خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ18؍ اپریل 2025ء

اگر ہم دعا کا حق ادا کرتے ہوئے دعاؤں کی طرف توجہ دیں گے تو پھر ہی کامیابی ہے…
ہمارا ہتھیار تو صرف دعائیں ہیں

حضرت اسامہ بن زیدؓ روایت کرتے ہیں کہ لاالٰہ الا اللّٰہ کہنے کے باوجود ایک محارب کو قتل کردینے کا واقعہ سُن کر نبی اکرمﷺ نے مجھے فرمایا:أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتّٰى تَعْلَمَ أَقَالَهَا أَمْ لَا؟ تم نے کیوں نہ اس کا دل چیراتا کہ تم جان لیتے کہ اس نے یہ دل سے کہا تھا یا نہیں؟ آپؐ میرے سامنے یہ بات دہراتے رہے یہاں تک کہ مَیں نے یہ خواہش کی کاش میں نے اس دن ہی اسلام قبول کیا ہوتا

آجکل کے مولوی یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے احمدیوں کے دل چیر کے دیکھ لیے ہیں اس لیے احمدیوں کو شہید کرنا اور ان پہ ظلم کرنا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کے بھی سامان کرے

آجکل کے یہ مولوی اور اُن کے چیلے جو پاکستان میں ہیں جنت میں جانے کی باتیں کرتے ہیں کہ احمدیوں کو قتل کر دو تو جنت میں جاؤ گے لیکن انہیں پتہ نہیں کہ
ان کے یہ عمل انہیں اللہ تعالیٰ کی سزا کا مورد بنا رہے ہیں۔ کبھی نہ کبھی تو ان پہ اللہ کی پکڑ آئے گی

سنہ سات اور آٹھ ہجری کے بعض غزوات اور سرایا کےتناظر میں نبی کریمﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا پُرتاثیر بیان

پاکستان میں احمدیوں کے خلاف حالیہ مخالفانہ لہر کے پیش نظر دعاؤں کی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ18؍ اپریل 2025ء بمطابق18؍ شہادت 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے آج بعض اَور سرایا اور غزوات کا ذکر کروں گا۔ تاریخ میں ایک

سریہ حضرت عمر بن خطابؓ بطرف تُرَبَہ

کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہ سریہ شعبان 7؍ ہجری میں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطابؓ کو ہوازن قبیلہ کی طرفتُرَبَہ مقام کی طرف بھیجا۔ تُرَبَہ مدینہ سے تقریباً 333 میل کے فاصلے پر صَنعَاءاور نجران کی شاہراہ پر واقع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو تیس افراد کے ساتھ یہاں بھیجا۔ اس سریہ کو بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہلِ تُرَبَہ کی طرف سے اسلام کے خلاف سازشوں کی اطلاع موصول ہوئی تھی۔

(ماخوذاز الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2صفحہ 89، 90دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(غزوات و سرایا صفحہ 391فریدیہ پبلشرز ساہیوال)

حضرت عمرؓ  روانہ ہوئے تو آپ کے ساتھ بنو ھِلَال کا ایک شخص گائیڈ تھا۔ صحابہؓ رات کو سفر کرتے اور دن کو چھپ جاتے۔ اہلِ تُرَبَہ کو خبر پہنچی تو وہ وہاں سے بھاگ گئے۔ حضرت عمرؓ ان کے علاقے میں پہنچے لیکن وہاں کوئی نہیں تھا بلکہ ان کو بلندیوں پر چڑھا ہوا پایا۔ وہ پہاڑوں پہ چلے گئے تھے اور اپنا سارا مال مویشی بھی وہ لوگ اپنے ساتھ (پہاڑوں پر) لے گئے ۔ تو حضرت عمرؓ مدینہ کی طرف واپس چل پڑے۔ جب ذُوالْجَدْر مقام پر پہنچے جو قُبَاء کے نواح میں مدینہ سے چھ سات میل کے فاصلے پر ایک چراگاہ ہے تو بنو ھِلال کے اس شخص نے حضرت عمر سے کہا۔ کیا تم ایک اور گروہ پر حملہ کرو گے جو بنو خَثعَم میں سے ہے۔ وہ سارے اپنے علاقے میں قحط سالی کی وجہ سے یہاں آ گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ حکم نہیں دیا۔ آپؐ نے مجھے صرف یہ حکم دیا کہ میں تُرَبَہ کے مقام پر ہَوازِن سے جہاد کروں۔ پھر حضرت عمرؓ مدینہ واپس آ گئے۔

(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد3صفحہ 304، 305دارالکتب العلمیۃ 1996ء)
(ماخوذ از فرہنگ سیرت صفحہ 85 زوار اکیڈمی)

کیونکہ یہی لوگ تھے جو شرارت کرنے والے تھے۔

یہاں سے یہ الزام بھی جو لگایا جاتا ہے کہ مسلمان بلاجواز حملہ کرتے تھے۔
یہ بھی غلط ثابت ہوتا ہے۔

پھر ایک

سریہ حضرت بشیر بن سعدؓ فَدَکْ میں بَنُو مُرّہ کی طرف

ہے۔ یہ سریہ شعبان 7؍ ہجری میں حضرت بشیر بن سعدؓ کی قیادت میں ہوا۔ حضرت بشیر کی کنیت ابونعمان تھی۔ سعد بن ثعلبہ ان کے والد تھے۔ قبیلہ خزرج سے ان کا تعلق تھا۔ حضرت بشیر بن سعدؓ زمانہ جاہلیت میں لکھنا جانتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عرب میں بہت کم لوگ لکھنا جانتے تھے۔ انہوں نے بیعت عقبہ ثانیہ میں کی جس میں ستر انصار شامل ہوئے تھے۔ آپؓ غزوۂ بدر، احد اور خندق اور باقی کے تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔

حضرت بشیر بن سعدؓ انصار کے پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ پر سَقِیْفَہ بنوساعدہ کے دن بیعت کی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانۂ خلافت میں بارہ ہجری میں حضرت بشیرؓ ، حضرت خالد بن ولیدؓ کے معرکہ عَیْنُ التَّمْرِمیں شریک ہوئے اور آپؓ کو شہادت نصیب ہوئی۔

(شرح زرقانی جلد3صفحہ305-306دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(الاستیعاب جلد1صفحہ252-253دارالکتب العلمیۃ بیروت)

عَیْنُ التَّمْرِ کا تعارف یہ ہے کہ یہ کوفہ کے قریب ایک جگہ ہے۔ مسلمانوں نے بارہ ہجری میں حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں اس علاقے کو فتح کیا۔

(معجم البلدان جلد4صفحہ 199)

بہرحال اس سریہ کے بارے میں جو میں پہلے بیان کر رہا تھا

اس کی تفصیل

یوں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بشیر بن سعد کو تیس صحابہؓ کے ساتھ فدک میں بنو مُرَّة کی طرف بھیجا۔ فدک مدینہ سے چھ رات کی مسافت پر خیبر کے قریب واقع ہے۔ یہ واضح ہو جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان مہمات یا جنگ کے لیے اس وقت بھیجتے تھے جب یہ خبر ہوتی تھی کہ لوگ اسلام کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ بہرحال صحابہؓ روانہ ہوئے اور بکریاں چرانے والوں سے ملے تو ان سے بنو مرة کے متعلق پوچھا۔ چرواہوں نے انہیں بتایا کہ بنومرة اپنی وادی میں ہیں اور چشمہ پر نہیں آئے۔ صحابہؓ نے ان کی بھیڑ بکریاں ہانکیں اور مدینہ کی طرف واپس روانہ ہو گئے۔ بنو مرة کا منادی پکار اٹھا۔ اس نے اعلان کیااور اس واقعہ کی خبر دی کہ اس طرح مسلمان ہمارا یہ سامان لے گئے ہیں۔ اس پر بنو مرة کے لوگ واپس آئے تو رات کے وقت مسلمانوں کو بنو مرة کے ایک بڑے لشکر کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے مسلمانوں پہ بہت بڑا لشکر لے کر حملہ کیا۔ ساری رات صحابہؓ  تیر اندازی کرتے رہے یہاں تک کہ صحابہؓ کے تیر ختم ہو گئے۔ جب مسلمانوں نے صبح کی تو بنومُرَّة نے مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کر دیا اور حضرت بشیرؓ کے ساتھیوں کو شہید کر دیا۔ حضرت بشیر ان لوگوں سے شدید جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ وہ زخمی ہو کر گر پڑے ان کے ٹخنے پر چوٹ لگی اور سمجھا گیا کہ بشیر فوت ہو گئے ہیں۔ پھر بنو مرة اپنی بکریاں اور بھیڑیں لے کر واپس چلے گئے۔ جو سامان مسلمانوں نے لیا تھا ان سب کو شہید کر کے یہ لوگ اپنا سامان واپس لے گئے۔ رات تک حضرت بشیر ان شہداء میں پڑے رہے۔ انہوں نے ہمت کر کے خود کو اٹھایا اور فدک چلے گئے اور چند دن وہاں یہود کے ہاں ٹھہرے یہاں تک کہ جب زخم بہتر ہو گئے تو مدینہ واپس آ گئے۔

(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد 3 صفحہ 305، 306 دارالکتب العلمیۃ 1996ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ225زوار اکیڈمی)
(دائرہ معارف جلد8صفحہ474بزم اقبال لاہور)

پھر ایک

سریہ حضرت غالب بن عبداللہ لَیْثِی بطرف مَیْفَعَہ

کا ذکر ہے۔ یہ سریہ رمضان سات ہجری میں ہوا۔

(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد6صفحہ133دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت غالب بن عبداللہ لَیْثِی اہلِ حجاز میں سے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر موجود تھے اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ سے پہلے جاسوس کے طور پر آگے بھیجا تھا۔ حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں یہ خراسان کے والی تھے۔ ایک روایت کے مطابق جنگِ قادسیہ میں بھی شامل ہوئے تھے۔

(اسد الغابہ جلد4صفحہ 321دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(الاصابہ فی تمییز الصحابہؓ جلد5صفحہ 243دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ابن سعد نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت غالبؓ کو بنوعُوَال اور بَنُوعبدِ بنِ ثعلبہ کی طرف بھیجا جو مَیْفَعَہ میں تھے۔ یہ جگہ نجد کی طرف مدینہ سے چھیانوے میل کے فاصلے پر تھی۔ بنوعُوَال اور بنو عبد نے مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتے ہوئے لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا تھا تا کہ احزابِ عرب جیسی کوئی مزید کارروائی کی جا سکے۔ مسلمانوں پہ حملہ ہو۔ ابن ہشام نے حضرت غالب بن عبداللہ لیثی کے اس سریہ کو بنو مرة کی طرف بیان کیا جو حُرُقَہ کے حلیف تھے۔ امام بخاری نے اس سریہ کے حوالے سے باب کا عنوان یہ بنایا ہے کہ باب بَعْثُ النَّبِیّ ﷺ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ أِلَی الْحُرُقَاتِ مِنْ جُھَیْنَۃَ۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت اسامہ بن زید ؓکو جُہَیْنَہ کے حُرُقَات کے قبیلہ کی طرف بھیجنا۔ اس سے یہ لگتا ہے کہ اس سریہ کے امیر حضرت اسامہ بن زید تھے لیکن شارح بخاری علامہ ابن حجر نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ حضرت اسامہ بن زید کے ان الفاظ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ حُرقہ کی طرف ہمیں بھیجا ۔ یہ دلیل نہیں ملتی کہ وہ سریہ میں لشکر کے امیر تھے اور اسامہ بن زید کو ان کے والد زید کے غزوہ موتہ میں شہید ہونے سے پہلے امیر لشکر بنایا جانا ثابت نہیں ہوتا۔ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس وقت وہ امیر بنائے گئے تھے۔ اس وجہ سے اہلِ مغازی کی بات زیادہ راجع ہے۔ زیادہ فائق اور قابل قبول ہے کہ اس سریہ کے امیر حضرت غالب بن عبداللہ لیثی تھے۔

بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت غالب کو ایک سو تیس صحابہؓ کے ساتھ بھیجا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت یسار ان کے گائیڈ تھے۔ مسلمانوں نے ایک ساتھ ان پر حملہ کر دیا اور ان کی آبادیوں کے درمیان تک جا پہنچے۔ ان میں سے جو مقابلے پر آیا اس کو قتل کر دیا اور مال غنیمت بھیڑ بکریاں مدینہ لے آئے اور کسی کو قیدی نہ بنایا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد2 صفحہ91 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ 56 زوار اکیڈمی)
(غزوات وسرایا صفحہ 396فریدیہ پبلشرز ساہیوال)
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ879دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(ماخوذاز فتح الباری جلد7صفحہ659آرام باغ کراچی)
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب بَعْثُ النَّبِیّ ﷺ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ اِلَی الْحُرُقَاتِ مِنْ جُھَیْنَۃَ)

ابن سعد نے لکھا ہے کہ یہ وہی سریہ ہے جس میں حضرت اسامہ بن زیدؓ نے مِردَاس بن نُھَیْک کو قتل کیا جس نے لاالٰہ الا اللّٰہ کہہ دیا تھا۔

(ماخوذ ازسبل الھدیٰ و الرشاد جلد6صفحہ 133، 140دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(الطبقات الکبریٰ جلد2صفحہ91دار الکتب العلمیۃ بیروت)

بخاری میں اس واقعہ کی تفصیل

یوں ملتی ہے کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ حرقہ کی طرف ہمیں بھیجا۔ ہم نے صبح ان لوگوں میں کی اور ہم نے انہیں شکست دے دی اور مَیں نے اور انصار میں سے ایک شخص نے ان میں سے ایک شخص کا تعاقب کیا۔ جب ہم نے اس پر قابو پا لیا تو اس نے کہا لا الٰہ الااللّٰہتو انصاری رک گیا مگر میں نے اپنا نیزہ اس کو مارا یہاں تک کہ میں نے اسے قتل کردیا۔ پھر جب ہم آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو

آپؐ نے فرمایا اے اسامہ! کیا تُم نے اسےمار ڈالا بعد اس کے کہ اس نے کہا لاالٰہ الا اللّٰہ!

مَیں نے کہا وہ اپنا بچاؤ کر رہا تھا مگر

آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اسے دہراتے رہے۔ اتنی دفعہ دہرایا کہ تُو نے مار دیا اس کو۔ یہاں تک کہ مَیں نے یہ آرزو کی کہ میں اس دن سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب بعث النبیؐ اسامہ…حدیث4269)

مسلم نے اس روایت کو یوں درج کیا ہے کہ

أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتّٰى تَعْلَمَ أَقَالَهَا أَمْ لَا؟ تم نے کیوں نہ اس کا دل چیرا تاکہ تم جان لیتے کہ اس نے یہ دل سے کہا تھا یا نہیں؟ آپؐ میرے سامنے یہ بات دہراتے رہے اور یہاں تک کہ مَیں نے یہ خواہش کی کاش میں نے اس دن ہی اسلام قبول کیا ہوتا۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان مترجم جلد1صفحہ88)

لیکن آجکل کے مولوی یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے احمدیوں کے دل چیر کے دیکھ لیے ہیں اس لیے احمدیوں کو شہید کرنا اور ان پہ ظلم کرنا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کے بھی سامان کرے۔

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مِردَاس کے اہل خانہ کو اس کی دیت دینے کا حکم دیا اور اس کا مال انہیں واپس کر دیا۔

(ماخوذ ازسبل الھدیٰ جلد6صفحہ 193دارالکتب العلمیۃ بیروت)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جس نے لا الٰہ الا اللّٰہکہا تھا گویہ پہلے جنگ کر رہا تھا لیکن آپؐ نے فرمایا کیونکہ اس نے لا الٰہ الا اللّٰہ پڑھ لیا اس لیے اس کے گھر والوں کو اس کی دیت دو اور اس کا مال جو تم نے لُوٹا ہے وہ بھی واپس کرو۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’آپ ہمیشہ حکم دیتے تھے کہ شریعت کا نفاذ ظاہر پر ہونا چاہیے ‘‘ یعنی شریعت جو نافذ ہونی ہے وہ ظاہری حالت پہ ہو، دلوں کا حال ہم نہیں جانتے۔ ’’ایک دفعہ ایک جنگ پر کچھ صحابہؓ گئے ہوئے تھے۔ راستہ میں ایک مشرک انہیں ایسا ملا جو ادھر ادھر جنگل میں چھپا پھرتا تھا اور جب کبھی اسے کوئی اکیلا مسلمان مل جاتا تو اس پر حملہ کر کے وہ اسے مار ڈالتا۔ اسامہ بن زیدؓ نے اس کا تعاقب کیا اور ایک موقع پر جا کر اسے پکڑ لیا اور اسے مارنے کے لیے تلوار اٹھائی۔ جب اس نے دیکھا کہ اب میں قابو آ گیا ہوں توا س نے کہا لا الٰہ الا اللّٰہ۔ جس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں مگر اسامہؓ نے اس کے اس قول کی پرواہ نہ کی اور اسے مار ڈالا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لڑائی کی خبر دینے کے لیے ایک شخص مدینہ پہنچا تو اس نے لڑائی کے سب احوال بیان کرتے کرتے یہ واقعہ بھی بیان کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہؓ کو بلوایا اور ان سے پوچھا کہ کیا تم نے اس آدمی کو مار دیا تھا؟ انہوں نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا قیامت کے دن کیا کرو گے جب لا الٰہ الا اللّٰہتمہارے خلاف گواہی دے گا؟‘‘ جیسا کہ میں نے پہلے کہا

آجکل کے یہ مولوی اور اُن کے چیلے جو پاکستان میں ہیں جنت میں جانے کی باتیں کرتے ہیں کہ احمدیوں کو قتل کر دو تو جنت میں جاؤ گے لیکن انہیں پتہ نہیں کہ ان کے یہ عمل انہیں اللہ تعالیٰ کی سزا کا مورد بنا رہے ہیں۔ کبھی نہ کبھی تو ان پہ اللہ کی پکڑ آئے گی۔

بہرحال حضرت مصلح موعود ؓاس کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سوال کیاجائے گا کہ جب اس شخص نے لا الٰہ الا اللّٰہکہا تھا تو پھر تم نے کیوں مارا؟ گو وہ قاتل تھا مگر توبہ کر چکا تھا۔ حضرت اسامہؓ نے کئی دفعہ جواب میں کہا یا رسول اللہ! وہ تو ڈر کے مارے ایمان ظاہر کر رہا تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے؟ اور پھر بار بار یہی کہتے چلے گئے کہ تم قیامت کے دن کیا جواب دو گے جب اس کا لا الٰہ الا اللّٰہ تمہارے سامنے پیش کیا جائے گا۔

اسامہؓ کہتے ہیں اس وقت میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش! میں آج ہی اسلام لایا ہوتا اور یہ حرکت مجھ سے سرزد نہ ہوئی ہوتی۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن انوارالعلوم جلد20 صفحہ415-416)

پھر

ایک سریہ حضرت بشیر بن سعدؓ ہے جو یُمْن اور جَبَار کی طرف ہے۔

یہ سریہ شوال 7؍ ہجری میں ہوا۔یُمْن اور جبار فَدَکْ اور وادی القرٰی کے درمیان خیبر کے قریب بنوغَطَفَان کا علاقہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ غَطَفَان کا ایک گروہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جمع ہو رہا ہے اور عُیَیْنَہ بن حِصْن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ان کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔

(شرح الزرقانی علی المواھب جلد3صفحہ310دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(الطبقات الکبریٰ جلد3صفحہ402-403دار الکتب العلمیۃ بیروت)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خبر کا ذکر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے کیا تو انہوں نے حضرت بشیر بن سعدؓ  کو بھیجنے کا مشورہ دیا۔

(امتاع الاسماع جلد1صفحہ330دار الکتب العلمیۃ بیروت)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بشیر بن سعد ؓکو بلایا اور ان کے لیے پرچم تیار کروایا اور ان کے ساتھ تین سو صحابہؓ کو روانہ فرمایا۔ یہ صحابہؓ رات بھر چلتے اور دن بھر پوشیدہ رہتے اور بالآخر جَبَار مقام پر پہنچ گئے۔ وہاں چرواہے اپنے جانور چرا رہے تھے۔ وہ مسلمانوں کو دیکھ کر وہاں سے بھاگ نکلے اور غطفانیوں کو جاکر خبر دی۔ وہ لوگ یہ خبر سن کر اپنے مال مویشی چھوڑ کر اپنی بستی کےبالائی حصوں کی طرف فرار ہو گئے۔ سب چھوڑ کے چلے گئے۔ ان میں سے صرف دو آدمی ہاتھ لگے جنہیں گرفتار کر لیا گیا۔ صحابہؓ نے بھیڑ بکریاں اور اونٹ اپنے قبضے میں لے لیے اور قیدیوں سمیت واپس مدینہ آ گئے۔ یہاں وہ دونوں قیدی مسلمان ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اپنے علاقے میں واپس جانے دیا۔

(السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ264دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد8صفحہ514دار السلام)

عُمْرَةُ القَضَاء

کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عمرہ جو ذوالقعدہ 7 ہجری میں کیا تھا جو فروری 629ء کا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالقعدہ 7 ہجری میں عمرة القضاء کے لیے روانہ ہوئے۔

یہ وہی مہینہ تھا جس میں پچھلے سال مشرکین مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ نہ کرنے دیا تھا اور مقام حدیبیہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے تھے۔ چنانچہ اب اس عمرے کی قضاء کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔

شارح بخاری علامہ ابن حجر نے اس کے کئی نام بیان کیے ہیں۔ غزوةُالقَضَاء، عُمرة القَضِیَّہ، عمرۂ صلح اور عُمرةُ القِصَاص اور اس عمرہ کو غَزْوَةُ الامْن بھی کہا جاتا ہے۔ اس کو عمرة القِصاص اس لیے کہتے ہیں کیونکہ مشرکین مکہ نے چھ ہجری میں حرمت والے مہینے ذوالقعدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ ادا کرنے سے روک دیا تھا تو آپ پہلے عمرے کے قصاص میں تشریف لے گئے تھے اور ذوالقعدہ سات ہجری کو مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ اَلشَّہۡرُ الۡحَرَامُ بِالشَّہۡرِ الۡحَرَامِ وَ الۡحُرُمٰتُ قِصَاصٌ (البقرہ : 195) کہ عزت والا مہینہ عزت والے مہینہ کا بدلہ ہے اور تمام حرمت والی چیزوں کی ہتک کا بدلہ لیا جائے گا۔

ابن ہشام نے بیان کیا ہے کہ مدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُوَیف بن اَضْبَط دِیْلِی کو نائب مقرر کیا اور ابن سعد کے مطابق آپؐ نے حضرت ابو رُھم غِفَارِی کو نائب مقرر کیا۔

عمرہ کے لیے روانگی کی تفصیل

اس طرح بیان ہوئی ہے کہ اس عمرے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو ہزار صحابہؓ تھے۔ روانگی کے وقت آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے ان میں سے ہر شخص شامل ہو۔حدیبیہ کے موقع پر موجود تمام صحابہؓ اس عمرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے سوائے ان کے جو غزوۂ خیبر کے موقع پر شہید ہو گئے تھے یا وفات پا گئے تھے۔ ان کے علاوہ آپؐ کے ساتھ کئی ایسے صحابہؓ بھی شامل تھے جو حدیبیہ کے وقت موجود نہ تھے۔ آپؐ کے ساتھ قربانی کے ساٹھ اونٹ تھے۔ آپؐ نے ان سب جانوروں کے گلوں میں ہار ڈالے اور جانوروں کی نگرانی پر حضرت ناجیہ بن جُندُبؓ کو متعین فرمایا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچے جو مدینہ سے تقریباً چھ سات میل کے فاصلے پر ایک بستی ہے تو سو گھڑ سواروں کو احتیاطی تدبیر کے طور پر اپنے آگے روانہ کیا۔ ان پر حضرت محمد بن مسلمہ ؓکو امیر بنایا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر میں خَود، ہتھیار،زرہیں اور نیزے بھی ساتھ لیے۔ آپؐ نے ہتھیار بھی آگے بھیج دیےاور ان پر حضرت بشیر بن سعدؓ  کو نگران مقرر فرمایا۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ717 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(طبقات الکبریٰ ابن سعدجلد2صفحہ92، جلد 3 صفحہ 403دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 838)
(فتح الباری جلد7صفحہ 636آرام باغ کراچی)
(السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ90دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ 105زوار اکیڈمی)

یہ سوال اٹھتا ہے کہ

عمرے پر جانے کے لیے ہتھیاروں کی کیا ضرورت تھی جبکہ معاہدہ ہو چکا تھا؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ آپؐ نے ہتھیار ساتھ لے لیے ہیں حالانکہ قریش نے میانوں میں موجود تلواروں کے علاوہ ہتھیاروں سے منع کیا ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم ہتھیار لے کر حرم میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ کسی حملہ کی صورت میں وہ ہمارے قریب ایک جگہ پر ہوں گے۔ وہاں مکہ میں لے کےنہیں جا رہے۔ ہم باہر رکھیں گے کیونکہ ان کا اعتبار کوئی نہیں کسی وقت بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ محمد بن مسلمہ گھڑ سواروں کے ساتھ مَرُّالظَّہْرَان پہنچے تو وہاں قریش کے کچھ لوگ ان سے ملے جن کو انہوں نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کل ان شاء اللہ اس مقام پر ہوں گے۔ وہ لوگ قریش کے پاس آئے اور انہیںاس کے متعلق بتایا تو وہ لوگ ڈر گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مَرُّالظَّہْرَان پہنچے تو تمام ہتھیار یَأْجَج مقام پر بھیج دیے جو مکہ سے آٹھ میل دور ہے۔ جب کفار مکہ کو خبر ملی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہتھیاروں اور سامان جنگ کے ساتھ مکہ آ رہے ہیں تو وہ بہت گھبرائے اور انہوں نے چند آدمیوں کو صورتحال کی تحقیقات کے لیے مرالظہران تک بھیجا۔

مِکْرَزْبن حَفْص جو نمائندہ بن کے گیا، کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے آپ کو کبھی عہد شکنی کرتے نہیں دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم صلح نامے کی شرط کے مطابق بغیر ہتھیار کے مکہ میں داخل ہوں گے یہ سن کر کفار مطمئن ہو گئے اس پر مِکرزنے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم آپ کو نیکی اور وفا کی خوبیوں کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔ کافر ہے اور وہ بھی یہ کہہ رہا ہے کہ ہم آپ کو نیکی اور وفا کی خوبیوں کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بشیر بن سعد ؓکی ماتحتی میں چند صحابہؓ کو ان ہتھیاروں کی حفاظت کے لیے متعین فرما دیا اور معاہدہ کی شرائط کے مطابق سوائے تلوار کے کوئی ہتھیار نہ تھا۔ آپؐ صحابہ کرامؓ کے مجمع کے ساتھ تلبیہ کرتے ہوئے حرم کی طرف بڑھے۔ قربانی کے جانوروں کو ذی طُوٰی کی طرف بھیج دیا جو مسجد حرام سے نصف میل کے فاصلے پر مکہ کی ایک وادی ہے۔ آپؐ اپنی اونٹنی قَصوَاءپر سوار تھے۔ آپ حَجُون کی طرف سے مکہ میں داخل ہوئے۔ حَجُون وادی مُحَصَّب کی طرف ایک پہاڑ ہے جو بیت اللہ سے ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ہے۔

(سیرت حلبیہ جلد3صفحہ90-91دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ100، 180زوار اکیڈمی )
(دائرہ معارف سیرت جلد8صفحہ 485تا 487بزم اقبال لاہور)
(معجم البلدان صفحہ357الفیصل ناشران اردو بازار لاہور)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمرة القضاء کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ  آپؐ کے آگے چل رہے تھے اور وہ کہہ رہے تھے اے کفار کی اولاد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ چھوڑ دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر آج ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے جو کھوپڑی کو اس کی جگہ سے ہٹا دے گی اور دوست کو دوست سے غافل کر دے گی۔ حضرت عمر ؓنے ان سے کہا کہ اے ابن رَوَاحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اور اللہ کے حرم میں یہ شعر پڑھتے ہو؟ یہ تو غلط بات کر رہے ہو تم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر! اسے چھوڑ دو۔ یہ ان میں تیروں سے زیادہ اثر کرنے والے ہیں۔ (ترمذی ابواب الادب باب ما جاء فی انشاد الشعر حدیث:2847)یہ ایک روایت ہے۔

ایک روایت میں یہ ہے کہ جب حضرت عمر ؓنے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو اشعار پڑھنے سے روکا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے فرمایا اے عمر! جو کچھ یہ کہہ رہا ہےمَیں سن رہا ہوں۔ اس پر حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ سے فرمایا۔ تم یہ جو پڑھ رہے ہو یہ تواشتعال دلانے والی باتیں ہیں۔یہ نہ کہو۔ تم یہ کہو کہ

لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهٗ نَصَرَ عَبْدَهٗ وَأَعَزَّ جُنْدَهٗ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهٗ
کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اپنے لشکر کو عزت بخشی اور اکیلے تمام گروہوں کو شکست دی۔

(شرح زرقانی جلد3صفحہ320دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اس واقعہ کو حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ’’جب آپ مرالظہران تک پہنچے جو مکہ سے ایک پڑاؤ پر ہے تو معاہدہ کے مطابق آپ نے تمام بھاری ہتھیار اور زِرہیں وہاں جمع کر دیں اور خود اپنے صحابہؓ سمیت معاہدہ کے مطابق صرف نیام بند تلواروں کے ساتھ حرم میں داخل ہوئے۔ سات سالہ جلا وطنی کے بعد مہاجرین کا مکہ میں داخل ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ان کے دل ایک طرف تو ان لمبے مظالم کو یاد کر کے خون بہا رہے تھے جو مکہ میں ان پر کیے جاتے تھے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کے اس فضل کو دیکھ کر کہ پھر خدا تعالیٰ نے انہیں کعبہ کے طواف کا موقع نصیب کیا ہے وہ خوش بھی ہو رہے تھے۔ مکہ کے لوگ مکہ سے نکل کر پہاڑ کی چوٹیوں پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے۔ مسلمانوں کا دل چاہتا تھا کہ آج وہ ان پر ظاہر کر دیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں پھر مکہ میں داخل ہونے کی توفیق بخشی ہے یا نہیں۔ چنانچہ عبداللہ بن رواحہؓ نے اس موقع پر جنگی گیت گانے شروع کیے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا اور فرمایا۔ ایسے شعر نہ پڑھو بلکہ یوں کہو کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کی مدد کی اور مومنوں کو ذلت کے گڑھے سے نکال کر اونچا کیا۔ صرف خدا ہی ہے جس نے دشمنوں کو ان کے سامنے سے بھگا دیا۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن انوارالعلوم جلد20صفحہ 329)

حضرت ابن ابی اَوْفٰی ؓ بیان کرتے ہیں کہ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا تو ہم مشرکین کے نوجوانوں سے آپؐ کی حفاظت کر رہے تھے، یعنی یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرہ دے رہے تھے کہ مبادا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیں۔

(بخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضاء حدیث:4255)

جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو کچھ کفار قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عداوت کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے بیت اللہ کا طواف کرنے کا منظر نہ دیکھ سکنے کی وجہ سے پہاڑوں پر چلے گئے مگر کچھ کفار دارالندوہ میں جمع ہو گئے۔ وہاں کھڑے ہو کر طواف کا نظارہ کرنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ مسلمان بھلا کیا طواف کریں گے، ان کو تو بھوک اور مدینہ کے بخار نے کمزور کر کے رکھ دیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام میں پہنچ کر اِضْطِبَاع کر لیا یعنی چادر کو اس طرح اوڑھ لیا کہ آپ کا داہنا شانہ اور بازو کھل گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خدا اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو ان کفار کے سامنے اپنی قوت کا اظہار کرے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ طواف کے شروع کے تین چکروں میں شانوں کو ہلا ہلا کر خوب اکڑتے ہوئے چل کر طواف کیا۔ یہ ظاہر کیا کہ تم کمزور سمجھ رہے ہو لیکن ہم کمزور نہیں ہیں۔

بخاری میں اس حوالے سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ آئے تو مشرکین نے کہا تمہارے پاس ایسے لوگ آ رہے ہیں جنہیں مدینہ کے بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ، اپنے صحابہؓ کو حکم دیا کہ وہ تین چکر دوڑ کر لگائیں۔ اس کو عربی میں رَمَلْ کہتے ہیں۔ ہر طواف کعبہ کرنے والا شروع میں طواف کے تین پھیروں میں یہ رمل کرتا ہے۔ آپؐ نے صحابہؓ پر شفقت کرتے ہوئے انہیں سارے چکروں میں دوڑنے کا ارشاد نہیں فرمایا۔

حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ اورصفا اور مروہ کے درمیان دوڑ کر چکر لگائے تاکہ آپؐ مشرکین کو اپنی قوت دکھائیں۔ ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے مروہ کے قریب قربانی کی۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ صحابہؓ کو یأجَجْ مقام پر اسلحہ پر متعین صحابہؓ کے پاس بھیجا تاکہ یہ ان کی جگہ ڈیوٹی دیں اور وہ بھی آ کر عمرہ اور قربانی وغیرہ کر لیں۔

(شرح زرقانی جلد3صفحہ322دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرت ابن ہشام صفحہ717دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(لغات الحدیث جلد2صفحہ 163)
(بخاری کتاب الحج باب کیف کان بدء الرمل حدیث:1602)
(بخاری کتاب الحج باب ما جاء فی السعی بین الصفاء والمروۃ حدیث:1649)

جو پہلے وہاں اسلحے کی ڈیوٹی پہ بیٹھے تھے ان کو کہا کہ وہ آ جائیں عمرہ کر لیں اور یہ کچھ نئے آدمی وہاں بھیج دیے کہ جا کے ان کی ڈیوٹی سنبھالیں۔

اس موقع پر

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت میمونہؓ سے شادی

بھی ہوئی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اسی سفر میں آنحضورؐ نے میمونہ بنت حارث سے شادی کی۔ یہ شادی حضرت عباسؓ نے کروائی تھی۔ حضرت میمونہؓ نے اپنی شادی کا اختیار اپنی بہن حضرت اُمِّ فضلؓ  کو دیا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ کی بیوی تھیں اور حضرت اُمِ فضلؓ نے وہ اختیار حضرت عباسؓ کو دیا۔ حضرت عباسؓ نے ان کی شادی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کرا دی اور حضرت میمونہؓ  کا مہر چار سو درہم مقرر ہوا۔

(ابن ہشام صفحہ 718دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 8 صفحہ 217دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مصلح موعودؓ نے اس حوالے سے بیان کیا ہے کہ ’’حضرت عباسؓ کی سالی میمونہ جو دیر سے بیوہ ہو چکی تھیں مکہ میں تھیں۔ حضرت عباسؓ نے خواہش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے شادی کر لیں اور آپ نے اسے منظور فرما لیا۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن انوارالعلوم جلد20صفحہ 329۔330)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تین روز رہے۔ جب تیسرا روز ہوا تو قریش نے حُوَیْطِبْ بن عبدالعُزّٰی کو قریش کے چند افراد کے ساتھ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ ایک روایت کے مطابق قریش کا یہ وفد حضرت علیؓ کے پاس گیا تھا کہ اب تمہاری مدتِ اقامت پوری ہو چکی ہے لہٰذا اب چلے جاؤ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ہم ذرا اَور قیام کریں تو تمہارا کیا ہرج ہے؟ ہم یہاں شادی کر کے کھانا پکائیں گے۔ میری شادی ہو رہی ہے اور تمہاری بھی دعوت کریں گے۔ قریش نے کہا کہ ہمیں تمہاری دعوت نہیں چاہیے تب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوئے اور اپنے غلام ابو رافع کو حضرت میمونہؓ کے پاس چھوڑ دیا۔ چنانچہ وہ حضرت میمونہؓ  کو لے کر سَرِف مقام میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے جو تنعیم کے قریب مکہ سے قریباً چھ سات میل کے فاصلے پر ایک بڑی وادی تھی۔

حضرت میمونہ کا نام بَرَّہ تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کران کا نام میمونہ رکھ دیا۔حضرت میمونہؓ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے آخر پر شادی ہوئی۔ 51؍ ہجری میں سَرِف مقام پر ہی جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا رخصتانہ ہوا تھا حضرت میمونہؓ  کی وفات ہوئی۔

(بخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضاء روایت 4251)
(الاصابہ جلد8صفحہ322، 324دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(ابن ہشام صفحہ 718دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ147زوار اکیڈمی)

حضرت مصلح موعود ؓلکھتے ہیں کہ ’’چوتھے دن مکہ والوں نے مطالبہ کیا کہ آپؐ حسبِ معاہدہ مکہ سے نکل جائیں اور آپؐ نے فوراً تمام صحابہؓ  کو حکم دیا کہ فوراً مکہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف روانہ ہو جائیں۔ مکہ والوں کے احساسات کا خیال کر کے نئی بیاہی ہوئی میمونہؓ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا کہ وہ بعد میں اسباب کی سواریوں کے ساتھ آجائیں اور خود اپنی سواری دوڑا کر حرم کی حدود سے باہر نکل گئے اور وہیں شام کے وقت آپؐ کی بیوی میمونہؓ  کو پہنچایا گیا اور پہلی رات وہیں جنگل میں میمونہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئیں۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن انوارالعلوم جلد 20صفحہ 330)

حضرت میمونہؓ  کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس مقدس رفاقت کی یہ جگہ بہت عزیز رہی۔ اسی لیے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی تھی کہ میں جب فوت ہو جاؤں تو مجھے اسی مقام کی اسی جگہ پر دفن کیا جائے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ تھا۔ جہاں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا۔ خدائی تقدیر کہ آپؓ حج کے لیے تشریف لائیں اور وہیں مکہ میں بیمار ہو گئیں۔ کچھ دنوں کے بعد آپؓ نے فرمایا کہ مجھے مکہ سے باہر لے چلو کیونکہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تمہاری وفات مکہ میں نہیں ہو گی۔ چنانچہ لوگ انہیں مکہ سے لے کر روانہ ہوئے اور سَرِف مقام پر پہنچے تھے کہ اُمّ المومنین حضرت میمونہؓ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ان کی وفات ہوگئی۔ چنانچہ ان کی وصیت کے مطابق اسی مقام پر انہیں دفن کیا گیا تھا۔ وفات کے وقت ان کی عمر اسّی یا اکاسی سال تھی۔

( امتاع الاسماع جلد12صفحہ 212دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(فتح الباری جلد9صفحہ 141آرام باغ کراچی)
(مستدرک علی الصحیحین جلد 4صفحہ 398حدیث 6936 )

اس سفر میں

حضرت حمزہ ؓکی بیٹی کے واقعہ کا ذکر

بھی ملتا ہے۔ حضرت بَرَاءؓ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے جانے لگے تو حضرت حمزہؓ کی بیٹی آپؐ کے پیچھے پکارتی ہوئی آئی کہ اے میرے چچا! اے میرے چچا! اس پر حضرت علیؓ نے اسے لے لیا۔ اس کا ہاتھ پکڑا اور حضرت فاطمہؓ سے کہا اپنے چچا کی بیٹی کو لے لیں۔ انہوں نے اس کو اپنی سواری میں سوار کرلیا تو حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ اور حضرت جعفر ؓنے ان کی بابت جھگڑا کیا۔ حضرت علیؓ نے کہا مَیں نے اس کو لیا ہے اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور حضرت جعفرؓ نے کہا یہ میرے چچا کی بیٹی اور اس کی خالہ میری بیوی ہے اور حضرت زیدؓ نے کہا میرے بھائی کی بیٹی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ اس کی خالہ کے حق میں کیا اور فرمایا

خالہ بمنزلہ ماں ہے۔

یہ بھی ایک مسئلہ حل ہو گیا جوقضاء میں بہت سارے جھگڑے ہوتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا خالہ بمنزلہ ماں ہے۔ اس کو دے دیا اور حضرت علیؓ سے کہا تم مجھ سے ہو اور میں تجھ سے ہوں۔ ان کی دلجوئی فرمائی اور حضرت جعفرؓ سے کہا تم شکل اور اخلاق میں میرے مشابہ ہو اور حضرت زیدؓ سے کہا تم ہمارے بھائی ہو اور ہمارے آزاد کردہ ہو۔ حضرت علیؓ نے کہا کیا آپؐ حضرت حمزہ کی بیٹی سے شادی نہیں کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔ اس سے اس طرح شادی نہیں ہو سکتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے مہینے میں مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

(بخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضاء حدیث:4251)

ایک

سَرِیَّہ اَخْرَمْ بن ابی عَوْجَاءبطرف بَنُو سُلَیم

ہے۔ یہ سریہ ذوالحجہ 7 ہجری میں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اَخْرَم کو پچاس آدمیوں کے ساتھ بنو سُلَیم کی طرف بھیجا جو مدینہ کے قریب آباد تھے۔ بنو سُلَیم کا ایک جاسوس حضرت اَخْرَم کے ساتھ تھا جس نے آگے جا کر اپنی قوم کو چوکنا کر دیا اور انہوں نے ایک بڑا لشکر جمع کر لیا۔ جب حضرت اَخْرَم ان کے پاس پہنچے تو بنو سُلَیم ان کے مقابلہ کے لیے تیار تھے۔ حضرت اخرم نے ان کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا تم ہمیں جس چیز کی طرف بلا رہے ہو ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد دونوں طرف سے کچھ دیر تیر اندازی ہوئی۔ اسی دوران بنو سُلَیم کے لیے مزید کمک آ گئی اور انہوں نے مسلمانوں کو ہر طرف سے گھیر لیا۔ مسلمانوں نے بہت سخت جنگ لڑی یہاں تک کہ ان میں سے اکثر شہید ہو گئے اور حضرت اَخْرَم بھی مقتولین کے ساتھ شدید زخمی ہو کر گر پڑے۔ پھر یکم صفر 8 ہجری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ 94دارالکتب العلمیۃ 1990ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ 155 زوار اکیڈمی)

پھر ایک

سَرِیَّہ حضرت غالب بن عبداللہ لَیْثِی بطرف کَدِیْد

کا ذکر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت غالب بن عبداللہ لیثی کو صفر 8 ہجری میں بنولَیْثْ کی شاخ بنو مُلَوِّحْ کی طرف روانہ کیا۔ بنو مُلَوِّحْ کَدِید میں رہتے تھے۔ کَدید مدینہ سے تقریباً دو سو آٹھ میل کے فاصلے پر تھا۔

(غزوات و سرایا صفحہ 413فریدیہ پبلشرز ساہیوال)
(ماخوذازشرح الزرقانی جلد 3صفحہ 332دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(ماخوذاز انسائیکلوپیڈیا سیرت النبیﷺ صفحہ188زم زم پبلشرز)

صحیح بخاری میں ہے کہ کَدِیْد، عُسْفَان اور قُدَیْد کے درمیان ایک چشمہ ہے۔

(بخاری کتاب الصوم باب اذا صام ایاماً من رمضان ثم سافر حدیث 1944)

ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت غالب بن عبداللہ ؓکو پندرہ افراد کے ساتھ روانہ فرمایا اور اس سریہ میں مسلمانوں کا شعار اَمِت اَمِت تھا۔ حضرت جُندب بن مَکِیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت غالب بن عبداللہ کو ایک سریہ پر روانہ فرمایا جس میں مَیں بھی شامل تھا۔ آپؐ نے کَدِید میں بنو مُلَوِّح پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ہم روانہ ہوئے اور جب کدید پہنچے تو ابنِ بَرْصَاءحارِث بن مالک لَیْثِی ہمیں ملا جسے ہم نے گرفتار کر لیا۔ اس نے کہا میں اسلام قبول کرنے کے لیے نکلا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی جا رہا ہوں۔ ہم نے کہا کہ اگر تم اسلام قبول کرنے کے ارادے سے نکلے ہو تو ایک دن اور ایک رات کا زاد ِراہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا یعنی قید میں ہو جاؤ گے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر اس کے علاوہ ارادہ ہے تو ہم اس کی تصدیق کر لیں گے تو پھر ہم نے اسے مضبوطی سے باندھ دیا اور اپنا ایک سیاہ فام ساتھی جس کا نام سُوَیْدِ بنِ مَنْحَر تھا اس پر نگران مقرر کر دیا۔ ہم چلے یہاں تک کہ غروبِ آفتاب کے وقت کدِید پہنچ گئے۔ ہم وادی کے ایک کنارے پر تھے۔ میرے ساتھیوں نے مجھے جاسوس بنا کر بھیجا۔ میں ایک ٹیلے پر پہنچا جہاں سے مَیں انہیں دیکھ سکتا تھا۔ مَیں اس پر چڑھا۔ اپنا سر اوپر کیا اور پیٹ کے بل لیٹ گیا۔ وہاں ایک شخص نے اپنے خیمے سے نکل کر مجھے دیکھ لیا۔ اس نے ایک تیر مارا جو میرے پہلو پر لگا اور ایک روایت کے مطابق آپ کہتے تھے کہ وہ تیر میری آنکھوں کے درمیان ماتھے پہ لگا لیکن میں اپنی جگہ پر ثابت قدم رہا۔ پھر اس نے دوسرا تیر مارا تو وہ میرے کندھے پر لگا۔ مَیں نے وہ بھی نکال کر پھینک دیا اور اپنی جگہ پر قائم رہا۔ کوئی حرکت نہیں کی تا کہ اس کو شک نہ پڑے۔ پھر وہ خیمے میں داخل ہو گیا اور ہم نے انہیں کچھ مہلت دی یہاں تک کہ جب وہ مطمئن ہو کر سو گئے تو صبح سحر کے وقت ہم نے ان پر حملہ کر دیا۔ ان کے جنگجوؤں کو قتل کر دیا اور اولاد کو قیدی بنا لیا اور جانوروں کو ہانک کر لے آئے۔ ان کا ایک پکارنے والا نکلا اور ہماری طرف ایک ایسا لشکر لے آیا جس کے مقابلے کی ہم میں طاقت نہیں تھی۔ ان کا ایک بندہ جاکر بہت بڑا لشکر لے آیا۔ کہتے ہیں ہم جانوروں کو لے کر چلتے رہے، ہم نے کوئی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور جب ابنِ بَرْصَاء اور اس کے ساتھی کے پاس سے گزرے تو ان دونوں کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔ دشمن ہمارے قریب پہنچ گئے یہاں تک کہ ہمارے اور ان کے درمیان صرف کدید کی وادی ہی رہ گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس وادی میں سیلاب بھیج دیا جبکہ ہمیں کوئی بادل یا بارش بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی چیز بھیج دی جس کے مقابلہ کی کسی میں طاقت نہ تھی اور کوئی اسے پار نہ کر سکا۔ دشمن کھڑا ہماری طرف دیکھتا رہا اور ہم ان کے جانوروں کو ہانک کر لیے جا رہے تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی ہماری طرف آنے کی توفیق نہ ملی اور ہم تیزی سے جانوروں کو ہانکتے رہے یہاں تک کہ ہم نے انہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ پھر وہ یعنی دشمن پیچھے رہ گیا۔ پھر وہ ہمیں پکڑ نہ سکے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔

(شرح زرقانی جلد3صفحہ 332، 333دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ137دارالکتب العلمیۃ1993ء)

بہرحال ابھی یہ واقعات چل رہے ہیں۔

اس وقت مَیں

پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی خاص طور پر دعا کے لیے کہنا چاہتا ہوں۔
خود پاکستانی احمدی بھی اپنے لیے دعا کریں

اور جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ درود کی طرف توجہ کریں اور وہ دو سو مرتبہ پڑھا کریں

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ۔ اس وقت اس طرف جتنی توجہ کر سکتے ہیں وہ ہونی چاہیے۔
اگر ہم دعا کا حق ادا کرتے ہوئے دعاؤں کی طرف توجہ دیں گے تو پھر ہی کامیابی ہے۔

جتنی توجہ دینی چاہیے تھی وہ توجہ دی نہیں جا رہی۔ صرف یہ کہہ دینا اور جیسا کہ بعض لوگ مجھے بھی لکھ دیتے ہیں کہ صرف دعاؤں سے تو کچھ نہیں ہو گا کچھ اَور کرنا چاہیے۔ کچھ اَور کیا کرنا چاہیے؟

ہمارا ہتھیار تو صرف دعائیں ہیں۔

اس بارے میں کئی دفعہ میں بیان کر چکا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے اقتباسات بیان کر چکا ہوں۔ یہ انتہائی غلط خیال ہے کہ دعاؤں سے کچھ نہیں ہونا۔ بہرحال

دعائیں ہی ہیں جو ہماری کامیابی کا حل ہیں۔
اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق بھی دے اور ہم دعا کا حق ادا کرنے والے بنیں۔
اگر ہم صرف یہ کہہ دیں کہ دعاؤں سے کچھ نہیں ہونا اور ان کا حق ادا نہیں کرنا تو یہ غلط شکوہ ہے جو ہم اللہ تعالیٰ پر کریں گے۔ پس ہمیں استغفار بھی کرنی چاہیے۔

آج بھی ایک واقعہ کراچی میں ہوا ہے۔ بلوائیوں نے، دہشتگردوں نے، اسلام کے نام پہ جو ہیں تو دہشتگرد ہی، ہماری مسجد پہ حملہ کیا ہے اور ایک احمدی کو شہید بھی کر دیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ اس کی تفصیل تو ابھی نہیں ملی ۔تفصیل آئے گی تو بیان بھی ہو جائے گی ان شاء اللہ۔

اللہ تعالیٰ ان ظالموں کی پکڑ کے جلد سامان فرمائے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: غزوۂ موتہ کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے دعاؤں کی تحریک (خلاصہ خطبہ جمعہ ۲؍مئی ۲۰۲۵ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button