کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشورہ کرنے کے متعلق بعض روایات

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت میں داخل تھا کہ اپنے دوستوں سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ طبی معاملات میں حکیموں ڈاکٹروں سے۔ قانونی باتوں میں وکلاء سے۔ فقہی مسائل میں علماء سے۔ مکان کی تعمیر ہو تو اوورسیروں یا راجوں مستریوں سے۔ گھر کا معاملہ ہو تو اہل بیت سے۔ اردو زبان کے کسی لفظ کے متعلق کوئی بات ہو۔ تو ہماری والدہ صاحبہ اور میرصاحب مرحوم سے۔ غرض آپ کی عادت تھی کہ چھوٹی بڑی ہر بات میں ایک یا زیادہ اہل لوگوں کو بلا کر مشورہ اور تبادلہ خیال کر لیا کرتے تھے۔ اسی طرح بہت سے معاملات مجلس احباب میں بعد مشورہ طے پاتے تھے۔ غرض آپ حتی الوسع ہر معاملہ میں مشورہ لیا کرتے تھے۔ پھر جس بات پر انشراح ہو جاتا۔ اُسے قبول کر لیا کرتے تھے۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ بھی بہت کثرت سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ دراصل اسلامی نظام کی بنیاد ہی اوّلاً مشورہ اور بعدہٗ توکّل پر ہے۔

(سیرت المہدی روایت نمبر ۴۹۴)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ چوہدری [حاکم علی] صاحب کہتے ہیں کہ ان دنو ں میں مخالفت کا سخت زور تھا اور انگریز حکام بھی جماعت پر بہت بدظن تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ کوئی سازش کے لئے سیاسی جماعت بن رہی ہے ۔اور بٹالہ میں ان دنوں پولیس کے افسر بھی سخت معاند و مخالف تھے اور طرح طرح سے تکلیف دیتے ر ہتے تھے اور قادیان کے اند ر بھی مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین وغیرہ اور ان کی انگیخت سے قادیان کے ہندواور سکھ اور غیر احمدی سخت ایذا رسانی پر تلے ہوئے تھے او ر قادیا ن میں احمدیوں کو سخت ذلت اورتکلیف سے رہنا پڑتا تھا اور ان دنوں میں قادیان میں احمدیوں کی تعداد بھی معمولی تھی اور احمدی سوائے حضرت کے خاندان کے قریباًسب ایسے تھے جو باہر سے دین کی خاطر ہجرت کر کے آئے ہوئے تھے یا مہمان ہو تے تھے ۔حضرت صاحب نے یہ حالات دیکھے اور جماعت کی تکلیف کا مشاہد ہ کیا تو جماعت کے آدمیوں کو جمع کر کے مشورہ کیا اور کہا کہ اب یہاں ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ یہاں رہنا مشکل ہو گیا ہے اور ہم نے تو کا م کرنا ہے ۔یہاں نہیں تو کہیں اور سہی ۔اور ہجرت بھی انبیا ء کی سنت ہے۔ پس میرا ارادہ ہے کہ کہیں باہر چلے جائیں ۔چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ اس پر پہلے حضرت خلیفہ اوّل نے عرض کیا کہ حضور بھیرہ تشریف لے چلیں ۔وہاں میرے مکانات حاضر ہیں اور کسی طرح کی تکلیف نہیں ۔مولوی عبدا لکریم صاحب نے سیالکوٹ کی دعوت دی ،شیخ رحمت اللہ صاحب نے کہا لاہور میرے پاس تشریف لے چلیں ۔میرے دل میں بھی بار باراُٹھتا تھا کہ میں اپنا مکان پیش کر دوں مگر میں شرم سے رُک جاتا تھا آخر میں نے بھی کہا کہ حضور میرے گائوں میں تشریف لے چلیں ۔وہ سالم گائوں ہمارا ہے اور کسی کا دخل نہیں اور اپنے مکان موجود ہیں اور وہ ایک ایسی جگہ ہے کہ حکام کا بھی کم دخل ہے ۔اور زمیندارہ رنگ میں گویا حکومت بھی اپنی ہے ،حضرت صاحب نے پوچھا وہاں ضروریات مل جاتی ہیں۔ میں نے کہا ۔رسد وغیرہ سب گھر کی اپنی کافی ہو تی ہے ۔اور ویسے وہاں سے ایک قصبہ تھوڑے فاصلہ پر ہے جہا ں سے ہر قسم کی ضروریات مل سکتی ہیں ۔حضرت صاحب نے کہااچھا وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا ۔ جہاں اللہ لے جائے گا وہیں جائیںگے۔خاکسارعرض کرتاہے کہ ایک دفعہ ۱۸۸۷ء میںبھی حضرت صاحب نے قادیان چھوڑکر کہیں باہر جانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔جیسا کہ آپ نے اپنی کتاب شحنۂ  حق میں اس کا تذکرہ لکھا ہے ۔

(سیرت المہدی روایت نمبر ۱۳۵)

مزید پڑھیں: صبر: ایک عبادت

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button