تعارف کتاب

اشتراکیت اور اسلام(از حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے رضی اللہ عنہ)

(اواب سعد حیات)

تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام(قسط ۶۶)

حضرت سیدنا مصلح موعودؓ نے ۱۶؍دسمبر۱۹۴۴ء کو اپنی قریباً بیس سال پرانی ایک رؤیا کی بنا پر تحریک فرمائی کہ جماعت کے علماء، فقہاء، اساتذہ، پروفیسر، واقفین زندگی، طلبہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ سب کمیونسٹ تحریک کا خوب اچھی طرح ناقدانہ نظر سے مطالعہ کریں ۔ کیونکہ مستقبل میں اسلام کے خلاف سب سے بڑی جنگ اشتراکیت ہی سے لڑی جانے والی ہے۔(الفضل۲۵؍دسمبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۳-۴)

اس ارشاد کی تعمیل میں افراد جماعت نے سرگرمی دکھائی۔ ذیل میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کرامؓ میں سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی ایک کتاب کا تعارف پیش کیا جاتا ہے جو یک گونہ دربار خلافت کے اس ارشاد کی تعمیل بھی ہے اور اطاعت امام کی قابل تقلید مثال بھی۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ جو جماعت احمدیہ کے ایک جلیل القدر عالم، محقق اور مصنف تھے آپ کی متفرق اور متنوع عناوین پر دانشورانہ اور محققانہ تصانیف اور مضامین ایک اہم اثاثہ ہیں۔ آپ نے تاریخ،عقائد، سیرت، فقہ اور دیگر علمی موضوعات پر گراںقدر تصانیف اور مضامین تحریر کیے، جو علمی و روحانی راہنمائی کے طورپر ایک بیش قیمت خزانہ کا حکم رکھتے ہیں۔ آپؓ کی تحریریں گہرے مطالعہ،منفرد مشاہدہ، تحقیق اور استدلال سے بھرپور ہوا کرتی تھیں، جو نہ صرف احمدی احباب بلکہ دیگر علمی حلقوں کے لیے آج بھی راہنمائی کا ذریعہ ہیں۔

آپ کی زیر نظر تصنیف جنوری ۱۹۵۳ء میں صیغہ تالیف و تصنیف ربوہ کی طرف سے سامنے آئی۔ قریباً ۲۵؍صفحات کی یہ کتاب لاہور آرٹ پریس بالمقابل گنپت روڈ ، انار کلی لاہور سے دیدہ زیب کتابت میں طبع ہوئی تھی۔

اس میں پیش کی گئی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں ایک طرف اشتراکیت کا نظام

(الف ) انفرادی جدو جہد کے جذبہ کو کمزور کرکے کام کے سب سے بڑے فطری محرک کو مٹاتا ہے۔

(ب) فطرت انسانی کے جذبات ہمدردی و مواسات کو تباہ کرتا ہے۔

(ج) انسان کے دماغی قویٰ کو بے قیمت ٹھہرا کر تنزل کے راستہ پر ڈالتا ہے۔

(د) انسان کے اقتصادی حالات کو غیر فطری خارجی سہاروں کے ساتھ وابستہ کرتا ہے اور

(ھ) روحانیت کو مٹا کر دہریت اور مادیت کا بیج بوتا ہے۔

وہاں دوسری طرف دین فطرت اسلام کا نظام

(الف) اشتراکیت اور سرمایہ داری کے بین بین فطری اور وسطی رستہ پر گامزن ہوتا ہے۔

(ب) انفرادی جائیداد کے اصول کو تسلیم کرنے کے باوجود ملکی اور قومی دولت کو سمونے کےلیے ایک مؤثر مشینری قائم کرتا ہے۔

(ج) دولت پیدا کرنے کے قدرتی وسائل کو سب کے لیے یکساں کھلا رکھتا ہے۔

(د) انسانی جذباتِ ہمدردی اور مواسات کو زندہ رکھتا اور تقویت پہنچاتا ہے اور

(ھ) خالق و مخلوق کے فطری رشتہ کو ملحوظ رکھتا اور ترقی دیتا ہے۔

کتاب کے آغاز میں مصنف لکھتے ہیں کہ ’’اس وقت دنیا میں تین مختلف قسم کے نظاموں کا مقابلہ ہے جن میں سے دو نظام تو کھلے طور پر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔ اور تیسرا نظام کس قدر پس پردہ رہ کر گویا اِن دونوں نظاموں کے ٹکراؤ اور اس ٹکراؤ کے نتیجہ کا انتظار کر رہا ہے۔اوّل الذکر دو نظام اشتراکیت Communism اور سرمایہ داری Capitalism کے نظام ہیں اور تیسرا نظام اسلام کا نظام ہے۔‘‘

اس کے بعد کتاب میں یاجوج اور ماجوج کا تعارف کرواکر ان کے متعلق اسلام کی پیش گوئی کا ذکر ہے۔ ا شتراکیت کے ناقص ہونے کے ضمن میں مصنف نے روس کے آہنی پردے Iron Curtainکاذکر کیا ہے اور بتایا کہ اشتراکیت کے نظام کی رازداری بھی اس کے باطل ہونے کی دلیل ہے۔ اگر اشتراکیت حقیقتاً ایک رحمت اور بنی نوع انسان کے لیے واقعی مفید اور بابرکت چیز ہے تو اس رازداری کے کیا معنے ہیں؟ روس کے دروازے غیر ملکی مبصروں کے واسطے کیوں بند ہیں؟ اشتراکیت کے پرچارک دوسرے ممالک میں خفیہ نفوذ کا طریق کیوں اختیار کرتے ہیں؟ تاریخ عالم کا مطالعہ اس بات پر ایک زندہ گواہ ہے کہ دنیا میں کوئی صداقت کبھی رازداری کے رنگ میں ظاہر نہیں ہوئی بلکہ ہمیشہ ایک کھلی حقیقت بن کر آتی ہے۔

مصنف نے کتاب کا نصف اول اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظاموں پرمدلل بحث کو متفر ق ذیلی موضوعات کے تحت سمیٹتے ہوئے کتاب کے نصف آخر میں اسلام کی عالمگیر مساوات، دولت کو کھلے میدان میں لانے کی تلقین، اسلام کا قانون ورثہ، اسلام کا متعارف کردہ امداد باہمی کا طوعی نظام، اسلام کا نظام تجارت و لین دین ، غیر معمولی اقتصادی حالات کا علاج، حکومت کی خاص ذمہ داریاں، وغیرہ کے ذیلی عناوین کے تحت سیر حاصل بحث کی ہے ۔

کتاب کے آخری صفحہ پر ’’امن عالم کا مستقبل‘‘کے ذیلی عنوان میں لکھا ہےکہ لاریب اشتراکیت اور سرمایہ داری کے انتہائی نظاموں کےمقابلہ پر اسلام کا وسطی نظام ہی اس قابل ہے کہ اس پر دنیا کے تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی جائے۔ اور بتایا کہ خدا کے فضل سے وہ وقت دُور نہیں کہ یہی وسطی رستہ یعنی اسلام تمام دوسرے رستوں کو مٹا کر دنیا کا شاہراہ قرار پائے گا اور ہمارے آقا محمد رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم افراد کی بے چینیوں اور قوموں کی کش مکشوں کو دُور کرکے امن عالم کی بنیاد رکھے گی۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: پسر موعود، مصلح موعود(از حضرت پیر منظور محمد صاحب رضی اللہ عنہ)(قسط ۶۵)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button