مکتوب شمالی امریکہ (مارچ ۲۰۲۵ء)
براعظم شمالی امیریکہ کے تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنوری ۲۰۲۵ء میں اقتدار میں آنے کے بعد شمالی امریکہ کا سیاسی،معاشی اور معاشرتی نقشہ تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔بدلتے ہوئے حالات و واقعات کے پیشِ نظر صدر ٹرمپ کی پالیسی بسا اوقات روز یا چندگھنٹوں میں بدل جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں تفصیل سے واقعات کو بیان کرنا مشکل ہے۔ تاہم قارئین کی خدمت میں چند اہم خبریں اختصار کے ساتھ پیش ہیں۔
شمالی امریکہ میں تجارتی کشیدگی میں اضافہ
مارچ ۲۰۲۵ء میں صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے امریکہ کی تجارتی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کا اعلان کیا ہےجس کے اثرات دیر تک رونما ہوتے رہیں گے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ۴؍ مارچ کو امریکہ نے میکسیکو اور کینیڈا سے درآمد ہونے والی متعدد اشیاء پر ۲۵؍ فیصد محصول (ٹیرف) عائد کر دیا ہے۔
صدر ٹرمپ اور ان کے مشیران کے بقول ان ٹیرفس کو عائد کرنے کی وجہ امریکہ کی قومی سلامتی اور معاشی مفادات کو قرار دیا گیا۔ اگرچہ امریکہ، میکسیکو، کینیڈا معاہدے (USMCA) کی شرائط پر پورا اُترنے والی اشیاء کو ۲؍اپریل تک عارضی استثنا حاصل رہا، لیکن یہ اقدام شمالی امریکہ کے تجارتی تعاون کی روایت سے واضح انحراف تھا۔
۱۲؍ مارچ کو امریکہ نے کینیڈا سے درآمد ہونے والے سٹیل اور ایلومینیم پر بھی ۲۵؍فیصد ٹیرف نافذ کر دیا۔ اس کے علاوہ، غیر ملکی تیار کردہ گاڑیوں پر مزید ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دی گئی، جس کے باعث ماہرین نے گاڑیوں کی قیمتوں میں پانچ سے پندرہ ہزار امریکی ڈالرز تک اضافے کا خدشہ ظاہر کیا۔
ان ٹیرفس کے رد عمل میں کینیڈا نے امریکہ سے درآمد ہونے والی ۲۱؍ ارب مالیت کی اشیاء پر ۲۵؍ فیصد جوابی ٹیرف عائد کیے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے ان اقدامات کو کینیڈین صنعتوں اور ملازمتوں کے تحفظ کے لیے ضروری قرار دیا۔
اسی طرح میکسیکو نے ٹیرفس کے عائد ہونے کے اعلان کے بعد صدر ٹرمپ کے ساتھ ہنگامی مذاکرات کیے، جن کے نتیجے میں کچھ امریکی ٹیرف کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔ اس کے بدلے میں میکسیکو نے منشیات خصوصاً فینٹینیل کی اسمگلنگ روکنے اور سرحدی سیکیورٹی مضبوط بنانے کی یقین دہانی کروائی۔
معاشیات کے ماہرین کے مطابق یہ ٹیرف شمالی امریکہ کی صنعتی سپلائی چینز کے لیے شدید خلل کا باعث بنیں گے۔ کاروباری طبقے اور مزدور تنظیموں کی جانب سے شدید تشویش کا اظہار کیا گیاہے۔
کینیڈا کے نئے وزیر اعظم کا انتخاب
امسال جنوری میں جسٹن ٹروڈو نے لِبرل (Liberal) پارٹی کی قیادت اور وزیرِاعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ اس کےمعاً بعد پارٹی میں نئے قائد کے انتخاب کی مہم شروع ہو گئی۔ چنانچہ چار امیدواران کے نام پارٹی کی قیادت کے لیے نامزد کیے گئے جن میں سے بالآخر اوائل مارچ میں پارٹی کے اندرونی انتخابات کے نتیجے میں مارک کارنی (Mark Carney) لبرل پارٹی کے قائد منتخب ہوئے۔ چونکہ اب تک لِبرل پارٹی حکومت میں ہے لہٰذا اس پارٹی کے قائد، وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوتے ہیں۔ ۱۴؍ مارچ کو مارک کارنی نے کینیڈا کے ۲۴ویں وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا، جس کے ساتھ ہی ملک کی سیاسی قیادت میں ایک اہم تبدیلی واقع ہوئی۔ وزیراعظم کارنی بین الاقوامی سطح پر ایک ممتاز ماہرِ معاشیات اور بینک آف کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ کے سابق گورنر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے لبرل پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد تیزی سے عوامی حمایت حاصل کی ہے۔
اپنے پہلے خطاب میں کارنی نے معاشی ترقی، متوسط طبقے کی بہتری اور بیرونی دباؤ کے خلاف کینیڈین خودمختاری کے تحفظ کو اوّلین ترجیح قرار دیا۔
یاد رہے کہ چونکہ مارک کارنی نے ہنگامی طور پر سابق وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے استعفیٰ دینے کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کو سنبھالا ہے ، اس لیے انہوں نے اواخر مارچ میں اعلان کیا کہ جو وفاقی انتخابات امسال موسمِ خزاں میں ہونے تھے انہیں قبل از وقت اب ۲۸؍ اپریل کو منعقد کیا جائے گا۔ یہ انتخابات کینیڈا کے سیاسی و معاشی مستقبل کا رخ متعین کریں گے۔غالب امکان ہے کہ یہ انتخابات امریکی پالیسی کی تبدیلیوں اور دنیا کے بدلتے سیاسی نقشوں کے پیش نظر کینیڈا کی تاریخ میں آئندہ کے لیے خاص اہمیت کے حامل ہوں گے۔
امریکہ میں خَسْرَہ (Measles) کی وبا شدت اختیار کر گئی
مارچ کے دوران امریکہ میں خَسْرَہ (Measles) کی وبا نے سنگین صورتحال اختیار کر لی ہے، جس نے ملک کی ۲۰؍ سے زائد ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ امریکی مرکز برائے انسداد امراض(CDC)کے مطابق سال کے پہلے تین مہینوں میں ۴۸۳؍کیسز رپورٹ ہوئے، جو کہ گذشتہ سال کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہیں۔ ماہرین صحت نے اسے ایک قومی سطح کی صحت عامہ کی ایمرجنسی قرار دیا ہے۔
خسرہ ایک انتہائی خطرناک متعدّی وائرس سے پیدا ہونے والا مرض ہے جو زیادہ تر بچوں کو متاثر کرتا ہے مگر بڑوں کو بھی ہوسکتا ہےخاص طور پر اگر انہیں اس کے انسداد کے لیے ویکسین نہ لگی ہو۔ Measles وائرس سانس کے ذریعے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے ۔ یہ بیماری اس قدر متعدی ہے کہ ایک بیمار شخص دس میں سے نو کو متاثر کر سکتا ہے۔ اگر چہ خسرہ خطرناک ہے تاہم اس کو روکا بھی جا سکتا ہے۔ ویکسینیشن کے ذریعے اس سے مؤثر طور پر بچاؤ ممکن ہے۔ بروقت ویکسین نہ لگوانے کی صورت میں یہ مرض تیزی سے پھیل سکتا ہے اور جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس وقت وبا کے پھیل جانے کی بنیادی وجہ ویکسینیشن کی شرح میں کمی اور ویکسین سے متعلق غلط معلومات کا پھیلاؤ ہے۔ نیز بعض کے نزدیک کووِڈ وبا کے دوران معمول کی ویکسینیشنز متاثر ہوئیں جس سے بعض بچے خسرہ سے غیر محفوظ ہو گئے۔ حکومتی سطح پر جو اقدامات لیے گئے ہیں، اُن میں ریاستی اور مقامی محکمۂ صحت کی جانب سے فوری ویکسینیشن کی مہمات شروع کی گئی ہیں۔ اسی طرح متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی کلینکس قائم کیے گئے ہیں۔ CDC نے والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ضروری ویکسین کی مکمل خوراک دلوائیں، جو ۹۸؍ فیصد تک مؤثر ہے۔
اس وبا کے پھیلاؤ نے عالمی ادارۂ صحت (WHO) کو بھی خبردار کر دیا ہے۔
یہ خسرہ کی وبا اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ ویکسینیشن میں معمولی کمی بھی بڑے پیمانے پر صحت عامہ کے خطرات پیدا کرسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو وبا مزید ریاستوں یا دیگر ممالک تک بھی پھیل سکتی ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے مطالبات کے آگے پسپائی
مارچ کی ایک اہم خبر تعلیمی اداروں اور ٹرمپ حکومت کے مابین پیدا ہونے والے تنازعات سے متعلق ہے، جس کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ امریکہ کا ممتاز تعلیمی ادارہ کولمبیا یونیورسٹی (جو نیویارک میں واقع ہے) ایک شدید سیاسی بحران کا شکار ہو گئی۔ جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائدکردہ الزامات اور مالی دباؤ کے نتیجے میں یونیورسٹی کو کئی ایسے اقدامات پر مجبور ہونا پڑا جنہیں ماہرین نے تعلیمی آزادی کے لیے نہایت خطرناک قرار دیا۔
کولمبیا یونیورسٹی ۱۷۵۴ء میں نیویارک میں قائم ہوئی تھی اور’’آئیوی لیگ‘‘ کا رکن ادارہ ہے۔ آئیوی لیگ ایک مشہور تعلیمی اداروں کا گروپ ہے جو امریکہ کی آٹھ قدیم، ممتاز اور اعلیٰ معیار کی یونیورسٹیوں پر مشتمل ہے۔ ان اداروں کو علمی برتری، تحقیق، ثقافتی اثر، اور سماجی مرتبے کے لحاظ سے دنیا بھر میں ممتاز مقام حاصل ہے۔ اس لحاظ سے کولمبیا یونیورسٹی دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی سے درجنوں نوبیل انعام یافتگان، امریکی صدور، ماہرین قانون و صحافت اور عالمی راہنما وابستہ رہے ہیں۔
مارچ کے آغاز میں وفاقی حکومت نے کولمبیا پر الزام لگایا کہ اس نے کیمپس میں فلسطینی مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر یہودی طلبہ کے خلاف نفرت انگیز رویوں سے نمٹنے میں ناکامی ظاہر کی ہے۔ اس الزام کی بنیاد پر حکومت نے یونیورسٹی کی ۴۰۰ ملین ڈالر کی وفاقی فنڈنگ معطل کر دی۔ اس شدید مالی نقصان سے بچنے کے لیے کولمبیا یونیورسٹی نے کئی متنازع پالیسی تبدیلیوں پر رضامندی ظاہر کی، جن میں کیمپس سیکیورٹی کو گرفتاری کا اختیار دینا، مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور افریقی مطالعات کے شعبہ کو بیرونی نگرانی میں دیناشامل ہیں۔
ان فیصلوں پر یونیورسٹی کے اندر شدید ردعمل سامنے آیا۔ اساتذہ، طلبہ، اور سابق طلبہ نے مظاہروں اور رسمی احتجاج کے ذریعے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا، حتیٰ کہ بعض سابق طلبہ نے احتجاجاً اپنے ڈگری سرٹیفکیٹ تک پھاڑ دیے۔ یونیورسٹی کی قائم مقام صدر ڈاکٹر کیٹرینا آرمسٹرانگ نے ۲۸؍مارچ کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ مزید برآں فلسطینی نژاد گریجوایٹ طالبعلم محمود خلیل کو امریکی امیگریشن حکام نے حماس سے تعلق کے الزام میں گرفتار کر لیا، جس کی وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی۔
تعلیمی حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کولمبیا یونیورسٹی کے اس طرز عمل کو آزادیٔ اظہار، علمی خودمختاری، اور جمہوری اقدار کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباؤ کے تحت اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے لگیں، تو اس کا اثر پورے ملک کی علمی فضا پر پڑے گا۔ کولمبیا یونیورسٹی جیسا معتبر ادارہ جب اس نوعیت کی پسپائی اختیار کرتا ہے، تو یہ نہ صرف اس کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے بلکہ یہ امریکہ میں تعلیم، سیاست، اور سماجی انصاف کے مستقبل کے لیے بھی ایک خطرے کی بات ہے۔
مزید پڑھیں: اشتراکیت اور اسلام(از حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے رضی اللہ عنہ)