انبیاء کی مخالفت
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۸؍مئی۲۰۱۰ء)
اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ۔فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ۔فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ۔اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اِسۡتَکۡبَرَ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ۔(صٓ: 72۔75)جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا یقیناً میں مٹی سے بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ پس جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گِر پڑو۔ اس پر سب کے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں۔ اس نے استکبار کیا اور وہ تھا ہی کافروں میں سے۔
ابتدائے عالم سے ہی شیطان اور انسان کی جنگ شروع ہے اور مذہبی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پڑنے کے ساتھ ہی شیطان نے جنگ شروع کر دی تھی۔ شدت سے انسانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ اور پھر جو بھی انبیاء کا زمانہ آیا ہر زمانے میں یہ تاریخ دہرائی جاتی رہی، اور دہرائی جا رہی ہے۔ انبیاء جب آتے ہیں تو آ کر انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے دکھاتے ہیں اور شیطان ان میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پہلے بھی کرتا رہا ہے اور اب بھی کرتا ہے۔ مختلف طریقوں، حیلوں، بہانوں، لالچوں اور خوف کے ذریعے سے ڈراتا ہے۔ گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ قرآنِ کریم میں بے شمار جگہ اس بات کا ذکر آیا ہے۔ انسان اور آدم کی تخلیق کے ساتھ ہی شیطان نے اپنے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دئیے۔ قرآنِ کریم میں سورة فاتحہ سے لے کر سورة الناس تک شیطان کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے اس کے حملوں سے ہوشیار کیا ہے اور بچنے کا حکم دیا ہے اور دعا بھی سکھائی ہے کہ اے اللہ! ہمیں شیطانِ لعین کے حملوں سے بچا اور ہمیں ہر دم اپنی پناہ میں رکھ۔
…ہم دیکھتے ہیں جب آنحضرتﷺ اور مومنین پر ظلم کی انتہا ہوئی اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے مدینہ پر کفار نے حملہ کرنے کی نیت سے فوج کشی کی اور پھر بدر کے میدان میں جنگ کا میدان جما تو کس طرح فرشتوں کے ذریعے خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے حق میں جنگ کا پانسا پلٹا۔ جماعتی سطح پر بھی ہر موقع پر یہ نظارے نظر آتے ہیں۔ قومی سطح پر بھی نظارے نظر آتے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی انبیاء کے ساتھ یہ سلوک دیکھتے ہیں۔ پھر جنگِ حنین میں بھی یہ نظارہ دیکھا تو ہر موقع پر اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے آپ کی، مومنین کی تائید فرماتا رہا۔ اور اسلام کی تائید میں اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے ساتھ اور مسلمانوں کی ابتدائی حالت میں ہمیشہ فرشتوں کی ایک فوج ساتھ تھی۔ بے شک مسلمانوں کے جانی نقصان بھی ہوئے ہیں۔ مالی نقصان بھی ہوئے ہیں لیکن ابلیس کا گروہ جو ہے وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا۔ ابلیس اور شیطان کے چیلے اپنا زور لگاتے رہتے ہیں کہ کسی طرح سے، کسی بھی رنگ میں وسوسے پیدا کر کے اللہ کے بندوں کے دلوں میں شکوک ڈالتے رہیں۔ انہیں قتل و غارت کے ذریعے سے خوف دلاتے رہیں۔ مالی نقصان کے ذریعے سے خوف دلاتے رہیں۔ چھپ کے حملوں کے ذریعے سے بھی خوف دلائیں۔ ظاہری حملوں کے ذریعے سے بھی خوف دلائیں۔ مخالفین کا انبیاء کو نہ ماننا اور شیطان کے قبضہ میں جانا ان کے تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے جو ان کو نیکیوں کی طرف قدم بڑھانے کی توفیق نہیں دیتا۔ اور ہمیشہ ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اس نبوت کے دعویدار اور خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے کو ماننے والے تو غریب لوگ ہیں اور ہم بڑے لوگ ہیں۔ ہم صاحبِ علم ہیں۔ ہمیں دین کا علم زیادہ پتہ ہے اس لئے ہم کس طرح اس جماعت میں شامل ہو جائیں یا اس کی بیعت کر لیں۔ آج اس زمانے میں بھی جو زمانے کے امام کو نہیں مانتے تو یہ تکبر ہی ہے جو ان کو نہ ماننے پر مجبور کر رہا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا کہ جو بشر میں نے بنایا ہے اس کو سجدہ کرو تو یہ کوئی ظاہری سجدہ نہیں تھا۔ ظاہری سجدہ تو صرف خدا تعالیٰ کو کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں دین پھیلانے کے لئے میں نے جس شخص کو مبعوث کیا ہے اس کے لئے کامل فرمانبرداری کرتے ہوئے اس کے مشن کو آگے بڑھانے میں اس کی مدد کرو اور شیطانوں کے منصوبوں کو کبھی کامیاب نہ ہونے دو۔ ان مقاصد کو کبھی شیطان حاصل نہ کر سکے۔ اور شیطان کے تمام منصوبوں کو ناکام و نا مراد کرنے میں نبی کی تائید کرو۔ اس کا ہاتھ بٹاوٴ اور نیک فطرت اور سعید لوگوں کے دلوں میں نبی کے پیغام اور اللہ تعالیٰ کی اس کے ساتھ تائیدات کے سلوک کی پہچان بھی پیدا کرو تا کہ وہ حق کو پہچانے اور حق کو پہچان کر اس کی جماعت میں شامل ہو جاوٴ۔ پھر ایسے لوگ اپنے اندر بھی نفخِ روح کے نظارے دیکھیں گے۔ خدا تعالیٰ کے سلوک کے نظارے دیکھیں گے۔ اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کا باعث بنتے ہوئے جنتوں کا وارث ٹھہریں گے۔ نبی کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے میں، فرشتے انسانوں کو بھی جو حکم دیتے ہیں کہ نبی کا پیغام دنیا میں پھیلانے کے لئے اس کے مدد گار بن جاوٴ توسعید فطرت لوگوں میں یہ تحریک پیدا ہوتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جب تمام فرشتے بھی نبی کی تائید میں فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ کا اعلان کرتے ہیں۔ یعنی اس چیز کا نظارہ پیش کرتے ہیں کہ سب فرشتوں نے سجدہ کیا۔ اور خارق عادت اور غیر معمولی برکات نبی کے کام میں پڑ رہی ہوتی ہیں۔ اور فرشتہ صفت انسانوں کے ذریعے بھی اس سجدہ کے نظارے نظر آتے ہیں جو فرمانبرداری کا سجدہ ہے۔ جو اطاعت کا سجدہ ہے۔ جو اپنی تمام تر طاقتیں اور صلاحیتیں نبی کے کام کو آگے بڑھانے کا سجدہ ہے۔ اور وہ نبی کے سلطانِ نصیر بن کر اس کے کام کو آگے بڑھانے والے ہوتے ہیں۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: عہدیداران کی ذمہ داریوں کے متعلق راہنمائی