امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھاحمدی طالبات کی تنظیم احمدیہ مسلم ویمن سٹوڈنٹس ایسو سی ایشن(AMWSA)جرمنی کے ایک وفدکی ملاقات
اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لیے مرد اور عورت دونوں کو نمازوں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ عبادت کرو، نمازیں پڑھو۔ صرف یہ نہیں ہے کہ فرض نمازیں ہیں تو ٹکریں مار کے جلدی سے پڑھ لو،
بلکہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارا آپس میں بھی محبّت اور پیار پیدا کرے اور قائم رکھے اور ہمارے بچوں کی تربیت بھی ایسی ہی کرے جو صحیح اور نیک رستے پر ہوں، معاشرے کے ماحول کا گندا اثر نہ ہو،
نیک اثر ہو۔ تو یہ دعائیں بھی دونوں کے لیے ضروری ہیں
مورخہ۲۰؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ احمدیہ مسلم ویمن سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن جرمنی کی ممبرات کے ایک اٹھاسی(۸۸) رکنی وفد کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےجرمنی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔

جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ ملاقات کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم سے ہوا۔ بعد ازاں دورانِ ملاقات تمام شاملینِ مجلس کو دربار خلافت میں مختلف نوعیت کے متفرق سوالات پیش کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور بیش قیمت نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
ایک لجنہ ممبرنے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم کی سورۃ المعارج آیت نمبر اکیالیس اور بیالیس میں فرماتا ہے کہ ’’پس !خبردار مَیں مشارق اور مغارب کے ربّ کی قسم کھاتا ہوں، یقیناً ہم ضرور قادر ہیں اس پر کہ انہیں تبدیل کر کے ہم ان سے بہتر لے آئیں اور ہم پر سبقت نہیں لے جائی جا سکتی۔‘‘ اس حوالے سے راہنمائی طلب کی کہ اگر ہم انسان اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ہم سے بہتر کوئی مخلوق کیسے لا سکتا ہے اور پھر وہ ہم سے بہترین مخلوق کیسے بنے گی؟
حضور انور نے اس پر الله تعالیٰ کی بے پایاں قدرت کو اُجاگر کرتے ہوئے استفہامیہ انداز میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر نہیں ہے؟ اللہ تعالیٰ صرف مالک نہیں ہے، اللہ تعالیٰ توقدرت رکھتا ہے۔یہی فرمایا ہے کہ ہم قادر ہیں، قادر تو وہی ہوتا ہے کہ جس کے پاس ہر قدرت ہو کہ آج اس نے یہ چیز اچھی پیدا کی ہے۔
حضور انور نے انسانوں کی عقل و فہم کےارتقاء اور ترقی کو اللہ تعالیٰ کی حکمت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اس بات پر روشنی ڈالی کہ تم لوگ انسان ہو، پوری چیزوں کے مالک نہیں ہو، قدرت نہیں رکھتے۔ مثلاً آج ایک کارکی انڈسٹری ہے، ایک ماڈل نکالتی ہواور اس میںimprovement کر کے کہتے ہیں کہ اس سے بہتر ماڈل ہے ہی نہیں۔ دو سال بعد بلکہ ایک سال بعد ہی اس سے بھیimproved ماڈل نکل آتا ہے۔تم آئی ٹی میں ترقی کر رہے ہو۔آج ایک چیز ہوتی ہے توکل کو ایک اَور چیز آ جاتی ہے۔ اب اے آئی (AI)نے ایک جگہ لے لی ہے۔وہ کہتا ہے کہ تم لوگ اس سے زیادہ بہتر چیزیں improvementکر کے نئی نئی چیزیں نکال سکتے ہو، تو اللہ تعالیٰ جو قدرت رکھنے والا ہے وہ کیوں نہیں پیدا کر سکتا؟
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بہترین مخلوق پیدا کیا ہے۔ انسانوں میں سے ہی زیادہ بہترین دماغ والےہیں۔آج سے چار ہزار سال پہلے جو انسان کا دماغ تھا وہ اتنا ڈیویلپ نہیں تھا جتنا آج ہے،جو چیزیں نکال رہے ہو۔تو اس کا مطلب ہے بہترین مخلوق تو انسانوں کے اندر ہی بن رہی ہے۔ تمہارے اندر ہی اللہ تعالیٰ دماغ پیدا کر رہا ہے، نئی نئی تعلیمیں دے رہا ہے، علم دے رہا ہے، تم سیکھ رہی ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ تم بہترین مخلوق بن رہی ہو۔
دُور دراز سیاروں پر انسانی زندگی کے امکان اور رابطہ کی صورت میں انہیں آنحضرتؐ کا پیغام پہنچانے کے حوالے سے حضور انور نے فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ قادر ہو سکتا ہے کہ کسی اَورplanetمیں زندگی ہو اور وہاں ہماری طرح کے انسان موجود ہوں۔ اور اب تو چند دن پہلے ہی ریسرچ آئی تھی، پتا نہیں تم نے پڑھی ہے کہ نہیں کہ انہیں ایکplanet بہت دُور ملینز years پرنظر آیا ہے، جہاں وہ کہتے ہیں کہ انسانی زندگی ہےاور وہ ہماری طرح کے انسان ہیں، ہو سکتا ہے کہ ہمارے سے زیادہ عقل والے ہوں۔ جب ہمارے سے رابطہ ہوگا توپھر ہم بتائیں گے کہ مذہب یہ کہتا ہے، تمہیں ہمارا مذہب ماننا ہے یا وہ کوئی مذہب مانتے ہیں یا نہیں لیکن ابھی تک تو ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ آنحضرتؐ کورحمۃ للعالمین بنایا ہے۔ اس لیے اگر اوپر کوئی زندگی ہے اور ان کا رابطہ تمہارے سے ہوتا ہے تو تب بھی ہمیں ان کو آنحضرتؐ کا پیغام پہنچانا ہے اور قیامت سے پہلے وہ نظارہ ہو جائے گااگر ہمارا رابطہ قیامت سے پہلے ہو جاتا ہے۔اور اگر اس کے بعد کی کوئی مخلوق پیدا ہونی ہے تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
ایک لجنہ ممبر نے بیان کیا کہ آج کل متفرق معاشروں میں شادی کو اکثر روحانی اور ذاتی ترقی کے مسلسل سفر کی بجائے ایک آخری منزل سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے راہنمائی طلب کی کہ نوجوان احمدی مسلمان خواتین کس طرح اس امر کو یقینی بنا سکتی ہیں کہ ان کی شادیاں محض معاشرتی توقعات کی بجائے باہمی روحانی ترقی اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بنے؟
حضور انور نے اس کے جواب میں بصیرت افروز مفصّل راہنمائی عطا فرماتے ہوئے سب سے پہلے اس بنیادی نکتے کی جانب توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ انسان کی جو شادیاں ہیں، انسان کے جوڑے اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں، تاکہ بقائے نسل ہو اور بقائے نسل صرف جانوروں کی طرح تو نہیں نہ کہ گائیاں، بھینسیں، بکریاں، بھیڑیں اور جانور جس طرح پیدا کر کے اپنی نسل بڑھاتے ہیں کہ انسان بھی اس طرح نسل بڑھاتا رہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی میں ایک ذریعہ بنایا ہے اور بہت سارے لوازمات اور تسکین کے سامان بھی رکھے ہیں۔
حضور انور نے میاں بیوی کے باہمی تعلقات کے تناظر میں دلی تسکین، محبّت اور روحانی ترقی کے پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہوئے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو فرمایا کہ تمہیں ایک دوسرے کی تسکین کا سامان پیدا کرنے کے لیے بنایا ہے۔ تو پہلی بات تو یہ تسکین کا سامان یہی ہے کہ آپس میں دوستی اور دوستانہ ماحول ہو، ایک دوسرے کے جذبات کا خیال ہو اور جب یہ ہوگا تو اس ماحول میں ایک پیار اور محبّت کی فضا ہوگی اور جو آئندہ نسل پیدا ہوگی، جو بقائے نسل، یعنی نسل کی بقا ہے، اس کو جاری رکھناہے۔ اور وہ نسل جو ہوگی، اس میں بھی پھر وہ چیزیں پیدا ہوں گی۔ یعنی پیار اور محبّت کرنے والی ہوں گی اور پھر اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ سے پیار اور محبّت کرنے والی ہوں گی۔اور جب انسان کو یہ ادراک حاصل ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ احسان کیے ہیں کہ اس دنیا میں میرے لیے ایسے سامان فرما دیے کہ مَیں اس زندگی میں صرف مشکلات میں سے نہ گزروں بلکہ محبّت پیار کی فضا میں بھی رہوں اور میرےلیے تسکین کے سامان بھی ہوں، تو اللہ تعالیٰ کا مَیں شکر گزار بنوں اور جب میاں بیوی اس بات کا احساس کرلیں کہ ہم نے ایک دوسرے کے جذبات کا بھی خیال رکھنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حق کا بھی خیال رکھنا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر وہ ایسے کام کریں گے جو ان کی روحانیت اور دلی تسکین کی بہتری کے سامان بھی ہوں گے۔
حضور انور نے آنحضرتؐ کے ارشادِ مبارک کا حوالہ دیتے ہوئے بیان فرمایا کہ اگر ایک خاوند اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ اس لیے ڈالتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، جس سے اس کے پیار اور محبّت کا بھی اظہار ہو اور اللہ تعالیٰ سے پیار اور محبّت کا بھی اظہار ہو تو اس کو ثواب ملے گا۔
حضور انور نے اس تناظر میں مزید توجہ دلائی کہ معاملہ صرف لڑکیوں کا نہیں ہے بلکہ لڑکوں کو بھی سوچنا ہوگا۔ اس لیے دونوں کو سوچنا چاہیے کہ ہم نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کام کرنے ہیں اور جب اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کام کرنے ہیں تو پھر جہاں اللہ کو خوش کرنے والے ہوں گے، وہاں اپنی روحانیت میں ترقی کر کے ہی خوش کرسکتے ہیں، وہاں انسانی زندگی جو عملی زندگی بھی ہے، اس میں بھی اپنی تسکین کے سامان پیدا کر سکتے ہیں اور اپنی نسلوں کو بھی بچا سکتے ہیں۔
ایک سوال حضور انور کی خدمتِ اقدس میں یہ پیش کیا گیا کہ بعض اوقات ایسے بچے جنہیں سکولوں میں مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنی جان لے لیتے ہیں، اس حقیقت کو جانے بغیر کہ اسلام میں یہ گناہ ہے، ایسے بچوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کیا سلوک فرمائے گا؟
اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ایک تو یہ ہے کہ مَیں ہمیشہ کہتا ہوں کہ والدین کو چاہیے کہ بچوں سے دوستانہ ماحول رکھو۔ اور سکول سے جب وہ آتے ہیں، پریشان ہوتے ہیں، بعض دفعہ چھوٹے بچے ہوتے ہیں، صبح آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سکول نہیں جانا اور رونا شروع کر دیتے ہیں، اس لیے کہ ان کو بچے وہاں تنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ تو ماں باپ کو چاہیےکہ ان سے پوچھیں کیا وجہ ہے؟ پھر وہاں جا کے ہیڈ ٹیچر، سکول کی ٹیچر، انتظامیہ یا سکول کی ایڈمنسٹریشن سے ملیں۔ ان کو کہیں کہ تمہارے سکول میں ہمارے بچےbullyہو رہے ہیں اور یہ بچے اس طرح کےہیں ، تو اس لیے حکمت سے یہ کام کرنا پڑے گا۔
حضور انور نے اس پہلو کو بھی اُجاگر کیا کہ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے تم شکایت کرو تو وہ بچے جو تنگ کر رہے ہوتے ہیں ، وہ بدلہ لینے کے لیے اَور زیادہ تنگ کرنا شروع کرتے ہیں ، وہ بچہ پھربالکل ہی نروس ہو جاتا ہے۔ پھر یہ ہے کہ اگر ایسی صورت حال ہے تو امریکہ وغیرہ میں اور دوسرے ملکوں میں، یہاں بھی ہے اور میرا خیال ہے کہ جرمنی میں بھی یہ ہوتا ہوگا کہ پھر سکول سے کچھ دیر کے لیے بچوں کو نکال لو یا اس کا سکول بدل دو یا گھر میں home schoolingکرو۔ ان میں اعتماد پیدا کرو، روزانہ گھر میں آئیں تو ان کو encourageکرو کہ تم نے پڑھنا ہے، تم نے لوگوں سے نہیں ڈرنا کہ ان کی باتیں مانو۔ ان کے دل میں یہ چیز پیدا کرو کہ تم نے کسی سے ڈرنانہیں۔ ایک تواپنے بچوں کا خوف دُور کرو اور دوسرے پوری پروٹیکشن دو۔ بچے کو پتا ہو کہ میرے پیچھے میرے ماں باپ کھڑے ہیں، جو سکول میں جا کے ہیڈ ٹیچر، ہیڈ ماسٹر اور سکول کے سٹاف سے بھی مقابلہ کریں گے اور ان کو بتائیں گے کہ یہ نہیں ہونا چاہیےاور مجھے بھی پروٹیکشن دیں گے۔ تو جب یہ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے تو نفسیاتی بیماری دُور ہو جائے گی، جب وہ دُور ہو جائے گی، تو اس کے لیے پھر ماں باپ کے پاس ایک ہی علاج ہے کہ بچوں کو دوست بناؤ۔ سارا دن یہی نہیں کہ باپ پیسے کمانے پر لگا ہوا ہے، ماں اپنی گپیں مارنے پر لگی ہوئی ہے اور بچے ضائع ہو رہے ہیں۔
حضور انور نے تربیتِ اولاد کے حوالے سے والدین پر عائد ہونے والی اہم ذمّہداری اور قربانی کی اہمیت کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے فرمایا کہ یہ realizeکرنا پڑے گاکہ ہم نے بچوں کی خاطر قربانی کرنی ہے۔بچے پیدا کر کے جنگلی جانوروں کی طرح چھوڑ نہیں دینے ہیں ۔ ان کو انسان بنانا ہے اور انسان بنانے کے لیے ہمیں محنت کرنی پڑے گی۔ اس لیے نکاح کے خطبے میں جو آیات پڑھی جاتی ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تم یہ دیکھو کہ تم نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔ کل کے لیے آگے بھیجنا کیا ہے ؟یہ کہ تم اپنی اولاد کی تربیت کرو۔ تمہاری کل جو ہے، تمہارا مستقبل، وہ تمہاری اولاد ہے۔ ان کے لیے تم نے کیا آگے بھیجا ہے، ان کی تم کس طرح تربیت کر رہی ہو؟ وہ جب صحیح طرح کرو گی تو اگلی نسل تمہاری صحیح چلے گی، تو پھر اس دنیا میں بھی تمہیں فائدہ ہے اور اگلی نسل کو بھی فائدہ ہے اور انسانیت کو بچانے کا بھی فائدہ ہے۔
اس مجلس میں پیش کیا جانے والا ایک سوال یہ تھا کہ بچپن سے ہی بالخصوص لڑکیوں کو حیا اور پردہ پر توجہ دلائی جاتی ہے اور یہ سمجھایا جاتا ہے کہ ظاہری صورت کو ترجیح نہ دیں، مگر جیسے ہی ہم اس عمر کو پہنچتے ہیں، جہاں رشتوں کی بات آتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں صرف ہماری ظاہری شکل تک محدود کردیا جاتا ہے۔ بہت سی لڑکیاں اس تضاد کو محسوس کرتی ہیں اور اس کا سامنا کرتی ہیں۔ حضور انور اس صورتحال سے متعلق کیا نصیحت فرمائیں گے؟
حضور انور نے اس پر یاد دلایا کہ اگر تو اسلامی تعلیم پر عمل نہیں کر رہے تو پھر اسلامی تعلیم کا تو قصور نہیں ہے۔ تمہارے معاشرے کا قصور ہے، لوگوں میں لالچ کا قصور ہے، خدا تعالیٰ کو بھلانے کا قصور ہے۔
حضور انور نے حدیثِ مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے بیان فرمایا کہ آنحضرتؐ نے لڑکوں کو نصیحت کرتے ہوئے تو یہی فرمایا تھا کہ جب تم رشتہ پسند کرو تو چار چیزیں تم عموماً پسند کرتے یا دیکھتے ہو کہ جہاں تم رشتہ کر رہے ہو تے ہو کہ ان لوگوں کے پاس دولت ہے کہ نہیں، آج کل بھی لڑکا جاتا ہے اور لڑکی والوں سے پوچھتا ہےکہ کتنے پیسے، زیور دو گے اور صرف یہی نہیں بلکہ لڑکی والے بھی لڑکے والوں سے پوچھتے ہیں کہ اپنا گھر ہے یا ماں باپ کے ساتھ رہے گا۔اپنا گھر نہیں ہے تو ہم تمہیں لڑکی نہیں دیتے۔تو دونوں طرف سے یہ بات چل رہی ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اچھی شکل و صورت ہو، اس میں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔یا یہ ہے کہ اچھا خاندان ہو، اچھی فیملی ہو، میرا سٹیٹس ہائی ہو جائے گا، اس بات پر لوگ چلے جاتے ہیں کہ یہاں مَیں رشتہ کر لوں۔ ایک چیز دینداری ہے کہ اچھی دیندار لڑکی ہو، باحیا ہو، اللہ اور رسولؐ کا اس کو خوف ہو، اسلامی تعلیم پر عمل کرنے والی ہو، تو آنحضرتؐ نے فرمایا کہ یہ چار چیزوں میں سے سب سے بہتر رشتہ وہ ہے جب تم دیندار لڑکی کو پسند کرو گے۔اس سے تمہاری آئندہ نسل بھی ٹھیک چلے گی۔
حضور انور نے مزید اس اہم امر کو واضح فرمایا کہ اب یہ نصیحت آنحضرتؐ نے لڑکوں کو فرمائی کہ دیندار کو پسند کرو۔ دیندار کو کون پسند کرے گا؟ وہ لڑکا تو پسند نہیں کرے گا ، جو سارا دن بیٹھ کے انٹرنیٹ پر گندی تصویریں، فلمیں دیکھتا رہتا ہے یا لوگوں میں بیٹھ کے گپیں مارتا رہتا ہے یا غلط حرکتیں کرتا ہے یا سگریٹ نوشی کرتا ہے یا پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھتا ۔ وہ یہ تو نہیں کہے گا مَیں تو نمازیں نہیں پڑھتا لیکن میری بیوی نمازی ہونی چاہیے۔ اس کو اس سے کیا ؟ اس کو نماز کا پتا ہی نہیں ۔ اس لیے یہ نصیحت دونوں کے لیے ہے۔
لڑکوں اور لڑکیوں کی مساوی تربیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ تو اس ماحول میں جہاں صرف لڑکیوں کو حیا بتائی جاتی ہے، ماں باپ لڑکوں کو کھلی چھٹی دے کر کہتے ہیں کہ جو مرضی کرو، حالانکہ لڑکوں پر زیادہ پابندیاں کرنی چاہئیں، ان کو سختی سے رکھنا چاہیے۔ سختی سے اس لحاظ سے کہ ان کو تعلیم دینی چاہیے۔ خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، انصار اللہ اور ماں باپ جہاں اپنے بچوں میں سےلڑکیوں کی تربیت کریں تو وہاں لڑکوں کی بھی تربیت کریں۔ لڑکوں کو کھلی چھٹی نہیں دینی چاہیے۔ مَیں تو کئی دفعہ اس بارے میں کہہ چکا ہوں۔ تو جب دونوں طرف سے نیکی ہوگی تبھی نیک اثر قائم ہوگا ۔ نہیں تو پھر لڑکی کی بھی مرضی ہے، وہ پھر اپنی مرضی سے شادی کرے گی اگر تواس کو کوئی نیک شخص مل جاتا ہے۔
یہ جو ہمارا معاشرہ ہے، وہ غلط ہے، ہمارا معاشرہ کیا ہے؟ ابھی تم یہاں سارے بیٹھے ہو،اس میں مجھے پتا نہیں کوئی جرمن یاافریقن ہے کہ نہیں؟ تم لوگ سارے پاکستانی اوریجن کے لوگ ہو۔ ہم میں سوچ ایسی آ گئی ہے کہ ہم نے لڑکیوں کو دبا کے رکھنا ہے اور لڑکوں کو کھلی چھٹی دے دینی ہے۔ حالانکہ لڑکوں کو بھی اصلاح اور تربیت کی ضرورت ہے اور ان کو حدیث سنانی چاہیے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اچھی لڑکیاں پسند کرو اور اچھی لڑکی تبھی ملے گی کہ جب تم خود اچھے ہو گے۔
حضور انور نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ لڑکی کو کہتے ہیں کہ تم پڑھتی جاؤ۔ لڑکیاں ہماری عموماً معاشرے میں، تم لوگ ساری شاید سٹوڈنٹ ہو ، پڑھ لیتی ہیں۔ Abitur کرتی ہیں، Gymnasium میں پڑھتی ہیں یایونیورسٹی میں چلی جاتی ہیں اور لڑکے کیا کرتے ہیں؟ Real schule ، Gesamt schuleکیا، نکمے رہے اور اس کے بعد Ausbildung(فنّی تربیت)کرکے ہتھوڑی لے کے تو پیچ کَس دیے تو کام بن گیا۔ اس سے تو کام نہیں ہو گا۔ لڑکوں کو بھی پڑھانا چاہیے۔ لڑکوں کو خدا نہ بناؤ۔
[قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ جرمنی کا تعلیمی نظام زیادہ تر سرکاری ہے اور مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔جرمنی میں بچے کنڈر گارٹن یعنی پری سکولنگ کے بعد عموماً چھ سال کی عمر میں ابتدائی سکول، جسے Grundschule کہا جاتا ہے، میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ مرحلہ چار سال (یا بعض صوبوں میں چھ سال)پر مشتمل ہوتا ہے۔ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طلبہ کی صلاحیت اور دلچسپی کی بنیاد پر انہیں تین مختلف تعلیمی راستوں میں بھجوا دیا جاتا ہے۔
پہلا راستہ Hauptschule ہے، جہاں پانچویں جماعت سے لے کر نویں یا بعض اوقات دسویں جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ عمومی طور پر فنّی تربیت (Ausbildung) حاصل کرتے ہیں اور مختلف پیشہ ورانہ میدانوں میں داخل ہوتے ہیں۔
دوسرا راستہ Realschule ہے، جو پانچویں سے دسویں جماعت تک جاری رہتا ہے۔ یہ راستہ طلبہ کو درمیانی درجے کی ملازمتوں یا فنّی تربیت کے اعلیٰ شعبوں کی طرف لے جاتا ہے۔
تیسرا اور سب سے اعلیٰ راستہ Gymnasium ہے۔ یہاں تعلیم پانچویں جماعت سے شروع ہو کر بارھویں یا تیرھویں جماعت تک جاری رہتی ہے۔ اس کا اختتام مشہور Abiturامتحان پر ہوتا ہے، جو یونیورسٹی میں داخلے کی شرط ہے۔]
حضور انور نے اس اہم نکتے پر بھی توجہ دلائی کہ خداتعالیٰ نے قرآنِ شریف میں اس لیے لکھا ہے کہ تم لوگ مرد اور عورت میرے سے دعا کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحت مند اولاد دے اور اچھا لڑکا دے اور جب اللہ تعالیٰ دے دیتا ہے تو اس کو اللہ کے مقابلے میں کھڑے کر دیتے ہو، شرک کرنے لگ جاتے ہو، مطلب یہی ہے کہ اس کی تم صحیح طرح تربیت نہیں کرتے۔ لڑکیوں کو دباتے رہتے ہیں، لڑکوں کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے، یہ نظریہ ہی غلط ہے۔ اس لیے ماں باپ کی اصلاح کرنی چاہیے۔
حضور انور نے صدر صاحبہ لجنہ اماء الله جرمنی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ لجنہ کی صدر بیٹھی ہے، اس کو چاہیے کہ پہلے اپنی اصلاح کریں، اپنی آنٹیوں، خالاؤں کی اصلاح کرے، تو بچیوں کی اصلاح آپ ہی ہو جائے گی۔
مزید برآں آخر پر حضور انور نے شرکائے مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے تحریک فرمائی کہ تم لوگ ایک مہم چلاؤ کہ ہم نے نیک بننا ہے اور باقیوں کی بھی اصلاح کرنی ہے، اگر کوئی اور نہیں اصلاح کے لیے آتا ہے، تو تم اصلاح کے لیے کھڑی ہو جاؤ ۔ یہی علاج ہے اور تو کوئی علاج نہیں۔
حاضرات میں سے ایک لجنہ ممبر نے حضور انور سے دریافت کیا کہ کیا لجنہ ممبرات کے لیے بیرون ملک یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنا جائز ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ لڑکیاں یہاں سے سپین، جرمنی اور دوسرے ملکوں میں جاتی ہیں، تو تم جرمنی والے یوکے کیوں نہیں آ سکتیں؟ ضرور آؤ! لیکن ہمیشہ یہ خیال رکھو کہ احمدی لڑکی کی حیثیت سے تمہارا ایک تقدّس ہے، تم نے اپنے تقدّس کا خیال رکھنا ہے، تمہارے فرائض ہیں، ان فرائض کو ادا کرنا ہے، تمہارا لباس حیادار ہونا چاہیے، باہر پڑھنے بھی آرہی ہو تو باپردہ رہناچاہیے۔
سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں حضور انور نے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کی بابت نصیحت فرمائی کہ لڑکوں سے تمہارا interaction زیادہ نہیں ہونا چاہیے، غلط قسم کی لڑکیوں سے زیادہ انٹریکشن نہیں ہونا چاہیے، قرآن شریف میں یہ نہیں آیا کہ صرف مردوں سے بچو بلکہ یہ بھی آیا ہے کہ جو غلط عورتیں ہیں، ان سے بھی پردہ کرو۔ تو ان سے بچ کے رہو، اپنی تعلیم پر توجہ دو اور اپنے کورس کی حدّ تک تمہارا انٹریکشن مرد سٹوڈنٹ لڑکوں سے بھی ہو جاتا ہے، لڑکیوں سے بھی ہوتا ہے، کورس کی حدّ تک، پڑھائی کی حد تک آپس میں رابطہ کر لو، لیکن open، علیحدگی میں بیٹھ کے، کیفیٹریا، کینٹین ، ٹَک شپ یا ریسٹورنٹ میں جا کے گپیں نہ مارنے لگ جاؤ۔اس کے علاوہ تم باہر آتی رہو۔پھر تمہاری رہائش independent ہونی چاہیے، لڑکیوں کے ہاسٹل میں رہو اور جہاں ساری لڑکیاں ہوں یا پھر اپنا independent انتظام ہو۔
حضور انور نے توجہ دلائی کہ پھر اگر ماں باپ کو تسلی ہے، ان کو تمہاری زیادہ فکر نہیں،تو ٹھیک ہے کہ تم بیرونِ ملک پڑھائی کرو۔ تم خود جوان لڑکی ہو، بیس سال کی لڑکی کو تو خود اپنی حفاظت کرنی آتی ہے، بالغ اورعقلمند ہوتی ہے، اس کو مَیں کیا عقل دوں، تم خود عقل مند ہو ماشاءاللہ!
بعدازاں حضور انور نے استفسارفرمایاکہ بیس سال کی ہو گئی ہو؟ جس پر سائل نے عرض کیا کہ وہ اکیس سال کی ہیں، تو حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ ہاں! تو بس پھر پڑھنا ہے تو پڑھو۔
ایک شریکِ مجلس نے دریافت کیا کہ ایسے کون سے راہنما اصول ہیں، جن کا عائلی زندگی کے ابتدائی سالوں میں شوہر اور بیوی کو خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے تاکہ ان کا رشتہ مضبوط، ہم آہنگ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق قائم ہو سکے؟
اس پر حضور انور نے عائلی زندگی کے ابتدائی سال میں مضبوط اور ہم آہنگ رشتہ قائم کرنے کے راہنما اصول کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے تلقین فرمائی کہ پہلی بات تو یہی ہے کہ لڑکے اور لڑکی کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ ہم دونوں میں کمیاں کمزوریاں ہیں۔ پرفیکٹ تو کوئی انسان دنیا میں نہیں ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ایک انسانِ کامل پیدا ہوا اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ باقی ہر ایک میں کمزوریاں ہیں۔ جب تم ایک دوسرے کی کمزوریاں دیکھو تو ان پر صَرفِ نظر کرو ۔اور جو common interest کی چیزیں ان کے متعلق باتیں کرو، بیٹھو۔
حضور انور نے مثال کے ذریعے واضح فرمایا کہ اگر ایک لڑکا پڑھا لکھا سکالر ہے اور لڑکی نے Realschuleبھی نہیں کیا ہوا تو پھر mental match نہیں ہوگا۔ یا لڑکیاں عام طور پر زیادہ پڑھتی ہیں، لڑکے نکمے ہی ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی گزارہ کر لیتے ہیں۔کئی لڑکے جرمنی سے آتے ہیں، بلکہ مَیں حیرانی سے پوچھتا ہوں کہ لڑکی پڑھی لکھی ہے ،کوئی ٹیچر ہے، کوئی ڈاکٹر ہے اور لڑکا یا مکینک ہے یا اپنا کاروں کا بزنس کررہا ہےیا ٹیکسی کا بزنس کر رہا ہے یا ریسٹورنٹ چلا رہا ہے، لیکن پھر بھی وہ خوش ہیں۔ تو یہ بھی تو انڈرسٹینڈنگ کی بات ہے۔
حضور انور نے مزید وضاحت فرمائی کہ سیدھی بات تو یہ ہے کہ یہ سوچ لو کہ ہر ایک میں کمیاں کمزوریاں ہوتی ہیں، ہم نے ایک دوسرے کی کمزوریوں کو ظاہر نہیں کرنا بلکہ ان پرصَرفِ نظر کرنا ہے تاکہ ہماری عائلی زندگی اچھی ہو اور جب بچہ پیدا ہو جائے تو اس کا بچوں کی تربیت پر بھی اچھا اثر پڑے۔ پھر جب بچے پیدا ہو جائیں تو ہمیشہ ماں باپ کو قربانی کرنی چاہیےاور اپنے اخلاق کو اچھا کرنا چاہیے۔
اسی طرح حضور انور نے عائلی زندگی کی کامیابی کے لیے عبادت اور دعا کے مضمون کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لیے مرد اور عورت دونوں کو نمازوں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ عبادت کرو، نمازیں پڑھو۔ صرف یہ نہیں ہے کہ فرض نمازیں ہیں تو ٹکریں مار کے جلدی سے پڑھ لو،بلکہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارا آپس میں بھی محبّت اور پیار پیدا کرے اور قائم رکھے اور ہمارے بچوں کی تربیت بھی ایسی ہی کرے جو صحیح اور نیک رستے پر ہوں، معاشرے کے ماحول کا گندا اثر نہ ہو، نیک اثر ہو۔ تو یہ دعائیں بھی دونوں کے لیے ضروری ہیں ۔
مزید برآں حضور انور نے ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی نگرانی کے احساس کو بیدار رکھنے کی بابت توجہ دلائی کہ اصل چیز یہی ہے کہ ہمیشہ خدا کو یاد رکھو۔ خدا کا خوف کرو۔ یہ ہمیشہ یاد رکھو کہ ہر کام کو اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ جب یہ پتا ہو کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے تو تم غلط کام نہیں کرو گے۔ مَیں کئی دفعہ مثالیں دے چکا ہوں کہ ہم یہاں دیکھیں کہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں تو ہم غلط کام نہیں کرتے اور جہاں پتا ہو کہ کھلی چھٹی ہے، یہاں کچھ نہیں ہے، وہاں بعض غلط حرکتیں ہو جاتی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ تو اس سی سی ٹی وی کیمرے سے زیادہ دیکھنے والا ہے۔ وہ تو دائیں بھی دیکھ رہا ہے، بائیں بھی دیکھ رہا ہے، اوپر بھی دیکھ رہا ہے، نیچے بھی دیکھ رہا ہے۔ کیمرا تو صرف ایکangle سے دیکھ رہا ہے، اسangle پر وہاں جاؤ گی تو نظر آئے گا۔ اللہ تعالیٰ تو ہرangle سے دیکھ رہا ہے اور جب ہرangle سے دیکھ رہا ہے تو پھر اس کا خوف پیدا ہونا چاہیے۔ پھر ہم نے اللہ کی خاطر ہر کام کرنا ہے۔ یا تو کہو کہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے اور اگر اللہ پر ایمان ہے تو پھر اللہ کی خاطر ہر کام کرو۔
حضور انور نے خوشگوار عائلی زندگی کے حوالے سے حضرت امّاں جان رضی اللہ عنہا کی فرمودہ زرّیں نصیحت کے تناظر میں یادہانی کروائی کہ خاوند اگر غصّے میں آتا ہے تو جب اس کا غصّہ ٹھنڈا ہو جائے تو اچھے وقت میں دیکھ کے تو اس کو نصیحت کرو کہ یہ تم نے غلط حرکت کی۔ اس وقت تم نصیحت کروگی تو لڑائی شروع ہو جائے گی اور لڑائی پھر اس حدّ تک ہوگی کہ وہ کہے گا کہ چلو! اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ، اس سے بچ کے رہنا ہے۔ صلح صفائی سے رہنے کی کوشش کرو۔ بیوی کو غصّہ چڑھے تو مرد خاموش ہو جائے، اچھے وقت نصیحت کر دے۔ مرد کو غصّہ چڑھے تو بیوی خاموش ہو جائے، اچھے وقت میں نصیحت کر دے اور جب اولاد ہو جائے تو ان کی خاطر قربانیاں کرو۔
٭…٭…٭