بغیر لحاظ مذہب ملّت کے تم لوگوں سے ہمدردی کرو
تعلیم قرآنی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ نیکوں اور ابرار اخیار سے محبت کرو اور فاسقوں اور کافروں پر شفقت کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ (التوبہ:۱۲۸)یعنی اے کافرو یہ نبی ایسا مشفق ہے جو تمہارے رنج کو دیکھ نہیں سکتا اور نہایت درجہ خواہشمند ہے کہ تم ان بلاؤں سے نجات پا جاؤ۔ پھر فرماتا ہے لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ(الشعراء:۴) یعنی کیا تو اس غم سے ہلاک ہو جائے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔ مطلب یہ ہے کہ تیری شفقت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ تو ان کے غم میں ہلاک ہونے کے قریب ہے۔ اور پھر ایک مقام میں فرماتا ہے وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَ تَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ (البلد:۱۸) یعنی مومن وہی ہیں جو ایک دوسرے کو صبر اور مرحمت کی نصیحت کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہتے ہیں کہ شدائد پر صبر کرو اور خدا کے بندوں پر شفقت کرو۔ اس جگہ بھی مرحمت سے مراد شفقت ہے کیونکہ مرحمت کا لفظ زبان عرب میں شفقت کے معنوں پر مستعمل ہوتا ہے پس قرآنی تعلیم کا اصل مطلب یہ ہے کہ محبت جس کی حقیقت محبوب کے رنگ سے رنگین ہو جانا ہے بجز خدا تعالیٰ اور صلحاء کے اور کسی سے جائز نہیں بلکہ سخت حرام ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرہ:۱۶۶) اور فرماتا ہے یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْا الْیَہُوْدَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآءَ (المائدۃ:۵۲) اور پھر دوسرے مقام میں فرماتا ہے یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ (آل عمران:۱۱۹) یعنی یہود اور نصاریٰ سے محبت مت کرو۔ اور ہر ایک شخص جو صالح نہیں اس سے محبت مت کرو۔ ان آیتوں کو پڑھ کر نادان عیسائی دھوکا کھاتے ہیں کہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ عیسائی وغیرہ بے دین فرقوں سے محبت نہ کریں لیکن نہیں سوچتے کہ ہریک لفظ اپنے محل پر استعمال ہوتا ہے جس چیز کا نام محبت ہے وہ فاسقوں اور کافروں سے اسی صورت میں بجا لانا متصور ہے کہ جب ان کے کفر اور فسق سے کچھ حصہ لے لیوے۔ نہایت سخت جاہل وہ شخص ہوگا جس نے یہ تعلیم دی کہ اپنے دین کے دشمنوں سے پیار کرو۔ ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ پیار اور محبت اسی کا نام ہے کہ اس شخص کے قول اور فعل اور عادت اور خُلق اور مذہب کو رضا کے رنگ میں دیکھیں۔ اور اس پر خوش ہوں اور اس کا اثر اپنے دل پر ڈال لیں اور ایسا ہونا مومن سے کافر کی نسبت ہرگز ممکن نہیں۔ ہاں مومن کافر پر شفقت کرے گا اور تمام دقائق ہمدردی بجا لائے گا اور اس کی جسمانی اور روحانی بیماریوں کا غمگسار ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ بغیر لحاظ مذہب ملّت کے تم لوگوں سے ہمدردی کرو۔ بھوکوں کو کھلاؤ۔ غلاموں کو آزاد کرو۔ قرض داروں کے قرض دو اور زیر باروں کے بار اٹھاؤ اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کا حق ادا کرو۔ اور فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُربٰی (النحل:۹۱)یعنی خدا تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ کہ احسان کرو جیسے بچہ سے اس کی والدہ یا کوئی اور شخص محض قرابت کے جوش سے کسی کی ہمدردی کرتا ہے۔ اور پھر فرماتا ہے لَایَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَ تُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الممتحنہ:۹)یعنی نصاریٰ وغیرہ سے جو خدا نے محبت کرنے سے ممانعت فرمائی تو اس سے یہ نہ سمجھو کہ وہ نیکی اور احسان اور ہمدردی کرنے سے تمہیں منع کرتا ہے۔ نہیں بلکہ جن لوگوں نے تمہارے قتل کرنے کے لئے لڑائیاں نہیں کیں اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نہیں نکالا وہ اگرچہ عیسائی ہوں یا یہودی ہوں بے شک ان پر احسان کرو۔ ان سے ہمدردی کرو۔ انصاف کرو کہ خدا ایسے لوگوں سے پیار کرتا ہے۔ اور پھر فرماتا ہے اِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَ اَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَ ظٰہَرُوْا عَلٰٓی اِخْراجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ (الممتحنہ:۱۰) یعنی خدا نے جو تمہیں ہمدردی اور دوستی سے منع کیا ہے تو صرف ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے دینی لڑائیاں تم سے کیں اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نکالا اور بس نہ کیا جب تک باہم مل کر تمہیں نکال نہ دیا۔ سو ان کی دوستی حرام ہے۔ کیونکہ یہ دین کو مٹانا چاہتے ہیں۔
(نورالقرآن نمبر۲، روحانی خزائن جلد۹صفحہ۴۳۳تا۴۳۵)
مزید پڑھیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشورہ کرنے کے متعلق بعض روایات