حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ جرمنی کے ایک وفدکی ملاقات

پانچ نمازیں پڑھو، قرآن کریم پڑھو، اس پر عمل کرو ، اس کا ترجمہ سیکھو اور اس پرعمل کرنے کی کوشش کرو۔صحیح مسلمان اور مومن بن جاؤ، تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے
اور پھر ہمیں یہ فکر ختم ہو جائے گی کہ نوجوان لڑکیاں اگر دین پر قائم ہیں تو اگلی نسل بھی دین پر قائم رہے گی

مورخہ۱۹؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جرمنی سے تعلق رکھنے والی چودہ سے پندرہ سال کی ناصرات کے ایک تراسی(۸۳) رکنی وفد کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےجرمنی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔

جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ ملاقات کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم سے ہوا۔دورانِ ملاقات تمام شاملینِ مجلس کو دربار خلافت میں مختلف نوعیت کے متفرق سوالات پیش کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور بیش قیمت نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

ایک ناصرہ نے حضور انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ آپ نے کچھ عرصہ پہلے دنیا بھر کی سپر پاورز (super powers)کو امن قائم کرنے کے حوالے سے خطوط بھجوائے تھے، کیا اس پر کوئی ردّ عمل آیا اور اگر آیا تو کیا آپ دوبارہ خطوط لکھیں گے؟

اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ردّعمل کیا آنا تھا۔اوّل تو بہت ساروں نے جواب ہی نہیں دیا ،جن ایک دو نے جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنی ایٹمی طاقت کم کر رہے ہیں۔ اس کے بعد پھر اسی طرح کام کرنے لگ گئے۔ تو ان لوگوں کو اثر تو ہونا کوئی نہیں۔ یہ تو دجّالی طاقتیں ہیں۔ بعضوں کو مَیں نے دوبارہ بھی خط لکھے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

حضور انور نے انسانیت کو درپیش خطرات کا ذکر کرتے ہوئےتوجہ دلائی کہ ہمارا کام سمجھانا ہے۔ کوئی سمجھ جائے تو اچھی بات ہے۔ نہیں سمجھیں گے تو پھر جنگِ عظیم ہوگی، تباہیاں ہوں گی اور اس میں یہ لوگ بھی تباہ ہوں گے۔ یہ ان کا خیال غلط ہے کہ ہم بچ جائیں گے۔ یہ جتنی بڑی بڑی طاقتیں ہیں، یہ بھی تباہ ہوں گی، ان کے بُت بھی ٹوٹیں گے اور جب یہ ہوگا تو پھر ان کو پتا لگے گا کہ ہاں! ہمیں خدا تعالیٰ کی باتیں ماننی چاہئیں، جو ہمیں سمجھایا گیا تھا، ہمیں اس کو سمجھنا چاہیے۔

اسی حوالے سے حضور انور نے تاکید فرمائی کہ اپنے اپنے حلقے میں ،اپنے لوگوں میں، اپنی سہیلیوں میں سمجھاؤ کہ وہ اپنے لوگوں کو سمجھائیں اور جو ذرا بڑی عمر کی عورتیں ہیں وہ بڑی عمر والوں کو سمجھائیں۔ اپنے ٹیچر سے discuss کریں، ان کو بتاؤ۔ تم لوگ معیارِکبیر کی ناصرات ہو، تو تم اپنے ٹیچروں سے بھی discuss کر سکتی ہو، ان کو بتاؤ کہ کس طرح دنیا میں ہم امن قائم کر سکتے ہیں، نہیں تو بہت بڑی تباہی ہوگی۔

ایک ناصرہ نے دریافت کیا کہ بطور احمدی مسلمان مَیں کیسے یہ وضاحت کر سکتی ہوں کہ مَیں مذہبی وجوہات کی بنا پر غیرمردوں سے ہاتھ نہیں ملاتی، خاص طور پر جب کہ کچھ احمدی مسلمان خوا تین ایسے کرتی ہیں؟

حضور انور نے اس پر استفہامیہ انداز میں توجہ مبذول کروائی کہ بہت ساری احمدی خواتین، مسلمان عورتیں اور مرد نمازیں نہیں پڑھتے۔ پانچ کی بجائے تین نمازیں پڑھتے ہیں۔ تو تم ان کو justifyکرو گی کہ وہ تین نمازیں پڑھتے ہیں، اس لیے مَیں بھی پانچ نمازیں نہ پڑھوں بلکہ تین پڑھوں۔ تم ایسانہیں نہ کرو گی؟

حضور انور نے اُسوۂ نبوی صلی الله علیہ وسلم کی روشنی میں انتہائی شفقت سےوضاحت فرمائی کہ آنحضرتؐ کے بارے میں آتا ہے کہ آپؐ عید کے دن جایا کرتے تھے، وہاں ملنے اور ملاقات کے بعد عورتوں کو سلام کرنے بھی جاتے تھے۔ وہاں آپؐ کے ساتھ صحابی ؓبھی ہوتے، حضرت ابو ہریرہؓ یا کوئی اَورہوتے تھے، اور عورتیں اس وقت چندہ وغیرہ بھی پیش کرتی تھیں ۔حدیث میں آیا کہ آپؐ آتے تھے اور ہمیں سلام کرتے تھے، لیکن ہاتھ نہیں ملاتے تھے۔

بیعت کی مثال دیتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایاکہ بیعت تو سب سے بڑا ایسا پاکیزہ ماحول ہے۔اس وقت بھی آنحضرتؐ مردوں سے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیعت لیتے تھے اورعورتوں سے کہتے تھے تم ویسے ہی میرے پیچھے الفاظ دہراؤ ۔ تو جو کام ہمیں اللہ تعالیٰ نے بتایا ، وہ آنحضرتؐ کے ذریعے سے ہی بتایاہے اور آنحضرتؐ نے ہی ہمیں کر کے دکھایا، سنّت کے مطابق ہم نے تو وہی کرنا ہے۔ تو کیونکہ آپؐ ہاتھ نہیں ملاتے تھے، آپؐ سے بڑی پاکیزہ سوچ کا تو کوئی بندہ نہیں تھا ، باقی مردوں کو تو ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی سوچیں غلط اور گندی ہو سکتی ہیں۔ آپؐ کی تو نہیں ہو سکتی تھیں۔ آپؐ تو الله کے پیارے اور سب سے بڑے نبی تھے، تو جب آپؐ نے ہاتھ نہیں ملایا ، تو ہمیں ہاتھ ملانے کی ضرورت ہی نہیں ۔

حضور انور نےاحمدی خواتین کو خاص نصیحت فرمائی کہ جو عورتیںیوں کر کے ہاتھ ملا لیتی ہیں[حضور انور نے اپنے دستِ مبارک کو آگے بڑھا یا]، مَیں نے دیکھا ہے جرمنی میں بھی بڑا خاص رواج ہے، مرد چاہے ہاتھ نہ بڑھائے، عورتیں کمپلیکس میں آ کے اپنا ہاتھ ضرور بڑھا دیتی ہیں ۔ وہ بڑا غلط کرتی ہیں۔ ان کو اس چیز سے رکنا چاہیے۔

حضور انور نے سائل کو مخاطب کرتے ہوئے انتہائی شفقت سےحوصلہ افزائی فرمائی کہ اور تم اگر ہاتھ نہیں ملاتی تو بڑا اچھا کرتی ہو۔ان کو بتاؤ کہ اسلامی تعلیم یہ ہے، میری عزت اس میں ہے کہ مَیں مردوں سے ہاتھ نہ ملاؤں۔اور اگر مرد ہاتھ بڑھائے تو اس کو کہہ دو، بلکہ ہماری عورتیں جب کہیں گی کہ ہماری عزت یہ ہے کہ ہم ہاتھ نہ ملائیںتو کئی مرد عورتوں سے سلام کرنے سےرک جاتے ہیں۔

بہت سی جویہاں کی مقامی انگریز، یورپین عورتیں ہیں ان کو جب سمجھاؤ کہ ان کے ساتھ ہمارے مرد سلام نہیں کرتے، تو تمہاری عزت اورrespect کی وجہ سے نہیں کرتے۔ یہ ہمارا مذہبی عقیدہ ہے، تم اس کو غلط کہو یا صحیح کہو ، لیکن یہی ہمارا مذہبی عقیدہ ہے ، اس لیے ہم ایسا نہیں کرتے۔تو ان کو سمجھ آجاتی ہے کہ تمہارا مذہب یہ کہتا ہے تو نہیں کرتے، لیکن ہم کہتے ہیں کہ ہم عورت کا عزت اور احترام کرتے ہیں، ہم عورت کو حق دیتے ہیں ، اس کو due respect دیتے ہیں ، اس کے حق میں جو اسلام نے بہت ساری تعلیم دی ہوئی ہے ، اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے مرد عورت سے ہاتھ نہیں ملاتا اور عورت مرد سے ہاتھ نہیں ملاتی۔ اس لیے کہ اسلام کی یہی تعلیم ہے۔

جواب کے آخر میں حضور انور نے اس نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ ذرا پیار سےسمجھاؤ تو لوگ سمجھ جاتے ہیں۔مَیں نے تو کئی لوگوں کو سمجھایاہے، ان کو سمجھ آ جاتی ہے۔ بہت سارے لوگوں نے مجھے لکھا بھی ہے کہ جب ہم سمجھاتے ہیں تو لوگ سمجھ جاتے ہیں۔

ایک ناصرہ نے استفسار کیا کہ آج کل کے نوجوانوں کے حوالے سے حضور انور کی سب سے بڑی فکر کیا ہے اور ہم اس پر کیسے کام کر سکتے ہیں؟

حضور انور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ فکر یہی ہے کہ تمہیں اللہ یاد رہے۔ اللہ کو نہ بھولو۔ پانچ نمازیں پڑھنے والی ہو، اس کی مَیں باتیں کرتا رہتا ہوں۔

حضور انور کے دریافت فرمانے پر ناصرہ نے عرض کیا کہ وہ واقفہ نَو ہے۔یہ سماعت فرما کر حضور انور نے توجہ دلائی کہ وقف ِنَو کو تو مَیں نےاتنی نصیحتیں کی ہیں، یہی کہا ہے کہ پانچ نمازیں پڑھو، قرآنِ کریم پڑھو، اس پر عمل کرو ، اس کا ترجمہ سیکھو اور اس پرعمل کرنے کی کوشش کرو۔صحیح مسلمان اور مومن بن جاؤ، تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے اور پھر ہمیں یہ فکر ختم ہو جائے گی کہ نوجوان لڑکیاں اگر دین پر قائم ہیں تو اگلی نسل بھی دین پر قائم رہے گی۔

حضور انور نے آخر میں دوبارہ توجہ دلائی کہ یہی فکر ہے کہ تم لوگ دین پر قائم رہو اور اللہ کی باتیں مانو۔

ایک شریکِ مجلس نے عرض کیا کہ میرا سوال یہ ہے کہ جب ایک جنّت ہے، مگر مختلف مذاہب ہیں، جو اپنے الگ الگ عقیدے رکھتے ہیں تو کیا جو لوگ احمدی نہیں ہیں مگر پھر بھی اچھے اعمال کرتے ہیں کیا وہ بھی اسی جنّت میں جائیں گے یا جنّت کے درجات مختلف ہوں گے؟

اس پر حضور انور نے جامع راہنمائی عطا فرماتے ہوئے سمجھایا کہ بات یہ ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا ہے۔ بعض لوگ جو غلط عقیدے رکھتے ہیں اور ان کے چھوٹے موٹے جرم ہیں تو ان کو جہنّم میں سے گزارتا ہے۔

جنّت اور جہنّم کےمختلف درجات کے حوالے سے حضور انور نے روشنی ڈالی کہ جنّت اور جہنّم کیا ہے؟ جنّت کے مختلف درجے ہیں، جس درجے پر آنحضرتؐ پہنچے ہوئے ہیں، وہاں ہر آدمی تو نہیں پہنچ سکتا۔ جہنّم کے بھی مختلف درجے ہیں، کوئی ہسپتال میں جاتا ہے، کسی کو paracetamolدے کے کہتے ہیں کہ سر درد دُور ہو گئی، تو کسی کوtreatment کا کہتے ہیں، اس کو تھوڑی دیر، ایک دن کے لیے ہسپتال داخل کرتے ہیں، کسی کو پانچ دن کے لیے داخل کر لیتے ہیں، کسی کی سرجری کرنی ہوتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ زیادہ دن بھی رہ جائے۔ تو اسی طرح جہنّم بھی ایک علاج گاہ ہے، وہاں جس جس طرح کسی کی غلطیوں کی سزا اللہ تعالیٰ پوری کر دیتا ہے ، پھران کو نکال دیتا ہے۔

حضور انور نے بیان فرمایاکہ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ جہنّم خالی ہو جائے گی، کوئی اس میں نہیں ہوگا، کیونکہ ہر ایک اس جگہ اپنی اپنی سزا بھگت چکا ہو گا۔جب قیامت آئے گی، اس دن اللہ تعالیٰ سب کو اکٹھا کرے گا، پھر ان کے اعمال نامے دیکھے گا۔ جنّت اور جہنّم والوں کو بلا لے گا، جہنّم والوں میں سے جن جن کی سزائیں پوری ہو گئی ہوں گی، ان کو کہہ دے گا کہ جنّت میں چلے جاؤ۔ جنّت والوں کے درجے اوپر بلند کرتا چلا جائے گا۔ تو اللہ تعالیٰ تو رحمٰن اور رحیم ہے۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے حضور انور نے متنبّہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ شرک کے علاوہ مَیں باقی گناہ بخش دیتا ہوں ۔شرک نہ کرنے والا ہو تو بعض نیکیاں جو انسان کو ہو سکتا ہے کہ جنّت کے کسی نچلے درجے میں لے جائیں ۔ لیکن اگر وہ شرک بھی کر رہا ہے ،مخالفت بھی کر رہا ہے، دشمنیاں بھی کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کو تنگ بھی کر رہا ہے، جس طرح آج کل مولوی کہتے ہیں کہ ہم احمدیوں کو قتل کرنے سے جنّت میں چلے جائیں گے تو آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو مَیں جنّت میں نہیں ڈالوں گا۔ چاہے وہ میرا نام لینے والے ہوں، نمازیں پڑھنے والے ہوں، قرآنِ شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی نمازیں ان کو ہلاکت میں ڈال دیتی ہیں اور اس لیے وہاں مختلف درجے ہیں اور جنّت کا حلقہ تو درجہ وار کسی کو مل جائے تو وہ بڑی بات ہے۔

حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جانے والا ایک سوال یہ تھا کہ قرآنِ کریم میں وراثت کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک بیٹا دو بیٹیوں کے برابر وراثت میں حصّہ پاتا ہے، ایسا کیوں ہے، جبکہ اسلام مرد اور عورت کو برابر حقوق دیتا ہے؟

حضورِ انور نے اس پر پُر حکمت انداز میں راہنمائی فرمائی کہ اسلام کہتا ہے کہ مرد کی ذمّہ داریاں زیادہ ہوتی ہیں، اس لیے اس کو زیادہ حصّہ ملتا ہے، وہ اپنی ذمّہداریاں نبھاتا ہے اور عورت کی جائیداد صرف اس کی اپنی ذات کے لیے ہے۔ اگر عورت کی شادی بھی ہو جاتی ہے تو اس کی جو جائیداد ہے، وہ ذمّہدار نہیں ہے کہ وہ اپنے خاوند کو اور بچوں کو اپنی جائیداد سے پا لے، ہاں! خاوند جو مرد ہے، وہ ذمّہدار ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کا خرچہ پورا کرے۔ اس لیے ایک بہت بڑی وجہ تو یہی ہے کہ یہ حصّہ اس لحاظ سے ان کو دیا جاتا ہے۔

حضورِ انورنے اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ پھر ایک یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ عورت شادی کر کے دوسری جگہ جہاں جاتی ہے، اگر بالفرض ایک جگہ سے رشتہ ختم ہوتا ہے تو ایک جگہ سے جائیداد لے لی، تو دوسری جگہ جا کے پھر اس کو مل جاتی ہے۔ تو ذمّہداریاں جو ہیں، اس کے حساب سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ذمّہدار ٹھہرایا ہے کہ مرد کی ذمّہداریاں زیادہ ہیں، اس لیے اس کو زیادہ حصّہ دے دیا اورعورت کی ذمّہداریاں کم ہیں، اس کو کم دے دیا۔

جواب کے آخر میں حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ عورت کو تو بلکہ خوش ہونا چاہیے کہ ساری کی ساری جائیداد اس کے پاس ہے، مرد کی تو ساری جائیداد پھر اس کو مل جانی ہے۔

آخر پر حضورِ انور نے تمام شاملینِ مجلس سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ چلو اللہ حافظ ہو! اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ نیو یارک ریجن، امریکہ کے ایک وفدکی ملاقات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button