کانچ کے کھلونے
تدارک سائبر بلیئنگ (cyberbullying) کے تناظر میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ بچے کے لیے خود اعتمادی کا سرچشمہ خود والدین بنیں۔ ان کے لیے ایسا شفاف آئینہ بنیں، جس میں انہیں اپنی ذات کے خدوخال بنتے ہوئے نظر آئیں۔ سوشل میڈیا کو وہ آئینہ نہ بننے دیں، جس میں نو بالغ کو اپنا چہرہ مسخ و مکروہ دکھائی دے یا پھر خود نمائی و خود بینی سے گوندھی ہوئی جعلی خوبصورتی نظر آئے
کہاوت مشہور ہے کہ زن، زراور زمین فساد کی جڑ ہیں۔ شاید یہ کہاوت اس زمانے میں تخلیق ہوئی ہوگی جب زمانہ سادہ تھا، جو چند بنیادی اکائیوں کے گرد گھومتا تھا۔ پھر زمانوں کی الٹ پلٹ نے دنیا کے معاملات کو پیچ در پیچ، خم دار، گنجل در گنجل، باریک جالوں کا معجون بنا دیا۔ بے شک فساد کی جڑ آج بھی انسان کی جبلتوں اور فطری قوتوں کا بے توازن، بے محل اور بے لگام ہو جانا ہی ہے، لیکن شدید انتشار اور الجھن زدہ زمانے نے اصل جڑ کی سراغ رسانی کے راستے میں پردے حائل کر دیے ہیں۔
پہلے وقتوں میں قتل کا کیس مجرم کے پکڑے جانے اور قتل کے محرک (motive) کے معلوم ہونے پر حل ہو جاتا تھا، لیکن آج کے زمانے میں قتل کا محرک معلوم ہونے پر گویا کیس شروع ہوتا ہے، کیونکہ آج محرک بذات خود ایک راز بن جاتا ہے۔ قتل کے ایسے محرکات سامنے آتے ہیں کہ انسان سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ کیا اس وجہ سے بھی کوئی کسی کو جان سے مار سکتا ہے؟۴؍جولائی ۲۰۲۰ء کو امریکہ کے شہر سان ڈیاگو میں ایک ۱۹ سالہ لڑکی کو سائبربلیئنگ(cyberbullying) کی وجہ سے گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ اس واقعہ نے لوگوں پر انکشاف کیا کہ سائبر بلیئنگ بھی قتل کا محرک بن سکتا ہے۔ اس دلخراش واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جنیسا نامی لڑکی کی تیرہ سالہ بہن کو دو لڑکیاں سائبر بلیئنگ کا نشانہ بنا رہی تھیں۔ جنیسا نے جب اپنی چھوٹی بہن کو شدید اضطراب و کرب میں دیکھا تو اسے ساتھ لے کر ان لڑکیوں سے ملنے گئی، لیکن ملاقات کے مقام پر ان لڑکیوں کے ساتھی بھی موجود تھے۔ تلخ کلامی شروع ہوئی، جو ہاتھا پائی میں تبدیل ہو گئی اور پھر یہ جھگڑا جنیسا کے قتل پر منتج ہوا۔ جنیسا کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا، اور حملہ آوروں نے مقتولہ کی بہن کو بھی زدوکوب کیا۔ جنیسا کی ماں نے این بی سی کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے دنیا بھر کے والدین سے التجا کی کہ وہ ہرگز سائبر بلیئنگ کو نظر انداز نہ کریں، کیونکہ یہ آپ کے بچے کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔فساد کی ایک شکل خودکشی بھی ہے، کیونکہ خودکشی کا مرتکب انسان نہ صرف اپنی زندگی کا خاتمہ کرتا ہے، بلکہ اپنے پیاروں کو مسلسل اذیت کی کیفیت میں مبتلا کر جاتا ہے۔ سائبر بلیئنگ اس فساد کا باعث بھی بن رہی ہے۔
نیو جرسی، امریکہ کی ۱۴ سالہ ہائی سکول کی طالبہ ایڈریانا اولیویا کو سکول کی عمارت میں جسمانی بلیئنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران کلاس فیلوز موبائل سے ویڈیو بھی بناتے رہے۔ پھر یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی گئی، اور اس کے بعد سائبر بلیئنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ گالی گلوچ، دھونس، ہراسانی، بے عزتی اور مذاق و ہنسی کا یہ سلسلہ متاثرہ لڑکی کی خودکشی پر آکر رکا۔ یہ واقعہ فروری ۲۰۲۳ء میں سامنے آیا۔
ان دو واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سائبر بلیئنگ کی وجہ سے قتل اور خودکشیاں ہو رہی ہیں۔ اب یہ نفسیات کی تھیوری نہیں رہی، بلکہ ہمارے ارد گرد ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں نو عمر لڑکوں اور لڑکیوں میں سائبر بلیئنگ کی وجہ سے خودکشی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ Disease Control and Prevention Data اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ۱۴.۹؍فیصد نو عمر طلبہ کو سائبر بلیئنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ۱۳.۶؍فیصد خودکشی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ یوکے میں بھی آن لائن ہراسانی کے باعث نوعمر افراد میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یوکے میں ایسے دل دہلا دینے والے واقعات بکھرے پڑے ہیں، جو آن لائن ہراسانی، دھونس، دھمکی، تذلیل، مذاق اور بے عزتی کے مہلک نتائج کو ظاہر کرتے ہیں۔یہاں نمونے کے طور پر میا جانین کا کیس پیش کیا جا سکتا ہے (یہ مارچ ۲۰۲۱ء کا واقعہ ہے)۔ میا کی عمر صرف چودہ سال تھی۔ اس کے مرد کلاس فیلوز نے اسے آن لائن ہراسانی کا نشانہ بنایا۔ میا کے والد اس بات سے لاعلم تھے کہ ان کی بیٹی کو سائبر بلیئنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس رات میا نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا، اس نے سوشل میڈیا پر ایک آڈیو نوٹ چھوڑا: ’’میں گہرے گہرے سانس لے کر خود کو کل ہونے والی بلیئنگ کے لیے تیار کر رہی ہوں۔‘‘ بیٹی کی موت کے بعد والد نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یوکے میں سائبربلیئنگ کو روکنے کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں۔
غرض، آن لائن ہراسانی کی وجہ سے حقیقی دنیا میں لڑائیاں، جھگڑے اور قتل ہو رہے ہیں، اور سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ نو عمر افراد میں خودکشی کا مضبوط محرک سائبربلیئنگ بن گیا ہے۔
انٹرنیٹ سے پہلے بھی سکول کی عمارتوں میں دھونس، دھمکی، مذاق، تذلیل، ہراسانی اور بے عزتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا (اور اب بھی ہوتا ہے)۔ لیکن جب متاثرہ بچہ سکول سے باہر نکلتا تھا تو تحقیر، تضحیک، تذلیل، تمسخر اور طنز کا سلسلہ رک جاتا تھا۔ آج افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ سائبر بلیئنگ کا سلسلہ سکول کی عمارت کے باہر بھی نہیں رکتا۔ گھر میں موجود بچہ جب بھی اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ کھولتا ہے، تازہ دم برے الفاظ اور ایموجیز اس کا منہ چڑھاتے ہیں۔ اگر وہ کوئی تبصرہ کرتا ہے یا کچھ اپ لوڈ کرتا ہے تو ناپسندیدگی اور برے الفاظ کی بمباری شروع ہو جاتی ہے۔ سائبر بلیئنگ دن رات، چوبیس گھنٹے تعاقب میں رہتا ہے۔انٹرنیٹ سے پہلے سکول کے احاطے میں بچے کو گنتی کے چند سامعین کے سامنے ہراساں کیا جاتا تھا، لیکن سائبر بلیئنگ میں ناظرین سینکڑوں یا ہزاروں میں ہو سکتے ہیں۔ جسمانی ہراسانی کے مقابلے میں آن لائن ہراسانی کو فوری روکنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ عوامل آن لائن ہراسانی کو جسمانی ہراسانی سے کہیں زیادہ تباہ کن بنا دیتے ہیں۔جب سائبر بلیئنگ جھگڑوں، قتل یا خودکشی کے محرک کے طور پر سامنے آتی ہے تو کیا واقعی یہی محرک ہوتا ہے؟ کیونکہ سائبر بلیئنگ تو کی بورڈ یا موبائل سے ٹائپ کیے چند برے الفاظ ہی ہوتے ہیں، تو پھر اتنا ہنگامہ کیسا؟ سکرین پر ٹھہرے ہوئے چند سیاہ، ساکن برے الفاظ نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کو اس قدر دیوانہ بنا دیتے ہیں کہ وہ اپنی قیمتی ترین شے، یعنی زندگی، کا اپنے ہاتھوں خاتمہ کر دیتے ہیں۔
بقا کے لیے انسان ہر آن تگ و دو کرتا ہے۔ سانس لینے میں تکلیف ہو تو فوراً ڈاکٹر کی طرف بھاگتا ہے۔ زخمی ہو جائے تو سارے کام چھوڑ کر مرہم پٹی کی طرف لپکتا ہے۔ کئی دنوں کا بھوکا ہو اور کھانے کے لیے کچھ میسر نہ ہو تو نجاست کو حصہ شکم بنانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ نو عمر تو ابھی زندگی چکھنا شروع کرتے ہیں۔ ابھی تو زندگی کے رنگ و نظارے ان پر کھلنے لگتے ہیں۔ ابھی تو وہ نت نئی بولیوں والے پرندوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں۔ ابھی تو وہ ارد گرد بکھری خوبصورتیوں میں گم ہونے کو بے تاب ہوتے ہیں۔چودہ سال کی میا کو نیلگوں آسمان کے نیچے سرد دھوپ کی میٹھی تمازت چہرے پر پڑتی کیسی بھلی لگتی ہوگی۔ اپنے کمرے کی کھڑکی کے شیشے پر اودھم مچاتے، ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتے، بھاگتے اور فنا ہوتے بارش کے قطروں کو دیکھتی ہوگی تو کیسی سنسنی دل میں دوڑ جاتی ہوگی۔ دوستوں کے درمیان جب وہ جوش و ولولے کے ساتھ بچپن کا کوئی مزے دار قصہ سناتی ہوگی تو دل میں کیسا ہیجان برپا ہوتا ہوگا۔ کتنے چھوٹے چھوٹے سہانے خواب اس نے دوسروں سے چھپا کر اپنے دل کی الماری میں رکھ چھوڑے ہوں گے۔ پھر ایک دن اس کی لاش اسی کمرے سے برآمد ہوئی جہاں وہ اپنی چیزیں سجاتی تھی: کپڑے، جوتے، تصویریں، کتابیں۔ جہاں وہ دنیا فتح کرنے کے منصوبے بناتی تھی، وہی خوابوں کی نگری اس کی مقتل گاہ بن گئی۔ ٹائپ شدہ برے الفاظ سکرین سے نکل کر اس کی ذات میں سما گئے اور رات کے آخری پہر میا نے زندگی کو دھتکار کر شکست کا اعلان کر دیا۔
ہم سوال کو پھر دہراتے ہیں کہ کیا سکرین پر آویزاں برے الفاظ اتنی قوت و صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ نو عمر کو خودکشی پر مجبور کر دیں؟ اس کے جواب کے لیے ہمیں سطح پر تیرتے محرک (سائبر بلیئنگ) کی گہرائی میں غوطہ زن ہونا پڑے گا۔ آج کی دنیا سادہ نہیں ہے۔ معاملات آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔ سطحی محرک اور اس کے پیچھے اصل محرکات کے درمیان پردے حائل ہیں۔ لیکن اس زمانے میں ہم سائنس اور جدید تحقیقات کی بدولت اصل محرکات کو پہچان اور سمجھ سکتے ہیں۔ اس لیے اصل محرکات کے ادراک و فہم کے حصول کے لیے ہمیں نو بالغ کے دماغ و ذہن کو سمجھنا ہوگا۔انسانی دماغ کا حصہ prefrontal cortex اعلیٰ سوچ، فکر، تجزیہ سازی، فیصلہ سازی، منصوبہ بندی، منطقی سوچ اور جذبات کو منظم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ دماغ کا ایک اور حصہ، جسے limbic system کہتے ہیں، جذبات و حساسیت کا مرکز ہے۔ ان دونوں حصوں کے درمیان توازن سے زندگی مثبت انداز میں آگے بڑھتی ہے۔ نو بلوغت کے دماغ میں ان دونوں حصوں کے درمیان عدم توازن ہوتا ہے، کیونکہ prefrontal cortex کی نشوونما ابھی جاری ہوتی ہے، جبکہ جذبات کا مرکز، یعنی limbic system، انتہائی فعال ہوتا ہے۔اب صورتحال کچھ یوں ہوتی ہے کہ جذبات کو کنٹرول کرنے والا اور عقل، فہم، فکر و تجزیہ پر فیصلہ کرنے والا دماغی حصہ نشوونما کے دور سے گزر رہا ہوتا ہے، لیکن جذبات پیدا کرنے اور محسوس کرنے والا حصہ انتہائی فعال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نو بالغ انتہائی حساس (hypersensitive) ہوتے ہیں۔ برے الفاظ اور منفی رائے انہیں پتھر کی طرح آکر لگتے ہیں۔ انہیں اپنی ذات کرچی کرچی بکھرتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جس میں نو بالغ اپنی ذات کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے۔ اس سفر میں وہ لوگوں کی اپنے متعلق رائے، رویے اور سلوک کو آئینہ بنا لیتا ہے، جس میں وہ اپنی ذات کے نقوش ابھرتے ہوئے دیکھتا ہے۔اس دور میں جب والدین نو بالغ کو سوشل میڈیا میں جھونک دیتے ہیں تو بچہ اپنی ذات کو اس میں دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ اچھے، مثبت تبصرے، ڈھیر سارے likes، thumbs up اور پیارے ایموجیز اس کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتے ہیں، لیکن عین اسی مقام پر اس کی خود اعتمادی کو ذبح کرنے کے سامان بھی موجود ہیں۔ جب نو بالغ کو منفی رائے، تمسخر، طنز، گالی گلوچ اور بے عزتی کا مسلسل سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ گہرے اضطراب اور اداسی کے زہریلے دھندلکے میں جا چھپتا ہے۔ یہاں خیالات کا ایک چکر بنتا ہے۔ یہ چکر ایک نقطے کے گرد گھومتا ہے کہ ’میں حقیر ہوں‘یا ’میں بےوقعت، بےحیثیت، بیکار ہوں۔‘ذہن میں خیالات کا یہ چکر چلتا رہتا ہے، اور نو بالغ زہریلے دھندلکے سے پرے ایک اور انتہائی خطرناک ٹھکانے پر پہنچتا ہے، جسے بے بسی کی کیفیت کہتے ہیں، اور بے بسی کی انتہا خودکشی ہے۔نو بلوغت کے سفر میں جو آئینہ (سوشل میڈیا) آپ اس کے ہاتھ میں تھماتے ہیں، وہ نوبالغ کے جسم کے کسی عنصر (ناک، کان، آنکھ، جلد کا رنگ، چہرے کے نقوش وغیرہ) کو تضحیک و تمسخر کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ آئینہ بچے کے نسلی، مذہبی یا ثقافتی پس منظر کی وجہ سے اسے ہراساں کر سکتا ہے۔ یہ آئینہ گالی گلوچ اور لغویات بک سکتا ہے۔ نو بالغ کو احمق، بے وقوف یا ذہنی طور پر پسماندہ قرار دے سکتا ہے۔ بدقسمتی سے اس آئینہ قاتل میں بچہ اپنی ذات کو تلاش کر رہا ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا کمپنیوں کا کاروباری ماڈل موازنہ کو فروغ دیتا ہے، یعنی مقابلے کی فضا قائم رہتی ہے۔ نو بالغ جب دیکھتا ہے کہ دوسرے ڈھیر سارے likes سمیٹ رہے ہیں، لوگ ان کی تعریفیں کر رہے ہیں، مثبت رائے دے رہے ہیں، جبکہ میرا مذاق اڑایا جا رہا ہے، میرے چہرے کے نقوش، میری زبان، میرے نسلی اور مذہبی پس منظر پر ہتک آمیز قہقہے لگائے جا رہے ہیں، اور دوسری طرف کسی کی خوبصورتی اور انداز کی تعریفیں ہو رہی ہیں، وہ سب کا فیورٹ بنا ہوا ہے اور میں کسی کا پسندیدہ نہیں ہوں۔ یہ موازنہ خود اعتمادی کے بخیے ادھیڑ دیتا ہے۔جس طرح ایک سمجھ دار بالغ تجزیہ کرتا ہے، غور و فکر کرتا ہے، نتائج نکالتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے، نو بالغ اس طرح نہیں کرتے، کیونکہ ان کے دماغ کے حصوں کے درمیان ابھی توازن قائم نہیں ہوا۔ یہ کوئی دماغی نقص نہیں، بلکہ ایک قدرتی عمل ہے۔ تین ماہ کے شیر خوار بچے کو مرغن غذائیں نہیں کھلائی جا سکتیں، کیونکہ اس کا نظام ہاضمہ ابھی اس قابل نہیں ہوتا کہ مرغن غذاؤں کو ہضم کر سکے۔ یہ نقص نہیں، قدرتی عمل ہے۔ جب آپ نو بالغ کو سوشل میڈیا کے وسیع ایکسپوژر کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں تو اس کا دماغ و ذہن اس دیو کو گرفت کرنے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے برے الفاظ کی بمباری تلوار کی مانند بچے کے آر پار ہو جاتی ہے۔
نو بلوغت کا دور انتہائی حساسیت کا دور ہے۔ اس عالم میں بچے کانچ کے کھلونوں کی طرح ہوتے ہیں، اور ہم ان کانچ کے کھلونوں کو منجنیق (Catapult) (جس سے پرانے زمانوں میں جنگ کے دوران دشمن کے قلعوں یا لشکروں پر بڑے پتھر اور آگ کے گولے پھینکے جاتے تھے) کے سامنے کر دیتے ہیں۔ میا بھی ایسی ہی کانچ کی گڑیا تھی، جو منجنیق کا لقمہ بن گئی۔ برے الفاظ کی گولہ باری نے اس کی ذات کو کیسے لہولہان کیا ہوگا۔ پھر وہ چپکے سے تن تنہا اضطراب و اداسی کی گہری کھائیوں میں اتر گئی ہوگی۔ ان اندھیروں میں اس نے اذیت کی سوئی سے خیالات کا چکر بنایا ہوگا، جس کا مرکز ’میں بے وقعت و حقیر ہوں‘ تھا۔ پھر تخیل و سوچیں اس مرکز کے گرد تیز تیز گھومنے لگی ہوں گی۔ پھر وہ اس کال کوٹھری میں مقید ہو گئی، جسے بے بسی و بےچارگی کی کیفیت کہتے ہیں۔ یہاں تاریکی مطلق ہے۔ یہاں سے بھاگ نکلنا آسان نہیں۔ میا نے اس کال کوٹھری میں کس قدر آہ و پکار کی ہوگی۔ وہ کرب و الم سے تڑپ کر کتنا روئی ہوگی، چیخی ہوگی۔ اس نے اپنا سر کوٹھڑی کی دیواروں پر پٹخا ہوگا۔ لیکن باہر کی دنیا پرسکون تھی۔ دن میں اس کے کمرے کی کھڑکی تمازت بھری دھوپ سے بغل گیر ہوتی تھی۔ آسمان پر آپس میں گتھم گتھا سفید بادل کی ٹکڑیاں، پھولی پھولی سی نرم چادر کی طرح سایہ فگن رہتی تھیں۔ سڑکوں، بازاروں، چوراہوں پر رونقیں اسی طرح بحال تھیں۔ اسے آتے جاتے دیکھ کر ہمسائے مسکراتے تھے، لیکن اس کی مخفی دنیا میں تلاطم در تلاطم برپا تھا۔ اس کی ذات کے نہاں خانوں میں ہنگامہ قیامت پھوٹ پڑا تھا۔ایک ایسے نو بالغ کا ذہنی پوسٹ مارٹم کرنا، جس نے سن شباب میں زندگی سے منہ موڑ لیا ہو، انتہائی تکلیف دہ کام ہے
احاطہ تحریر میں لانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں نو بالغ کی دنیا سے غیر مانوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اس دنیا کے گلی کوچوں سے واقفیت بڑھانی چاہیے۔ یہاں ابھی سب کانچ کا بنا ہوا ہے۔ اس لیے خبردار! منجنیق سے داغے گئے پتھر اس دنیا کا شیرازہ بکھیر سکتے ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کمپنیوں پر کیس نہیں کر سکتے۔ آپ سائبر بلیئنگ کرنے والوں کے پیچھے نہیں بھاگ سکتے۔ آپ بچے کو زمانے سے کاٹ کر جزیرہ بھی نہیں بنا سکتے۔ اکیسویں صدی میں انہیں سولہویں صدی کا طرز زندگی نہیں دے سکتے۔ ان کی ہر دم نگرانی بھی نہیں کر سکتے۔ ہر آن نظر رکھنا انسانی طاقت و استطاعت سے باہر ہے۔ یہ خدائی کام ہے، اور انسان خدا نہیں بن سکتا۔بچوں کی حفاظت کے لیے جو تدبیریں و احتیاطیں ہم اپنا سکتے ہیں، ان میں سب سے اول ہمیں نو بالغوں کے لیے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور دیگر آلات کے ساتھ ذاتی کا ٹیگ ہٹا دینا چاہیے۔ ہمیں بچوں کو اپنے موبائل فون اور لیپ ٹاپ میں بطور مہمان انٹری دینی چاہیے، اور وہ بھی اس وقت جب اشد ضرورت ہو، یعنی کوئی تعلیمی کام ہو یا کچھ اور مثبت مقاصد مد نظر ہوں۔ دوم والدین کو سوشل میڈیا کی زبان سے واقفیت حاصل کرنی چاہیے۔ نئی نسل سوشل میڈیا پر اپنی ہی تخلیق کردہ اصطلاحات میں بات کرتی ہے۔ مثلاً، بہت سے والدین کو sus، goat، rizz، mid، slay، bussin وغیرہ کا مطلب معلوم نہیں ہوگا۔ نو عمر سوشل میڈیا پر ایموجی (چھوٹی تصویر یا آئیکون، جس سے جذبات، خیالات اور ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے) کو بھی چیٹ (Chat)میں استعمال کرتے ہیں۔ بڑوں کو ایموجی کی زبان سے بھی شناسائی پیدا کرنی چاہیے، کیونکہ اگر آپ کے سامنے نو بالغ کی چیٹ آئے تو آپ سوشل میڈیا اور ایموجی کی زبان کو سمجھے بغیر درست نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے۔
تدارک سائبر بلیئنگ کے تناظر میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ بچے کے لیے خود اعتمادی کا سرچشمہ خود والدین بنیں۔ ان کے لیے ایسا شفاف آئینہ بنیں، جس میں انہیں اپنی ذات کے خدوخال بنتے ہوئے نظر آئیں۔ سوشل میڈیا کو وہ آئینہ نہ بننے دیں، جس میں نو بالغ کو اپنا چہرہ مسخ و مکروہ دکھائی دے یا پھر خود نمائی و خود بینی سے گوندھی ہوئی جعلی خوبصورتی نظر آئے۔ بچے کی عادات، اعمال اور سرگرمیوں کو مسترد یا قبول کرنے کی اتھارٹی والدین کے پاس ہونی چاہیے۔ جب سوشل میڈیا اس اتھارٹی پر قبضہ کر لیتا ہے تو یہ بالکل ممکن ہے کہ جھوٹ، دغا بازی، فریب کاری اور منافقت پر تالیاں پیٹی جائیں، اور سچ بولنے، ایمانداری کا مظاہرہ کرنے اور خرافات کو برا سمجھنے پر گالیاں پڑیں، تمسخر و طنز کا نشانہ بنایا جائے۔غرض، والدین اگر کانچ کے کھلونوں کو سائبر بلیئنگ سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو وہ اپنی اتھارٹی ڈیجیٹل قزاقوں کو نہ دیں۔ بچے کے لیے خود اعتمادی کے مراکز خود بنیں۔
(’اے۔راضی‘)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: ہستئ باری تعالیٰ کے سائنسی دلائل