شہادت وہ مرتبہ ہے جب انسان گویا خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے
مرتبۂ شہادت سے وہ مرتبہ مُراد ہے جبکہ انسان اپنی قُوتِ ایمان سے اِس قدر اپنے خدا اور روزِ جزا پر یقین کرلیتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے۔ تب اس یقین کی برکت سے اعمال صالحہ کی مرارت اور تلخی دور ہو جاتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی ہرایک قضاء و قدر بباعث موافقت کے شہد کی طر ح دِل میں نازل ہوتی اور تمام صحنِ سینہ کو حلاوت سے بھر دیتی ہے اور ہر ایک اِیلام انعام کے رنگ میں دِکھائی دیتا ہے۔ سو شہید اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو قُوتِ ایمانی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہو اور اُس کے تلخ قضا و قدر سے شہد شیرین کی طرح لذّت اُٹھاتا ہے اور اِسی معنے کے رُو سے شہید کہلاتا ہے۔ اور یہ مرتبہ کامل مومن کے لئے بطور نشان کے ہے۔
(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ۴۲۰، ۴۲۱)
عام لوگ تو شہید کے لئے اتنا ہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ شہید وہ ہوتا ہے جو تیر یا بندوق سے مارا جاوے یا کسی اور اتفاقی موت سے مَر جاوے مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہادت کا یہی مقام نہیں ہے۔…میرے نزدیک شہید کی حقیقت قطع نظر اس کے کہ اس کا جسم کاٹا جاوے کچھ اور ہی ہے اور وہ ایک کیفیت ہے جس کا تعلق دل سے ہے۔یاد رکھو کہ صدیق نبی سے ایک قُرب رکھتا ہے اور وہ اس کے دُوسرے درجہ پر ہوتا ہے اور شہید صدیق کا ہمسایہ ہوتا ہے۔
(ملفوظات جلد اول ، صفحہ ۳۴۵، ایڈٰیشن ۲۰۲۲ء)
اولیاء اللہ اور وہ خاص لوگ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں وہ چند دنوں کے بعد پھر زندہ کئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَاءٌ۔ (اٰل عمران:۱۷۰)یعنی تم ان کو مردے مت خیال کرو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں وہ تو زندے ہیں۔(تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۵۶)
مزید پڑھیں: خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر انسان کچھ چیز نہیں