حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

عہدیداران کی ذمہ داریوں کے متعلق راہنمائی

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۸؍اگست۲۰۲۳ء)

عہدیداروں کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ بیشک جماعتی عہدیدار منتخب ہو چکے ہیں لیکن انہیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خدمت کا موقع دیا ہے تو اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں ہر قسم کے ذاتی مفاد سے بالا ہو کر اپنے کام کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سرانجام دینا چاہیے۔

بعض عہدیداروں کے متعلق شکایات آتی ہیں کہ ان کے رویّوں میں عاجزی نہیں ہوتی اور ایسا اظہار ہوتا ہے جیسے اس عہدے کے بعد وہ کوئی غیر معمولی شخصیت بن گئے ہیں۔

میں یہ تو نہیں کہتا کہ فرعونیت پیدا ہو گئی لیکن بہرحال اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ خاص طور پر جن عہدیداروں کو نامزد کیا جاتا ہے اور وہ واقف زندگی بھی ہیں ان میں اگر یہ بات پیدا ہو تو یہ بالکل قابلِ برداشت نہیں۔ بعض واقفین زندگی کو جنرل سیکرٹری بنایا گیا تو ان کے بارے میں شکایت ہے کہ بڑا متکبرانہ رویہ ہے۔ سلام تک کا جواب نہیں دیتے۔ ایسے رویے دکھانے والے اپنی اصلاح کریں اور اللہ تعالیٰ نے جو خدمت کا موقع دیا ہے تو زمین پر جھکیں اور ہر بچے بڑے سے پیار اور عاجزی سے ملیں۔ آپ کو مقرر کیا گیا ہے کہ افرادِ جماعت کی خدمت کریں نہ یہ کہ ان پر کسی قسم کی افسر شاہی کا رعب ڈالیں۔

پھر بعض ایسے ہیں جو اپنے کام بھی صحیح طرح سرانجام نہیں دیتے۔ یہاں میری طرف سے بھی بعض معاملات رپورٹ کے لیے جاتے ہیں تو ان کی دراز میں پڑے رہتے ہیں جب تک یاددہانی نہ کراؤ، بار بار نہ پوچھو اور چھ مہینے سال بعد پھر ایک معافی نامہ لکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے سے غلطی ہو گئی۔ ہم ان پر بروقت کارروائی نہیں کر سکے۔ اگر مرکز کے خطوط کے ساتھ، خلیفہ وقت کے خطوں کے ساتھ ان کا یہ سلوک ہے اور یہ رویہ ہے تو پھر عام فردِ جماعت کے متعلق ان سے کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ نیک سلوک کرتے ہوں گے۔ ان لوگوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے ورنہ ان کو خدمت سے فارغ کر دیا جائے گا۔

عہدیداران کو بعض اَور ذمہ داریوں کی طرف بھی میں توجہ دلانا چاہوں گا۔ ایک تو یہی کہ اپنے اندر عاجزی پیدا کریں اور جو ذمے داری دی گئی ہے اسے اس کا حق ادا کرتے ہوئے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ہر وقت یہ ذہن میں رہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے اوپر نگران ہے۔ وہ ہماری ہر حرکت دیکھ رہا ہے۔ کوئی عہدہ ملنے کے بعد ہم ہر قسم کی بندشوں سے آزاد نہیں ہو گئے بلکہ ہم خدا تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے زیادہ آ گئے ہیں۔ لوگوں نے ہمیں منتخب کیا ہے، ہم پر اعتماد کر کے خلیفہ وقت نے ہمیں اس خدمت کے لیے منظور کیا ہے تو ہمیں اس اعتماد کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اس خدمت کو بہترین رنگ میں ادا کرنے کے لیے صرف کرنی ہیں۔ یہ سوچ ہو گی تو تبھی صحیح کام کرنے کی روح بھی پیدا ہو گی اور افراد جماعت کا بھی تعاون رہے گا۔ اکثر عہدیدار جو شکایت کرتے ہیں کہ بعض شعبوں میں افراد جماعت تعاون نہیں کرتے بیشک یہ افراد کی بھی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں کو انہوں نے خود خدمت کے لیے چنا ہے ان سے تعاون بھی کریں لیکن ساتھ ہی عہدیداران کا بھی کام ہے کہ اپنی بہترین مثالیں لوگوں کے سامنے قائم کریں۔ اب ایک عہدیدار کی رپورٹ ملی کہ وہ اپنی آمد پر صحیح چندہ نہیں دیتا اور نہ ہی کم شرح سے چندہ ادا کرنے کی اجازت لینی چاہتا ہے تو ایسا شخص پھر دوسروں کے لیے کیا نمونہ پیش کرے گا؟ دوسروں کو کس طرح کہے گا کہ مالی قربانی کرو؟ پس اپنے ذاتی نمونے بہت ضروری ہیں۔ بہت زیادہ استغفار کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔

اگر ایک سیکرٹری تربیت خود پانچ وقت باجماعت نماز ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتا تو دوسروں کو کس طرح تلقین کر سکتا ہے کہ نمازوں کی طرف توجہ دو۔ اسی طرح ایک واقف زندگی اور مربی خود نوافل ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہا تو افراد جماعت کو وہ کس طرح نصیحت کر سکتا ہے کہ عبادتوں کی طرف توجہ کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اسی طرف تو ہماری توجہ دلائی ہے کہ غیر احمدی مولوی نصیحت کرتا ہے لیکن اس کے عمل اس کی نصیحت کے مطابق نہیں ہیں اس لیے اس کی باتوں کا اثر نہیں ہوتا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد1 صفحہ67 ایڈیشن 1984ء)

پس ہمارے لیے تو ہر لمحہ بڑی فکر سے گزارنے کی ضرورت ہے۔ ہر قدم بڑا پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جب یہ ہو گا تب ہی ہم اپنی امانتوں کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔

سیکرٹریان تربیت اگر اپنے نمونے قائم کرتے ہوئے پیار اور محبت کے ساتھ جماعت کی تربیت کریں تو افرادِ جماعت میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں۔

ہر عہدیدار کو اپنے شعبے کی بہتری کے لیے کم از کم دو نفل بھی روزانہ پڑھنے چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے۔اگر تربیت کا شعبہ فعال ہو جائے تو باقی شعبے خود بخود میرے اندازے کے مطابق کم از کم ستر فیصد تک بہتر رنگ میں کام کرنا شروع کر دیں گے۔

پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ عہدیداروں نے اپنے نمونے قائم کرنے ہیں اور خاص طور پر امرائے جماعت نے، صدران جماعت نے اور خصوصاً سیکرٹریان تربیت نے،باقی نے بھی کرنے ہیں، یہ نہیں کہ باقی نہ بھی کریں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرا ان عہدیداروں کو خاص توجہ دلانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی نہ بھی کریں تو فرق نہیں پڑتا۔ ہر ایک کرے گا تبھی جماعتی ترقی صحیح طرح ہو گی۔ اگر اپنے نمونے نہ دکھائیں تو یہ نہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہت فرق پڑتا ہے۔ ہر عہدیدار کے عمل کا فرق پڑتا ہے۔ اگر سیکرٹری مال خود اپنے چندے احتیاط سے ادا نہیں کر رہا تو دوسروں کو کیا کہے گا، جیساکہ میں نے بتایا اور پھر اس کے کہنے میں کیا برکت ہو گی؟ اگر تبلیغ کا سیکرٹری تبلیغ کا حق ادا ہی نہیں کر رہا تو افراد جماعت کو کس طرح تبلیغ کے لیے متحرک کرے گا؟ پس ہر شعبہ اہم ہے۔ اسی طرح ذیلی تنظیموں کے صدران کے عہدے ہیں اور باقی عاملہ ممبران کے عہدے اہم ہیں۔ذیلی تنظیموں میں بھی ہر سطح پر اپنے آپ کو فعال کرنا ہو گا۔

بعض جگہ صدر لجنہ کے بارے میں شکایت آتی ہے کہ ان کے رویے ٹھیک نہیں ہیں۔ بعض کے نومبائعات کے ساتھ رویے ٹھیک نہیں ہیں۔ ان کو کھینچنے کے بجائے ان کو دوڑانے کا باعث بن رہی ہیں۔ ان نومبائعات کو بڑے غلط طریقے سے کہا جاتا ہے کہ ہم تمہاری اصلاح کریں گے جبکہ میرے نزدیک خود ایسی صدر لجنہ کی اصلاح ہونی چاہیے اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ چند لوگوں کے پاس عہدے مستقل چلتے رہتے ہیں۔ ممبرات لجنہ بھی اپنے انتخاب میں نہیں دیکھتیں کہ کون اہل ہے اور کون نہیں ہے جس کے نتیجے میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پھر شکایات آتی ہیں اور جب خرابیاں پیدا ہوں تو اَور لوگوں کے ایمان کو ٹھوکر لگتی ہے۔ اگر منتخب کرنے والیاں خود اپنا حق رائےدہی انصاف سے اور اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے ادا نہیں کر رہیں تو پھر شکایت بھی نہیں ہونی چاہیے۔ پس انتخابات کے وقت امانتوں کے اہل کو منتخب کریں تو شکایات ختم ہوں گی ورنہ ہم اپنی اصلاح نہیں کر سکتے۔ عہدیداروں سے میں یہ بھی کہوں گا کہ وہ سٹیجوں پر بیٹھنے کے لیے نہیں ہیں۔ ہر عہدیدار کو اپنی ڈیوٹی ایک عام کارکن بن کر دینی چاہیے۔

…ہر عہدیدار کا یہ بھی کام ہے کہ افرادِ جماعت سے ذاتی رابطہ رکھ کر ان سے ذاتی تعلق بڑھائیں۔ ان کی خوشی غمی میں شامل ہوں۔ ہر فرد جماعت کو یہ احساس پیدا کروائیں کہ نظامِ جماعت تو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے کے لیے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے،نہ کہ کوئی افسر ہے یا کوئی ماتحت ہے۔ کوئی بڑا ہے یا کوئی چھوٹا ہے۔ہم سب ایک ہیں۔ بھائی بھائی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مشن کو پورا کرنے کے لیے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق کوشش کر رہے ہیں۔ یہی سوچ ہے جو نظام جماعت کو ایک خوبصورت نظام بنا سکتی ہے اور یہی سوچ ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے بھی قریب کر سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: عہدیداران کے انتخاب کے متعلق راہنمائی

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button