ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب(دورہ یورپ۔ ستمبر و اکتوبر ۲۰۱۹ء کے چند واقعات۔ حصہ چہارم)
اے چھاؤں چھاؤں شخص!تری عمر ہو دراز
حضورِانور کی کارکنان جلسہ سالانہ پر شفقت
۱۹؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کی شام حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہِ شفقت جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۹ء کے افسران اور ناظمین کے ساتھ ایک عشائیہ میں شرکت فرمائی جو چند ماہ قبل منعقد ہوا تھا۔
عشائیہ سے کچھ دیر قبل حضورِانور نے مسجد بیت السبوح میں اپنے دفتر کے باہر راہداری میں امیر صاحب جرمنی سے گفتگو فرمائی۔
حضورِانور نے فرمایا کہ یہ عشائیہ ناظمین اور جلسہ افسران کے لیے ہی کیوں منعقد کیا گیا ہے اور معاونین کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ جلسے کے دوران تو زیادہ تر معاونین ہی سب سے زیادہ محنت کرتے ہیں، لہٰذا انہیں بھی شامل کرنا چاہیے تھا۔
حضورِانور کے اس استفسار پر امیر صاحب جرمنی نے عرض کیا:حضور! ہمارے پاس تمام جلسہ کارکنان کو مدعو کرنے کی گنجائش نہیں تھی اس لیے ہمیں محدود کرنا پڑا۔
یہ سن کر حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ پھر بھی اگر آپ ایسا عشائیہ منعقد کر رہے ہیں تو معاونین کو ضرور مدعو کرنا چاہیے تھا۔
جماعت کے افراد کے ساتھ چند لمحات
۲۱؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کی صبح، حضورِانور کا جماعت احمدیہ جرمنی کے مرکز مسجد بیت السبوح میں قیام اختتام پذیر ہوا اور حضورِانور اپنے بابرکت دورے کے اگلے مرحلے کے لیے برلن میں دو روزہ قیام کے لیےروانہ ہوئے۔ روانگی سے قبل صبح گیارہ بج کر ۵۰ پر حضورانور نے پندرہ منٹ اُن سینکڑوں احمدیوں کے درمیان گزارے جو آپ کو الوداع کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔اس دوران کئی احمدیوں کو حضورِانور سے ملاقات اور قربِ خلافت کی برکات حاصل کرنے کا موقع ملا۔
حضور جن لوگوں سے ملے ان میں سے ایک عمر رسیدہ، لمبی داڑھی والے بزرگ بھی شامل تھے۔ میں نے انہیں جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں کئی مواقع پر دیکھا تھا۔ وہ اکثر لمبے سفر طے کرکے حضورِانور کے پیچھے نماز پڑھنے آتے اور ہمیشہ سب سے پہلے حضور سے مصافحہ کرنے یاحضور کی آمدو روانگی کے موقع پر الوداع کہنے کے لیے صف میں کھڑے ہوتے۔جہاں کہیں بھی وہ حضورِانور کو دیکھتے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پاتے اور بلند آواز میں پُرجوش نعرے بلند کرتےجبکہ آنسو ان کی آنکھوں سے رواں ہوتے۔ اُس صبح بھی وہ بزرگ اوّلین افراد میں شامل تھے جو حضورِانور کو الوداع کہنے کے لیے آئے تھے۔
جوں ہی حضورِانور اپنی رہائش گاہ سے صحن میں تشریف لائے ان بزرگ نے بلند آواز میں پُرجوش نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ یہ ان کے لیے حیرت کا ایک ناقابلِ یقین لمحہ تھا جب حضورِانور بنفسِ نفیس اُن کے قریب تشریف لائے اور چند لمحے خوش طبعی کے ساتھ اُن سے گفتگو فرمائی۔
حضورِانور نے مسکراتے ہوئے دریافت فرمایا کہ کیا وہ لفظ نعرے کے ہجے (spellings) بتا سکتے ہیں؟
اپنے بے پناہ جوش اور خوشی کے عالم میں وہ بزرگ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے، مگر اُن کے چہرے پر جھلکتی بےحد و حساب خوشی اور طمانیت ہر دیکھنے والے کو صاف نظر آ رہی تھی۔یہ احمدیت قبول کرنے والے شخص نہایت سادہ طبیعت کے مالک اور زیادہ تعلیم یافتہ یا فصیح اللسان معلوم نہیں ہوتے تھے۔
میرے خیال میں دیگر راہنما یا لوگ جو اپنے آپ کو پڑھے لکھے سمجھتے ہیں ایسے شخص کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لیکن حضورِ انورکی محبت صرف امیروں یا عالموں تک محدود نہیں ہے بلکہ حضور کی محبت ہر احمدی کے لیے ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر ایک پیروکار سے ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب، خواندہ ہو یا ناخواندہ، کالا ہو یا گورا۔
بعد ازاں جب حضورِانور رخصت ہونے لگے تو اس شخص نے جن کو حضور کی یہ محبت ملی تھی کہاکہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس دنیا میں اللہ کے نمائندہ میری طرف آئے ہیں۔ میں جو نہایت کمزور اور کم علم انسان ہوں۔ ان لمحوں نے مجھے شفا دے دی ہے اوروہ مختصر لمحات میرے لیے دنیا کے تمام خزانوں سے بڑھ کر ہیں۔ میں اس لمحے کو کبھی نہیں بھولوں گا اور یہ ہمیشہ میرے دل کو سکون اور خوشی فراہم کرتا رہے گا۔
یہ کہہ کر وہ بزرگ حضورِانور کو الوداع کہنے کے بعد اپنی وین میں بیٹھے اور برلن روانہ ہو گئے، جہاں شام کے وقت وہ ایک بار پھر حضورِانور کے استقبال کے لیے موجود تھے۔
Brandenburg Gate پر ایک یادگار لمحہ
[برلن میں ہونے والے استقبالیہ تقریب کے بعد]جب ہم باہر نکلے تو میری نظر Brandenburg Gate پر پڑی جو چند سو میٹر کے فاصلے پر تھا۔میرے دل میں یہ خیال آیا کہ نہ جانے ہمیں دوبارہ کب یہ موقع ملے گا کہ ہم خلیفۃ المسیح کے ساتھ برلن کے وسط میں موجود ہوں۔میری بہت خواہش تھی کہ حضورِانور چند لمحے آرام کریں اور اس تاریخی مقام کے نظارے سے لطف اندوز ہوں۔ جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ میں اکیلا نہیں تھا جو ایسا سوچ رہا تھا۔پہلے امیر صاحب جرمنی اور پھر احمد بھائی (انچارج حفاظت خاص) نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کی کہ کیا حضور Brandenburg Gate کی طرف چند قدم چلیں گے اور قافلے کے افراد کے ساتھ ایک تصویر لینے کی اجازت مرحمت فرمائیں گے؟اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ میں پہلے بھی یہاں آ چکا ہوں اور یہ گیٹ دیکھ چکا ہوں۔ اب نماز کا وقت ہے۔
تاہم جب حضور نے ان کے چہروں پر خفیف سی مایوسی دیکھی تو اپنا فیصلہ تبدیل فرمایا اور تیز قدموں سے اس تاریخی اسکوائرکی طرف چل پڑے۔اس کے بعدحضورِانور اسکوائرکے درمیان میں کھڑے ہوگئے اور قافلے کے افراد اور جماعتِ جرمنی کے عہدیداران کو فرمایاکہ وہ دونوں ا طراف آکر کھڑے ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سےمجھے بھی اس یادگار تصویر میں شامل ہونے کا موقع مل گیا اور حضورِانور کے بائیں جانب چند افراد کے بعد کھڑا ہوا۔ مجھے اس بابرکت موقع پر شامل ہونے کی بہت خوشی تھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ وہ لمحات کم ہوتے جا رہے ہیں جب حضورِانور کسی سیاحتی مقام یا تاریخی جگہ کا وزٹ فرماتے ہیں۔ اسی لیے مجھے اندازہ تھا کہ یہ ایک نہایت نادر اور قیمتی موقع ہے۔متعدد افراد نے اپنے موبائل فون یا کیمرے سنبھالے ہوئے تھے تاکہ اس تاریخی لمحے کی تصویر یا ویڈیو بنا سکیں۔ ان افراد میں مرزا عثمان احمد بھی شامل تھے۔ جب حضورِانور نے انہیں دیکھا تو ازراہِ شفقت انہیں بھی تصویر میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا اور یوں وہ حضور کے قریب کھڑے ہونے کا شرف پا گئے۔بعد میں عثمان نے مجھ سے کہا کہ وہ چند لمحےجب حضورِانور نے انہیں تصویر میں شامل ہونے کے لیے بلایا ان کی زندگی کے سب سے یادگار لمحات میں سے تھے۔
شام کے وقت جب ہم واپس مسجدپہنچے تواحمد بھائی مجھے ملے اور کہاکہ مسجد واپس آتے ہوئے گاڑی میں حضور نے خاص طور پر پوچھا تھا کہ عابدآگیا تھا فوٹو میں؟یہ سن کر کہ حضور نے میرے بارے میں استفسار فرمایا ہے ، یہ لمحہ جو پہلے ہی ایک قیمتی تھا وہ اَور بھی زیادہ یادگار اور بابرکت ہوگیا۔ الحمدللہ
اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ حضور کے ساتھ میرا سب سے یادگار لمحہ کون سا ہے؟ اس سوال کا جواب دینا بہت ہی مشکل ہے۔ہر لمحہ مختلف طریقوں سے خاص ہوتا ہے۔ کچھ لمحے ذاتی یا قریبی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ کچھ لمحے اپنی تاریخی نوعیت کی وجہ سے خاص ہوتے ہیں۔ بے شمار لمحے اور واقعات ہیں اور ہر ایک اپنے انداز میں منفرد اور ناقابل فراموش ہوتے ہیں۔
برلن میں وہ لمحہ ذاتی اور عوامی دونوں کا مجموعہ تھا۔ جب بھی میں اس تصویر کو دیکھتا ہوں تومجھے اس شام کی استقبالیہ تقریب اور حضور کےپُر اثر الفاظ یاد آجاتے ہیں۔
تاہم میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ میں کتنا خوش قسمت تھا کہ میں نے حضور کو اس تقریب کے لیے تیاری کرتے ہوئے دیکھا اور ان کے ساتھ لمباوقت گزارا اور اپنے محدود دائرے میں مجھے حضور کی کسی قدر خدمت کرنے کا موقع بھی ملا۔
ایک خاص ملاقات
[برلن میں قیام کے آخری روز روانگی سے کچھ دیر قبل]جب فیملی ملاقاتیں اختتام پذیر ہونے والی تھیں تو حضور کی سیکیورٹی ٹیم کے ایک ممبر محمود خان صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں ایک احمدی سے ملا ہوں جو پریشانی کی حالت میں ہے۔جس شخص کا ذکر ہو رہاہے اس کی آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے اور وہ انتہائی غم زدہ دکھائی دیتا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ حال ہی میں پاکستان سے آیا ہےلیکن وہ حضور سے ملاقات نہیں کرسکا۔بہتی آنکھوں سے اُس نے کہا کہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پندرہ یا بیس سال سے میں نے حضور سے ملاقات کا خواب دیکھا ہے اور اب جبکہ میں ان سے صرف چند میٹر ہی دُور ہوں اور پھر بھی ملاقات نہیں کر پا رہا۔ تو کیوں؟ پلیز میری مدد کریں۔ پلیز۔ہم سب اس کی مدد کرنا چاہتے تھے لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ ملاقات کا وقت ختم ہونے والا ہے اور حضور کو بعد میں سفر پر روانہ ہونا تھا۔ مزید یہ کہ کچھ دوسرے احمدی بھی وقت کی کمی کی وجہ سے ملاقات نہ کر پائے تھے، اس لیے یہ واحدشخص نہیں تھے جن کی ملاقات نہیں ہو پا رہی تھی۔
ہم میں سے کسی ایک نے مشورہ دیا کہ وہ دفتر کی عمارت کے باہر کھڑےہو جائیں کیونکہ حضور نے ممبران جماعت کے ساتھ تصاویر کھنچوانے کے لیے باہر آنا تھا۔جب ہم یہ بات کر ہی رہے تھے تومیں نے کھڑکی سے باہر دیکھا اور دیکھا کہ حضور پہلے ہی گروپ فوٹوز کے لیے باہر آ چکے تھے۔ تو ہم نے اس شخص سے کہا کہ وہ باہر آ کر انتظار کرے۔جب فوٹوز ختم ہوئیں تو حالانکہ حضور دوسری سمت جا رہے تھے، انہوں نے اس شخص کو دیکھا جو ابھی تک بے اختیار روئے جا رہا تھا۔ حضور نے محبت و شفقت سے اسے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ کیا بات ہے۔کسی طرح اس شخص نے اپنی ہمت اکٹھی کی اور کہا کہ حضور! میں آپ سے ملاقات چاہتا تھا لیکن میرا نام فہرست میں نہیں تھا۔ اس کے بعد حضور نے اس سے بہت محبت اور شفقت سے بات کی۔حضور نے فرمایا کہ دیکھو! اب تو تم مجھ سے مل بھی رہے ہو اور ملاقات بھی کر رہے ہو۔ تم ایک تصویر بھی لے سکتے ہو۔یہ کہہ کرحضورِانور نے اس احمدی کا ہاتھ پکڑا اور فوٹوگرافر کو بلا یا گیا۔
بعد میں بھی وہ شخص روتا اور آنسو بہاتا رہا لیکن اب اس کے آنسو غم یا مایوسی کے نہیں تھے بلکہ خوشی اور اطمینان کے آنسو تھے۔وہ چند لمحے اس کے زندگی بھر کے خواب کی تکمیل تھے۔
مہدی آباد پہنچنا
چار بج کر پینتالیس منٹ پر دعا کے بعد، حضور اور قافلے کے ارکان برلن سے حضور کے بابرکت دورے کے آخری چند دنوں کے لیے مہدی آباد کی جانب روانہ ہوئے۔
ایک پُل سے پیغام
(Message from a bridge)
مسجدبیت البصیر کے افتتاح کے موقع پر منعقد ہونے والی استقبالیہ تقریب کے اختتام کے ساتھ حضور کی اس دورےپر عوامی سرگرمیاں ختم ہو ئیں اور اس کے فوراً بعد حضور نے مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھائیں اور اسلام آباد واپسی کےسفر کا آغاز فرمایا۔
دعا کے بعد، قافلہ پونے آٹھ بجے مہدی آباد سے روانہ ہوا اور ہم سیدھے Osnabruckشہر کی طرف روانہ ہوئےجہاں حضور نے رات کو مسجد بشارت میں قیام فرمایا۔ راستے میں جب ہم موٹر وے پر جا رہے تھے تو واکی ٹاکی پر ایک پیغام آیا کہ سامنے ایک پل کی طرف دیکھیں۔ جب ہم نے نظر دوڑائی تو ہمیں Bremen جماعت کے درجنوں احمدی ایک بینر(banner)لیے اور حضور کی سمت لہراتے کھڑے دکھائی دیے جنہیں حضور نے اپنی گاڑی سے دیکھا۔
اگرچہ وہ صرف حضور سے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتے تھے لیکن میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا تھا کہ پُل پر ان کا جمع ہونا غیرضروری تھا۔ آخرکار، کوئی بھی ڈرائیور خاص طور پر وہ جو موٹر وے پر تیزرفتار سے گاڑی چلا رہا ہو کوئی distraction نہیں چاہے گا۔
جب قافلہ مسجدبشارت پہنچا تو رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے ، اتنی دیر کے باوجود بہت سے احمدی مرد، خواتین اور بچے حضور کو دیکھنے کے لیے جمع تھے۔
(مترجم: طاہر احمد، انتخاب: مظفرہ ثروت)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات