امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کےاسلام آباد ٹلفورڈ سے بصیرت افروز اختتامی خطابات
٭…واقفاتِ نَو اور واقفینِ نو برطانیہ کے سالانہ اجتماعات کاانعقاد
٭…امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کےاسلام آباد ٹلفورڈ سے بصیرت افروز اختتامی خطابات
٭…مجموعی طور پر چار ہزار سے زائد افراد جماعت کی شمولیت
(مسجد بیت الفتوح،۲۶؍اپریل ۲۰۲۵ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) آج مورخہ ۲۶؍اپریل ۲۰۲۵ء بروز ہفتہ مسجد بیت الفتوح مورڈن لندن میں جماعت احمدیہ برطانیہ کی واقفاتِ نو کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا۔ اس اجتماع کے اختتامی اجلاس سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسلام آباد ٹلفورڈ میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے براہ راست بصیرت افروز اختتامی خطاب فرمایا۔
اختتامی اجلاس کی کارروائی
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے چار بج کر پینتیس منٹ پر ایم ٹی اے سٹوڈیوز اسلام آباد میں تشریف لاکر’السلام علیکم ورحمۃاللہ‘ کا تحفہ عنایت فرمایا۔ سجیلہ نور صاحبہ نے سورۃ النور کی آیات ۵۶ تا ۵۸ کی تلاوت کی جس کے بعد فرحانہ لقمان صاحبہ نے متلو آیات کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ لبنیٰ وحید صاحبہ نے حضرت مصلح موعودؓ کا منظوم کلام:
ملتِ احمد ؐکے ہمدردوں میں غمخواروں میں ہوں
بےوفاؤں میں نہیں ہوں مَیں وفاداروں میں ہوں
کے منتخب اشعار پیش کیے۔ ان اشعار کا انگریزی ترجمہ فاتحہ ندیم صاحبہ نے پیش کیا۔
بعد ازاں معاونہ صدر صاحبہ واقفات نو یوکے نے اجتماع رپورٹ پیش کی۔
چار بج کر اکاون منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ منبر پر رونق افروز ہوئے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا اور انگریزی زبان میں اختتامی خطاب کا آغاز فرمایا۔

خلاصہ خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ
تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے برطانیہ کی واقفاتِ نَو کا سالانہ اجتماع آج منعقد ہورہا ہے۔ مجھے امید ہےاور مَیں دعا کرتا ہوں کہ یہ اجتماع آپ کے لیے بہت بابرکت ہو اور اس کے دُور رس اثرات ظاہر ہوں۔ آپ وہ واقفات ہیں جن کے والدین نے آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کرنے کا وعدہ کیا، پھر بُلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد آپ نے بھی اُس عہد کو نبھانے کا وعدہ کیا۔
وقفِ نَو میں شامل ہونا کوئی معمولی بات نہیں، آپ میں سے ہر ایک بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ دَور کہ جو مادیت پرستی کا دَور ہے اس میں آپ وہ خوش نصیب ہیں جنہوں نے خود کو خدا اور اس کے دین کی خدمت کےلیے پیش کیا ہے۔
گذشتہ کئی سال سے مَیں واقفین نَو اور واقفات نَو سے خطاب کرتا آرہا ہوں اور اِن خطابات میں مَیں آپ کو آپ کی عمر کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً آپ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں۔ اب تو آپ میں سے کئی اپنی پختہ عمر کو پہنچ چکی ہیں اور آپ کے اپنے بچے بھی اب وقفِ نَو کی تحریک میں شامل ہیں۔
اس تناظرمیں اب آپ کی ذمہ داریاں بھی پہلے سے بڑھ گئی ہیں، آپ میں سے جو ۱۳ یا ۱۴؍سال کی عمر کی واقفات ہیں انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ آئندہ انہوں نے اپنے اس وقف کے عہد کو کس طرح وفا کرنا ہے۔ بعض احمدی بچیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے، مثلاً میڈیکل یا انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرکے شادی کے بعد گھرپر بیٹھ جاتی ہیں اور کام نہیں کرتیں۔ انہیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اُن کی تعلیم تو پھر ضائع گئی، بلکہ بچوں کی تربیت اور گھر کو اسلامی تعلیم سے ہم آہنگ کرنا آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ یاد رکھیں! آپ کے بچے آپ کے تمام افعال کو بغور دیکھتے ہیں۔ پس آپ کے قول و عمل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں سب سے اہم بات آپ کا خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے۔ آنحضرتﷺ کی پاک سنّت جسے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زندہ کرکے دکھایا ہے اب آپ نے اُس تعلیم کا عملی مظاہرہ کرنا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعثت کے دو ہی مقاصد ہیں پہلا یہ کہ خدا کی توحید دنیا میں قائم ہو اور دوسرا یہ کہ ایسی جماعت پیدا ہوجائے جو آپس میں محبت اور ہمدردی کے جذبات سے لبریز ہو جن کا مقصود خدا اور اس کے رسولؐ کی رضا ہو۔ ان باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ نے کبھی بھی اپنے مقام کو نہیں بھولنا،
آپ کا حقیقی مقام یہ ہے کہ آپ وہ واقفاتِ نَو ہیں کہ جنہوں نے اصلاح کے اس عمل کو اپنی ذات اور اپنی اولاد تک محدود نہیں رکھنا ، بلکہ آپ کے ان اخلاق کو دیکھ کر تبلیغ کے رستے کھلنے ہیں۔ آپ کے عمل سے سچائی،حیا اور تقویٰ چھلکنا چاہیے۔ اگر یہ ہوگا تو سعید فطرت لوگ خود آپ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔
آپ میں سے جو بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اُن کی زندگی کا واحد مقصد یہ نہیں کہ وہ محض تعلیم حاصل کریں بلکہ انہیں اپنے عمل سے اسلامی تعلیمات کا اظہار کرنا چاہیے۔ آپ کا تعلیم حاصل کرنا محض نوکری حاصل کرنےکا ذریعہ نہیں، بلکہ اسلام پر عورتوں کے حوالے سے ہونے والے اعتراضات کا جواب ہے۔ اگر آپ تعلیمی میدان میں اچھی کارکردگی دکھائیں گی، معاشرے کا ایک فائدہ مند حصہ بنیں گی تو آپ کے عمل سے یہ اظہار ہو رہا ہوگا کہ اسلام پر عورتوں کے متعلق جو اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ سب لغو اور بےکار ہیں۔
جب آپ کا خدا سے تعلق ہوگا تو آپ اسلام کی صداقت کا زندہ جاوید نشان بن جائیں گی اور یاد رکھیں! اس کا سب سے اہم اور بہترین ذریعہ پنجوقتہ نماز ہے۔ نماز دس سال کی عمر سے انسان پر فرض یا واجب ہوجاتی ہے، آپ کو اپنی نمازوں کو دنیا کے ہرکام پر فوقیت دینی چاہیے، اسی میں آپ کی ترقی اور فلاح مضمر ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ آپ پر اپنے بیش بہا انعامات نازل فرمائے گا۔

پھر قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے باربار اس پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنےسے آپ خاموش تبلیغ کا ذریعہ بن رہی ہوں گی۔ اس لیے
قرآن کریم کی باترجمہ تلاوت کی عادت ڈالیں، تفاسیر کا مطالعہ کریں اور قرآن کریم کے ہر ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اس خواہش کا اظہار فرمایاہے کہ آپؑ کی جماعت صحابہؓ کے رنگ میں رنگ جائے۔ آنحضرتﷺ کی صحابیات نے قربانیوں کی لازوال مثالیں قائم کی تھیں، آج جماعت احمدیہ کی خواتین بھی دینِ اسلام کی خاطر مردوں کے شانہ بشانہ قربانیاں پیش کر رہی ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں احمدی عورتوں نے بہادری اور ہمت کی داستانیں رقم کیں۔ حال ہی میں پاکستان میں ایک احمدی خاتون پر جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا، انہیں کئی مہینے جیل میں رکھا گیا، اور پھر اُن کو ضمانت ملی، مگر اُس احمدی خاتون نے بڑے مثالی صبر اور استقلال کے ساتھ اسیری کے اُس عرصے کو گزارا اور اُس خاتون کے پایہ ثبات میں لغزش نہ آئی۔ پس! بطور واقفاتِ نَو آپ کو ایسے عملی نمونوں کی تقلید کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔ آپ سے جب اور جیسی قربانی مانگی جائے آپ اس کے لیے تیار ہوجائیں اور کبھی اپنے عہد سے پیچھے ہٹنے والی نہ ہوں۔

یاد رکھیں! خدا تعالیٰ ہی ہمارا ملجا اور ماویٰ ہے۔ ہمارے سب اعمال اسی کے لیے ہونے چاہئیں۔ اگر آپ کی یہ سوچ ہوگی تو آپ ہر قسم کی قربانی کے لیے بخوشی تیار ہوجائیں گی اور اسے اپنے لیے سعادت سمجھیں گی۔
اسی طرح آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے دینی علم کو بڑھائیں۔ اگر آپ کو اپنے دین اور عقیدے کا علم ہوگا تو آپ اسلام پر ہونے والے علمی حملوں سے قطعاً مرعوب نہیں ہوں گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ کریں۔
یاد رکھیں! علم سے شجاعت آتی ہے۔ آپ تو وہ واقفاتِ نَو ہیں جو اسلام کی سپاہ کا ہراول دستہ ہیں۔ یہ جنگ تیر و تلوار سے نہیں لڑی جانی، اس کے لیے آپ کو دلائل سے لیس ہونا ہوگا اور یہ وہ مقصد ہے جس کا آپ نے عہد کیا ہے۔
محنت کے ذریعہ ہی کامیابی حاصل ہوتی ہے، اس لیے کبھی بھی سستی اور کاہلی کا شکار نہ ہوں۔ قرآن کریم اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے مطالعے کے ساتھ
آپ کو خلیفہ وقت کے خطبات کو بھی لازماً سننا چاہیے، ان خطبات اور خطابات کے ذریعہ آپ کے علم میں اضافہ ہوگا اور آپ کا عمل بھی اس سے بہتر ہوگا۔ جب آپ ان باتوں پر عمل کریں گی تو کوئی دشمن آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
خدا کرے کہ آپ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والی ہوں، اپنے وقف کے عہد کو نبھانے والی ہوں۔ آپ اپنے وقف کے مقصد کو سمجھنے والی ہوں اور مقصد یہ ہے کہ آپ نے اسلام کی فتح میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
چھوٹی بچیاں جو یہاں موجود ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی تعلیم پر توجہ دیں، آپ کو اس نو عمری سے ہی اپنے دین پر مضبوطی سے قائم ہونا ہے۔ آپ نے کبھی اُن لوگوں سے مرعوب نہیں ہونا جو آپ کے دین اور عقیدے پر اعتراض کرتے ہیں یا حملے کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے عقیدے اور ایمان پر ہمیشہ مضبوطی سے قائم رہنا ہے۔
خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو، آپ خدا کی وفادار رہیں، آپ کی زندگیاں روشن ستاروں کی مانند لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہوں۔ آمین۔
حضورانور کا خطاب پانچ بج کر ۲۶؍منٹ تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔ بعد ازاں حضورِ انور نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا۔

اجتماع رپورٹ
یاد رہے کہ حضور انور کے خطاب سے قبل معاونہ صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ برائے واقفات نو نے اجتماع رپورٹ پیش کرتے ہوئے سب سے پہلے واقفات نو برطانیہ کی طرف سے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا کہ حضور انور نے ان کے اجتماع میں (آن لائن ) شمولیت اختیار فرما کر اجتماع کو رونق بخشی۔ اجتماع کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اجتماع کا آغاز آج صبح ۱۰ بجے زیر صدارت مکرمہ (ڈاکٹر قرۃ العین عینی صاحبہ) صدر لجنہ اماء اللہ یوکے ہوا۔ بعد ازاں واقفات نو کو عمر کے اعتبار سے چار گروپس میں تقسیم کیا گیا اور ان کے لیے مختلف ورک شاپس اورinteractive ڈسکشنز درج ذیل موضوعات پر منعقد ہوئیں: نماز کی اہمیت، قرآن کریم کو پڑھنا اور سمجھنا، بک چیلنج جس کا مقصد واقفات نو کو حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کی اہمیت و مطالعہ کی ترغیب دینا تھا، حضرت اماں جانؓ کی سیرت بطورنمونہ اور نظامِ جماعت۔
اسی طرح چھوٹی عمر کی واقفات نو کی مختلف صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور باہمی محبت کے جذبے کو بہتر بنانے کے لیے Activity-Zones بنائے گئے تھے۔ امسال اجتماع کے موقع پر واقفاتِ نو کی حاضری ۱۳۷۹؍رہی۔ جبکہ ۲۰۲۴ء میں منعقدہ اجتماع میں واقفات نو کی حاضری ۱۳۶۶؍تھی۔ ماؤں سمیت امسال اجتماع پر کُل حاضری ۲۰۷۸ ہے۔ موصوفہ نے اس موقع پر نیشنل سیکرٹری صاحب وقف نو اور ان کی ٹیم ، صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ یوکے اور تمام ڈیوٹی دینے والی لجنہ ممبرات کا اجتماع کے انتظامات میں تعاون کرنے پر شکریہ ادا کیا ۔ اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کے عہد کو پورا کرنے والا اورپیارے حضور کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔
٭…٭…٭
(مسجد بیت الفتوح،۲۷؍اپریل ۲۰۲۵ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) آج مورخہ ۲۷؍اپریل ۲۰۲۵ء بروز اتوار مسجد بیت الفتوح مورڈن لندن میں جماعت احمدیہ برطانیہ کے واقفین نو کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا جس کے اختتامی اجلاس سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسلام آباد ٹلفورڈ میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے براہ راست بصیرت افروز اختتامی خطاب ارشاد فرمایا۔
اختتامی اجلاس کی کارروائی
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے چار بج کر بتیس منٹ پر ایم ٹی اے سٹوڈیوز اسلام آباد سے ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کا تحفہ عنایت فرمایا۔ عزیزم احسان احمد نے سورۃ النور کی آیات ۵۵ تا ۵۷ کی تلاوت کی جس کے بعد عزیزم عدیل طیب نے متلو آیات کا اردو جبکہ عزیزم فواد عالم نے انگریزی زبان میں ترجمہ پیش کیا۔ عزیزم عبد الحئی سرمد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاکیزہ منظوم کلام
اَے خدا اَے کارساز و عیب پوش و کردگار
اَے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار
میں سے منتخب اشعار پیش کیے۔ان اشعار کا انگریزی ترجمہ عزیزم داؤد خان نے پیش کیا۔
بعد ازاں ڈاکٹر انس احمد رانا صاحب نیشنل سیکرٹری وقف نو یوکے نے اجتماع کی رپورٹ پیش کی۔
چار بج کر باون منٹ پر حضور انور ایده الله تعالیٰ منبر پر تشریف لائے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا اور انگریزی زبان میں اختتامی خطاب کا آغاز فرمایا۔
خلاصہ اختتامی خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ
تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آج آپ وقف نو کے اس اجتماع میں شامل ہیں اور اس کی اختتامی تقریب ہو رہی ہے۔ اگر ہم صرف یوکے میں واقفین نو کی تعداد دیکھیں تو وہ ہی ہزاروں میں ہے لیکن ان کا فائدہ تب ہی ہے کہ جب یہ جماعت کے کام آئیں۔ ان میں سے کچھ جامعہ جائیں اور اس کے علاوہ ہمیں ڈاکٹروں کی اور بعض دوسرے شعبوں میں بھی واقفین کی ضرورت ہے۔
بہت سے واقفین ہیں جو کہ پڑھائی کے بعد اپنا کام کر رہے ہیں ان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح جماعت کی خدمت کرسکتے ہیں۔ ان کو صرف دولت کمانے اور کام میں مہارت پر توجہ نہیں دینی بلکہ اصل میں روحانی ترقی کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وقفِ زندگی کے بارے میں فرمایا کہ اگر آپ نجات چاہتے ہیں تو اپنی زندگی خدا کے لیے وقف کریں اورآپ کا جینا، مرنا سب خدا کے لیے ہو جائے۔ جب تک کہ ہر فرد خدا کا نہیں ہو جاتا اور خدا کے لیے مکمل طور پر زندگی وقف نہیں کر دیتا تو اس وقت تک نجات حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس بات کے مخاطب سب احبابِ جماعت عموماً جبکہ آپ واقفین خصوصاً ہیں۔ ان نصائح سے آپ میں واضح تبدیلی پیدا ہو جانی چاہیے۔
وقف آسان کام نہیں جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ آپ کا دل اور دماغ ہر وقت یہ سوچتا رہے کہ کیا آپ وقف کے تقاضے پورے کر رہے ہیں یا نہیں۔ اسی طرح یہ کہ آپ عجلت میں نماز پڑھنے والے نہیں بلکہ تسلی، سکون سے اور ٹھہر کر انہماک سے نماز ادا کرنے والے ہوں، قرآن کریم کا غور سے مطالعہ کرنے والے ہوں، دینی علم کو بڑھانے کے لیے کتب حضرت مسیح موعودؑ کا بغور مطالعہ کرنے والے ہوں۔ صرف تب ہی آپ وقف کے تقاضے نبھانے والے اور اسلام کا صحیح پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے والے بن سکیں گے۔
اگر تمام واقفین نو لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد دیکھیں تو ایک لاکھ کے قریب پہنچ رہی ہے۔ اگر یہ سب اس مقصد کو پانے کے لیے دل و جان سے اسلام کی ترقی کے لیے کوشاں ہو جائیں تو اسلام کی ترقی لازمی ہے، لیکن ابھی ہم اس سے بہت دُور ہیں۔
دنیا داری اور اس دنیا کی چمک دمک سے لوگ متاثر ہیں۔ معصوم لوگ جنگوں میں مارے جا رہے ہیں اور یہ امیروں اور طاقتوروں کے صرف ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ہے۔
آپ واقفین کو اپنا کام معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ اس ذمہ داری کو مکمل اخلاص اور دعاؤں سے ادا کرنے والے بنیں گے۔
بطور واقفین نو آپ جہاں بھی ہیں اور جو بھی کام کر رہے ہیں آپ کو روزانہ مستقل بنیادوں پر جماعتی کاموں کو وقت دینا ہے اور تھکنا نہیں۔
حضرت ابراہیمؑ کی جو تعریف قرآن میں آئی ہے وہ اسی لیے ہے کہ جو وعدہ انہوں نے خدا سے کیا تھا باوجود مشکلات اور مصائب کے وہ اس پر پورے اترے اس لیے خدا نے ان کو وفا کرنے والا کہا۔ یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ہمارے لیے ایک عملی نمونہ ہے۔ اگر ہم بھی ایسا کریں گے تو ہم اپنے وعدے سے وفا کرنے والے ہوں گے۔ اور اپنے وعدے کو پورا نہ کرنے والے خدا تعالیٰ کو جواب دہ ہوں گے۔
آپ اور آپ کے بیوی بچوں کے وقف نو کی سکیم میں ہونے کا تبھی فائدہ ہے جب آپ سب اپنے وقف کے تقاضوں کو بھی نبھانے والے بنیں گے۔
اس کا معیار حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بتایا ہے کہ دنیا کی تمام آسائش اور آرام کو چھوڑ کر خدا کی راہ میں ہر قسم کی مشکل اورتکلیف قبول کرنا جو کہ دراصل موت قبول کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے لیے انسان کو ہر قسم کی تکلیف کو صبر سے برداشت کرنا ہو گا اور نیت خدا کی رضا کا حصول کرنا ہوگا۔ اگر ایک وقف زندگی کو یہ معیار حاصل ہو جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ وقف کے تقاضے پورے کرنے والا ہے۔
آپ نے صرف اپنے وقف کے تقاضے ہی نہیں نبھانے بلکہ اپنی نسلوں کے سامنے اچھا نمونہ بھی بننا ہے تا کہ اس کو دیکھ کر وہ بھی ایسا ہی کریں ورنہ اگر آپ ان کو صرف زبانی کہہ رہے ہیں تو آپ کی نسلیں بھی ایسا نہیں کریں گی کیونکہ ان کو آپ میں دو رنگی دکھائی دے گی۔
ایک اور طرح سے بھی یہ وقف کے تقاضے حاصل ہو سکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ ہر ایک قسم کی بت پرستی کو چھوڑ دیں۔ یہ بت صرف لکڑی یا پتھر کے ہی نہیں ہوتے بلکہ ہر وہ چیز جو کہ خدا کی راہ میں حائل ہو وہ بت ہے۔ اس لیے کسی چیز کو خدا کی راہ میں حائل نہ ہونے دیں۔
اگر آپ کی دنیاوی مصروفیت آپ کو نماز اور تلاوت قرآن کریم سے غافل کر رہی ہے تو یہ آپ کے لیے بت ہے جو خدا کے راستے میں آرہا ہے ۔
اسی طرح ایک مومن اور خصوصاً واقفِ زندگی کو زیبا نہیں کہ دنیا کے ہی ہو کر رہ جائیں اور دین سے دُور ہو جائیں ورنہ یہ دنیا داری کے پیچھے پڑنا آپ کے لیے بت بن جائے گا۔ جو بھی آپ کام کریں یہ نیت رکھیں کہ خدا کی رضا اور اسلام کی سربلندی کے لیے کرنا ہے تو آپ دیکھیں گے کس طرح کامیابی اور جنت کے دروازے آپ کےلیے کھلتے ہیں۔
دیکھیں! حضرت ابراہیمؑ سے کیسے اللہ نے آپ کے بیٹے کی قربانی مانگی اور جواب میں آپؑ نے اس بچہ کی گردن پر چھری رکھ دی۔ یہ آپ کے بچے کی بھی سعادت مندی تھی کہ خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لیے تیار ہو گیا۔
پس جو خدا کے لیے مصائب اور مشکلات کو برداشت کرتا ہے تو خدا خود اپنے بندے کو ان سے بچا لیتا ہے
جیسے کہ حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ میں ان کے بچے کو بچالیا گیا اور مشکل میں نہ ڈالا گیا یا خود حضرت ابراہیمؑ کی مثال ہے کہ آگ آپ کے لیے ٹھنڈی ہو گئی۔
ہر واقف نو کو خدا کی راہ میں انہی قربانیوں کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ اگر نہیں تو محض نام کے وقفِ نو ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر آپ کے تقویٰ کے معیار، نمازوں کی ادائیگی، قرآن کریم کی تلاوت، اخلاقیات کا معیار، باہمی لین دین، دینی علم میں بڑھنا، جماعت کو وقت دینا، اپنے عزیز رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور محبت کے ساتھ رہنا، اپنے رفقائے کار کے ساتھ ہمدردانہ سلوک اور اپنے ہر عمل میں عاجزی عام لوگوں سے بڑھ کر نہیں اور اس کہ بجائے آپ میں تکبر اور غرور ہے تو آپ کے واقفِ نو ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔
آپ اپنے اعمال کو نیکیوں میں بڑھاتے چلے جائیں، استقامت سے نیکیوں پر دوام فرض ہے ۔
حضرت مسیح موعودؑ نے بتایا کہ جیسے جنت میں داخل ہونے کے بہت سے دروازے ہیں اسی طرح جہنم میں بھی جانے کے بہت سے دروازے ہیں۔
اب جب آپ اس اجتماع سے واپس جائیں تو ان سب باتوں کو یاد رکھتے ہوئے عمل کریں۔ اگر آپ گھر جانے تک یہ باتیں بھول گئے تو آپ کے وقف نو ہونے کا نہ آپ کو کوئی فائدہ ہے اور نہ جماعت کو۔ اس لیے اپنے علمی،عملی اوراخلاقی معیار کو بڑھانے والے بنیں تو ہی آپ کے اس وقف نو کی تحریک میں ہونے کا فائدہ ہے جو کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے شروع فرمائی تھی۔
اللہ کرے کہ آپ میں سے ہرکوئی اس روحانی انقلاب کو لانے والا بنے اور اللہ آپ کو وقف نو کے حقیقی مقاصد کو پورا کرنے والا بنائے اور آپ دنیا بھر میں حقیقی اسلام کی تعلیمات کو پھیلانے والے ثابت ہوں۔ آمین
حضور انور کا خطاب پانچ بج کر ۲۹؍ منٹ تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضور انور نے اختتامی دعا کروائی۔
اجتماع رپورٹ
یاد رہے کہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطاب سے قبل انس احمد رانا صاحب سیکرٹری وقفِ نو جماعت احمدیہ برطانیہ نے اجتماع کی رپورٹ پیش کی۔ موصوف نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت وقف نو کے سالانہ اجتماع کا اختتامی اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ اجتماع کا افتتاحی اجلاس مکرم عبد الماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں آپ نے خلافت کی برکات اور دعاؤں کی طاقت کا تذکرہ کیا۔ اس کے بعد واقفین نو کو عمر کے اعتبار سے مختلف گروپس میں تقسیم کر کے پروگرامز کا انعقاد کیا گیا جس میں اسلام کی دیگر ادیان پر برتری، حقیقتِ خلافت اور ایک واقف زندگی کی زندگی کے موضوعات شامل تھے۔ چھوٹی عمر کے واقفین نو اور والدین کے لیے بھی ایک سیشن منعقد ہوا۔ بڑی عمر کے واقفین نو کے لیے پریزنٹیشنز منعقد ہوئیں جو عصرِ حاضر میں کیے جانے والے بعض اعتراضات پر تھیں۔ محترم امیر صاحب جماعت احمدیہ برطانیہ کے ساتھ ایک سوال و جواب کی مجلس بھی منعقد ہوئی۔
حاضری کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے موصوف نے بتایا کہ تجنید کےمطابق سات سال سے بڑی عمر کے واقفین نو کی کُل تعداد ۳ ہزار ۴۹۰ ہے۔ امسال کُل حاضری ۴۶ فیصد یعنی ایک ہزار ۶۱۵؍ ہے جبکہ گذشتہ سال حاضری اکاون فیصد تھی۔ مہمانوں سمیت کل حاضری ۲۰۷۸؍ ہے۔
خاکسار اجتماع کمیٹی کے تمام ممبران کا شکر گزار ہے جنہوں نے ناظم اعلیٰ اجتماع عثمان احمد صاحب کی زیر نگرانی کام کیا۔ اسی طرح سیکرٹری صاحب وقف نو نے محترم امیر صاحب برطانیہ، ضیافت ٹیم، سمعی بصری ٹیم، بیت الفتوح مینجمنٹ، ایم ٹی اے کے کارکنان، وقف نو مرکزیہ، پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ یوکے اور مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کا شکریہ ادا کیا۔
آخر پر موصوف نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اجتماع کے دونوں دن (آن لائن) شرکت پر تشکر کے جذبات کا اظہار کیا اور حضور انور سے واقفین نو کے لیے درخواست دعا کی۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: آپ نے اسلام کی فتح میں اپنا کردار ادا کرنا ہے (خلاصہ اختتامی خطاب برموقع سالانہ اجتماع واقفاتِ نو برطانیہ)