خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوۂ موتہ کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے دعاؤں کی تحریک (خلاصہ خطبہ جمعہ ۲؍مئی ۲۰۲۵ء)

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭… آج کل ہم جن ملکوں میں رہ رہے ہیں یہاں لوگ خدا کو بُھلا چکے ہیں، اس دَور میں احمدیوں کو اپنی عبادات کی طرف بہت توجہ کرنی چاہیے

٭… زمین میں جو کچھ ہے اگر تم وہ سب خرچ کرڈالو تو جو لوگ اس مہم [غزوۂ موتہ]پر روانہ ہوگئے ہیں تم اُن کے فضل کو نہیں پاسکتے(ارشاد نبویﷺ)

٭…خاص طور پر آج کل پاکستان اور ہندوستان کے جو حالات ہیں ان کے لیے دعا ئیں کریں۔اللہ تعالیٰ ظلم کا خاتمہ کرے مظلوموں کی حفاظت فرمائے

٭… دنیا کےسب مظلوموں کے لیے دعا کریں۔ بظاہر تو دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، اللہ تعالیٰ ہی اسے تباہی سے بچائے
اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب یہ خدا کی طرف توجہ کریں

٭…مکرم محمد آصف صاحب شہید ابن رفیق احمد صاحب آف بھلیر ضلع قصورکا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲؍مئی ۲۰۲۵ء بمطابق ۲؍ہجرت ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامسايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۲؍مئی۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

غزوۂ موتہ کا ذکر ہورہا تھا

اس حوالے سےمزیدتفصیل اس طرح ہےکہ جب آنحضرتﷺنےحضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو الوداع کہا تو حضرت عبداللہؓ نےعرض کیا کہ یارسول اللہﷺ! مجھے کسی ایسی چیز کا حکم دیں جو مَیں آپ کی طرف سے یادکرلوں۔ آنحضرتﷺ نےفرمایا:کل تم ایسے شہر پہنچو گے جہاں سجود کم ہوتے ہیں۔پس تم وہاں سجود کثرت سے کرنا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ

یہ بہت بڑی نصیحت ہے، آج کل ہم جن ملکوں میں رہ رہے ہیں یہاں لوگ خدا کو بُھلا چکے ہیں، اس دَور میں احمدیوں کو اپنی عبادات کی طرف بہت توجہ کرنی چاہیے۔

پھر آپؓ کی درخواست پر آنحضرتﷺ نے مزید فرمایا کہ

اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو، یہ ہر معاملے میں تمہارا مددگار ہے۔

جب حضرت عبداللہؓ  کو الوداع کہا گیا تو وہ رو پڑے۔لوگوں کے پوچھنے پر آپؓ نےاللہ کی قسم کھاکر کہا کہ مجھے نہ دنیا سے محبت ہے اور نہ تم سے۔ مَیں نے رسول اللہﷺ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا ہے جس میں آگ کا ذکر ہے اور مَیں نہیں جانتا کہ آگ پر وارد ہونے کےبعد میری کیا حالت ہوگی۔ اس پر لوگوں نے انہیں تسلی دی اور دعا دی کہ خیریت سے آپ سب ہماری طرف واپس آئیں۔

جمعے کے دن مہم میں شامل تمام افراد روانہ ہوگئے، مگر حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے یہ سوچا کہ مَیں جمعے کی نماز رسول اللہﷺ کے پیچھے اداکرکے اُن سے جاملوں گا۔ آنحضرتﷺ نے انہیں دیکھ کر دریافت کیا کہ تجھے کس چیز نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہونے سے روکے رکھا؟ اس پر حضرت عبداللہ ؓنے عرض کیا کہ مَیں نے چاہا کہ آپؐ کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کرکے اپنے ساتھیوں سے جاملوں۔ آپؐ نے اس پر فرمایا کہ

زمین میں جو کچھ ہے اگر تم وہ سب خرچ کرڈالو تو جو لوگ اس مہم پر روانہ ہوگئے ہیں تم اُن کے فضل کو نہیں پاسکتے۔

حضرت خالد بن ولید ؓ ایک ماہر شہ سوار تھے، وہ بھی اس مہم میں ایک عام سپاہی کے طور پر شریک تھے۔ اس مہم کی روانگی کےوقت خالد ؓکو اسلام قبول کیے ابھی تین ماہ ہوئے تھے۔

مسلمان ابھی روانہ ہی ہوئے تھے کہ دشمنوں کو مسلمانوں کی روانگی کی خبر مل گئی اور انہوں نے بھی لشکر تیار کرنا شروع کردیا۔ مسلمانوں کو خبر ملی کہ لشکر کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے۔اس موقعے پر حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے صحابہ ؓکا حوصلہ بڑھایا اور انہیں کہا کہ دونوں یعنی شہادت اور فتح میں سےدونوں ہی تمہارے لیے بہتر ہیں اور اسی کی تم تمنّا کرکے نکلے تھے۔ یہ سن کر سارے لشکرنے کہا کہ ابنِ رواحہؓ نے ٹھیک کہا۔ صحابہ ؓآگے بڑھے تو مشارف کی بستی کے قریب انہیں ہرقل کے لشکر ملے جو اہلِ روم اور اہلِ عرب پر مشتمل تھے۔ مسلمانوں نے انہیں دیکھا تو اُس بستی کی طرف ہٹ گئے جسے موتہ کہا جاتا تھا۔ اس مقام پر مسلمانوں نے جنگ کی تیاری کی، حضرت ابوہریرہؓ اس جنگ میں شریک ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ جب دشمن ہمارے قریب ہوا تو ہم نے اتنی کثیر تعداد، اتنی عمدہ تیاری ، گھوڑے اور سوناوغیرہ پہلے نہ دیکھا تھا، اسے دیکھ کر میری تو آنکھیں چندھیا گئیں۔ اس پر مجھے حضرت ثابت ؓنے کہا کہ تم کثیر لشکر دیکھ رہے ہو، تم نے ہمارے ساتھ غزوۂ بدر میں شرکت نہیں کی تھی، ہم وہاں بھی کثرت کی وجہ سے غالب نہیں آئے تھے۔

جب جنگ شروع ہوئی تو زبردست لڑائی ہوئی اور حضرت زید ؓنےآنحضرتﷺ کے عَلَم کے ساتھ جہاد کیا اور بہادری سے جامِ شہادت نوش کیا۔ اس کے بعد حضرت جعفر ؓنےعَلَمِ اسلام سنبھالا اور جہاد کیا یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت جعفر بن ابوطالبؓ نے اپنے دائیں ہاتھ میں جھنڈا تھاما ، جب وہ کٹ گیا تو بائیں ہاتھ میں جھنڈا پکڑ لیا، جب وہ بھی کٹ گیا تو آپؓ نے پرچمِ اسلام کو اپنی کہنیوں کے ساتھ سینے سے لگا لیا ، بوقتِ شہادت اُن کی عمر ۳۳؍سال تھی۔ شہادت کے بعد آپؓ کے جسم پر ساٹھ کے قریب زخم دیکھے گئے، ان میں سے کوئی زخم بھی آپؓ کی پیٹھ پر نہ تھا۔

آپؓ کی شہادت کے بعدلشکرِ اسلام کا جھنڈا حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے تھام لیا۔ آپؓ کو گوشت کا ایک ٹکڑا پیش کیا گیا کہ لڑائی سے قبل اس سے کچھ طاقت حاصل کرلیں، ابھی آپؓ نے اس میں سے کچھ حصہ توڑا ہی تھا کہ ایک طرف سے تلواریں چلنے کی آواز آئی ، آپؓ نے اپنے نفس سے کہا کہ تُو ابھی تک اس دنیا میں ہی ہے، یعنی جنگ شروع ہوگئی ہے اور تُو گوشت کھا رہا ہے۔ آپؓ نے وہ گوشت کا ٹکڑا چھوڑا اور فوراً جنگ میں کود پڑے اور نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے اور اُن کے ہاتھ سے جھنڈا گِر گیا۔

جب عبداللہ بن رواحہؓ  شہید ہوگئے تو مسلمانوں کو بری طرح ہزیمت اٹھانا پڑی، کوئی دومسلمان بھی اکٹھے لڑائی کرتے نظر نہ آتے۔ ایسے میں ایک انصاری شخص نے اسلامی جھنڈا اٹھا لیا، وہ دوڑتا ہوا آیا اس نے لوگوں کے آگے جھنڈا گاڑ دیا ، پھر اس نے کہا کہ لوگو! میری طرف آؤ۔ لوگ اس کی طرف جمع ہوگئے، جب اُن کی تعداد زیادہ ہوگئی تو وہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے پاس گئے۔ حضرت خالد ؓنے کہا کہ مَیں اسے تم سے نہیں لوں گا، تم اس کے زیادہ مستحق ہو۔ اس پر اُس انصاری نے کہا کہ مَیں نے یہ جھنڈا پکڑا ہی آپ کے لیے ہے۔

جب حضرت خالدؓ نے جھنڈا تھاما تو انہوں نے لوگوں کا دفاع کیا، انہیں سمیٹ کر اکٹھا کیا اور اسلامی لشکر کو ایک طرف ہٹا لیا۔ دشمن بھی ان سے پیچھے ہٹ گیا اور وہ لوگوں کو بچا کر واپس لے آئے۔ ابنِ اسحٰق کے مطابق رومیوں سےیہ دُور ہٹنا ہی دراصل ان سے بچنا تھا، کیونکہ اس وقت تین ہزار میں سے دو ہزار مسلمان سپاہی دشمن کے لشکر سے مل گئے تھے، یعنی دونوں لشکر بالکل گتھم گتھا تھے۔ دشمن نے پوری طرح مسلمانوں کو گھیر لیا تھا اوروہ ان پر اچھی طرح جمع ہوچکے تھے، ایسے میں مسلمانوں کو بچا کر نکال لینا ہی فتح تھی۔ حضورِانور نے فرمایا کہ فتح کے بھی کئی پہلو ہوتے ہیں۔

نبی کریمﷺ نے حضرت زیدؓ، جعفر ؓاور عبداللہ بن رواحہ ؓکی شہادت کا لوگوں کو بتایا، اس سے پہلے کہ لوگوں کے پاس اُن کی کوئی خبر آتی۔آپؐ نے فرمایا کہ زیدنے جھنڈا لیا اور وہ شہید ہوگئے، پھر جعفر نے جھنڈا لیا اور وہ بھی شہید ہوگئے، پھر ابنِ رواحہ نے لیا اور وہ بھی شہید ہوگئے، آپؐ کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ

اس کے بعد جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے لیا اور اللہ نے اُن کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح دے دی۔ اس روز سے حضرت خالد بن ولید ؓکو سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کہا جانے لگا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت خالدؓ نے اسلامی لشکر کی کمان سنبھالی تو آپؓ نے لشکر کے اگلے حصّے کو پیچھے اور پچھلے حصے کو آگے کردیا، دائیں حصے کو بائیں طرف اور بائیں حصے کو دائیں طرف کردیا ، اور خوب زور سے نعرے لگائے جس سے دشمن نے یہ سمجھا کہ مسلمانوں کی مدد آگئی ہے اور وہ پیچھے ہٹ گیا اور خالد ؓمسلمانوں کو بچا کر واپس لے آئے۔

جھنڈے کے ادب و احترام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

جب کسی قوم کے افراد کے دلوں میں اُن کے جھنڈے کی عظمت قائم کردی جاتی ہے تو وہ انہیں اس بات کے لیے تیار کر دیتی ہے کہ اگر اپنے جھنڈے کی حفاظت کے لیے انہیں اپنی جانیں بھی قربان کرنی پڑیں تو بلا دریغ جانیں قربان کردیں کیونکہ اس وقت ذرا سی لکڑی اور کپڑے کا سوال نہیں ہوتا بلکہ قوم کی عزت کا سوال ہوتا ہے جو تمثیلی زبان میں جھنڈے کی صورت میں ان کے سامنے موجود ہوتا ہے۔

یہ ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعدحضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے دنیا کے عمومی حالات کے لیے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ دعائیں جاری رکھیں۔

خاص طور پر آج کل پاکستان اور ہندوستان کے جو حالات ہیں ان کے لیے دعا ئیں کریں۔

اللہ تعالیٰ ظلم کا خاتمہ کرے مظلوموں کی حفاظت فرمائے۔

حکومتوں کو عقل دے کہ جنگوں کی طرف بڑھنے کی بجائے صلح اور صفائی سے معاملات طے کریں، بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی کرنے والے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ بین الاقوامی تنظیموں کو بھی توفیق دے، اسی طرح دونوں طرف کے ہمدرد اور دوستوں کو بھی توفیق دے کہ ان ملکوں کے معاملات حل کروا سکیں۔

حضورِانور نے فرمایا کہ

دنیا کے سب مظلوموں کے لیے دعا کریں۔ بظاہر تو دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، اللہ تعالیٰ ہی اسے تباہی سے بچائے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب یہ خدا کی طرف توجہ کریں۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ ہو

حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں دعاؤں کی تحریک

خطبے کے آخری حصّے میں حضورِانور نے

ایک شہیدمکرم محمد آصف صاحب ابن رفیق احمد صاحب آف بھلیر ضلع قصور کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

شہیدمرحوم کو معاندینِ احمدیت نے ۲۴؍اپریل کو فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بوقتِ شہادت شہید مرحوم کی عمر انیس(۱۹) سال تھی۔ مرحوم نیک، اطاعت گزار، بہادر، ذیلی تنظیموں کے کاموں میں حصّہ لینے والے، خوش اخلاق، باکردار، خلافت سے محبت کرنے والے نَوجوان تھے۔

حضورِانور نے مرحوم کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی۔

حضورِانور نے فرمایا کہ

پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں اور جماعت کی مخالفت کرنے والوں کی جرأت بڑھتی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ جلد ان کی پکڑ کے سامان پیدا فرمائے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ18؍ اپریل 2025ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button