سیرت خلفائے کرام

خلیفۂ وقت سے وابستگی کی ضرورت و اہمیت

(ظہیر احمد طاہر ابن مکرم نذیر احمد خادم مرحوم ومغفور۔جرمنی)

انبیاء علیہم السلام کی بعثت کابنیادی مقصد توحید الہی کاقیام ہوتا ہے۔ وہ اس ذریعہ سے خالق اور مخلوق کے درمیان براہِ راست تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نبی اس تعلق کی مضبوطی اور اپنے متبعین کے دلوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کرتااور دعاؤں کے ذریعہ اُن کی مدد کرتا ہے۔وہ اللہ تعالیٰ کی توحید وتفرید کے قیام کے لیے ایسی سکیمیں بنا تا ہے جن سے اُس کے ماننے والوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت کا بیج نشوونما پاجائے۔اللہ تعالیٰ انبیاء کی وفات کے بعد اُن کے جاری کاموں کو وسعت دینے کے لیے خلافت کا نظام جاری فرمادیتا ہے۔ خلافت توحید کے پودے کی آبیاری کرتی ہے اور اس کی دیکھ بھال کرکے اُسے پروان چڑھاتی ہے۔خلافت، نبی کی روحانی تاثیرات کو اپنے اندر جذب کرکے اُس کے ماننے والوں کی روحانی ترقی میں مدد گاربنتی ہے۔ خلافت نبی کے زمانے سے جاری ہدایت اور نور کی کرنوں کو ایک ریفلیکٹرreflector کی طرح دُور دُور تک پھیلاکرانبیاء کے دَور نبوت کو لمبا اور ممتد کرتی ہے۔خلیفۂ وقت جماعت کی علمی وروحانی ترقی اور اُن کے تعلق باللہ میں اضافہ کے لیے نئی نئی تحریکات جاری کرتا اور پروگرام بنا تا ہےجن پر عمل پیرا ہونے سے اُن میں ایک وقاراور سنجیدگی کی روح پیدا ہوجاتی ہے۔اس طرح وہ ایک نظام کے تحت زندگی گزارنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔اس تعلق کی بنا پراُن کے درمیان رشتہ الفت و محبت مضبوط ہوتاہے اورجماعتِ مومنین اپنے امام کی ہرآواز پر لبیک کہنے کی روح سے سرشار ہوجاتی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت کے نام اپنے ایک پیغام میں فرمایا:”اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہوجائیں۔ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔“ (ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۲۳/مئی تا ۵/جون۲۰۰۳ء صفحہ اوّل)
حضور انور نے ایک اور موقع پر فرمایا:”میں آپ کو خلافت سے وابستگی اور اطاعت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہو ں … آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کو حضرت امام الزمان مسیح موعودؑ کی جماعت میں شامل ہونے کے صدقے نظام خلافت سے وابستگی کی توفیق عطا ہوئی جو خدا کے فضل سے دائمی ہے۔ جس قدر آپ کا خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق ہوگا اسی قدر آپ دینی و دنیاوی حسنات سے حصہ پائیں گے۔ آپ کے آپس کے تعلقات میں بھی بہتری آئے گی معاشرے میں بھی امن کی فضا قائم ہوگی اس لیے عافیت کے اس حصار سے فیض پانے کے لیے آپ سب کو خلافت سے اپنے تعلق کو مضبوط تر کرنا ہوگاغلبہ اور امن عالم کے لیے دعائیں کرنا ہوں گی،اپنے اطاعت کے معیار کو بلند کرنا ہوگا۔“(روزنامہ الفضل ربوہ،۱۷/فروری ۲۰۰۷ءصفحہ ۳)
ضرورت اس بات کی ہے کہ خلافت جیسی عظیم نعمت کی قدر کی جائے۔ خلیفہ وقت کی آوازکو سننا نہ صرف ہمارا قومی فرض ہے بلکہ آپ کے ہر ارشاد پر عمل کرنے میں ہی ہماری کامیابی اور ترقی کا راز مضمر ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:”جب تم بیعت میں شامل ہوگئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے نظام میں شامل ہوگئے ہو تو تم نے اپنا سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا اور اب تمہیں صرف ان کے احکامات کی پیروی کرنی ہے، ان کی تعلیم کی پیروی کرنی ہے۔ اور آپ کے بعدچونکہ نظام خلافت قائم ہے اس لیے خلیفہ وقت کے احکامات کی، ہدایات کی پیروی کرنا تمہارا کام ہے۔“ (الفضل انٹرنیشنل ۱۴/نومبر۲۰۰۳ء صفحہ۵)
خلیفہ وقت چونکہ زمین پر اللہ تعالیٰ کا نمائندہ اور اس کا منتخب بندہ ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اس کی مدد اور راہنمائی فرما تا ہے۔وہ اُسے نورِ فراست عطا فرماتا ہے جس کی روشنی میں وہ دنیا کے حالات وواقعات کا بہتر رنگ میں تجزیہ کرسکتا ہے اور اُس کی روشنی میں جماعت مومنین اور دنیا کی راہنمائی فرماتا ہے۔ اس لیے بلاشک و شبہ خلیفہ وقت کے خطبات اور خطابات موقع محل کی مناسبت سے اور حالات و واقعات کے صحیح ترجمان ہوتے ہیں۔اس لیے ان خطبات اور خطابات کو سننے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اس آسمانی راہنمائی سے کسی وقت محروم نہ ہوں۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلافت کی برکات بیان کرتے ہوئے مورخہ ۱۱ /مئی ۲۰۰۳ ءکو احباب جماعت کے نام ایک خصوصی پیغام فرماتے ہیں:’’قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھناہے۔ یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے۔ اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اگر قدرتِ ثانیہ نہ ہوتو دین حق کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اورمحبت اور وفا اورعقیدت کا تعلق رکھیں اورخلافت کی ا طاعت کے جذبہ کودائمی بنائیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں۔ امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں اوروہی آپ کے لیے ہر قسم کے فتنوں اورابتلاؤں کے مقابلہ کے لیے ایک ڈھال ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی ا للہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو۔ وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو۔ اس طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کرسکتاہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتاہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے توخواہ وہ دنیا بھرکے علوم جانتاہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکروٹا۔‘‘
(ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۲۳/مئی تا ۵/جون۲۰۰۳ء صفحہ اوّل)
خلاصہ کلام یہ کہ خلافت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے جاری فیوض وبرکات کا ایک چشمۂ رواں ہے جو جماعت مومنین کو عطا ہوا ہے۔افراد جماعت کے سوا کون اس حقیقت کو جان سکتا ہے کہ خلافت کے دامن سے وابستہ ہونے کے نتیجےمیں ان کے دلوں میں جوخوشی اور اطمینان دوڑ رہا ہے اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی دوسری خوشی نہیں کرسکتی۔اللہ کرے ہم اور ہماری نسلیں خلافت کے فیوض و برکات سے وافر حصہ پانے والی ہوں۔ آمین

مزید پڑھیں:خلفائے کرام کی اطاعت و ادب کی قابلِ تقلید مثالیں (قسط دوم۔ آخری)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button