خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ احد میں حضرت حمزہؓ کی تدفین اورنوحہ کی ممانعت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت حمزہؓ کی تدفین اور تکفین کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت حمزہؓ کو ایک ہی کپڑے میں کفن دیا گیا،…جب ان کا سر ڈھانکا جاتا تو دونوں پاؤں سے کپڑا ہٹ جاتا اور جب چادر پاؤں کی طرف کھینچ دی جاتی تو ان کے چہرے سے کپڑا ہٹ جاتا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ آپؓ کا چہرہ ڈھانک دیا جائے اور پاؤں پر حَرمل یا اذخر گھاس رکھ دی جائے۔ حضرت حمزہؓ اورحضرت عبداللہ بن جحش ؓ کو جو کہ آپؓ کے بھانجے تھے ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔ نبی کریمﷺ نے سب سے پہلے حضرت حمزہؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ آنحضرتﷺ جب اُحد سے واپس لَوٹے تو آپﷺ نے سنا کہ انصار کی عورتیں اپنے خاوندوں پر روتی اور بین کرتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا بات ہے حمزہؓ کو کوئی رونے والا نہیں؟ انصار کی عورتوں کو پتہ چلا تو پھر وہ حضرت حمزہؓ کی شہادت پر بین کے لیے اکٹھی ہو گئیں۔ پھر نبی کریمﷺ کی آنکھ لگ گئی۔میرے خیال میں مسجد میں ہی کچھ فاصلے پہ تھے۔ اور جب بیدار ہوئے تو وہ خواتین اسی طرح رو رہی تھیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ آج یہ لوگ حمزہ کا نام لے کر روتی ہی رہیں گی؟ بند نہیں کریں گی۔ انہیں کہہ دو کہ واپس چلی جائیں۔ تب نبی کریمﷺ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ اپنے گھروں کو واپس لَوٹ جائیں اور آج کے بعد کسی مرنے والے کا ماتم اور بین نہ کریں۔تو اس طرح آنحضرتﷺ نے مردوں پر نوحہ کرنا ناجائز قرار دیا اور کسی بھی قسم کا نوحہ اور بین ختم کر دیا۔ یوں بڑی حکمت سے آنحضرتﷺ نے انصار کی عورتوں کے جذبات کا خیال رکھا۔ انہیں اپنے خاوندوں اور بھائیوں کی جدائی پر ماتم سے روکنے کی بجائے حضرت حمزہؓ کا ذکر کیا۔ ان پر رونے والا کوئی نہیں؟ آپﷺ کو حضرت حمزہؓ کی شہادت پر پھر لاش کی بے حرمتی دیکھ کر شدید غم تھا لیکن جب دیکھا کہ انصار عورتیں اب یہ نوحہ بند ہی نہیں کر رہیں۔ یہ ایک رسم ہی تھی تو پھر اس پر اس رسم کو ختم کرنے کے لیے اپنا نمونہ پیش کر دیا اور انہیں صبر کی تلقین کی۔ ایسی تلقین جو پُراثر تھی۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کی تدفین کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مُصعبؓ کی تدفین کے بارے میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ جب حضرت مصعبؓ کی نعش کے پاس پہنچے۔ ان کی نعش چہرے کے بل پڑی تھی۔ نبی کریمﷺ نے ان کے پاس کھڑے ہو کر یہ آیت تلاوت فرمائی کہ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوْا اللّٰہَ عَلَیہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ ینْتَظِرُ وَمَابَدَّلُوْا تَبْدِیلًا۔(الاحزاب:24) کہ مومنوں میں سے ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا اسے سچا کر دکھایا۔ پس ان میں سے وہ بھی ہے جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہے جو ابھی انتظار کر رہا ہے اور انہوں نے ہرگز اپنے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس کے بعد نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ یشْهَدُ أَنَّكُمُ الشُّهَدَاءُ عِنْدَ اللّٰهِ یوْمَ الْقِیامَةِ۔کہ خدا کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بھی اللہ کے ہاں شہداء ہو۔ پھر آپﷺ نے صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ان کی زیارت کر لو اور ان پر سلام بھیجو۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روز قیامت تک جو بھی ان پر سلام کرے گا یہ اس کے سلام کا جواب دیں گے۔ حضرت مصعبؓ کے بھائی حضرت ابو رُوم بن عُمیرؓ حضرت سُوَیبِط بن سعدؓ اور حضرت عامر بن رَبِیعہؓ نے حضرت مصعبؓ کو قبر میں اتارا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سیرت خاتم النبیینؐ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اُحد کے شہداء میں ایک صاحب مصعب بن عمیرؓ تھے۔ یہ وہ سب سے پہلے مہاجر تھے جو مدینہ میں اسلام کے مبلغ بن کر آئے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں مصعبؓ مکہ کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ خوش پوش اور بانکے سمجھے جاتے تھے’’ بڑے اچھے لباس پہننے والے اور بڑے رکھ رکھاؤ والے تھے۔ ‘‘اوربڑے نازونعمت میں رہتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ان کی حالت بالکل بدل گئی۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک دفعہ ان کے بدن پر ایک کپڑا دیکھا جس پر کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔ آپؐ کو ان کا وہ پہلازمانہ یاد آگیا تو آپؐ چشم پُرآب ہو گئے۔‘‘ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ’’اُحد میں جب مصعب شہید ہوئے تو ان کے پاس اتنا کپڑا بھی نہیں تھا کہ جس سے ان کے بدن کو چھپایا جا سکتا ہو۔ پاؤں ڈھانکتے تھے توسرننگا ہوجاتا تھا اور سر ڈھانکتے تھے توپاؤں کھل جاتے تھے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ کے حکم سے سر کو کپڑے سے ڈھانک کر پاؤں کو گھاس سے چھپا دیا گیا۔‘‘
سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے احد کے دن جنگ کےبعدآنحضرتﷺکی دعاکی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: اُحد کے دن جنگ کے بعد رسول اللہﷺ نے ایک دعا بھی کی۔ اس کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ حضرت رِفَاعَہ بن رَافِع زُرَقِیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ صحابہ کرامؓ کے دفن سے فارغ ہونے کے بعد اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور مسلمان آپؐ کے ارد گرد تھے۔ اکثر زخمی تھے اور بنو سلمہ اور بنو عبد الْاَشْھَل کے زخمی زیادہ تھے اور آپؐ کے ساتھ چودہ خواتین تھیں۔ جب اُحد کے نیچے پہنچے تو آپؐ نے فرمایا تم سب صف بناؤ تاکہ مَیں اپنے رب تعالیٰ کی ثنا کروں تو آپؐ کے پیچھے مردوں نے صف بنائی۔ اور ان کے پیچھے عورتوں نے تو آپؐ نے یہ کلمات کہے۔ اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهٗ، اَللّٰهُمَّ لَا قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلَا بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ، وَلَا هَادِیَ لِمَنْ أَضْلَلْتَ، وَلَا مُضِلَّ لِمَنْ هَدَیْتَ، وَلَا مُعْطِی لِمَا مَنَعْتَ وَلَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیتَ، وَلَا مُقَرِّبَ لِمَابَاعَدْتَ وَلَا مُبْعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، اَللّٰهُمَّ ابْسُطْ عَلَینَا مِنْ بَرَكَاتِكَ وَرَحْمَتِكَ وَفَضْلِكَ وَرِزْقِكَ۔ اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ النَّعِیمَ الْمُقِیمَ الَّذِی لَا یحُوْلُ وَلَا یَزُوْلُ، اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ النَّعِیمَ یوْمَ الْعَیلَةِ۔ اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ الْأَمْنَ یوْمَ الْخَوْفِ۔ [وَالْغِنٰی یَوْمَ الفَاقَةِ] اَللّٰهُمَّ إِنِّی عَائِذٌ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أَعْطَیتَنَا وَمِنْ شَرِّ مَا مَنَعْتَنَا۔ اَللّٰهُمَّ حَبِّبْ إِلَینَا الْإِیمَانَ وَزِینْهُ فِی قُلُوْبِنَا، وَكَرِّه إِلَینَا الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیانَ وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِیْنَ، اَللّٰهُمَّ تَوفَّنَا مُسْلِمِینَ وَأَحْیِنَا مُسْلِمِیْنَ، وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِیْنَ غَیْرَ خَزَایَا وَلَا مَفْتُونِیْنَ، اَللّٰهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِیْنَ یكَذِّبُوْنَ رُسُلَكَ وَیصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِكَ، وَاجْعَلْ عَلَیْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، اَللّٰهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِیْنَ أُوْتُوا الْكِتَابَ، إِلٰهَ الْحَقِّ۔ [آمین]۔اے اللہ! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ اے اللہ! جس چیز کو تُو کشادہ کر دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو تُو قبض کر لے اس کو کوئی کشادہ نہیں کر سکتا اور جس کو تُو گمراہ کر دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جس کو تُو ہدایت دے دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جو چیز تُو روک لے اس کا کوئی عطا کرنے والا نہیں اور جو تُو عطا کرے اس سے کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو تُو دُور کر دے اس کو کوئی قریب کرنے والا نہیں ہے اور جس کو تُو قریب کر دے اس کو کوئی دُور کرنے والا نہیں ہے۔ اے اللہ! ہم پر اپنی برکات اور رحمت اور اپنے فضل اور رزق میں سے کشادگی کر۔ اے اللہ! ہم تجھ سے تیری ایسی قائم ہونے والی نعمتوں کا سوال کرتے ہیں جو نہ پھریں اور نہ زائل ہوں۔ اے اللہ! ہم فقر کے دن تجھ سے نعمتوں کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تجھ سے خوف کے دن امن کا سوال کرتے ہیں اور فاقے کے دن غنیٰ کا۔ اے اللہ! مَیں تجھ سے ان چیزوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو تُو نے ہمیں عطا کیں اور اس کے شر سے جس سے تُو نے ہمیں منع کیا۔ اے اللہ! ایمان کو ہماری طرف محبوب کر دے اور اس کو ہمارے دلوں میں مزین کر دے اور ہماری طرف کفر، فسق اور نافرمانی کو ناپسند کر دے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلنے والوں میں سے بنا دے۔ اے اللہ! ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں زندہ کر اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ اس طرح لاحق کر دے کہ نہ ہم رسوا ہوں اور نہ فتنے میں پڑیں۔ اے اللہ! ان کافروں کو ہلاک کر دے جو تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیرے راستے سے روکتے ہیں اور ان پر اپنی سزا اور عذاب نازل کر۔ اے اللہ! اے معبودِ حق!! اہل کتاب کافروں کو ہلاک کر۔ آمین۔
سوال نمبر۴:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جنگ احدمیں آنحضرتﷺکی شجاعت اورفراست کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ایک مصنف نے آنحضرتﷺ کی شجاعت اور فراست کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب خالد بن ولید کی قیادت میں قریشی شہسوار عبداللہ بن جُبَیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کرتے ہوئے جو درّے پہ کھڑے تھے یہ لوگ اسلامی لشکر کی پشت پر نمودار ہو گئے۔ اس وقت رسول اللہﷺ کے ہمراہ صرف نو صحابہؓ کی نفری موجود تھی۔ دیگر مجاہدین تو دشمن کا تعاقب کرتے ہوئے میدان میں بہت دُور پہنچ گئے تھے۔ رسول اللہﷺ نے جونہی خالد بن ولید اور قریشی شہسواروں کو دیکھا تو فوری طور پر ایک دلیرانہ فیصلہ کیا۔ ورنہ بہت آسان تھا کہ آپؐ پر ابھی شہسواروں کی نگاہ نہیں پڑی تھی اور آپؐ پہلے خود کو محفوظ پناہ گاہ کی طرف لے جاتے لیکن ایسے میں اسلامی لشکر کا بےشمار نقصان ہونا لازمی تھا۔ اپنے آپ کو محفوظ کر سکتے تھےلیکن اپنی حفاظت میں اسلامی لشکر کا نقصان ہو سکتا تھا، اس لیے آپؐ نے فیصلہ یہ کیا۔ آپؐ نے فرار کا راستہ اپنانے کی بجائے بلند آواز میں نعرہ لگایا تاکہ اسلامی لشکر سن کر پشت کو دیکھے تو ایسے میں جبکہ اسلامی لشکر میدان میں بہت آگے تھا ان سے پہلے قریشی شہسواروں تک آپؐ کی آواز کا پہنچنا بھی لازم تھا۔ آزمائش کی اس گھڑی میں رسول اللہﷺ کی عبقریت اور بے مثال شجاعت یعنی عجیب و غریب قسم کی اور بے مثال شجاعت نمایاں ہوئی کیونکہ آپؐ نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر صحابہ کرامؓ کی جان بچانے کا فیصلہ فرمایا تھا اور نہایت بلند آواز سے صحابہؓ کو پکارا۔ اللہ کے بندو! ادھر۔ آپؐ کی آواز پورے میدان میں گونج گئی تھی۔ صحابہ کرامؓ کو بھی حالات کی نزاکت کا احساس ہوگیا تھا چونکہ وہ کافی فاصلے پر موجود تھے لہٰذا ان سے پہلے قریشی شہسواروں کے ایک دستے نے رسول اللہﷺ پر حملہ کردیا اور باقی شہسواروں نے تیزی کے ساتھ مسلمانوں کو گھیرنا شروع کر دیا۔ آنحضرتﷺ کا زخمی حالت میں بھی حواس قائم رکھنا اور صحابہؓ کی راہنمائی کرنا، ان کی حوصلہ افزائی فرمانے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ عُتبہ بن ابی وقاص نے جو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا بھائی تھا اس نے آنحضرتﷺ پر ایک پتھر کھینچ کر مارا جو آپؐ کے منہ پر لگا اور آپؐ کا نچلا رباعی دانت یعنی سامنے والے دو دانتوں اور نوکیلے دانت کے درمیان والا دانت ٹوٹ گیا۔ ساتھ ہی اس سے نچلا ہونٹ پھٹ گیا۔ شارع بخاری علامہ ابن حجر عسقلانیؒ بیان کرتے ہیں کہ دانت کا ایک ٹکڑا ٹوٹا تھا جڑ سے نہیں اکھڑا تھا۔بہرحال آنحضرتﷺ نے عتبہ بن ابی وقاص کے خلاف یہ دعا کی۔ اَللّٰهُمَّ لَا یحُوْلُ عَلَیهِ الْحَوْلُ حَتّٰى یمُوْتَ كَافِرًا۔ اے اللہ! ایک سال گزرنے سے پہلے ہی اس کو کافر کی حیثیت سے موت دے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی یہ دعا قبول فرمائی اور اس کو اسی دن حاطب بن ابی بلتعہؓ نے قتل کردیا۔ حضرت حاطبؓ کہتے ہیں کہ جب مَیں نے عتبہ بن ابی وقاص کی یہ شرمناک جسارت دیکھی تو مَیں نے فوراً آنحضرتﷺ سے پوچھا کہ عتبہ کدھر گیا ہے۔ آپﷺ نے اُس سمت اشارہ کیا جس طرف وہ گیا تھا۔ مَیں فوراً ہی اس کے تعاقب میں روانہ ہوا۔ یہاں تک کہ ایک جگہ مَیں اس کو پانے میں کامیاب ہو گیا۔ مَیں نے فوراً ہی اس پر تلوار کا وار کیا جس سے اس کی گردن کٹ کر دُور جاگری۔ مَیں نے بڑھ کر اس کی تلوار اور گھوڑے پر قبضہ کیا اور اسے لے کر آنحضرتﷺ کے پاس آیا۔ آپؐ نے یہ خبر سن کر دو مرتبہ فرمایا۔ رَضِی اللّٰہُ عَنْکَ۔ رَضِی اللّٰہُ عَنْکَ۔ یعنی اللہ تم سے راضی ہو گیا۔ اللہ تم سے راضی ہو گیا۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ برطانیہ ۲۰۲۴ء