یادِ رفتگاں

ہماری پیاری والدہ امۃاللطیف خورشید صاحبہ

والدین انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں اور والدین میں بھی خاص طور پر والدہ کا مقام انتہا ئی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ درج ذیل سطور میں ہماری پیاری والدہ امۃاللطیف خورشید صاحبہ اہلیہ شیخ خورشیداحمدصاحب مرحوم سابق نائب ایڈیٹر الفضل کا ذکر خیر کرنا مقصود ہے۔

آپ کی پیدائش ۶؍اکتوبر ۱۹۲۷ء کو محلہ دارالفضل قادیان میں ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کا نام رکھا ۔آپ کے دادا جان حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ ہرسیاں والے نے ۱۸۹۵ء میں بیعت کی اور آپ کے نانا جان حضرت حکیم اللہ بخش صاحبؓ نے ۱۹۰۵ء میں بیعت کی۔

آپ کی تربیت اوردینی رجحان کا اس سے علم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی پہلی تقریر جلسہ تحریک جدید میں بارہ سال کی عمر میں کی۔ ۱۹۴۰ء میں محض تیرہ سال کی عمر میں آپ کو اپنے حلقہ کی جنرل سیکرٹری مقررکیاگیا۔۱۹۴۵ء میں آپ کو سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ بھی بنا دیا گیا۔

آپ نے اس کے بعد پچاس سال تک لگاتار حضرت چھوٹی آپا صاحبہ کے زیر سایہ لجنہ اماءاللہ میں بھرپور خدمت کی توفیق پائی۔ اس عرصہ میں آپ کو حضرت چھوٹی آپا صاحبہ کے اوصاف جمیلہ کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

۱۹۴۶ء میں برصغیرکی تقسیم سےقبل الیکشن کے سلسلہ میں آپ کو منتظمہ اعلیٰ حضرت ام داؤد صاحبہ کے ساتھ بہت خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ ان کے ماتحت مکرمہ آپا نصیرہ بیگم صاحبہ، مکرمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ اور مکرمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کے ساتھ انتھک کام کیا۔

الیکشن کے وقت جب آپ عالمہ کے امتحان کی تیاری کررہی تھیں تو فکر ہوئی کہ پڑھائی مکمل کیسے ہوگی؟آپ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ  کی خدمت میں دعا کے لیے حاضر ہوئیں تو انہوں نے فرمایا کہ تم الیکشن میں کام کرو میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ کامیاب فرمائے۔

جماعت کی خدمت میں آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت اماں جانؓ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ، حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ،حضرت چھوٹی آپا صاحبہ، مکرمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ، مکرمہ صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ، مکرمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ جیسی شفیق ہستیوں کے ساتھ کام کا موقع ملا۔

۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو آپ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے مکان کی چھت پر کام کر رہی تھیں کہ دیکھا کہ سامنے پوسٹ آفس پر پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا ہے۔ اس خوشی کے موقع پر مٹھائی اور چاولوں کی دیگیں تقسیم کی گئیں۔ مگر چند دن بعد ۱۹؍اگست ۱۹۴۷ء کو ایک اَور اعلان ہو گیا۔ جس کے مطابق قادیان کو انڈیا میں شامل کر دیا گیا۔ اس کے بعد فسادیوں کے حملے شروع ہو گئے اور معصوموں کا قتل عام ہونے لگا۔

ہجرتِ پاکستان:ناناجان لڑکیوں کی تربیت وقاراورعزت کی حفاظت کے بارے میں بہت حساس تھے۔حالات کی سنگینی کے پیش نظر اس خیال سے کہ کم از کم جوان بیٹی پاکستان پہنچ جائے۔اپنی پُر اعتماد، مضبوط اعصاب کی مالک ،بہادر ،لاڈلی بیٹی کو مکرم کیپٹن عمر حیات صاحب سے یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ وہ انہیں سرحد پار لے جاسکتے ہیں۔ ان کے حامی بھرنے پر امی جان اور بہن بھائیوں کا بھی پوچھ لیا اس طرح بفضلِ الٰہی سب کی پاکستان ہجرت کا انتظام کروادیا۔چنانچہ صبح سویرے ٹرک میں سوار ہوئے۔ بارشیں ہو رہی تھیں، راستےانتہائی خطرناک تھے، ٹرک کی رفتارآہستہ اوراس کے آگے حفاظت کے لیے ایک جیپ تھی۔ کافی شام ڈھلے یہ ٹرک بفضل اللہ خیریت سے لاہور رتن باغ پہنچا۔

پاکستان میں خدمات دینی کی توفیق:قیام پاکستان کے بعد رتن باغ لاہور میں خانہ بدوشی کے حالات بہت مشکل تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی مبارک اور بزرگ ہستیوں کی ہمراہی میں یہ وقت آپ کے لیے آسان ہو گیا بلکہ ایمان افروز یادگار بن گیا۔ انہی حالات میں ایک رات ۱۱ بجے آپ کو حضرت چھوٹی آپا جان کا ایک رقعہ ملا (یہ خط امی جان نے اپنے ضروری کاغذات میں محفوظ کر رکھا ہے۔) اس پر تحریر تھا:’’امۃاللطیف صاحبہ، جس عمارت میں عورتیں ٹھہری ہیں اب تک مجھے ہر کام خود آکر کروانا پڑتا تھا۔ اب میں تمہیں اس کام کی منتظم مقرر کرتی ہوں۔ تم خود کام کا ایک پروگرام اور نقشہ بنا لو۔ کھانا سارا ایک جگہ تقسیم ہوتا ہے اور بڑی گڑ بڑی رہتی ہے۔ اگر ہر کمرہ کی الگ الگ منتظمہ بنا دو تو وہ اپنے اپنے کمرہ کی ذمہ دار ہوں گی اور اپنے اپنے کمرہ کی عورتوں کو گِن کر کھانا لے لیا کریں گی، اسی طرح عورتوں کو ہر وقت صفائی کی طرف توجہ دلانے کی بھی ضرورت ہے۔‘‘

ایک رات دو بجے کے قریب حضرت چھوٹی آپا صاحبہ کسی ضروری کام کے لیے رہائشی برآمدہ میں تشریف لائیں تو انہوں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی ہیں۔ اس وقت آپ کی آنکھوں میں درد بھی بہت تھا۔ یہ حالت دیکھ کر اسی وقت آپ کوحضورؓ کے پاس لے گئیں۔ باوجود انتہائی مصروفیت کے حضورؓنےاٹھ کر ایک سفید رنگ کا سفوف آنکھوں میں ڈالنے کے لیے دیا، دعا بھی کی۔ الحمدللہ حضورؓ کی دعا سے صبح تک آرام آ گیا۔

آپ کو رتن باغ لاہور کی جنرل سیکرٹری لجنہ بھی مقرر کیا گیا۔ رتن باغ لاہور میں مبلغین اور درویشوں کے خاندانوں کے علاوہ بہت ضعیف اور کمزور خواتین بھی قریباً دو سال تک ٹھہری رہیں۔ بعد ازاں حضورؓ نے فیصلہ فرمایا کہ اپریل ۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ سے پہلے ان سب کو ربوہ منتقل کر دیا جائے۔

لاہور سے ربوہ روانگی:حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیر سایہ کم و بیش دو صد مستورات اور بچے رتن باغ لاہور کی مختلف عمارتوں میں اکتوبر۱۹۴۷ء سے اپریل ۱۹۴۹ء تک مقیم رہے۔ اسی دوران حضورؓ نے دریائے چناب کے کنارے ربوہ آباد کیا اور لاہور سے ربوہ منتقل ہونے کا فیصلہ فرمایا۔ ۱۲؍اپریل ۱۹۴۹ء کو روانگی تھی۔ محترم میر داؤد احمد صاحب امیر قافلہ تھے۔

فہرست کے مطابق آپ مستورات کے نام پڑھتی جاتیں اور میر صاحب اپنی نگرانی میں تانگوں میں سوار کروا کر اسٹیشن کی طرف روانہ کر دیتے۔ حضورؓدوسری منزل کے برآمدے میں کھڑے ہو کر عمومی نگرانی فرماتے رہے۔ اس مقصد کے لیے ٹرین کی تین بوگیاں ریزرو کروائی گئی تھیں۔ روانگی کے بعد حضورؓ مع خدام بذریعہ کار ربوہ تشریف لائے اور ٹرین کی آمد سے قبل استقبال کے لیے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر مع خدام موجود تھے۔ مستورات کی فہرست آپ کے پاس تھی۔ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر عورت کا نام دریافت فرماتے اور اسٹیشن کے قریب کچی بیرکوں کی طرف دو خدام کے ساتھ بھجوا دیتے۔ جو سامان اٹھائے قیام گاہ پر چھوڑ کر ہدایت کے مطابق واپس آ کر حضورؓ کو مطلع کرتے۔ سبحان اللہ۔ اتنی حفاظت اور آرام سے لاہور سے ربوہ ہجرت مکمل ہو گئی۔

ربوہ آمد اور امی جان کی ذمہ داریاں: ربوہ پہنچنے کے تین دن بعد مورخہ ۱۵، ۱۶ اور۱۷؍اپریل ۱۹۴۹ء کو ربوہ میں پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا جو خدا کے فضل سے بہت کامیاب رہا۔ اس جلسہ پر امی جان نے بموضوع ’’ہماری ہجرت اور موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داریاں‘‘ پرتقریرکرنے کی سعادت حاصل کی۔ آپ نے اس جلسہ میں بطور انچارج دفتر ناظمہ ڈیوٹی بھی دی۔

جلسہ کے دو دن بعد حضورؓ لاہور واپس تشریف لے جارہے تھے کہ امی جان کو پیغام ملا کہ حضورؓ یاد فرماتے ہیں۔ آپ حاضر خدمت ہوئیں۔ حضورؓ اپنے کمرے میں تشریف فرما تھے اور باہر حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کھڑے تھے۔ آپ کے پہنچنے پر حضورؓ نے مکرم شمس صاحبؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’یہاں ربوہ میں امۃاللطیف دارالخواتین کی منتظم ہو گئی ہے۔ یہ اب میرے ساتھ لاہور جا رہی ہے۔ وہاں پر مستورات کی رہائش گاہ کا نقشہ تیار کرے گی اور چرخے لائے گی تاکہ عورتیں فارغ وقت میں چرخے کاتیں۔ اس کی عدم موجودگی میں اس کی والدہ (اہلیہ میاں عبدالرحیم صاحب درویش قادیان) نگران ہوں گی۔‘‘(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ ۱۰۳)

لجنہ اماء اللہ میں خدمات: آپ کو ۱۹۵۵ء سے ۱۹۶۲ء تک سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ مرکزیہ کی حیثیت سے خدمات کی توفیق ملی۔ ایک دفعہ آپ کو خیال آیا کہ لجنہ کے اجتماع کی تاریخوں میں ناصرات کا اجتماع بھی رکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ آپ نے حضرت سیدہ چھوٹی آپا سے اس کی اجازت طلب کی جو آپ نے ازراہِ شفقت مرحمت فرمائی۔ اس طرح ۲۵؍اکتوبر ۱۹۵۶ء کو ناصرات الاحمدیہ کے پہلے اجتماع کا آغاز ہوا جو کہ بعد میں مستقل منعقد ہونے لگا۔الحمدللہ علی ذالک

۱۹۶۴ء میں لجنہ میں شعبہ تجنید کا آغاز ہوا تو اس کی پہلی سیکرٹری آپ کو مقرر کیا گیا۔ آپ نے ۱۵ سال تک اس شعبہ میں کام کیا۔

آپ کے پاس ایک قیمتی یادگار کاغذ حضرت سیدہ چھوٹی آپا کے دست مبارک سے تحریر شدہ ملا ہے جو سال ۱۹۶۲ء۔۱۹۶۳ء کی عاملہ کی فہرست ہے اور بفضل اللہ اس میں دو دفعہ آپ کا نام تحریر شدہ ہے۔ ایک دفعہ مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ جنرل سیکرٹری کے آگے اور دوسری دفعہ سیکرٹری اشاعت کے آگے۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ

آپ نے بتایا کہ ان سے پہلے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مبارک خواتین کام کرتی تھیں۔ میں ایک معمولی حیثیت کی لڑکی تھی۔ یہ خدمت ملنا ایک اعزاز تھا۔ سیکرٹری اشاعت کا عہدہ نیا شروع ہوا تھا۔ آپ پہلی سیکرٹری اشاعت تھیں۔ حضرت سیدہ چھوٹی آپا کی راہنمائی میں انیس سال آپ کو یہ خدمت ادا کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران آپ کو مندرجہ ذیل کتب شائع کرنے کی توفیق ملی:تاریخ لجنہ اماء اللہ مرکزیہ( چارجلدیں)، الازھار لذوات الخمار، المصابیح، یادِ محمود، تربیتی نصاب برائے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ، قواعد و ضوابط لجنہ اماء اللہ، سالانہ کارروائی رپورٹ مجالس لجنہ اماء اللہ، راہ ایمان، جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ، جوئے شیریں۔

ابتدا میں تاریخ لجنہ کا کام حضرت سیدہ چھوٹی آپا کے گھر پر ایک کمرے میں ہوتا تھا پھر لائبریری میں کیا گیا۔ آہستہ آہستہ اس میں اور لڑکیاں بھی شامل ہو گئیں مثلاًامۃالرفیق ظفر صاحبہ، امۃالرؤف صاحبہ، امۃ النصیر صاحبہ، قمر النساء صاحبہ اور انیس بٹ صاحبہ۔ یہ ایک اچھا گروپ بن گیا۔ بڑے خوشگوار ماحول میں کام ہوتا تھا۔ سب ہی بڑے شوق اور محنت سے کام کرنے کی عادی ہو گئیں۔ حضرت چھوٹی آپا کے ساتھ کھانا کھانے کی سعادت ملتی۔آپ کے گھر ہر بدھ کوکڑھی پکتی تھی۔

کتابت کا سارا کام ہمارے والد محترم (شیخ خورشید احمد صاحب) اور آپ کے سپرد تھا۔ حضرت چھوٹی آپا کی دعائیں اور خوشنودی ملتی رہی۔

تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل کے عرض حال میں حضرت چھوٹی آپا صاحبہ نے تحریر فرمایا:’’کتابت و طباعت کے سلسلہ میں کام کا سارا بوجھ مکرم شیخ خورشید احمد صاحب نائب ایڈیٹر الفضل اور ان کی اہلیہ عزیزہ امۃاللطیف صاحبہ سیکرٹری اشاعت لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے ذمہ رہا۔ جنہوں نے رات دن مصروف رہ کر تمام کام سر انجام دیے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔مکرمی شیخ خورشید احمد صاحب نے مسودہ پڑھ کر بہت سے مفید مشورے دئیے۔‘‘

اس شعبہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۶ء تک مدیرہ مصباح کے طور پربھی فرائض سر انجام دینے کی توفیق ملی۔ الحمدللہ

نکاح اور شادی : آپ کا نکاح شیخ خورشید احمد صاحب کے ساتھ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۵۰ء کو ہوا۔ یہ نکاح حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے ربوہ میں پڑھا۔ شیخ خورشید احمد صاحب حضرت خانصاحب فرزند علی خان صاحب کے نواسے تھے۔ شیخ صاحب نہایت متحمل مزاج و صاحب عمل نوجوان تھے۔ بچپن سے ہی صحافت کا رجحان تھا۔ مضمون نویسی میں دلچسپی کی وجہ سے نوجوانی میں ہی ان کے مضامین الفضل میں شائع ہوتے تھے۔ ان مضامین کی عمدگی اور سلاست کی وجہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جلسہ سالانہ اورمجلس مشاورت پران کی تعریف فرمائی۔

۱۵؍اکتوبر ۱۹۵۱ء کو دفاتر احاطہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ میں تقریب رخصتانہ منعقد ہوئی جس میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے علاوہ دیگر بزرگان سلسلہ نے بھی شمولیت کی۔

متاعِ حیات : قادیان سے ہجرت کے وقت آپ کی عمر محض بیس سال تھی۔ قادیان میں آپ کے والد صاحب کا وسیع کاروبار اور بہت سی جائیداد تھی۔ مگر آپ نے اپنی والدہ اور پانچ چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ ہجرت کی اور نہایت نامساعد حالات میں ان سب کی ذمہ داری نہایت احسن رنگ میں انجام دی جس کا ذکر آپ کے والد صاحب نے بہت سی تحریرات میں کیا ہے۔

ربوہ میں مکان کی تعمیر:ربوہ میں کچھ عرصہ کچے مکانوں میں رہنے کے بعد جب ربوہ کی زمین کی خریدوفروخت شروع ہوئی تومحترم نانا جان کے الفاظ کے عین مطابق آپ نے معاملہ فہمی اور دُور اندیشی سے محض ۲۱ سال کی عمر میں ایک جاننے والی (محترمہ سراج بی بی صاحبہ سیکرٹری دفتر لجنہ اماء اللہ ) سے کچھ رقم ادھار لے کر اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے عرض کیا کہ ہم نے ربوہ میں زمین خریدنے کے لیے کچھ رقم جمع کرلی ہے مگر زمین خریدنے کی شرط یہ ہے کہ مکان بھی تعمیر کیا جائے جو ابھی ہم نہیں بنا سکتے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے فرمایا کہ آپ زمین لے لیں۔ آپ گارا بنانے کاانتظام کرنا اور میں اینٹیں لے آؤں گا، مل کر مکان بنا لیں گے۔ حضرت میاں صاحبؓ کی دعاؤں سے دارالرحمت وسطی کے وسط میں ۲۰ مرلہ (ایک کنال) زمین خریدی جس پر کچا مکان شروع کیا گیا جو نہایت بابرکت ثابت ہوا جس میں رہتے ہوئے سب بہن بھائیوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسی گھر میں سب کی شادیاں ہوئیں۔ اسی زمین کے بعد میں چار حصے کر کے تین بھائیوں کو دیا اور ایک حصہ ہمارے پاس رہا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے چاروں حصے اب بھی ہماری فیملی کے پاس ہیں۔

ربوہ سے کینیڈامنتقلی: ۱۹۸۶ء میں کینیڈا آنے سے ایک ہفتہ پہلے ربوہ میں ضلع کی صدور کی مجلس شوریٰ میں حضرت سیدہ چھوٹی آپا صاحبہ نے آپ کا ذکر بڑی محبت سے فرمایا۔ انہوں نے آپ کی کم عمری سے شروع ہو کر تا حال خدمات کو سراہا۔ شفقت سے رخصت کرتے ہوئے سب سے دعا کی تحریک فرمائی کہ اب یہ اپنے بچوں کے پاس کینیڈا جا رہی ہیں ان کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ راستے میں لندن ٹھہر کے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔

کینیڈا میں بھی آپ کو مختلف خدمات کی توفیق ملی۔ یہاں حالات مختلف تھے مگر خدمت کے شوق نے کئی راہیں نکال دیں۔ کمیونٹی سینٹر ریکسڈیل میں رضاکارانہ تبلیغ کا موقع ملا۔ جماعت کے جلسوں میں غیر از جماعت خواتین کو بلاتیں۔ گھر کی تقریبات میں دعوت دیتیں۔ کمیونٹی سینٹر سے روابط کا یہ اچھا نتیجہ نکلا کہ بہت سی خواتین جو کینیڈا آنے پر کچھ مشکلات کا شکار ہوتیں، ان کی مدد کا موقع ملتا رہا۔

کینیڈا میں مکرمہ امۃالرفیق طاہرہ صاحبہ سیکرٹری تعلیم نے آپ کو ایک فہرست دی جس میں ۸۰؍ممبرات کے نام درج تھے۔ انہیں قرآن مجید ناظرہ، ترجمہ، نماز با ترجمہ اور نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانامقصود تھی۔ آپ نے کچھ عرصہ یہ خدمت بھی سرانجام دی۔ اسی طرح آپ کو مرکزی مجلس عاملہ میں بطور اعزازی ممبر شامل کیا گیا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی شفقت: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ والد کی طرح ہر کام پر، ضرورت پر اور مشکل پر نگاہ رکھتے خواہ کوئی بڑا کام ہو یا چھوٹا۔ جس وقت بھی امی جان کو ضرورت پڑتی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں، اور جب لوٹتیں تو نہ صرف کام اور ضرورت پوری ہو جاتی بلکہ آپ کی ملاقات سے ایسا اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی جو کبھی کسی اور ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ جب امی جان کی شادی ہوئی تو قادیان کے درویش پاکستان نہیں آ سکتے تھے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو اس بات کا بہت احساس تھا کہ اپنے باپ کی عدم موجودگی کا صدمہ ہوگا۔ اس لیے آپ نے ازراہِ شفقت غیر معمولی طور پر بہت خیال رکھا اور اور خود تشریف لا کر دعا سے رخصت کیا۔

ایک دفعہ امی جان آپ کی خدمت میں اپنی بہن کے رخصتانہ کی دعا میں شمولیت کی درخواست کرنے کے لیے حاضر ہوئیں تو آپ نے فرمایا کہ ’’میں آؤں گا۔ میں ان شاء اللہ ضرور آؤں گا۔ میں تو تمہارا ڈاکیا بھی رہ چکا ہوں تو کیا آج تمہاری بہن کی شادی پر نہ آؤں گا‘‘۔

ڈاکیا کے لفظ میں آپ کا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ۱۹۴۷ء کے بعد قادیان سے نانا جان کے خطوط دو سال تک نظارت خدمتِ درویشان کی معرفت آتے رہے۔ جس وقت خط آتا حضرت میاں صاحبؓ فوراً بھجوا دیتے اور اکثر ایسا ہوا کہ اگر کوئی پاس نہیں ہے تو خود خط دینے تشریف لاتے۔ دروازہ کھٹکھٹاتے۔ آپ پوچھتیں کون ہے؟ فرماتے’’بشیر احمد‘‘ اور ہاتھ میں خط ہوتا کہ لو اپنا خط، میں نے سوچا کہ جلدی پہنچا دوں تمہیں باپ کے خط کا انتظار ہوگا۔

امی نے یہ واقعہ بھی بتایاکہ ایک دفعہ ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت میاں صاحبؓ ہیں۔ فرمانے لگے کہ ’’میں ایک کام سے آیا ہوں۔ ہماری بڑی ہمشیرہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ  کو خواب آیا ہے کہ حضرت نواب صاحب مرحوم تشریف لائے ہیں اور کچھ کھانے کی خواہش ہے۔ اس لیے انہوں نے آج پلاؤ اور زردہ کی دیگیں پکوائی ہیں وہ تم کو بھجوا دی جائیں۔ مستحقین میں تقسیم کروا دینا لیکن اس طرح نہیں کہ لوگ ہاتھوں میں تھالیاں پکڑے ہوئے ہوں بلکہ ہر ایک کو ٹرے میں لگا کر بھجوانا۔‘‘

والدین کی خدمت: آپ کو والدین کی خاص خدمت کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ کو اپنی امی جان کے ساتھ ہر سرد گرم میں ساتھ دینے کی سب سے زیادہ توفیق ملی۔ قادیان کی زندگی میں امی جان کو باہر کے کاموں کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ساری ذمہ داریاں ابا جی ہی اٹھاتے تھے۔ سوائے سال میں ایک مہینہ وقف عارضی کے، کبھی گھر سے باہر نہیں رہے تھے۔ اکٹھے وقت گزرتا تھا مگر جب تقسیم برصغیر کے بعد بادل ناخواستہ قادیان اور ابا جی سے الگ رہنا پڑا تو آپ نے اپنی امی جان کا بہت ہاتھ بٹایا۔ والدہ کی وفات کے وقت آپ کی عمر پچاس سال تھی اور اس سارے عرصہ میں قریباً دو سال الگ رہی ہوں گی۔ اس رفاقت سے جہاں آپ کو بچوں کی تربیت اور لجنہ کے کاموں کے لیے سہولت رہی وہاں امی جان کو بھی ہر کام میں مدد ملتی رہی۔

نانی جان اپنی آخری بیماری میں اپنے گھر سےآپ کے پاس آ گئیں۔ آپ کو اپنی امی جان کی زندگی کی آخری گھڑیوں میں بھی خدمت کی توفیق نصیب ہوئی۔

اپریل ۱۹۷۹ء میں ناناجان شدید بیمار ہو گئے۔ آپ فوراً قادیان پہنچیں جس سے نانا جان کو بہت خوشی ہوئی۔ دیکھ بھال سے افاقہ ہوا۔ دوسرے بچے اور عزیز بھی قادیان پہنچے مگر ویزہ کی مجبوریوں کی وجہ سے زیادہ ٹھہر نہ سکے۔ آپ نے حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سے اپنے ابا جان کو علاج کے لیے پاکستان لے جانے کی اجازت لے لی۔ نانا جان قادیان چھوڑنا نہیں چاہتے تھے لیکن آپ نے وعدہ کیا کہ بتوفیق الٰہی انہیں قادیان واپس پہنچائیں گی۔ ہمارے بڑے ماموں جان مکرم عبدالمجید نیاز صاحب کے نام ایک مکتوب میں صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے تحریر فرمایا کہ ’’…آپ نے کچھ عرصہ قادیان میں قیام کر کے اپنے بزرگ والد محترم ہمارے درویش بھائی محترم بھائی عبدالرحیم صاحب دیانت کی خدمت کی توفیق پائی اور ان کی دعائیں لیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں آپ کے حق میں پوری فرمائے۔ آپ کی بڑی ہمشیرہ اس معاملہ میں آپ سب پر سبقت لے گئی ہیں۔‘‘

پاکستان آ کر نانا جان سب عزیزوں سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ زندگی کے آخری دن جس کمرے میں نانی جان رہتی تھیں، قیام تھا۔ نانا جان کہتے تھے کہ ’’حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تمہاری امی (نانی جان) کی روح مجھے یہاں لے آئی ہے۔‘‘اسی کمرے میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) آپ سے ملنے کے لیے تشریف لائے اور محبت بھرے انداز میں ایک درویش قادیان کو پیار کیا۔ پھر ہمارے نانا جان ہم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے اور اس خالق حقیقی سے جا ملے جو سب سے زیادہ پیارا اور بلانے والا ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

آپ نے غیر معمولی ہمت سے کام لےکرنہایت مشکل حالات میں میت کو پاکستان سےقادیان لے کر جانے کے سارے انتظامات کیے اور نانا جان کا جسد خاکی بہشتی مقبرہ قادیان پہنچا کر اپنا وعدہ پورا کیا۔

آپ کے چند اخلاق: میری والدہ کو قرآن مجید سے عشق تھا۔ آپ نے سینکڑوں بچوں کو قرآن پڑھایا۔ روز نمازِ عصر کے بعد بچے آپ کے پاس آ جاتے تھے۔ عصر سے مغرب تک کا وقت آپ کا بہت مصروف گزرتا تھا۔کسی بچے کا سبق سن رہی ہیں تو کسی کو سبق دے رہی ہیں تو کسی کی بیٹھے بیٹھے ہی غلطی نکال رہی ہیں۔ پھر جب کوئی بچہ قرآن مجید پورا ختم کرلیتا تو آپ اس کی خوشی میں شریک ہوتیں اور اس کے لیے تقریب آمین کا اہتمام کرتیں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ اس بچے کی والدہ کو اِتنی فکر نہ ہوتی جتنی فکر آپ کو ہوتی تھی۔

آپ کو خلافت اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے انتہائی وفا کا تعلق تھا۔

آپ میں ایک اور خوبی امانت کی تھی۔ لوگ نہ صرف آپ کو امانتدار مانتے تھے بلکہ کثرت سے اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھواتے بھی تھے۔

آپ سلائی کڑھائی میں بھی کافی مہارت رکھتی تھیں اور اس مہارت سے آپ نے بے سروسامانی کے حالات میں کافی فائدہ اٹھایا اور نہایت کمزور مالی حالات میں سلائی کڑھائی کرکے آپ نے اپنے بہن بھائیوں کی کفالت کی ذمہ داری نہایت احسن طریقے سے ادا کی۔

آپ نہایت صائب الرائے خاتون تھیں جب بھی کسی معاملہ میں کوئی رائے دیتیں تو نہایت جچے تلے انداز میں بہترین رائے پیش کرتیں ۔

آپ ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتیں۔ جب بھی آپ سے کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کچھ مانگا تو حتی المقدور اس کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے بے شمار لوگوں کو نوکریوں پر لگوایا۔ اسی طرح کئی لوگوں کو گھر بنانے میں مدد کی اور کئی غریب بچیوں کے نہ صرف رشتے کیے بلکہ انہیں اپنے گھر سے رخصت بھی کیا اور ایک بیٹی کی طرح ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھا یہاں تک کہ آگے ان کے بچے بھی ہوگئے تب بھی ان کا خیال رکھتیں۔

وفات: ہماری پیاری امی جان مورخہ ۱۹؍جنوری ۲۰۲۲ء کو مختصر علالت کے بعد اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں۔انا للہ و انا لیہ راجعون۔

بلانے والا ہے سب سے پیارااسی پر اے دل تو جاں فدا کر

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍فروری ۲۰۲۲ء میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:’’…ان کے بیٹے لئیق احمد خورشید کہتے ہیں کہ والدہ صاحبہ مرحومہ نے اپنے گھر میں تمام بچوں کو ایک گہرا سبق یہ سکھایا تھا کہ اگر جماعت یا خلافت کے خلاف کوئی بات ہو تو اسے بالکل نہ سننا اور اگر کان میں بات پڑ بھی جائے تو اس کو بالکل نہیں دہرانا اور منہ پر نہیں لانا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی خاص تائیدات جماعت اور خلافت کے ساتھ ہیں۔ اور انہوں نے کہا کہ ہر ایک ابتلا اور فتنہ کے بعد خدا تعالیٰ کے نشانات جماعت کے حق میں ظاہر ہوئے ہیں اس لیے تم لوگ بلاوجہ شامل نہ ہو جانا فتنے میں۔

پھر لکھا ہے کہ آپ جماعت کی چلتی پھرتی ایک تاریخ تھیں۔ بہت ملنسار، سب کا بھلا چاہنے والی، متوکل، خدمت خلق کا بہت شوق تھا اور بہت سے نئے آنے والے مہاجر خاندانوں کو بسانے میں سرگرمی سے حصہ لیتی تھیں۔ وہ جو کینیڈا میں آتے تھے۔

پھر ان کے ایک بچے نے لکھا ہے کہ ہماری امی جان کو خلافت سے والہانہ عشق تھا ہر وقت ہم سب کو خلیفہ وقت کے لیے دعاؤں کی تاکید اور یاد دہانی کرواتی تھیں نمازوں کی بے انتہا پابند اور اہتمام سے ادا کرتیں۔ جمعہ کا دن ایک عید کا دن ہوتا تھا۔

قرآن مجید سے عشق کے بارے میں کہتی ہیں کہ بے شمار بچوں کو قرآن مجید پڑھایا اور صحیح تلفظ سے ادا کرنے پر تاکید کیا کرتی تھیں۔ ان کے پوتے وقاص خورشید مربی سلسلہ جو ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ دعا اور پڑھائی کی طرف توجہ دلاتی تھیں۔ جماعت کی تاریخ کے حوالے سے کہانیوں کے ذریعے بچوں کو جماعت کی تاریخ سکھاتی تھیں تاکہ ان کی بہتر رنگ میں تربیت ہو۔ ان کی ایک پوتی کہتی ہیں کہ دادی اماں کو ۹پوتیاں نصیب ہوئیں۔ انہوں نے نہ صرف ہم لڑکیوں کی تربیت کی کہ ہم لجنہ اماء اللہ کی خادمہ بنیں بلکہ ادب و آداب اور صحیح پردہ کیسے کرنا ہے، گھر کی دیکھ بھال، مہمان نوازی، سلائی، اُردو میں لکھنا پڑھنا ان ساری چیزوں کے بارے میں ہمارے لیے ایک مستقل راہنما تھیں۔ جیسے جیسے ہم بالغ ہوتے انہوں نے ہمیں ہمارے شوہروں اور سسرال کا اچھا خیال رکھنے کی ترغیب دی اور بہت خوش ہوتیں جب ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ہم نے اپنے سسرال کے ساتھ وقت گزارا ہے۔ ان فرائض کے ساتھ انہوں نے ہمیں اچھی طرح سے تعلیم یافتہ بننے اور کیریئر بنانے کی طرف ترغیب بھی دی۔ سالگرہ نہ منانے جیسی غیر اسلامی چیزیں، ان چیزوں پر مضبوطی سے قائم تھیں لیکن انہوں نے سالگرہ اور خاص مواقع کو یادگار بھی بنایا کیونکہ وہ ہمیشہ ہمیں ایک فیملی کی طرح اکٹھے حمد و ثناء نظم پڑھنا اور با جماعت نمازوں کی ادائیگی اور دعاؤں کے لیے کہتی تھیں۔ پھر یہ کہتی ہیں کہ کینیڈا میں بطور احمدی مسلمان آپ ہماری پرورش کا ایک لازمی حصہ تھیں اور انہوں نے ہمیں سکھایا کہ ہم نے اپنے ایمان اور مغربی معاشرے کو کس طرح ہم آہنگ طریقے سے متوازن کرنا ہے اس بارے میں ہمیں سکھایا۔

یہ ہے ماؤں اور بزرگوں کا کام کہ جو نئی نسل کو سنبھالنے کے لیے ضروری ہے کس طرح تربیت کرنی ہے نئی نسل کی ان کو دین بھی سکھانا ہے اور اس معاشرے میں رہتے ہوئے بغیر کسی احساس کمتری کے ان کو اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے کی طرف توجہ بھی دلانی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد کو ان کی نسل کو نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘آمین

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری والدہ صاحبہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے اور ہم سب کو اور ہماری نسلوں کو آپ کے بے مثال نمونہ پر عمل کرنے والا، دین کی خدمت کرنے والا، خلافت سے مضبوط تعلق رکھنے والا بنائے۔ آمین

(کرنل ڈاکٹر(ر)نصرت ظفر۔ کینیڈا)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: مکرم چودھری منیر احمد صاحب مرحوم

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button