ہمیں باہم مشورے سے کام کرنے چاہئیں
شوریٰ کے ممبران کے مشورے خلیفۂ وقت کو پیش کیے جاتے ہیں اور خلیفۂ وقت کے کہنے پر ہی یہ شوریٰ بلائی جاتی ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ مجلس شوریٰ خلافت کا مددگار ادارہ ہے اور اس لحاظ سے جماعت میں خلافت کے بعد اس کی بہت اہمیت ہےاور ہر ممبر جو شوریٰ کے لیے منتخب ہوتا ہے وہ ایک سال کے لیے ممبر ہوتا ہے۔ اسے اپنی اس اہمیت کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے۔ شوریٰ کے ایجنڈے اور مشورے سے ہی خلیفۂ وقت کو ان مسائل سے بھی آگاہی ہوتی ہے جو مختلف ممالک میں ہیں اور پھرجو آرا آتی ہیں ان سے ان مسائل کے حل کا لائحہ عمل بھی سامنے آ جاتا ہے۔ بعض اوقات بعض باتیں کسی مسئلے کے حل کے بارے میں پوری تفصیل سے بیان نہیں ہوتیں یا ممبرانِ شوریٰ کے سامنے ہی نہیں آتیں تو خلفاء ان باتوں کو بھی لائحہ عمل میں شامل کر لیتے ہیں اور بعض جگہ میں بھی یہی طریق اپناتا ہوں۔تو بہرحال ہر ممبر شوریٰ کو اس بات کا مکمل ادراک ہونا چاہیے کہ اس کی ایک خاص اہمیت ہے اور یہ اہمیت صرف تین دن کے لیے نہیں ہے بلکہ سارا سال کے لیے ہے اور جو بھی لائحہ عمل بنتا ہے اس پر عمل درآمد کروانے میں اور انتظامیہ کو اس پر عمل درآمد کے لیے مکمل تعاون پیش کرنے کی ہر شوریٰ ممبر کو کوشش کرنی چاہیے اور یہ اس کی ذمہ داری ہےاور جب یہ ہوگا تو تبھی جماعتی ترقی کے منصوبے صحیح راستے پر گامزن ہو ں گے اور ان پر احسن رنگ میں عمل ہو سکے گا اور رشد و ہدایت کا جو مشن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے سپرد ہوا ہے ہم اس میں معاون و مددگار بن سکیں گے۔ اگر یہ نہیں تو شوریٰ کا ممبر ہونا بے فائدہ ہے۔
یہاں یہ بھی ذکر کر دوں کہ دنیا کے ہر ملک میں شوریٰ عموماً وہاں کے امیر کے زیر صدارت منعقد ہوتی ہے اور بعض دفعہ رائے دینے والے جوشِ خطابت میں ایسے الفاظ استعمال کر جاتے ہیں جو شوریٰ کے تقدس کے خلاف ہے۔ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ممبران جب بھی اپنی رائے دیں تو جوشِ خطابت دکھانے کی بجائے، ہوش و حواس سے عاری ہو کر تقریر کرنے کی بجائے، جذباتی تقریریں کرنے کی بجائے مناسب الفاظ میں اپنی رائے دیا کریں۔بعض دفعہ رائے دینے والے ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن سے عاملہ کے ممبران یا امیر جماعت جن کی صدارت میں شوریٰ ہو رہی ہوتی ہے یہ سمجھتے ہیں کہ رائے دینے والا بالواسطہ یا بلاواسطہ یا براہ راست ہمارے خلاف بات کر رہا ہے اور پھر صدرِ مجلس ہونے کی حیثیت سے بولنے والے کو سخت الفاظ میں روک دیا جاتا ہے، جھڑک دیا جاتا ہے۔ تو امرا ءکو بھی حوصلہ دکھانا چاہیے۔ یہ حسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ کہنے والا جو کہہ رہا ہے وہ جماعتی مفاد کے لیے اور درد رکھتے ہوئے کہہ رہا ہے۔اگر سخت الفاظ استعمال کیے ہیں یا ایسے الفاظ استعمال کیے ہیںجو شوریٰ کے تقدس کے خلاف ہیں تو نرمی سے اسے ٹوک دیں۔ ایسا رویہ نہ اختیار کریں جس سے شبہ ہو کہ صدر مجلس نے اس بات کو ذاتی عزت کا سوال بنا لیا ہے۔ (خطبہ جمعہ۱۲؍ مئی ۲۰۲۳ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل مورخہ ۲۸؍ مئی ۲۰۲۳ء)
مزید پڑھیں: صبر اور دعا سے ہی کامیابیاں حاصل ہونی ہیں