے ہی مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے اور آئے دن مدینہ کے خلاف حملہ آوری کی فکر میں رہتے تھے مگر ابھی تک انہوں نے اپنی طاقتوں کو اسلام کے خلاف ایک میدان میں مجتمع نہیں کیا تھا۔ لیکن جب یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے لوگ اپنی غداری اورفتنہ انگیزی کی وجہ سے مدینہ سے جلاوطن کیے گئے توان کے رؤساء نے اس شریفانہ بلکہ محسنانہ سلوک کوفراموش کرتے ہوئے۔‘‘یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پہ بہت بڑا احسان کیا تھا۔ اس کو فراموش کرتے ہوئے ’’جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا آپس میں یہ تجویز کی کہ عرب کی تمام منتشر طاقتوں کو ایک جا جمع کر کے اسلام کوملیا میٹ کرنے کی کوشش کی جاوے اورچونکہ یہودی لوگ بڑے ہوشیار وچالاک تھے اور اس قسم کے سازشی کاموں میں خوب مہارت رکھتے تھے اس لیے ان کی مفسدانہ کوششیں بارآور ہوئیں اور قبائل عرب ایک جان ہوکرمسلمانوں کے خلاف میدان میں نکل آئے۔
یہودی رؤساء میں سے سَلَّام بن اَبِی الحُقَیق،حُیَیّ بن اخطب اور کِنَانَہ بن اَلرَّبِیع نے اس اشتعال انگیزی میں خاص طورپر حصہ لیا۔ چنانچہ ان فتنہ پردازوں نے اپنے نئے وطن خیبر سے نکل کر حجاز اورنجد کے قبائل کادورہ کیا اور سب سے پہلے مکہ میں پہنچ کر قریش کواپنے ساتھ گانٹھا اور رؤسائے قریش کوخوش کرنے کے لیے اس بات تک کے کہنے سے دریغ نہیں کیا کہ مسلمانوں کے دین سے تمہارا دین (شرک وبت پرستی) اچھا ہے۔‘‘یہ ان کو ان لوگوں نے کہا۔ ’’اس کے بعد انہوں نے نجدمیں جاکر قبیلہ غَطَفَان کواپنے ساتھ ملایا اوراس قبیلہ کی شاخہائے فَزَارَہ اورمُرَّہ اور اشجع وغیرہ کو اپنے ساتھ نکلنے کے لیے تیار کر لیا۔ پھرقریش اورغطفان کی انگیخت سے قبائل بنوسُلَیم اوربنو اسد بھی اس مخالفِ اسلام اتحاد کی کڑی میں منسلک ہو گئے اوردوسری طرف یہود نے اپنے حلیف قبیلہ بنو سعد کوپیغام بھیج کر اپنی اعانت کے لیے کھڑا کر لیا۔ اس زبردست اتحاد کے علاوہ قریش نے اپنے گردونواح کے قبائل میں سے بھی بہت سے لوگوں کو جو ان کے توابع میں سے تھے اپنے ساتھ ملا لیا اورپھر پوری تیاری کے بعد صحرائے عرب کے یہ خونخوار قبائل مسلمانوں کو ملیامیٹ کرنے کے ارادے سے ایک سَیلِ عظیم کی طرح مدینہ پر امڈ آئے اور یہ عزم کیا کہ جب تک اسلام کو صفحہ دنیا سے مٹا نہیں لیں گے واپس نہیں لوٹیں گے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ573-574)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارہ میں بیان کرتے ہیں کہ’’یہود کے دو‘‘قبیلے ’’…جولڑائی، فساد،قتل اور قتل کرنے کے منصوبوں کی وجہ سے مدینہ سے جلاوطن کر دیئے گئے تھے۔ ان میں سے بنو نضیر کا کچھ حصہ تو شام کی طرف ہجرت کر گیا تھا اور کچھ حصہ مدینہ سے شمال کی طرف خیبر نامی ایک شہر کی طرف ہجرت کر گیا تھا۔ خیبر عرب میں یہود کا ایک بہت بڑا مرکز تھا اورایک قلعہ بند شہر تھا۔ یہاں جا کر بنو نضیر نے مسلمانوں کے خلاف عربوں میں جوش پھیلانا شروع کیا۔ مکہ والے تو پہلے ہی مخالف تھے، کسی مزید انگیخت کے محتاج نہ تھے۔ اسی طرح غَطَفَان نامی نجد کا قبیلہ جو عرب کے قبیلوں میں بہت بڑی حیثیت رکھتا تھا وہ بھی مکہ والوں کی دوستی میں اِسلام کی دشمنی پر آمادہ رہتا تھا۔ اب یہود نے قریش اور غطفان کو جوش دلانے کے علاوہ بنو سُلَیم اور بنواسد دو اَور زبردست قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسانا شروع کیا اور اسی طرح بنوسعد نامی قبیلہ جو یہود کا حلیف تھا اس کو بھی کفارِ مکہ کاساتھ دینے کے لیے تیا رکیا۔ ایک لمبی تیاری کے بعد عرب کے تمام زبردست قبائل کے ایک اتحادِ عام کی بنیاد رکھ دی گئی جس میں مکہ کے لوگ بھی شامل تھے۔ مکہ کے اِردگرد کے قبائل بھی تھے اور نجد اور مدینہ سے شمال کی طرف کے علاقوں کے قبائل بھی شامل تھے اور یہود بھی شامل تھے۔ اِن سب قبائل نے مل کر مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لیے ایک زبردست لشکر تیار کیا۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20صفحہ267)
مزید پڑھیں: قبولیتِ دعا