حجامت(پچھنے لگانے) کے بارے راہنمائی
سوال:ایک سیرین دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ حجامت(پچھنے لگانے) کے بارے میں جماعتی موقف کیا ہے۔لوگ اسے سنت رسولؐ سمجھتے ہیں۔ اگر جماعت اسے درست سمجھتی ہے تو اس کےبارے میں کیا تفاصیل ہیں ؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۷؍جولائی ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔حضور نے فرمایا:
جواب:حجامت یعنی پچھنے لگوانا پرانے زمانہ میں ایک طریق علاج تھا۔ اور چونکہ آنحضورﷺ کے زمانہ میں بھی یہ طریق علاج رائج تھا اس لیے حضور ﷺ نے اور صحابہؓ نے بوقت ضرورت اس سے استفادہ کیا۔ لیکن یہ کوئی ایسا شرعی مسئلہ نہیں ہے کہ جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ چونکہ حضور ﷺ نے اسے اپنایا ہےاس لیے اب ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ موجودہ زمانہ کے جدید علاج کے طریقوں کو چھوڑ کر لازمی طور پر حجامت کے طریق کو اختیار کرے۔
ہاں اگر کوئی شخص اس زمانہ میں بھی کسی تکلیف کے علاج کے طورپر اس سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی اس نیت سے کہ چونکہ حضورﷺ نے اس طریق علاج کو اپنایا تھا، اس لیے میں بھی کسی بیماری کے علاج کے طور پر حضور ﷺ کی سنت کو پورا کرنے کے لیے اس طریق علاج کو اپناؤں تو حضور ﷺ کے ارشاد إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کے تحت ایسے عمل کی اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی ثواب کی امید کی جا سکتی ہے۔
باقی جہاں تک پچھنے لگوانے کی تفصیل کا تعلق ہے تو احادیث کی مستند کتب میں ایسی روایات بیان ہوئی ہیں کہ حضورﷺ نے بیماری اور تکلیف کے علاج کے طور پرسفر و حضر میں،احرام کی حالت میں، روزہ کی حالت میں جہاں ضرورت پڑی پچھنے لگوائے۔پچھنے لگوانے کے اس عمل کو حضور ﷺ نے اپنے سر پر کروایا۔ نیز پچھنے لگانے والے کو اُس کے اِس کام کی اجرت بھی حضور ﷺ نے ادا فرمائی۔(صحیح بخاری کتاب الطب، کتاب الحج، کتاب الصوم)
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۶۰ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍ اگست ۲۰۲۳ء)
مزید پڑھیں: کسی کی غلطی کی ستّاری کرنا بھی ضروری ہے