حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

قبولیتِ دعا

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۳؍جون ۲۰۰۳ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مزیدفرماتے ہیں: ’’وَہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ۔ فرماتا ہے: یہ نہ سمجھ لو کہ اب خداتعالیٰ کی طرف سے چونکہ وعدہ ہو گیا ہے اس لئے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ دُعائیں کرو کہ ایسا ہی ہو۔ خداتعالیٰ سننے والا ہے اور جن باتوں کا تمہیں علم نہیں ، اُن کا اُسے خود علم ہے۔ وہ آپ اُن کا انتظام کر دے گا۔

انسان کی دو حالتیں ہوا کرتی ہیں ۔ ایک یہ کہ انسان پر اس کا دشمن حملہ کرتا ہے اور اُس حملے کا اُسے علم ہوتا ہے اور جہاں تک اُس کے لئے ممکن ہوتا ہے وہ اُس کا مقابلہ کرتا ہے اور اپنے بچاؤ کی تدبیر کرتا ہے۔ دوسری حالت یہ ہوتی ہے کہ اُس کا دشمن ایسے وقت میں حملہ کرتا ہے جبکہ اُسے خبر نہیں ہوتی۔ یا ایسے ذرائع سے حملہ کرتا ہے جن کی اُسے خبر نہیں ہوتی۔ مثلاً اس کے کسی دوست کو خرید لیتا ہے اور اس کے ذریعے اُسے نقصان پہنچا دیتا ہے۔ یا رات کو اُس پر سوتے سوتے حملہ کردیتا ہے۔ یا راستے میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور اندھیرے میں حملہ کردیتا ہے یا وہ اُسے تیر مار دیتا ہے یا کھانے میں زہر ملا کر اُسے کھلا دیتا ہے یا اس کا مال یا جانور چُرا لیتا ہے۔ یہ وہ حملے ہیں جو اُس کے علم میں نہیں ہوتے اور اس وقت ہوتے ہیں جبکہ وہ بے خبر ہوتا ہے۔ ان دونوں حملوں کے بچاؤ کی مختلف تدبیریں ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ دشمن کس طرح اور کس رنگ میں حملہ کرے گا۔ اگر تم کو اُس کے حملہ کا علم ہو مگر تم دفاع کی طاقت نہ پاؤ تو ایک سمیع اور علیم خدا موجود ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دشمن تم پر حملہ آور ہے اور تم میں اُس کے دفاع کی طاقت نہیں ۔ پس تم گھبراؤ نہیں ۔ تم ہمیں آواز دو۔ ہم فوراً تمہاری مدد کے لئے آجائیں گے۔ اور اگر تم سوئے ہوئے ہو یا راستے پر سے گزر رہے ہو یا تاریکی میں سفر کر رہے ہو اور دشمن نے اچانک تم پر حملہ کر دیا ہے یا کھانے میں زہر ملا دیا ہے یا چوری سے مال نکال لیا ہے۔ یا کسی دوست سے مل کر اُس نے تم پر حملہ کر دیا ہے اور تمہیں اس کا علم نہیں ہوا۔ تو فرماتا ہے کہ ہم علیم ہیں ۔ ہم خوب جاننے والے ہیں اور ہمیں ہر قسم کی قوتیں حاصل ہیں ۔ اس لئے ایسی حالت میں بھی تم گھبراؤ نہیں ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کو پکار و اور اُس سے دُعائیں کرو۔ وہ تمہاری تمام مشکلات کو دُور کردے گا اور تمہارے دشمن کو ناکام اور ذلیل کرے گا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد نمبر ۲۔صفحہ ۲۱۵۔۲۱۶)

اب جب انسان پر کوئی مصیبت یا آفت آتی ہے اس وقت توخداتعالیٰ کو پکارتاہے، قدرتی بات ہے اور اس وقت مومن یا کافر کا سوال نہیں ۔ ہرایک کو جو خداتعالیٰ پر یقین نہیں کرتے،دہریہ بھی، اس وقت خداتعالیٰ کو پکارتے ہیں ۔ تو ایسی حالت میں جب اضطراب پیدا ہوتاہے اللہ تعالیٰ سن بھی لیتاہے لیکن مومن کا یہ کام ہے کہ امن کی حالت میں بھی خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتا رہے، اپنی حفاظت کے لئے، جماعت کے لئے، جماعت کی ترقی کے لئے، تاکہ جب مشکل دَور آئے اس وقت جو پہلے مانگی ہوئی دعائیں ہیں ان کا بھی اثر ہو اور خداتعالیٰ اپنی قبولیت کے نظارے جلد سے جلد دکھاسکے۔اس لئے ہمیشہ ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہم پر کوئی مشکل یا مصیبت آئے توہم نے دعائیں مانگنی ہیں ۔ ان مشکلات سے بچنے کے لئے بھی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے اور ہم سب پر یہ فرض بنتاہے کہ دعاؤں پر بہت زور دیں اور مستقلاً اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’پس اگر دوسرے لوگ بھی جو اسلام کے مخالف ہیں اسی طرح ایمان لاویں اور کسی نبی کوجوخدا کی طرف سے آیا،ردّ نہ کریں ۔ تو بلاشبہ وہ بھی ہدایت پا چکے۔ اور اگر وہ روگردانی کریں اور بعض نبیوں کو مانیں اور بعض کوردّ کردیں توانہوں نے سچائی کی مخالفت کی اور خدا کی راہ میں پھوٹ ڈالنی چاہی۔ پس تُو یقین رکھ کہ وہ غالب نہیں ہو سکتے اور ان کو سزا دینے کے لئے خدا کافی ہے۔ اور جو کچھ وہ کہتے ہیں خدا سن رہاہے۔ اور ان کی باتیں خدا کے علم سے باہر نہیں ‘‘۔ (چشمہ ٔمعرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۷۷)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’اگر وہ ایسا ایمان لائیں جیسا کہ تم ایمان لائے تو وہ ہدایت پاچکے اور اگر ایسا ایمان نہ لاویں تو پھر وہ ایسی قوم ہے (کہ) جو مخالفت چھوڑنا نہیں چاہتی اور صلح کی خواہاں نہیں ۔‘‘(یادداشتیں، براہین احمدیہ، حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۴۱۸)

’’فَسَیَکۡفِیۡکَہُمُ اللّٰہُ ۚ وَہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ اور اُن کی شرارتوں کے دفع کرنے کے لئے خدا تجھے کافی ہے اور وہ سمیع اور علیم ہے۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن نمبر۱، بقیہ حاشیہ نمبر۱۱)

پھر آپؑ نے فرمایا:’’خدائے تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں ، تمہارا مددگار ہوگا‘‘۔ (تبلیغ رسالت (مجموعہ اشتہارات)، جلد اوّل صفحہ ۱۱۶)

پس آج کل کے حالات میں کسی بھی احمدی کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔خدائی وعدے ہیں ۔ خداتعالیٰ ہمیشہ ہمارا مدد گار رہا ہے اورانشاء اللہ رہے گا۔لیکن جہاں وہ مخالفین کی بیہودہ گوئی کو سن رہاہے کیونکہ آج کل پاکستان میں پھر کافی شورہوا ہواہے۔اور اس کو علم ہے کہ یہ لوگ احمدیوں کے ساتھ ظلم روا رکھ رہے ہیں اور اپنی تقدیر کے مطابق ایسے لوگوں کی خدا تعالیٰ نے پکڑ کرنی ہے۔انشاء اللہ۔اور ہمارے تجربہ میں ہے کہ ماضی میں بلکہ ماضی قریب میں ایسی پکڑ کے نظارے وہ ہمیں دکھاتارہاہے اور اپنی قدرت نمائی کرتا رہاہے۔پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے دل مایوس ہوں اور ہلکا سا احساس بھی پیدا ہو۔ لیکن ہماری بھی یہ ذمہ دار ی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر یہ ذمہ دار ی ڈا ل رہاہے کہ پہلے سے بڑھ کر میری طرف رجوع کرو اور میرے سے مانگو تاکہ وہ الٰہی تقدیر جو غالب آنی ہے انشاء اللہ، تمہیں بھی احساس رہے کہ تمہاری دعاؤں کا بھی اس میں کچھ حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے تمہاری دعاؤں کو بھی سناہے۔پس ان دنوں میں بہت زیادہ دعاؤں کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتاہے:فَمَنۡۢ بَدَّلَہٗ بَعۡدَ مَا سَمِعَہٗ فَاِنَّمَاۤ اِثۡمُہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ یُبَدِّلُوۡنَہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ (سورۃالبقرہ:۱۸۲) پس جو اُسے اُس کے سُن لینے کے بعد تبدیل کرے تو اس کا گناہ ان ہی پر ہو گا جو اسے تبدیل کرتے ہیں ۔ یقیناً اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

اس آیت میں وصیت کا مضمون بیان کیا گیاہے۔ اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’اگر کوئی شخص وصیت کرے اور بعد میں کوئی دوسرا شخص اس میں تغیر و تبدل کر دے تو اس صورت میں تمام تر گناہ اس شخص کی گردن پر ہے جس نے وصیت میں ترمیم و تنسیخ کی۔ یہ تغیر دو صور توں میں ہو سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ لکھانے والا تو کچھ اورلکھائے مگر لکھنے والا شرارت سے کچھ اور لکھ دے۔ یعنی لکھوانے والے کی موجودگی میں ہی اُس کے سامنے تغیر و تبدل کردے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وصیت کرنے والے کی وفات کے بعد اُس میں تغیر وتبدل کر دے۔ یعنی وصیت میں جو کچھ کہا گیا ہو اس کے مطابق عمل نہ کرے بلکہ اُس کے خلاف چلے۔ اِن دونوں صورتوں میں اس گناہ کا وبال صرف اُسی پر ہوگا جو اُسے بدل دے۔ (اِثْمُہٗ میں سبب مُسبّب کی جگہ استعمال کیا گیا ہے اور مراد گناہ نہیں بلکہ گناہ کا وبال ہے)۔یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اس میں کسی قرآنی حکم کی طرف اشارہ ہے اور وہ حکم وراثت کا ہی ہے۔ ورنہ اس کا کیا مطلب کہ بدلنے کا گناہ بدلنے والوں پر ہوگا، وصیت کرنے والے پر نہیں ہوگا۔ کیونکہ اگر اس وصیت کی تفصیلات شرعی نہیں تو بدلنے والے کو گناہ کیوں ہو۔ اُس کے گناہ گار ہونے کا سوال تبھی ہوسکتا ہے جبکہ کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی ہورہی ہو، اور وہ اسی طرح ہوسکتی ہے کہ مرنے والا تو یہ وصیت کرجائے کہ میری جائیداد احکام اسلام کے مطابق تقسیم کی جائے لیکن وارث اس کی وصیت پر عمل نہ کریں ۔ ایسی صورت میں وصیت کرنے والا تو گناہ سے بچ جائے گا لیکن وصیت تبدیل کرنے والے وارث گناہ گار قرار پائیں گے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دوم۔ صفحہ ۳۶۸)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: انبیاء کی مخالفت

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button