قرآنِ کریم اور رسول کریمﷺ – ایک سیپ سے نکلے دو موتی
انسان بالطبع عملی نمونہ کا محتاج ہوتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنی تعلیمات کی صورت میں ایک مکمل ضابطہ حیات عطا فرمایا تو ان تعلیمات سے تخلیق کردہ ایک کامل نَمونۂ عمل ہمیں آنحضرت ﷺ کی ذات میں میسرکردیا۔ اگر قرآن تمام احکامات کا سرچشمہ ہے تو رسول کریم ﷺ کی زندگی ایک بہترین نمونہ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ
یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے۔(الاحزاب:۲۲)
تاریخ اسلام اس بات کی شاہد ہے کہ سیرت ِرسول ﷺکا بنیادی ماخذ قرآن تھا۔ قرآن سے جہاں ہمیں آپ کی حیاتِ مبارکہ کے حالات کا پتا ملتا ہے وہیں آپؐ کی ذات تمام قرآنی احکامات جیسا کہ عبادات، اخلاقیات، حقوق و فرائض،معاشرتی، سیاسی اوراقتصادی اصولوں کی عملی تصویرتھی۔
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں : ’’ جس طرح پر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے اور قانون قدرت اس کی فعلی کتاب ہے، اسی طرح پر رسول اللہ ﷺ کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے جو گویا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے۔‘‘(ملفوظات،جلد۹ صفحہ۱۷،ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
قرآن کریم کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک حقیقی توحید ہے یعنی اللہ کو اس کی ذات، صفات اور افعال الٰہیہ میں وحدہ لا شریک ماننا اور اس کا کامل نمونہ آپؐ کی ذات ِمقدس تھی۔ آپؐ کی سیرت طیبہ غیرت ِ توحید، محبتِ توحید، اور عظمت ِ توحید کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ آپؐ نے آخری دم تک توحید کے قیام کے لیے کوششیں فرمائیں۔ یہاں تک کہ یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ میری قبر کو بت پرستی کی جگہ نہ بنانا۔(مسند احمد جلد ۲، صفحہ ۳۰۱)
آنحضرت ﷺنے ہمیں قرآنی تعلیمات کی روشنی میں توحید کے ایک دوسرے پہلو،محبت ِ الٰہی سے بھی روشناش کروایا۔ آپ کی تمام زندگی محبتِ الہٰی کے قرآنی احکامات کی عملی تفسیر تھی، اسی لیے فرقانِ حمید نے آپؐ کی پیروی کو خدا تک پہنچنے کا راستہ قرار دیا۔(اٰل عمران:۳۲)
قرآن ہمیں عبادات میں نماز، روزہ اور حج کے متعلق احکامات دیتا ہے مگر ان کی عملی تصویرہمیں آپؐ کی سیرت کے مطالعہ سے نظر آتی ہے۔ نماز کے فرض ہونے سے لےکر آخری سانس تک آپؐ نے اس عبادت کی ادائیگی کا وہ نمونہ پیش کیا جس کی کوئی نظیر نہیں۔
پھر قرآنِ کریم میں حکم آتا ہے:وَمِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ
رات کے ایک حصہ میں بھی اس (قرآن) کے ساتھ تہجّد پڑھا کر(بنی اسرائیل:۸۰)
آپؐ کی رات کی عبادت تو بعثت سے پہلے بھی بے انتہا تھی اور بعد میں بھی آپؐ نےتہجدکی عبادت میں اعلیٰ معیار قائم کیے۔ آپؐ کو تلاوتِ قرآن سے ایسی محبت تھی کہ آپؐ فرمایا کرتے تھے۔ اے اہل قرآن ! قرآن پڑھے بغیر نہ سویا کرو۔ اور اس کی تلاوت رات کو اور دن کے وقت اس انداز میں کرو جیسے اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب فضائل القرآن)
آپؐ روزے کی عبادت کا اہتمام بھی قرآن کے احکامات کے مطابق کرتے اور رمضان میں اعتکاف کی عبادت بھی بجا لاتے۔ رسول کریم ﷺ کی عبادت کا معراج حج بیت اللہ کے موقع پر بھی دیکھا گیا جب جسم کے ساتھ ساتھ آپؐ کی روح بھی طواف کرتی۔ انفاق فی سبیل اللہ بھی عبادت کا حصہ ہے اور اس میں بھی آپؐ نے قرآنی تعلیمات کے عین مطابق اپنا نمونہ عمل ہمارے لیے پیش کیا۔
قرآن پاک میں اللہ ہمیں نصیحت فرماتا ہے: صِبۡغَۃَ اللّٰہِیعنی اللہ کا رنگ پکڑو(البقرہ:۱۳۹)، اوررسول کریم ﷺ نے اللہ کے رنگ اور اس کی صفات کو اس طرح اپنایا کہ صفاتِ الہٰیہ کے مظہر اتم قرار پائے۔
اخلاقیات کی بات ہو تو اگر قرآن نظریہ اخلاق ہے توآنحضور ﷺ نَمونۂ اخلاق ہیں، آپؐ کے حسن ِاخلاق کو خوداللہ نے قرآن میں اس طرح بیان فرمایا:وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍاور یقیناً تو بہت بڑے خُلق پر فائز ہے۔(القلم:۵)
قرآن اور آپؐ کے اخلاق کی مطابقت کی گواہی حضرت عائشہ ؓ نے ان الفاظ میں دی:کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآنَ، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن ہی تھے۔(مسند احمد بن حنبل )
قرآن کریم حقوق العباد، عدل و انصاف، برابری، احسان ومحبت، تعاون، مشاورت اورحکمران اور عوام کے درمیان تعلق جیسے تمام معاشرتی اور سیاسی اصولوں کو مفصل بیان کرتا ہے اور رسول کریم ﷺ کی زندگی ان تمام اصولوں کی عکاسی کرتی ہے۔ مکی زندگی میں صبر و استقامت کی مثالیں قائم فرمائیں تو مدنی زندگی، جنگوں کے میدان، اور فتح مکہ کے موقع پر مذہبی رواداری،انصاف اورعفوو کرم کے عملی نمونے ظاہر کیے۔ قرآن کے حکموں کے عین مطابق آپؐ کی ذات میں ہمیں حقوق العباد کے حوالے سے بھی بے نظیر اسوہ ملتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز، آپؐ کی سیرت اور قرآنی تعلیمات کی مطابقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ قرآن کریم میں جس طرح لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ آپؐ نے عبادت کی۔ قرآن کریم میں جس طرح لکھا ہے کہ حقوق العباد ادا کرو۔ آپؐ نے حقوق العباد ادا کئے۔ قرآن کریم میں جن باتوں کو کرنے کا حکم دیا آپؐ نے ان باتوں اور حکموں پر مکمل طور پر عمل کیا، ان کو بجا لائے، ان کی ادائیگی کی۔ قرآن نے جن باتوں سے رکنے کاحکم دیا۔ آپؐ نے ان باتوں کو ترک کیا…حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کے، آپس کے تعلق کی بہت اچھی طرح مثال پیش کی ہےکہ قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ دو موتی ہیں جو ایک ہی سیپ سے اکٹھے نکلے ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیم کو جاننا چاہتے ہو توآنحضرت ﷺ کی زندگی کو دیکھ لو۔ اور اگر آنحضرت ﷺ کی زندگی کے بارے میں معلومات لینا چاہتے ہو، اگر یہ دیکھنا چاہتے ہو کہ آپؐ کے صبح و شام اور رات دن کس طرح گزرتے تھے، تو قرآن کریم کے تمام حکموں کو، اوامرونواہی کو پڑھ لو آپؐ کی سیرت سامنے آجا ئے گی۔‘‘(خطبہ جمعہ ۴ /مارچ ۲۰۰۵ء، الفضل انٹرنیشنل ۱۸ /مارچ۲۰۰۵ء،صفحہ۶)
رسول کریم ﷺ قرآن کے مفسر ِاول تھے۔جس قدر روشن قرآنی تعلیم ہے اتنی ہی صیقل آپؐ کی سیرت۔اسی لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ قرآن کی تعلیمات کو سیرتِ رسول ﷺ کی روشنی میں سمجھیں اور ان دونوں کی راہنمائی سے اپنی زندگیاں گزاریں تا دنیا و آخرت میں فلاح پائیں۔ آمین۔