ہستئ باری تعالیٰ کے سائنسی دلائل
قرآن مجید کی سب سے پہلی آیت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں لفظ اللہ ہستئ باری تعالیٰ کی موجودگی کا پتہ دیتا ہے۔ الٓـمّٓ ( البقرۃ:۲) میں اللہ سب سے زیادہ جاننےوالا ہوں۔
ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (البقرۃ:۳)
یہ ”وہ“ کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو۔
بلا شبہ آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم نے ہر طرح کے سائنسی حقائق بیان فرما دیےتھے جن کو سائنسدانوں نے آہستہ آہستہ اپنی تحقیق کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کیا اور جواباً سائنس دانوں کو بہت تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں۔ بعضوں کو جادوگر کہہ کر ان پر سختیاں کی گئیں۔ بعضوں کو جلا دیا گیا۔ کئی سائنس دانوں کو مرگی اور ہسٹیریا کے مریض یا پھر مجنون کہا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ کائنات کے اسرار انبیاء پر براہِ راست علم الہٰی کے ذریعے کھولے جاتے ہیں جبکہ سائنس دانوں کو ان کی جستجو کے ذریعے ان باتوں کا علم ہوتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں” …مذہب اور سائنس میں مقابلہ ہی کوئی نہیں کیونکہ مذہب خدا کا کلام ہے اور سائنس خدا کا فضل اور کسی عقلمند کے قول اور فعل میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔“
(مذہب اور سائنس۔لیکچر فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓبمقام اسلامیہ کالج لاہور،۳ /مارچ ۱۹۲۷ءانوارالعلوم جلد۹صفحہ ۴۹۹)
ہستئ باری تعالیٰ کے بارے میں تمام سائنسی دلائل کو پیش کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے کیونکہ انسانی عقل بہرحال محدود علم رکھتی ہے۔صرف اللہ تعالیٰ ہی العلیم اور الخبیر ہے اور وہی ہے جس نے تمام علوم اپنے سب سے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے ذریعے دنیا پر کھولے۔ ایک طرف دنیا کے نامور سائنس دان دن رات محنت کر کے دنیا کی مہنگی ترین لیبارٹریوں میں ریسرچ کرنے کے بعدسائنس کے حقائق دنیا کو بتاتے ہیں تو دوسری طرف عرب کے صحراؤں میں ایک اُمیّ رسول جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا اسے دنیا کے اتنے بڑے بڑے راز آخر کس نے بتائے اگر خدا تعالیٰ کا وجود نہیں تھا تو پھر آخر وہ کون تھا جس نے یہ سائنسی راز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کھولے۔ آج سے پا نچ سو سال پہلے کیپلر(Kepler)کوپرینکس (Copernicus)اور گیلیلیو (Galileo)جیسے سائنس دانوں نے یہ دریافت کیا کہ زمین اور سورج ساکت نہیں بلکہ اپنے مدار پر گردش کررہےہیں قرآن کریم تو یہ حقیقت چودہ سو سال پہلے ہی بیان کر چکا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اور وہی ہے جس نے رات اور دن کواور سورج اور چاندکو پیدا کیا سب (اپنے اپنے) مدار میں رواں دواں ہیں (الانبیاء:۳۴)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سورۃالرعدکے تعارفی نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں :
” کائنات کے رازوں میں سب سے بنیادی بات جو یہاں پیش کی گئی ہے وہ کشش ِثقل (Gravity)کی حقیقت ہے۔فرمایا کہ زمین و آسمان از خود اتفاقاً اپنے مدار پر قائم نہیں بلکہ تمام اجرامِ فلکی کے درمیان ایک ایسی پنہا ں قوت کام کر رہی ہے جسے تم آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے اس قوت کے نتیجہ میں اپنے مدار پر قائم سارے اجرام فلکی گویا ستونوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔علم فلکیات کے ماہرین کشش ِثقل کی یہی تعبیر کرتے ہیں۔“ (سورۃ الرّعد ترجمہ وتشریحی نوٹس، از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ،صفحہ ۴۹۹ )
فزکس کے ماہر سائنس دانوں نے سمندر کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی زون جہاں سورج کی روشنی تقریباً۲۰۰ میٹر تک پہنچ سکتی ہے۔اس سے اگلی زون میں تھوڑی تھوڑی روشنی ہوتی ہے۔ اور تیسری زون میں مکمل اندھیرا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃالنور آیت ۴۱میں فرماتا ہے:یا ان کے اعمال اندھیروں کی طرح ہیں جو گہرے سمندر میں ہوں جس کو موج کے اوپر ایک اور موج نے ڈھانپ رکھا ہو اور اس کے اوپر بادل ہوں۔ یہ ایسے اندھیرے ہیں کہ ان میں سے بعض بعض پر چھائے ہوتے ہیں جب وہ اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے بھی دیکھ نہیں سکتا اور وہ جس کے لیے اللہ نے کوئی نور نہ بنایا ہو تو اس کے حصہ میں کوئی نور نہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندروں کا سفر نہیں کیا تھا مگر خدا نے، اس ہستئ باری تعالیٰ نے اس اُمیّ رسولؐ کو سمندروں میں چھپے اندھیروں کی خبر دی۔کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو سائنس دان کہتے ہیں کہ ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے لیکن قرآن کریم کہتا ہے تم انہیں دیکھو گے۔
۱۔چنانچہ دس سال پہلے تک سائنس دان کہتے تھے کہ وہ بلیک ہول(BLACK HOLE)نہیں دیکھ سکتے لیکن انہوں نے نہ صرف بلیک ہول دیکھا بلکہ اس کی تصویریں بھی لیں اور نیشنل جیوگرافک میں بھی شائع کیں۔ کیا یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ہم ہستئ باری تعالیٰ کا انکار کر سکتے ہیں؟
۲۔قرآن کریم میں بے پناہ سائنسی دلائل موجود ہیں جو خدائے واحد و یگانہ کی عظیم ہستی کو واضح طور پر پیش کرتے ہیں۔ دن اور رات کا نظام قرآن کریم میں بیان فرمایا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرما تا ہے: اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔ وہ دن پر رات کا خول چڑھا دیتا ہے اور رات پر دن کا خول چڑھا دیتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو مسخر کیا۔ ہر ایک اپنی مقررہ میعاد کی طرف متحرک ہے۔خبردار وہی کامل غلبہ والا اور بہت بخشنے والا ہے۔ (الزمر: ۴)
۳۔آج کل سائنسدان”نظریہ اتساع کائنات “پیش کرتے ہیں کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے جسے انگریزی زبان میں Expanding Universe کہا جاتا ہے۔اس کا ئنات کے خالق و مالک نے یہ راز بہت پہلے ان الفاظ میں بیان فرمادیا تھا :
اور ہم نے آسمان کو ایک خاص قدرت سے بنایا اور یقیناً ہم وسعت دینے والے ہیں۔(الذّاریات: ۴۸)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنےترجمۃ القرآن میں فرماتے ہیں:
دنیا میں جہاں خشکی ہے،سمندر ہیں، دریا ہیں وہیں پر اللہ تعالی نے پہاڑوں کو بھی بنایا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا؟ اور پہاڑوں کو پیوستہ میخوں کی طرح ؟ (النّبا: ۷- ۸) پھر فرمایا: اور اس نے زمین میں پہاڑ رکھ دیے تاکہ تمہارے لیے کھانے کا سامان مہیّا کریں اور دریا اور راستے بھی تاکہ تم ہدایت پا جاو (النّحل : ۱۴)
جس طرح سے ایک خیمہ کو زمین کے ساتھ باندھنے کے لیے خاص کیلوں یا میخوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح زمین کو سنبھالا دینے کے لیے پہاڑ میخوں کا کام دیتے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق پہاڑ جتنے زمین سے باہر نظر آتے ہیں اس سے کہیں زیادہ وہ زمین کے اندر پیوست ہوتے ہیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی تقریباً ۹ /کلو میٹر ہے جبکہ سائنس دانوں کے مطابق زمین کے اندر اس کی جڑیں ایک سو پچیس کلو میٹر تک ہیں۔ زندگی کی بقا کے نظام کا انحصار پہاڑوں پر ہے۔ پہاڑ انسان اور حیوانات کی غذا کا ذریعہ ہیں۔ بارشوں کے نظام میں پہاڑوں کا بہت بڑا دخل ہے یہ اتنے بڑے راز اللہ تعالیٰ کی ہستی کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔
”قرآن میں انسان کی تخلیق کا عمل اوّل تا آخر مرحلہ وار بیان فرما دینے والا وہی خالقِ حقیقی ہے جس نے انسان کو تخلیق کیا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس مخلوق کا خالق کوئی نہیں وہی ہے جس نے کائنات کے ذرّے ذرّے کو ایک خاص ترتیب سے بنایا اور اُس کا ذکر قرآن مجید میں ان الفاظ میں کیا ’’ وہی ہے جس نے سات آسمانوں کو طبقہ در طبقہ پیدا کیا۔ تو رحمٰن کی تخلیق میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا۔ پس نظر دوڑا کیا تو کوئی رخنہ دیکھ سکتا ہے؟ نظر پھر دوسری مرتبہ دوڑا، تیری طرف نظر ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہاری ہوگی۔“ (الملک: ۴- ۵)
”اس آیت کریمہ میں انسان کو یہ چیلنج دیا گیا ہے کہ تمام کائنات پر جتنا چاہے غور کر لے ا سے اس کائنات میں ایک ہی صانع کی صنعت ہونے کی وجہ سے کوئی تضاد نہیں ملے گا۔“ (ماخوذازترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، تشریحی نوٹ صفحہ ۱۰۵۵)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’ اب دیکھو کہ عقلی طور پر قرآن شریف نے خدا کی ہستی پر کیا کیا عمدہ اور بے مثل دلائل دیے ہیں جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے: رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی (طٰهٰ: ۵۱)
یعنی خدا وہ خدا ہے کہ جس نے ہر ایک شے کےمناسبِ حال اس کو پیدائش بخشی۔پھر اس شے کو اپنے کمالات مطلوبہ حاصل کرنے کے لئے راہ دکھلادی۔ اب اگر اس آیت کے مفہوم پر نظر رکھ کر انسان سے لے کر تمام بحری اور برّی جانوروں اور پرندوں کی بناوٹ تک دیکھا جائےتو خدا کی قدرت یاد آتی ہے کہ ہر ایک چیز کی بناوٹ اس کے مناسب حال معلوم ہوتی ہے‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی،دلائل ہستی باری تعالیٰ،روحانی خزائن جلد۱۰،صفحہ۳۶۹-۳۶۸)
نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبد السلام صاحب کو کون نہیں جانتا آپ اپنی کامیابی کا راز ہمیشہ قرآن کریم کے علوم بیان کرتے تھے۔ آپ قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا قول اور سائنس کو خدا تعالیٰ کا فعل سمجھتے تھے اور سائنس پر تحقیق کو عبادت سمجھتے تھے۔ ۲۲/ نومبر۱۹۹۴ء کوخطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا :’’… ڈاکٹر عبدا لسلام صاحب بھی دعاؤں کا ہی پھل تھے… سائنس کی دنیا میں اتنے بلند مرتبہ اور مقام تک پہنچنے کے باوجود کامل طور پر خدا کی ہستی کے قائل تھے بلکہ ایک دفعہ مجھے کہہ رہے تھے کہ جب میں جا تا ہوں کسی سائنسی اجتماع میں تو بعض سرگوشیوں کی آواز آتی ہے ’’ یہ ہے وہ جو خدا کو مانتا ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ۲۲ /نومبر۱۹۹۴ء )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ جن لوگوں کو تم خدا بنائے بیٹھے ہو وہ تو ایسے ہیں کہ اگر سب مل کر ایک مکھی پیدا کرنا چاہیں تو کبھی پیدا نہ کر سکیں اگرچہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں بلکہ اگر مکھی کوئی ان کی چیز چھین کر لے جائے تو انہیں طاقت نہیں ہوگی کہ وہ مکھی سے چیز واپس لے سکیں۔ ان کے پرستار عقل کے کمزور اور وہ طاقت کے کمزور ہیں کیا خدا ایسے ہوا کرتے ہیں؟ خدا تو وہ ہے کہ سب قوتوں والوں سے زیادہ طاقت والا اور سب پر غالب آنے والا ہے نہ اس کو کوئی پکڑ سکے نہ مار سکے۔ ایسی غلطیوں میں جو لوگ پڑتے ہیں وہ خدا کی قدر نہیں پہچانتے اور نہیں جانتے خدا کیا ہونا چاہیے۔ اور پھر فرمایا کہ خدا امن کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پردلائل قائم کرنے والا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سچے خدا کا ماننے والا کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہو سکتا اور نہ خدا کے سامنے شرمندہ ہو گا۔ کیونکہ اس کے پاس زبردست دلائل ہوتے ہیں لیکن بناوٹی خدا کا ماننے والا بڑی مصیبت میں ہوتا ہے۔ وہ بجائے دلائل بیان کرنے کے ہر ایک بیہودہ بات کو راز میں داخل کرتا ہے تا ہنسی نہ ہو اور ثابت شدہ غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے … اور یاد رہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو صحیح طور پر ماننا اور اس میں زیادت یا کمی نہ کرنا یہ وہ عدل ہے جو انسان اپنے مالک حقیقی کے حق میں بجا لاتا ہے۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن جلد۱۰،صفحہ ۳۷۴-۳۷۵)
دعاہےکہ اللہ تعالیٰ تمام دنیاکےلوگوں کو ہستئ باری تعالیٰ کوپہچاننےکی توفیق عطافرمائے۔آمین