صبر اور دعا سے ہی کامیابیاں حاصل ہونی ہیں
الٰہی جماعتوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے قرآنِ کریم نے جوحکم فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف مستقل مزاجی سے ہر وقت جھکے رہنا ہے۔ یہ صبر اور دعا ہے جو مومنین کو کامیابیاں بخشتی ہے۔ یہ اصول اسلام سے پہلے کے تمام مذاہب نے دیا تھا ، تمام انبیاء نے بھی بتایا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی سبق ہمیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ تعلیم دی جس کو آپ نے پھیلایا۔ ہم مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ تمہاری کامیابیاں صبر اور دعا سے ہی حاصل ہونی ہیں۔ اس کے بغیر، اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں جس سے تم اپنے مقصد کا حصول کر سکو۔ قرآنِ کریم میں مختلف آیات میں صبر کے حوالے سے جو توجہ دلائی گئی ہے یا تلقین کی گئی ہے، اس کے مطابق صبر کی تعریف یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جو تکالیف آئیں یا جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑے تو کسی قسم کا شکوہ زبان پر نہ لاؤ۔ تاریخِ انبیاء سے ثابت ہے کہ خود انبیاء اور ان کے ماننے والوں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور کرنا پڑتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اور کون خدا تعالیٰ کا پیارا ہو سکتا ہے۔ لیکن آپؐ کو اور آپؐ کے ماننے والوں کو جن تکالیف سے گزرنا پڑا وہ ظاہر و باہر ہیں۔ لیکن آپؐ نے اپنے صحابہ کی ایسے رنگ میں تربیت فرمائی تھی کہ شکوہ تو دُور کی بات ہے اُن پر جب کبھی تکالیف آئیں یا جنگیں ٹھونسی گئیں یا کسی بھی قسم کے ظلم کئے گئے تو صبر اور دعا کے ہتھیار ہوتے تھے جو انہوں نے استعمال کئے۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جب لمبا عرصہ تکلیفوں اور سختیوں کی زندگی سے گزرنا پڑے تو ایک انسان ہونے کی وجہ سے اس تکلیف کے دور سے جب انسان گزرتا ہے تو وہ پریشان بھی ہوتا ہے کہ کب وہ زمانہ آئے گا جب ہمیں ان تکلیفوں اور سختیوں سے نجات ملے گی۔ کب ہم فتحیاب ہوں گے۔ کب ہمارا دشمن خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آئے گا؟ اللہ تعالیٰ مومنوں کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ یاد رکھو خدا تعالیٰ تم صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کو قائم رکھنے کے لئے صبر اور دعائیں کرو۔ اللہ تعالیٰ کا ساتھ توایسا ساتھ ہے جو نہ صرف اس دنیا کا ساتھ ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی ساتھ ہے۔ ایک مومن مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بنتا ہے۔ دنیا اور آخرت کے اس ساتھ کے لئے تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے، مستقل مزاجی سے اس سے تعلق جوڑتے ہوئے اور دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے چلے جاؤ۔ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا اور مانگنا کس طریقے سے؟ یہ ہمارا کام ہے۔ تکالیف آئیں تو ان کو برداشت کرو۔ ان سے پریشان نہ ہو۔ ان کی وجہ سے کسی قسم کا ابہام یا شبہ تمہارے دلوں میں پیدا نہ ہو۔ مستقل مزاجی کے ساتھ اور لگاتار اس سے تعلق جوڑے رکھو۔ یہ نہیں کہ آج دعاؤں پر زیادہ زور دے دیا۔ آج نمازیں پڑھ لیں۔ اگلے دن نمازوں کی طرف توجہ نہ ہوئی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی یاد ہمیشہ ایک مومن کے دل میں رہنی چاہئے۔
(خطبہ جمعہ۱۲؍ نومبر ۲۰۱۰ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل مورخہ۳؍ دسمبر ۲۰۱۰ء)
مزید پڑھیں: بڑے مقاصد کے حصول کے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں