بچوں کا الفضل

گلدستہ معلومات

حکایتِ مسیح الزماںؑ

اخلاق میں تبدیلی ممکن ہے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’ذکر کرتے ہیں کہ افلاطون کو علم فراست میں بہت دخل تھا۔ اور اس نے دروازہ پر ایک دربان مقرر کیا ہوا تھا ۔جسے حکم تھا کہ جب کوئی شخص ملاقات کو آوے تو اوّل اس کا حلیہ بیان کرو۔ اس حلیہ کے ذریعہ وہ اس کے اخلاق کا حال معلوم کر کے پھر اگر قابل ملاقات سمجھتا تو ملاقات کرتا ورنہ ردّ کر دیتا۔ ایک دفعہ ایک شخص اس کی ملاقات کو آیا۔ دربان نے اطلاع دی۔ اس کے نقوش کا حال سن کر افلاطون نے ملاقات کا انکار کر دیا۔ اس پر اس شخص نے کہلا بھیجا کہ افلاطون سے کہہ دو کہ جو کچھ تم نے سمجھا ہے بالکل درست ہے مگر میں نے قوّتِ مجاہدہ سے اپنے اخلاق کی اصلاح کر لی ہے۔ اس پر افلاطون نے ملاقات کی اجازت دے دی۔ پس خُلق ایسی شے ہے جس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ششم صفحہ284 ایڈیشن 2022ء)

٭… ٭… ٭… ٭… ٭

محمود اور ایاز کی کہانی

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ مجلس اطفال الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے افتتاحی خطاب فرمودہ 16؍اکتوبر 1982ء میں فرماتے ہیں کہ محمود اور ایاز کی کہانی آپ نے سنی ہوگی۔ یہ کہانی بہت عام ہے اور بڑی مشہور ہے۔ محمود آقا تھا اور ایاز غلام تھا۔ محمود بادشاہ تھا۔ ایاز اس کے دربار کا ایک نوکر اور اتنی محبت تھی ایاز کو اپنے محمود سے اور محمود کو اپنے ایاز سے کہ وہ اس زمانہ میں بھی ضرب المثل بن گئی اور آج تک ضرب المثل بنی چلی آ رہی ہے۔ کہتے ہیں ہر محمود کا ایک ایاز ہوتا ہے۔ ہر ایاز کو ایک محمود ملتا ہے۔ یعنی محمود اور ایاز کی محبت اور وفا کا قصہ ایک قوم میں محدود نہیں رہا۔ کئی قوموں میں پھیل چکا ہے۔ اس محبت کی حقیقت کیا تھی؟ اس کا راز ایک چھوٹے سے واقعہ سے ہمیں سمجھ آ جاتا ہے۔ تمام درباری جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، جانتے تھے کہ ہم سب سے زیادہ اس غلام زادہ سے ہمارا آقا محبت کرتا ہے۔ وہ خود بڑے بڑے لیڈر، بڑے بڑے نواب اور بڑے بڑے سردار تھے اور کئی شاہی خاندانوں سے بھی تعلق رکھتے تھے۔ ان کی نسلوں میں پشتیں ایسی تھیں جو معززین کی پشتیں سمجھی جاتی تھیں۔ ان کے خون میں معزز خون شامل تھا۔ ان کی رگوں میں معزز خون دوڑ رہا تھا۔ اس شان کے وہ لوگ تھے۔ اگرچہ ان سے بھی حسن سلوک تھا۔ مگر جب محمود کی ایاز پر نظریں پڑتی تھیں تو محبت سے پگھل جایا کرتی تھیں۔ کیفیت ہی اور ہوتی تھی۔ وہ سمجھدار لوگ تھے۔ جانتے تھے کہ کیا قصہ ہے۔ وہ جلنے لگ جاتے تھے۔ کچھ پیش نہیں جاتی تھی۔ بڑی بڑی سکیمیں بناتے تھے۔ لیکن کوئی بس نہیں چلتا تھا۔ محمود کو بدظن کرنے کے لئے انہوں نے یہاں تک بھی کوششیں کیں کہ ایک دفعہ ایاز کے متعلق مشہور کر دیا کہ یہ رات کو چھپ کر کسی جگہ جاتا ہے۔ بادشاہ سے کہا۔ آپ تو سمجھتے ہیں بڑا دیانت دار ہے مگر ہے اتنا بددیانت کہ ملک کی ساری دولت سمیٹ سمیٹ کر ایک جگہ چھپائے جارہا ہے۔ اگر چھاپہ مار کر پتہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کی مدد کرتے ہیں۔ آپ کو ساتھ لے جائیں گے۔ یعنی بغض تو ہر وقت سکیمیں سوچتا ہے کہ کس طرح اس کو نیچا دکھاؤں۔ چنانچہ انہوں نے سکیم بنائی۔ ایاز واقعةً چھپ کر کہیں جایا کرتا تھا اور اس کمرے میں جہاں وہ جاتا تھا بڑے بڑے بھاری تالے پڑے ہوتے تھے۔ کسی اور کی جرأت نہیں تھی۔ پہرے تھے۔ کوئی اور داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ تو بادشاہ نے کہا۔ چلو میں چلتا ہوں۔ جو آزمائش چاہتے ہو مَیں اُس میں اُ س کو ڈالنے کے لئے تیار ہوں۔ چنانچہ وہاں گئے۔ ایاز کو بھی ساتھ لیا۔ اس کو حکم دیا گیا کہ تالے کھولو۔ اس نے کوشش کی کہ صرف بادشاہ اندر آئے، باقی نہ آئیں۔ لیکن بادشاہ نے کہا۔ نہیں۔ ان کا الزام ہے۔ مجھے ان کو دکھانا پڑے گا کہ کیا واقعہ ہے؟ چنانچہ جب تالے کھولے گئے تو اس کمرہ میں سوائے پھٹے پرانے کپڑوں کے کچھ بھی نہیں تھا۔ بوسیدہ کپڑے، پھٹی ہوئی ٹوپی، ایک پرانی جوتی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ سارے حیران رہ گئے کہ اس کو اتنے تالے لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا مصیبت پڑی تھی کہ راتوں کو چھپ کر ان چیزوں کی زیارت کے لئے یہ آیا کرے۔ تب بادشاہ نے کہا۔ میں تمہیں یہ حکم دیتا ہوں کہ اس کا راز بتائو۔ اس نے کہا۔ راز یہ ہے کہ آپ میرے بے حد مہربان آقا ہیں۔ آپ نے مجھ پر بے شمار احسانات کئے ہیں۔ میں ان احسانات میں کھو کر اپنی پرانی حیثیت نہیں بھولنا چاہتا تھا۔ میں ہمیشہ اپنے آپ کو یہ یاد کرانا چاہتا تھا کہ اے ایاز! تیرا یہی دو کوڑی مول ہی تو ہے۔ تُو دربدر کی ٹھوکریں کھانے والا ایک عام آدمی ہی تو تھا۔ تیرے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ جوتے پھٹے ہوئے تھے۔ ٹوپی بوسیدہ تھی۔ کئی کئی وقت تجھے فاقے بھی کرنے پڑتے تھے۔ پس یاد کر اس آقا محمود کے احسان کو۔ اس نے تجھے کہاں سے اٹھایا اور کہاں پہنچادیا۔ پس اس واقعہ کو بیان کر کے میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اللہ سے محبت کرنے کے لئے آپ کو ایاز والے کپڑے بھی رکھنے پڑیں گے۔ یہ یادرکھنا پڑے گا کہ ہم کیا حقیر چیز ہیں؟ پھر بھی وہ خدا جو ساری کائنات کا مالک ہے ہم سے خود محبت کا سلوک فرماتا ہے۔

(مطبوعہ روزنامہ الفضل ربوہ16؍جولائی 1983ء بحوالہ مشعل راہ جلدسوم صفحہ 59-60)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button