احمد علیہ السلام۔سیرت و سوانح
خدائے تعالیٰ نے جو ہم کو مواشی جانور کھانے دودھ پینے سواری کرنے کو عطا فرمائے ہیں اِن کے عطا کو بھی آیات منقولہ حاشیہ میں اِسی لفظ نزول سے تعبیر کیا ہے۔
براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میں ابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو
جواب استدلال (وجہ انکار) فریق دوم
فریق دوم کی استدلال کا ماحصل یہ ہے کہ مولف براہین احمدیہ نے اپنے آپ کو بہت سی آیات قرآن کا (جو حضرت محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)و آدم و عیسیٰ و ابراہیم علیہم السلام کے خطاب میں وارد ہیں اور آز انجملہ گیارہ آیات بذیل وجہ انکار فریق دوم بصفحہ ۱۷۲ منقول ہو چکی ہیں) مخاطب و مورد نزول ٹھہرایا ہے۔ اور ان کمالات کا جو انبیاء سے مخصوص ہیں (جیسے وجوب اتباع۔ نزول قرآن۔ وحی رسالت۔ فتح مکہ۔ حوض کوثر۔ زندہ آسمان کی طرف اُٹھایا جانا وغیرہ) محل قرار دیا ہے۔ اس سے مفہوم ہوتا ہے کہ مولف براہین احمدیہ کو در پردہ نبوت کا دعویٰ ہے۔
اس کے جواب دو ہیں۔ اوّل یہ کہ مؤلف براہین احمدیہ نے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کیا کہ قرآن میں ان آیات کا مورد نزول و مخاطب مَیں ہوں اور جو کچھ قرآن یا پہلی کتابوں میں محمد رسول اللہ صلعم و عیسیٰ و ابراھیم و آدم علیھم السلام کے خطاب میں خدا نے فرمایا ہے اس سے میرا خطاب مراد ہے اور نہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ جو خصوصیات و کمالات اُن انبیاء میں پائی جاتی ہیں۔ وہ مجھ میں پائی جاتی ہیں۔ کلا و اللّٰہ ثم باللّٰہ ثم تاللّٰہ اس کتاب میں یا خارجاً مؤلف نے یہ دعاوی نہیں کئے۔ اور ان کو کامل یقین اور صاف اقرار ہے کہ قرآن اور پہلی کتابوں میں ان آیات میں مخاطب و مراد وہی انبیاء ہیں جن کی طرف ان میں خطاب ہے اور ان کمالات کے محل وہی حضرات ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے ان کمال کا محل ٹھہرایا ہے۔
اپنے اوپر ان آیات کے الہام یا نزول کے دعویٰ سے ان کی مراد (جس کو وہ صریح الفاظ سے خود ظاہر کر چکے ہیں۔ ہم اپنی طرف سے اختراع نہیں کرتے) یہ ہے کہ جن الفاظ آیات سے خدا تعالیٰ نے قرآن یا پہلی کتابوں میں انبیاء علیھم السلام کو مخاطب فرمایا ہے ان ہی الفاظ (یا آیات) سے دوبارہ مجھے بھی شرف خطاب بخشا ہے پر میرے خطاب میں ان الفاظ سے اور معانی مرادرکھے ہیں جو معانی مقصودہ قرآن اور پہلی کتابوں سے کچھ مغایرت اور کسی قدر مناسبت رکھتے ہیں اور وہ معانی ان معانی کے اظلال و آثار ہیں۔
تمثیلات
آیۃ نمبر ۱ (منجملہ آیات پیش کردہ فریق ثانی) کے معنی قرآن میں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ آیۃ آنحضرت کے خطاب میں ہے اور اس میں آنحضرت کا اتباع امت پر واجب کیا گیا ہے اور جب ان ہی الفاظ سے خدا نے ان کو ملہم و مخاطب کیا تو ان الفاظ میں (نہ قرآن میں) وہ اپنے آپ کو مخاطب سمجھتے ہیں اور اپنے اتباع سے اتباع (حاشیہ: یہی اتباع محمدی وہ اپنے اتباع سے اس اشتہار کے (جس کی بیس ہزار کاپی چھپوا کر ہندو انگلنڈ میں انہوں نے شائع کرنی چاہی) ۱۸ سطر میں مراد رکھتے ہیں۔ جو لوگ مؤلف کی اصل کتاب کو نہیں دیکھتے وہ اس اشتہار کے اس جملہ کہ ’’اُس کے (یعنی مؤلف کے) قدم پر چلنا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بُعد وحرمان ہے‘‘سے بھی مؤلف کا دعویٰ نبوت نکالتے ہیں اور یہ خیال نہیں کرتے کہ مؤلف کس چال میں اپنی پیروی کو موجب نجات اور اس کے خلاف کو موجب بُعد کہتا ہے وہی آنحضرتؐ کی چال جس پر چلنے کا مؤلف کو دعویٰ ہے یا اس کے اپنی ذاتی خیالی و چال۔ معترضین اصل کتاب نہ سہی اس اشتہار کے اس فقرہ سے پہلے سطر ۱۷ کے ان الفاظ کو کہ مؤلف کو ’’محض بہ برکت متابعت حضرت خیر البشر و افضل الرسلؐ یہ منصب عطا ہوا ہے‘‘ کو ہی غور سے پڑھتے تو یہ اعتراض نہ کرتے۔ ) آنحضرتؐ مراد قرار دیتے ہیں چنانچہ بصفحہ ۵۰۴ کتاب اُن الفاظ ملہمہ کا ترجمہ ان الفاظ سے فرماتے ہیں کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو یعنی اتباع رسول مقبول کرو تا خدا تم سے بھی محبت کرے۔
اور آیۃ نمبر ۲ کے قرآن میں تو وہ یہ معنی سمجھتے ہیں کہ اس میں قرآن مجید کی نسبت مشرکین کے قول کی حکایت ہے کہ وہ دو بستیوں (مکہ اور طائف) میں سے کسی سردار آدمی پر کیوں نہ اُترا اور جب ہی ان الفاظ سے خدا نے ان کو ملہم و مخاطب فرمایا تو (ان میں (نہ قرآن میں) امر منزل سے وہ اپنے الہام کو مراد خداوندی سمجھتے ہیں (یہی وجہ ہے کہ ان کے الفاظ میں لفظ نزل کے بعد لفظ قرآن واقع نہیں ہوا جیسا کہ قرآن کی آیۃ میں ہے اور اسی کے مطابق آیات پیش کردہ فریق ثانی کے ضمن میں نقل ہوا) اور دو شہروں سے کوئی اور دو شہر (مثلاً لدہانہ اور امرتسر) اور سردار آدمی سے کوئی مولوی فاضل (جیسے سرگروہ فریق اوّل و ثانی) مراد قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ بصفحہ ۵۰۴ ان الفاظ ملہمہ کا ترجمہ اِن لفظوں سے کرتے ہیں’’اور کہیں گے کہ کیوں نہیں یہ (ان کا الہام) اُترا کسی عالم و فاضل پر اور شہروں میں سے۔‘‘الخ۔
اور آیۃ نمبر ۵ کے قرآن میں تو وہ یہی معنی سمجھتے ہیں کہ وہ آنحضرت کے خطاب میں نازل ہوئی ہے اور اس میں آپ سے پہلے رسولوں کا حال بیان ہوا ہے اور جس میں آپ کی رسالت کی طرف بھی اشارہ ہے۔(باقی آئندہ)
بقیہ ریویو براہین احمدیہ
مذہبی نکتہ چینی کی جواب کا بقیہ
(جس میں فریق دوم یعنی لدھیانہ کے مکفرین کا جواب ہے)
اور جب انہی الفاظ سے (یعنی الفاظ آیت نمبر ۵ سے جو بصفحہ ۱۷۲ نمبر ۶ رسالہ منقول ہوئے) خدا ئے تعالیٰ نے ان کو مخاطب و ملہم کیا تو اِن الفاظ میں (نہ قرآن کی آیت میں) وہ اپنا اور پہلے ولیوں کا بیان حال مراد خداوندی سمجھتے ہیں چنانچہ صفحہ ۵۰۴ میں کتاب کے اِن الفاظ کا ترجمہ اِن الفاظ سے فرماتے ہیں ’’ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے ہم نے تجھ سے پہلے بھی اُمّت محمدیّہ ؐ میں کئی کامل اولیاء بھیجے ہیں۔‘‘
اور آیت نمبر ۶ (منجملہ آیات منقولہ صفحہ ۱۷۲) کے قرآن میں تو وہ بھی معنی سمجھتے ہیں کہ اِس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں۔ اور اِس میں وحی سے آپ کی وحی رسالت مراد ہے اور جب انہی الفاظ سے خدائے تعالیٰ نے اِن کو مخاطب فرمایا تو اِن الفاظ میں (نہ آیت قرآن میں) وہ اپنے آپ کو مخاطب و مراد خداوندی سمجھتے ہیں اور وحی سے الہام عام جو غیر نبی کو بھی ہوتا ہے اور اِس پر اطلاق لفظ وحی متعدد آیات مندرجہ حاشیہ وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔
وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی۔ (القصص ع ۱)
وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیّٖنَ۔ (مائدہ ع ۱۵)
اور آیت نمبر۷کا مخاطب تو وہ آنحضرت کو سمجھتے ہیں اور اِس فتح سے جو اُس آیت میں مذکور ہے فتح مکّہ مراد خداوندی جانتے ہیں اور جب انہی الفاظ سے خدائے تعالیٰ نے ان کو مخاطب فرمایا تو اِن الفاظ میں (نہ آیت قرآن میں) وہ فتح سے براہین و دلائل ہے فتح مراد خداوندی قرار دیتے ہیں۔(اِس کی تشریح و تفصیل مؤلف کی کلام سے رسالہ نمبر۶و۷میں پولیٹیکل نکتہ چینی کے جواب میں بخوبی ہو چکی ہے۔)
اور آیت نمبر۸کا مخاطب قرآن میں تو وہ آنحضرتؐ ہی کو سمجھتے ہیں اور کوثر سے اِس آیت میں حوض کوثر میدان محشر (جس کا آنحضرتؐ کو وعدہ دیا گیا ہے اور یہ وعدہ آنحضرتؐ کے سوا کسی نبی کو بھی نہیں دیا گیا چہ جائے ولی) مراد خداوندی سمجھتے ہیں اور جب انہی الفاظ سے خدائے تعالیٰ نے اُن کو مخاطب فرمایا تو اِن میں (نہ آیت قرآن میں) وہ اپنے آپ کو مخاطب سمجھ کر کوثر سے وہ معارف کثیرہ (جو خدا نے ان کو عطا فرمائے ہیں) مراد خداوندی قرار دیتے چنانچہ بصفحہ ۵۱۷ کتاب اِن الفاظ ملہمہ کا ترجمہ وہ اِن الفاظ سے کرتے ہیں۔ ’’ہم نے تجھے معارف کثیرہ عطا فرمائے ہیں سو اس کے شکر میں نماز پڑھ اور قربانی دے۔‘‘
اور آیت نمبر ۹ قرآن میں تو وہ لفظ یا عیسیٰ سے حضرت مسیح علیہ السلام سے خطاب مراد خداوندی سمجھتے ہیں اور رفع سے اُن کا جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھایا جانا (جیسا کہ عام مسلمانوں کا خیال ہے) اور جب انہی الفاظ سے خدائے تعالیٰ نے اِن کو مخاطب فرمایا تو اِن الفاظ میں (نہ آیت قرآن میں)وہ لفظ عیسیٰ سے اپنے آپ کو (اِس مناسبت روحانی کی نظر سے جو اِن میں اور حضرت مسیح میں پائی جاتی ہے اور وہ بصفحہ ۱۹۰ رسالہ نمبر ۶ میں بیان ہو چکی ہے) مراد خداوندی سمجھتے ہیں اور رفع سے حجج و براہین سے رفعت۔ اِس کی تشریح بھی مؤلف کے الفاظ سے نمبر ۶ میں بخوبی ہو چکی ہے۔
اور آیت نمبر ۱۰ مندرجہ قرآن کی نسبت تو وہ یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ اِس میں نازل و منزل بحق سے قرآن مجید میں مراد ہے جو آنحضرتؐ پر اُترا ہے اور جب انہی الفاظ سے خدائے تعالیٰ نے ان کو مخاطب فرمایا تو ان الفاظ میں (نہ آیت قرآن میں) وہ نازل و منزل بحق سے وہ معارف و حقائق اسلام مراد رکھتے ہیں جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ان کے دل پر منکشف ہوئے ہیں۔
انہی معارف و حقائق کا نزول وہ اُس عربی فقرہ میں جس میں قادیان کے قریب الہام نازل ہونے کا بیان ہے مراد خداوندی سمجھتے ہیں۔ نہ قرآن مجید کا نزول جس کا آیت اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ میں ذکر ہے۔اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَان وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنَا وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ۔
چنانچہ بصفحہ ۴۹۸ کتاب اِن الفاظ کا ترجمہ وہ اِن الفاظ سے فرماتے ہیں ’’ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اس الہام پر ازمعارف و حقائق کو قادیان کے قریب اتارا ہے اور ضرورتِ حقّہ کے ساتھ اتارا ہے اور بضرورتِ حقہ اترا ہے۔ ‘‘
اِس میں کسی کو لفظ نزول سے نزول قرآن یا وحی رسالت کا شبہ گذرے تو اُس کو یوں دفع کر سکتا ہے کہ یہ لفظ (نزول) وحی رسالت یا قرآن سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ لفظ بخشش و عطا کے معنوں میں بھی آیا ہے۔ دیکھو خدائے تعالیٰ نے جو ہم کو مواشی جانور کھانے دودھ پینے سواری کرنے کو عطا فرمائے ہیں اِن کے عطا کو بھی آیات منقولہ حاشیہ میں اِسی لفظ نزول سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ ایک آیت میں فرمایا ہے۔
وَ اَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ۔(زمر ع ۱) ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ۔(انعام ع ۱۷)خدا نے تمہارے لئے آٹھ جوڑے مواشی اُتارے (یعنی عطا فرمائے) ہیں۔ جن کو دوسری آیت میں بکری بھیڑ گائے اونٹ کے جوڑوں سے تفسیر کیا ہے۔
پس ایسا ہی عطا الہام معارف صاحبِ قادیان کو نزول سے تعبیر فرمایا تو اِس سے نزول قرآن و وحی آیات کا شبہ کیونکر پیدا ہوا۔
اور آیت نمبر ۱۱ میں قرآن میں تو وہ آدم سے باوا آدم علیہ السلام اور ان کے زوج سے اما حوا اور بہشت سے وہ بہشت جس میں حضرت آدم علیہ السلام رہتے تھے مراد خداوندی سمجھتے ہیں اور جب انہی الفاظ سے خدانے ان کو مخاطب کیا تو اِن الفاظ میں (نہ قرآن میں) آدم سے وہ اپنے آپ کو (اُس مناسبت روحانی کے سبب جو بصفحہ ۴۹۷ کتاب بیان کر چکے ہیں اور عنقریب وہ اِس نمبر میں منقول ہو گی)مراد خداوندی قرار دیتے ہیں اور زوج سے اپنے اتباع اور رفقاء اور بہشت سے دین اسلام جو بہشت کا وسیلہ ہے چنانچہ بصفحہ ۴۹۶ کتاب اِن الفاظ کو اور اِن کے ہم معنی دو فقرے عربی منقولہ حاشیہ اور نقل کر کے اِن کا ترجمہ اِن الفاظ سے فرماتے ہیں۔ یا مریم اسکن انت و زوجک الجنۃ یا احمد اسکن انت و زوجک الجنۃ (براہین احمدیہ صفحہ ۴۹۶)اے آدم !اے مریم! اے احمد !تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے جنت میں یعنی نجات حقیقی کے وسائل میں داخل ہو جاؤ۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: خلافت خامسہ کے بابرکت دَور میں امن عالم کے لیے ہونے والی کاوشوں پر ایک طائرانہ نظر