بنیادی مسائل کے جوابات(قسط۹۶)
٭… تبرک کس طرح کام کرتا ہے اور کس حد پر جا کر تبرک شرک کےزمرہ میں شامل ہو سکتا ہے؟
٭… بیوی کے دوسرے مرد سے خلع کے بعد اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہوں تو میرے ساتھ اس کے پہلے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا میرا پہلا نکاح قائم ہے یا مجھے نیا نکاح کرنا پڑے گا؟
٭… کیا شیطان واقعی میں انسانوں اور فرشتوں کی طرح کی کوئی مخلوق ہے؟
٭… ذوالحجہ کا چاند نکلنے کے بعد قربانی کرنے والے کے لیے بال اور ناخن نہ کٹوانے کا جو حکم ہے اس میں صرف داڑھی اور سر کے بال شامل ہیں یا بغلوں اور زیر ناف بال بھی شامل ہیں، نیز اگر کوئی شخص بال کٹوا لے تو کیا اس غلطی کا کوئی کفارہ ہے
٭…غیر معمولی حالات میں عید کی یہ قربانی تین دن کے بعد بھی کی جا سکتی ہے اور اس کا فیصلہ قربانی والا خود کرے گا یا حضور انور سے اس کی اجازت حاصل کرنی ضروری ہے؟
٭… دوران تلاوت آنے والی سورت کا نام اونچی آواز میں پڑھنا چاہیے یا دل میں دہرانا چاہیے یا صرف اس پر نظر ڈالنا کافی ہے؟
٭…کسی سورت کے درمیان سے تلاوت شروع کرنے پر تعوذ اور تسمیہ دونوں پڑھنے چاہئیں یا ایسی صورت میں بسم اللہ نہ پڑھی جائے؟
٭…جہری نمازوں میں فاتحہ سے پہلے تعوذ بھی اونچی آواز میں پڑھ سکتے ہیں؟
سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے تبرک کے سلسلہ میں مختلف اشیاء کا ذکر کر کے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ تبرک کس طرح کام کرتا ہے اور کس حد پر جا کر تبرک شرک کےزمرہ میں شامل ہو سکتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۷؍اگست ۲۰۲۳ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب:۔عربی زبان میں برکت کے معانی کسی شے میں خیر الٰہی کے پائے جانے کے ہیں۔ گویا برکت اور خیر کا اصل منبع خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اسی لیے جب اللہ تعالیٰ مخلوق کی بھلائی کے لیے اپنے انبیاء اور فرستادے دنیا میں بھیجتا ہے تو ان بزرگ ہستیوں کے وجود کو بھی متبرک کر دیتا ہے اور ان سے تعلق رکھنے والی اشیاء میں بھی برکت کے سامان پیدا کر دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں مختلف انبیاء کے ذکر میں اس برکت کے مضمون کو بیان فرمایا گیا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم کے اہل خانہ کی بابت فرمایا:قَالُوْٓا أَتَعْجَبِيْنَ مِنْ أَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهٗ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهٗ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ۔(ھود:۷۴)یعنی انہوں نے کہا کیا تو اللہ کی بات پر تعجب کرتی ہے، اے اس گھر والو تم پر (تو) اللہ کی رحمت اور اس کی (ہرقسم کی) برکات (نازل ہو رہی) ہیں (پس تمہارے لیے تو یہ بات عجیب نہیں ہونی چاہیے) وہ یقیناً بہت ہی تعریف والا (اور) بزرگ شان والا ہے۔پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا:وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ۔(مریم:۳۲)یعنی میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت (وجود) بنایا ہے۔پھر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی طرف نازل ہونے والے کلام قرآن مجید کی بابت فرمایا:وَهٰذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ۔(الانعام:۹۳) یعنی یہ (قرآن) ایک (عظیم الشان) کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے (اور وہ) برکات کی جامع ہے۔
اسی طرح احادیث میں بھی کثرت سے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کی برکت سے مریضوں کو شفا عطا فرمائی۔چنانچہ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ جب کوئی شخص کسی تکلیف کی شکایت کرتا تو آپ ﷺ اپنے لعاب میں کچھ مٹی ملاتے اور( اسے بیمار کو لگاتے ہوئے) دعا کرتے کہ ہماری زمین کی مٹی ہم میں سے بعض کے لعاب کے ساتھ تاکہ ہمارے پروردگار کے حکم سے ہمارے بیمار کو شفا ہو جائے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الطب بَاب كَيْفَ الرُّقَى)ایک سریہ میں حضرت عبداللہ بن عتیک ؓکی پنڈلی ٹوٹ گئی، وہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے دعا کر کے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا جس سے وہ پنڈلی ایسے ٹھیک ہو گئی جیسا اسے کبھی کوئی تکلیف پہنچی ہی نہ ہو۔(بخاری کتاب المغازی بَاب قَتْلِ أَبِي رَافِعٍ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ أَبِي الْحُقَيْقِ) غزوہ خیبر کے موقعہ پر حضرت علی ؓ کو آشوب چشم کی تکلیف ہو گئی، حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کی آنکھوں پر اپنا لعاب لگایا اور ان کے لیے دعا کی تو وہ آنکھیں ایسے تندرست ہو گئیں جیسا انہیں کبھی کوئی بیماری ہوئی ہی نہ ہو۔(بخاری کتاب المغازی بَاب غَزْوَةِ خَيْبَرَ)
اسی طرح مختلف مواقع پر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی برکت اور دعا سے معمولی سی چیز میں اس قدر اضافہ کر دیا کہ اس سے تمام ضرورتمندوں کی ضرورت پوری ہو گئی۔ چنانچہ غزوہ خندق کے موقعہ پر حضرت جابر بن عبداللہ کے گھر کھانے کی دعوت پر ایک صاع آٹے اور ایک بکروٹے کے سالن پر آپ کی دعا نے ان اشیاء میں اس قدر اضافہ کر دیا کہ اس تھوڑے سے کھانے سے ایک ہزار لوگوں نے پیٹ بھر کر کھایا۔ (بخاری کتاب المغازی بَاب غَزْوَةِ الْخَنْدَقِ وَهِيَ الْأَحْزَابُ)غزوہ خیبر کے موقعہ پر زاد راہ ختم ہونے پر آپ نے کھانے پینے کی تھوڑی سی اشیاء پر دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اس قدر برکت بخشی کہ لوگوں نے اپنے بوروں کو ان اشیاء سے بھر لیا۔ خدا تعالیٰ کے اس احسان پر آپ نےلوگوں کو توجہ دلاتے ہوئے کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہی فضل ہے جو اس نے اپنے ایک رسول کے ذریعہ اپنے بندوں پر یہ فضل فرمایا ہے، آپؐ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اسی اللہ کا ایک رسول ہوں۔ (بخاری کتاب الجہاد و السیر بَاب حَمْلِ الزَّادِ فِي الْغَزْوِ)
پھر صحابہ رسول ﷺ حضور کے وجود باجود اور آپ سے تعلق رکھنے والی اشیاء سے بھی برکت حاصل کیا کرتے تھے اور ان چیزوں کو تبرک کے طور پر اپنے پاس بھی محفوظ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے اپنا سر منڈوایا تو حضرت ابو طلحہ ؓ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے حضور ﷺ کے کچھ بال اپنے پاس بطور تبرک رکھے۔(بخاری کتاب الوضوء بَاب الْمَاءِ الَّذِي يُغْسَلُ بِهِ شَعَرُ الْإِنْسَانِ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی مختلف تصانیف میں انبیاء اور اولیاء کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے ان روحانی فیوض کے بارے میں تحریر فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں:اور بباعث نہایت درجہ فنا فی اللہ ہونے کے اس کی زبان ہر وقت خدا کی زبان ہوتی ہے۔ اور اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہوتا ہے۔…ایسا ہی ان کے ہاتھوں میں اور پیروں میں اور تمام بدن میں ایک برکت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کا پہنا ہوا کپڑا بھی متبرک ہوجاتا ہے اور اکثر اوقات کسی شخص کو چھونا یا اس کو ہاتھ لگانا اس کے امراض روحانی یا جسمانی کے ازالہ کا موجب ٹھیرتا ہے۔ اسی طرح ان کے رہنے کے مکانات میں بھی خدائے عزوجل ایک برکت رکھ دیتا ہے وہ مکان بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے خدا کے فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔اسی طرح ان کے شہر یا گاؤں میں بھی ایک برکت اور خصوصیت دی جاتی ہے اسی طرح اس خاک کو بھی کچھ برکت دی جاتی ہے جس پر ان کا قدم پڑتا ہے۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۹،۱۸)
پس مذکورہ بالا امور کے پیش نظر، نیز اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو یہ خوشخبری عطا فرمائی کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک انگوٹھی آپ کے الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ یعنی کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے، کو مد نظر رکھ کر بنوائی گئی تھی۔ اس لیے میرا یقین ہے کہ ضرور اس انگوٹھی اورآپ کی دیگر اشیاء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سےبرکت رکھی گئی ہے۔ اس لیے دعا کے لیے کہنے والوں کو میں جب بسا اوقات کو ئی چیز تبرک کے طور پر دیتا ہوں، یا کسی کو برکت کے طور پر ہاتھ لگاتا ہوں تو میں دعا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ انگوٹھی اس شخص یا اس چیز سے مس کرتا ہوں۔ اور ایسا میں اس وقت کرتا ہوں جب اللہ تعالیٰ میرے دل میں یہ خیال ڈالے یا کوئی مجھ سے ایسا کرنے کے لیے بہت اصرار کرے۔ اور کئی دفعہ میں ایسا اس لیے بھی کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں شدت سے یہ خیال آتا ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔پھر میں ایسا ہر ایک کے لیے نہیں کرتا بلکہ ان کے لیے کرتا ہوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ میرے دل میں خیال ڈالتا ہے۔پس میری نیت تو کسی قسم کے شرک کی نہیں ہوتی، نہ ہی تبرک لینے والے کی ہونی چاہیے۔ جو فیض اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جاری کیا ہے اس سے فائدہ اٹھانا اصل میں تو اللہ تعالیٰ کے انعام سے فائدہ اٹھانا اوربرکت حاصل کرنا ہے۔ ہاں اگر کسی کے دل میں کسی قسم کے شرک کا خیال آتا ہے تو وہ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے شرک سے بچائے۔ آمین
سوال: ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ میری اہلیہ نکاح کے بعد بیرون ملک میرے پاس آنے کی بجائے کسی غیر احمدی لڑکے کے ساتھ چلی گئی، جس پر اس کا جماعت سے اخراج ہوگیا۔ دو ماہ بعد اس نے اس غیر احمدی سے خلع لے لیا ہے۔ اب اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہوں تو میرے ساتھ اس کے پہلے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہوگی۔ کیا میرا پہلا نکاح قائم ہے یا مجھے نیا نکاح کرنا پڑے گا؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۰؍اگست ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب:۔ اس قسم کی غیر اسلامی حرکات پر جماعت جو زیادہ سے زیادہ تعزیری سزا کسی کو دے سکتی ہے وہ تو آپ کی بیوی کو مل گئی ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا اختیار تو ہے نہیں کہ ہم اس قسم کی حرکات پر اسلامی سزاؤں کا نفاذ کریں۔
باقی جیسا کہ آپ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ دارالافتاء نے آپ کو بتایا ہے کہ آپ کا نکاح قائم ہے۔وہ ٹھیک ہے کیونکہ شرعاً نکاح پر نکاح نہیں ہو سکتا، اس لیے آپ کی بیوی نے آپ کے نکاح کے بعد بغیر طلاق یا خلع کےکسی اور سے جو نکاح کیا تھا اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
اب اگر آپ کی بیوی کو عقل آگئی ہےتو اسے اپنی سابقہ غلطیوں پر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور استغفار کرنا چاہیے۔ نیز اگر آپ دونوں بطور میاں بیوی زندگی گزارنے کو تیار ہیں تو چونکہ آپ کا نکاح قائم ہے اس لیے آپ ایسا کر سکتے ہیں، اس میں کوئی روک نہیں۔
سوال: پاکستان سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ کیا شیطان واقعی میں انسانوں اور فرشتوں کی طرح کی کوئی مخلوق ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۰؍اگست ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: قرآن کریم نے فرشتوں، انسانوں اور شیطان کی تخلیق اور ان کی طبائع کے بارے میں مختلف ارشادات فرمائے ہیں۔ فرشتوں کے متعلق فرمایا کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی طاقت ہی نہیں رکھتے اور خدا تعالیٰ انہیں جو حکم دیتا ہے، اس کی بجا آوری کرتے ہیں۔ (التحریم:۰۷)انسانوں کے متعلق فرمایا کہ اس کی تخلیق گیلی مٹی سے کی گئی ہے۔(المومنون:۱۳) اور شیطان نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرتےہوئے اپنے آپ کو انسان سے بالا قرار دیتےہوئے کہا کہ تو نے اسے مٹی سے پیدا کیا ہے اور مجھے آگ سے پیدا کیا ہے۔(الاعراف:۱۳)پس یہ تینوں چیزیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ضرور ہیں لیکن یہ تینوں الگ الگ نوعیت کی تخلیق ہیں اور انسانوں کی طرح نہ فرشتے ہیں اور نہ ہی شیطان۔ انسان میں اللہ تعالیٰ نے اختیار کا مادہ رکھ کر اسے آزاد چھوڑ دیا کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے قرب میں تمام مخلوقات سے بالا مقام پا سکے گا لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی کرے گا تو أَسْفَلُ السَافِلِينَ کے مقام پر پہنچ جائے گا۔ نیکی اور بدی کی راہ کو اپنانے کے اختیار کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے ساتھ فرشتوں کی صورت میں نیکی کی اور شیطان کی صورت میں بدی کی تحریکات بھی لگا دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہر ایک انسان کے لیے دو جاذب موجود ہیں یعنی کھینچنے والے۔ ایک جاذبِ خیر ہے جو نیکی کی طرف اُس کو کھینچتا ہے۔ دوسرا جاذبِ شر ہے جو بدی کی طرف کھینچتا ہے جیسا کہ یہ امر مشہودو محسوس ہے کہ بسا اوقات انسان کے دل میں بدی کے خیالات پڑتے ہیں اور اُس وقت وہ ایسا بدی کی طرف مائل ہوتا ہے کہ گویا اُس کو کوئی بدی کی طرف کھینچ رہا ہے اور پھر بعض اوقات نیکی کے خیالات اس کے دل میں پڑتے ہیں اور اُس وقت وہ ایسا نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے کہ گویا کوئی اُس کو نیکی کی طرف کھینچ رہا ہے اور بسااوقات ایک شخص بدی کرکے پھر نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے اور نہایت شرمندہ ہوتا ہے کہ میں نے بُراکام کیوں کیا اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی کو گالیاں دیتا او رمارتا ہے اور پھر نادم ہوتا ہے او ردل میں کہتا ہے کہ یہ کام میں نے بہت ہی بیجا کیا اور اُس سے کوئی نیک سلوک کرتا ہے یا معافی چاہتا ہے سو یہ دونوں قسم کی قوتیں ہر ایک انسان میں پائی جاتی ہیں اور شریعت اسلام نے نیکی کی قوت کا نام لمّہ ملک رکھا ہے اور بدی کی قوت کو لمّہ شیطان سے موسوم کیا ہے۔ فلسفی لوگ تو صرف اس حد تک ہی قائل ہیں کہ یہ دونوں قوتیں ہر ایک انسان میں ضرور موجود ہیں مگر خدا جو وراء الوراء اسرار ظاہر کرتا ہے اور عمیق اور پوشیدہ باتوں کی خبر دیتا ہے اُس نے ان دونوں قوتوں کو مخلوق قرار دیا ہے جونیکی کا القاء کرتاہے اُس کا نام فرشتہ اوررُوح ا لقدس رکھا ہے اور جو بدی کا القاء کرتاہے اُس کا نام شیطان اور ابلیس قرار دیا ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۹۴،۲۹۳)
سوال: پاکستان ہی سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ ذوالحجہ کا چاند نکلنے کے بعد قربانی کرنے والے کے لیے بال اور ناخن نہ کٹوانے کا جو حکم ہے اس میں صرف داڑھی اور سر کے بال شامل ہیں یا بغلوں اور زیر ناف بال بھی شامل ہیں، نیز اگر کوئی شخص بال کٹوا لے تو کیا اس غلطی کا کوئی کفارہ ہے۔ اسی طرح کیا غیر معمولی حالات میں عید کی یہ قربانی تین دن کے بعد بھی کی جا سکتی ہے اور اس کا فیصلہ قربانی والا خود کرے گا یا حضور انور سے اس کی اجازت حاصل کرنی ضروری ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱؍اگست ۲۰۲۳ء میں ان سوالات کے بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب:قربانی کا ارادہ رکھنے والے کے لیے ذوالحجہ کا چاند نکلنے کے بعد قربانی کرنے تک بال وغیرہ نہ کٹوانا لازمی نہیں بلکہ ایک مستحب امر ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص جو قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اپنے بال یا ناخن وغیرہ کاٹ لے تو اس سے اس کی قربانی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
لیکن اگر کوئی حصول ثواب کی خاطر اس مستحب امر پر عمل کرنا چاہے تو پھر اس میں اسے ہر قسم کے بالوں کے کاٹنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایک حدیث میں حضور ﷺ نے قربانی کے ضمن میں سر کے بالوں اور ناخنوں کے ساتھ مونچھوں اور زیر ناف بالوں کو بھی شامل فرمایا ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الضحایا بَاب مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الْأَضَاحِيِ)
عام حالات میں قربانی تین دنوں میں ہی کرلینی چاہیے۔ لیکن اگر کوئی مجبوری ہو تو ذوالحجہ کے پورے مہینہ میں بھی قربانی کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’قربانی آج اور کل اور پرسوں کے دن ہو سکتی ہے لیکن اگرسفر ہو یا کوئی اور مشکل ہو۔ تو حضرت صاحب کا بھی اور بعض اور بزرگوں کا بھی خیال ہے کہ اس سارے مہینہ میں قربانی ہو سکتی ہے۔ ‘‘(اخبار الفضل قادیان دارالامان نمبر۱۳، جلد ۱۰، مورخہ ۱۷ اگست ۱۹۲۲ء)
باقی اگر کسی حکم کا تعلق پوری جماعت سے ہو اور اس میں انتظامی امور بھی شامل ہوں تو اس کی اجازت دستور کے مطابق خلیفۂ وقت سے ہی لی جائے گی لیکن اگر کسی کو انفرادی طور پر کوئی مجبوری پیش آجائے تو اس کا فیصلہ اسے خود اپنے حالات اور مجبوری کو دیکھ کر کرنا چاہیے۔
سوال: سیریا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ دوران تلاوت آنے والی سورت کا نام اونچی آواز میں پڑھنا چاہیے یا دل میں دوہرانا چاہیے یا صرف اس پر نظر ڈالنا کافی ہے۔ نیز کسی سورت کے درمیان سے تلاوت شروع کرنے پر تعوذ اور تسمیہ دونوں پڑھنے چاہئیں یا ایسی صورت میں بسم اللہ نہ پڑھی جائے۔ اسی طرح جہری نمازوں میں فاتحہ سے پہلے تعوذ بھی اونچی آواز میں پڑھ سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ یکم ستمبر ۲۰۲۳ء میں ان سوالات کے بارہ میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: دوران تلاوت سورت کا نام لینا یا دل میں دہرانا یا اس پر نظر ڈالنا نہ کوئی شرعی مسئلہ ہے اور نہ ہی ضروری ہے۔ ایسی کوئی ہدایت قرآن کریم یا احادیث نبویہ ﷺ سے ہمیں نہیں ملتی۔
اگر کسی سورت کے درمیان سے تلاوت شروع کی جائے تو چونکہ قرآن کریم کا حکم ہے کہ فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ۔ (النحل:۹۹)یعنی (اےمخاطب)! جب تو قرآن پڑھنے لگے تو دھتکارے ہوئے شیطان (کے شر) سے (محفوظ رہنے کے لئے) اللہ کی پناہ مانگ (لیا کر)۔اس لیے تلاوت قرآن کریم خواہ سورت کے درمیان سے کی جائے یا سورت کے آغاز سے، اس سے پہلے تعوذ پڑھنا لازمی ہے لیکن سورت کے درمیان سے تلاوت کا آغاز کرنے پر بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں۔البتہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس بڑے کام کو بسم اللہ کے بغیر شروع کیا جائے وہ بے برکت ہوتا ہے۔(تفسیر الرازی سورۃ الفاتحہ زیر آیت صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) اس لیے تلاوت قرآن کریم سے قبل قرآنی حکم کے مطابق تعوذ پڑھنے کے بعد حضور ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں بسم اللہ بھی پڑھ لی جائے تو یہ امر باعث برکت اور ثواب ہے۔ اسی طرح اگر کسی سورت کے شروع سے تلاوت کا آغاز کیا جائے تو چونکہ بسم اللہ ہر سورت کا حصہ ہے اس لیے سورت کے شروع میں تعوذ کے بعد بسم اللہ بھی پڑھی جائے گی۔
باقی ایسی نمازیں جن میں قراءت بالجہر ہوتی ہے ان میں سورۃ الفاتحہ سے پہلے تعوذ اور تسمیہ جہراً پڑھنا ضروری نہیں بلکہ آنحضور ﷺ کی سنت متواترہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضورؐ انہیں سرّاً ہی پڑھا کرتے تھے۔چنانچہ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ، حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ جب بھی نماز شروع کرتے تو الحمدللّٰہ ربّ العالمین سے شروع کرتے۔ (بخاری کتاب الاذان باب مایقول بعد التکبیر)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: قرآنِ کریم اور رسول کریمﷺ – ایک سیپ سے نکلے دو موتی