متفرق مضامین

دَور حاضر میں دعا کی طاقت کے نظارے(قسط دوم۔آخری)

(عبدالسمیع خان)

دنیا کا کوئی مذہب… میرے مقابلہ میں دعا کرکے دیکھ لے کہ خدا میری مدد کرتا ہے یا اس کی اور میں یہ اپنے متعلق ہی نہیں کہتا میرے مرنے کے بعد بھی لمبے عرصہ تک جماعت احمدیہ میں ایسے انسان ہوں گے کہ جو نشان دکھائیں گے۔(حضرت مصلح موعودؓ)

[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل۲۶؍اپریل ۲۰۲۵ء]

٭…جرمنی کے ایک احمدی بیان کرتے ہیں کہ آج سے ۴۵؍سال قبل میرے سینے کی ہڈی میں درد اٹھا۔ بہت علاج کروایا۔ لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔ بالآخر ڈاکٹرز نے مجھے لاعلاج قرار دے دیا اسی دوران ۱۹۸۰ء میں حضرت خلیفةالمسیح الثالثؒ جرمنی تشریف لائے تو میں نے اپنی تکلیف بتادی اور کہا کہ ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا ہے۔ اس پر حضورؒ نے بڑے پُرجلال انداز میں فرمایا کون کہتاہے کہ آرام نہیں آسکتا! پھر حضورؒنے میری قمیض کا ایک بٹن اپنے دست مبارک سے کھولا اور فرمایا ہم دعا کریں گے۔چنانچہ وہ صاحب بتاتے ہیں کہ آج اس واقعہ کو ۳۵؍سال ہوچکے ہیں اور میری یہ حالت ہے کہ جیسے یہ تکلیف مجھے کبھی ہوئی ہی نہ تھی۔

٭…ڈھاکہ بنگلہ دیش میں ایک صاحب زیر تبلیغ تھے اور وہ شوق سے ہمارا لٹریچر پڑھنے لگے۔ اس دوران ان کی آنکھوں کو ایک ایسی بیماری ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے یہ کہہ دیا تمہاری آنکھوں کا نور جاتا رہے گا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں اس کا حال جب اس کے غیراحمدی دوستوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے طعن و تشنیع شروع کردی اور کہا احمدیوں کی کتابیں پڑھنے کی سزا تمہیں مل رہی ہے۔ احمدی دوست نے کہا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒکو دعا کے لیے لکھتا ہوں۔چنانچہ چند دن کے اندر اندر ان کی آنکھوں کی کایا پلٹنی شروع ہوئی اور دیکھتے دیکھتے سب نور واپس آگیا۔ جب دوسری مرتبہ وہ ڈاکٹر کو دکھانے گئے توڈاکٹر نے کہا اس خطرناک بیماری کا کوئی بھی نشان میں باقی نہیں دیکھتا۔‘‘ (الفضل ۲۷؍دسمبر ۲۰۰۳ء)

٭…ڈاکٹر سید برکات احمد صاحب کینیڈا میں مثانہ کے کینسر سے بیمار تھے۔ امریکہ میں آٹھ گھنٹے کا آپریشن ہوا جو ناکام ہوگیا اور ڈاکٹروں نے چار سے چھ ہفتے کی زندگی بتائی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی اورحضور کی دعا سے انہوں نے چار سال تک فعال علمی اور تحقیقی زندگی گزاری۔ڈاکٹر ان کی زندگی اور فعال علمی و تحقیقی زندگی پر حیرت زدہ تھے اور برکات صاحب بتاتے کہ ہمارے روحانی پیشوا کی دعائیں خداتعالیٰ نے سنی ہیں تو ڈاکٹر سرہلا کر کہتے ہاں معجزہ ہے معجزہ ہے۔(روزنامہ الفضل ۹؍دسمبر ۲۰۰۰ء)

٭…حضرت چودھری غلام محمدصاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑتحریرفرماتے ہیں:میں ایک گاؤں میں عرصہ تک رہا۔ تبلیغ کرتا مگر کوئی اثر نہ ہؤاآخرخدا نے ان لوگوں کو آن پکڑا۔ یوں ہو اکہ دریا زمین کو گرانے لگا۔ زمین بہت زرخیز تھی۔ نقصانات کو دیکھ کر لوگ تڑپ رہے تھے میں نے لوگوں کوقادیان جاکر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے دعاکرانے کی تحریک کی آخر دو آدمی میرے پاس آئے کہ ہمیں دعاکے لیے خط لکھ دو۔ وہ لے کر چلے گئے۔قادیان جا کر حضور کو خط دیا اور زبانی بھی عرض کیاکہ حضور ہمارے لیے دعا کریں۔ حضور نے فرمایا کہ جب میں نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں آیا کروں اونچی آواز سے ضرور یاد کرا دیا کرنا۔ ظہر، عصر،مغرب، عشاء ان کے لیے دعاہوئی۔وہ رات کو سوگئے۔ ان کو دریا سے بچاؤ کی اطلاع خواب کے ذریعے مل گئی۔ فجر کی نماز کے لیے وہ مسجد میں آئے توحضورؑ کو اپنا خواب سنایا۔ واپس پہنچے تولوگوں نے کہاکہ جس وقت کی تم بات کرتے ہو اس لمحے سے معمولی مٹی بھی دریا نے نہیں گرائی۔پھر ساراگاؤں میرے مکان پرآگیا۔اور کہاکہ تم حضور سےعرض کرو کہ ان کی دعاکے طفیل دریا نے مٹی گرانی بند کر دی ہے۔اب یہ دعاکریں کہ دریاہم سے دُور چلاجائے۔میں نے سب گاؤں کے انگوٹھے لگوا کر حضورپرنور کی خدمت میں دعاکے لیے درخواست کی۔ تھوڑے دنوں بعد دریا نے پلٹاکھایا اور ان کی زمینیں چھوڑ کر تین میل پیچھے ہٹ گیا۔ (حضرت چوہدری غلام محمدخان گرد اور قانونگو صفحہ۳۱ ،۳۲) یہ دعا کی طاقت تھی۔

٭…نومبر ۱۹۴۵ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی دعاؤں کے ساتھ حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب اپنی اہلیہ اور گیارہ سالہ بیٹے کے ہمراہ قادیان سے سیرالیون روانہ ہوئے۔ تین ماہ کے عرصہ میں نائیجیریا پہنچے۔ ۱۹؍فروری ۱۹۴۶ء کو سیرالیون جانے کے لیے لیگوس کی بندرگاہ پہنچے۔ان کا بیٹا شدید بیمار تھا ڈاکٹر نے جب اس کا ٹمپریچر لیا تو اس نے مولانا صاحب سے کہا کہ میں اس بچے کو سفر کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس سفر میں مر جائے اور جہاز میں ہمارے پاس کولڈ اسٹوریج یعنی سرد خانہ نہیں ہے اسے صرف اس صورت میں لے جانے کی اجازت دے سکتا ہوں جب آپ اس دستاویز پر دستخط کریں کہ اگر وہ جہاز میں ہی مر جائے تو اس کی لاش کو سمندر میں پھینک دیا جائے۔بچے کی ماں تڑپ اٹھی اور کہنے لگی: اگلاجہاز لے لیں گے۔مگر دعاؤں سے معمور مولانا نے دستخط کردیےپھر فرمایا: اگر وہ مر جائے تو اسے سمندر میں پھینک دو، لیکن اسے کچھ نہیں ہوگا۔ وہ گیارہ سالہ بچہ مولانا مبارک احمد نذیر صاحب تھے۔وہ کہتےتھے کہ ان کے کانوں میں ان کے والد کی یہ آواز آج بھی گونجتی ہے۔ وہ ۸۷؍سال زندہ رہے اور جماعت کی خدمت کرتے رہے۔(الفضل انٹر نیشنل ۴؍دسمبر۲۰۲۳ء)

٭…ربوہ کا قیام خود خدا کی ہستی اور دعا کی طاقت کا زبردست نظارہ ہے سرکاری لوگوں نے کہہ دیا کہ یہاں میٹھا پانی توکجا کھارا پانی بھی نہیں نکل سکتا دعا ؤں نے ربوہ کی بنجر سرزمین سے پانی نکالا اوراسے گل وگلزار بنایا۔ربوہ کی بربادی کی کوششیں آج بھی جاری ہیں مگر ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ بستی کبھی بربادنہیں ہو گی۔

٭…دعاؤں نے دو دو آنے چندہ دینے والوں کے گھر بھر دیے۔ دعانے ڈسکہ کے ظفراللہ خان اور جھنگ کے ڈاکٹر عبدالسلام کو عالمی شہرت بخشی۔مسیح موعودؑ اور ان کے خلفاء سےمباہلہ کرنے والے مارے گئے اور چیلنج کرنے والے ذلیل ہو گئے۔

٭…وہ دعا ہی تھی جس نے حضرت خلیفہ اولؓ کو فتنوں پر تسلط بخشا۔ حضرت خلیفہ ثانی ؓکو عالمگیر تبلیغ اسلام کی مہم میں کامیاب کیا، ذیلی تنظیمیں بنوائیں۔ حضرت خلیفہ ثالث ؒکو قومی اسمبلی پاکستان میں دشمنوں کو مسکت جواب دینے کی توفیق دی۔ حضرت خلیفہ رابعؒ کے ذریعہ عالمی بیعت کی بنیاد ڈالی جس نے حضرت خلیفہ خامس کے ذریعہ احمدیت کو ۲۱۳؍ ملکوں میں پہنچا دیا۔ دعا ہی نے پہلے ربوہ پھر مسجد فضل لندن اور اب اسلام آباد کو مرکز احمدیت بنانے کی توفیق دی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اخبار الفضل جاری کرتے ہوئے دعا کی تھی کہ اے اللہ !اس کا فیض لاکھوں نہیں کروڑوں تک وسیع کر آج الفضل کا فیض واقعی کروڑوں تک وسیع ہو گیا ہے۔

٭…حضرت مولاداد خان صاحب کے بھائی بہت بیمار ہوگئے۔ وہ اس وقت احمدی نہیں تھے۔ ڈاکٹر نے کہا کوئی علاج نہ کرواوٴ خواہ مخواہ پیسہ برباد کر رہے ہو اس کی موت یقینی ہے۔ تب حضرت مسیح موعودؑ کو خط لکھا اور اس میں لکھا کہ یہ حال ہو گیا ہے اب تو کسی قسم کی امید ہی نہیں رہی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جواباً تحریر فرمایا:اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرسکتا ہے۔ ہم دعا کریں گے تم بھی دعا کرو ان شاء اللہ صحت ہو جائے گی۔ اس خط کے دوسرے دن میں نے دیکھا کہ ان کا تپ جاتا رہا۔اس کے بعد وہ احمدی ہو گئے بیعت کرلی۔

٭…حضرت ملک نبی داد صاحب آف گھوگھیاٹ کو دانت درد کا شدید دورہ ہو جایا کرتا تھا۔ ایک بارقادیان سے جب واپس جانے لگے تو درد شروع ہو گئی حضرت مسیح موعودؑ سے عرض کیا کہ دعا کریں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کوئی فکر نہ کرو دعا کرتا ہوں تم جاوٴ۔ وہ بیان کرتے ہیں رستے میں درد غائب ہو گیا پھر سالہا سال دانت درد کی کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۹۸ء)

یہ دعا ہی ہے جس نے مسیح موعودؑ کی تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچا دیا جس نے اس کی آواز اور تصویر کو ایم ٹی اے کے ذریعہ شش جہت میں پھیلا دیا۔ جس کے خلیفہ کو دنیا کی تمام قومیں ایک وقت میں اپنی اپنی زبان میں سنتی ہیں جو جماعت ریڈیوکے خواب دیکھتی تھی خدا نے دعاؤں سے اسے ٹی وی بھی دے دیا اور ریڈیو بھی دے دیا۔

٭…۱۹۵۳ء کے فسادات میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفة المسیح الثالثؒ) اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ؓکو قید کرلیاگیا۔ سخت گرمیوں کے دن تھےکسی نے کہا دونوں کا اس گرمی میں کیا حال ہوگا؟ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے جواباً فرمایا:’’ان کا کوئی جرم نہیں۔ اس لیے مجھے اپنے خدا پر کامل یقین و ایمان ہے کہ وہ جلد ہی ان پر فضل کرے گا۔‘‘اس کے بعد آپؓ نے وہ رات گریہ و زاری میں گزاری۔ چنانچہ جب دن چڑھا اور ڈاک کا وقت ہوا تو پہلا تار جو ملا وہ یہ خوشخبری لیے ہوئے تھاکہ حضرت مرزاشریف احمدصاحب اور مرزا ناصر احمدصاحب رہا ہوچکے ہیں۔(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۸؍دسمبر ۲۰۱۵ء صفحہ۴۳)

٭…سکھر اورساہیوال کے اسیران کی رہائی حضرت خلیفةالمسیح الرابعؒ کی اضطراری حالت میں کی جانے والی دردناک دعاوٴں کے نتیجہ میں ہوئی۔ حضورؒ ۱۹۹۱ء کے جلسہ سالانہ قادیان پر تشریف لے گئے۔ حضورؒاپنا دورہ مکمل کرکے قادیان سے دہلی آچکے تھے اور ۱۰؍جنوری ۱۹۹۲ء کا جمعہ دہلی میں پڑھانا تھا۔ لیکن اللہ نے دل میں ڈالا کہ یہ Friday the 10th کا جمعہ ہے۔ قادیان واپس جاکر یہ جمعہ وہاں پڑھانا چاہیے اور اس میں اسیران کی رہائی کے لیے خصوصی دعاکرنی چاہیے۔ چنانچہ حضورؒ قادیان واپس گئے اور جمعہ وہاں پڑھایا اور اسیران کی رہائی کے لیے بہت دعاکی۔ اگلے روز ہفتہ کے دن ابھی حضورؒ امرتسر سٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ خبر مل گئی کہ سکھر کے اسیران رہا ہوگئے ہیں۔

پھر جب ساہیوال کے اسیران ۱۹۹۴ء میں رہا ہوئے توحضورؒنے فرمایا:میں نے اس رمضان میں ان اسیران کے لیے خاص دعا کی تھی کہ اے میرے اللہ! اگلا رمضان ان اسیران کو جیل میں نہ آئے۔ چنانچہ یہ دعا اتنی جلدی اور اس شان کے ساتھ قبول ہوئی کہ اس دعا کے چند دن بعد ہی یہ اسیران رہا ہو گئے۔

٭…چند سال قبل ایک عرب ملک میں ہمارے ایک نہایت مخلص نو مبائع عرب احمدی کو پولیس نے احمدیت قبول کرنے کے جرم میں قید کرلیا اور انتہائی ظالمانہ سلوک کیا گیا۔ کوئی مقامی وکیل کیس لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ بظاہر رہائی کے کوئی آثار نہ تھے۔ لیکن حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے لیے مسلسل دعائیں کررہے تھے۔اور ایک دن فرمایا ان شاء اللہ یہ رہا ہوجائیں گے۔دعا کا نشان اس طرح ظاہر ہواکہ اس عرب ریاست کے بادشاہ نے ایک تقریب کے موقع پر بعض قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا تو ان رہا ہونے والے قیدیوں میں پہلانام ہمارے نومبائع احمدی اسیر کا تھا۔ (روزنامہ الفضل ربوہ ۲۸؍دسمبر ۲۰۱۵ء صفحہ ۴۳) دنیا نہیں جانتی لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ دعا کا معجزہ تھا۔ اسی لیے مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: اگر مردے زندہ ہوسکتے ہیں تودعاوٴں سے۔ اور اگر اسیر رہائی پاسکتے ہیں تو دعاوٴں سے۔ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۲۳۵)سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاوٴں ہی سے پہچانا جاتاہے۔(ملفوظات جلد۳ صفحہ۳، ایڈیشن۲۰۲۲ء)

٭…جون ۱۹۹۶ء میں پشاور کے قریب شب قدر کے علاقہ میں بڑادردناک واقعہ ہوا جہاں چودھری ریاض احمدصاحب کو بڑی بےدردی اور سفاکانہ طریق سے شہید کردیاگیا۔ وہاں ان کے ساتھ ان کے خسر ڈاکٹر عبدالرشید خان صاحب کو ظالمانہ طریق سے اس قدر مارا گیا کہ اپنی طرف سے مخالفین نے آپ کو مرا ہواسمجھ کر پھینک دیا۔

آپ خود بیان کرتے ہیں کہ میرا جسم بے حس اور مردہ ہوچکا تھا لیکن میرا دماغ کام کررہاتھا۔ پولیس نے بھی مجھے مردہ سمجھ کر اٹھا کر گاڑی میں پھینکا اور چارسدہ ہسپتال چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر نے مجھے مردہ قراردے کر میرے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ بھی تیار کرلی۔تو اچانک ڈاکٹرنے دیکھا کہ میں ابھی زندہ ہوں۔ اس کے بعد جب کچھ ہوش آئی تو میں نے کہا کہ تم مجھے پشاور بھجواد و وہاں احمدی ڈاکٹر تھے۔ ان سب کا یہی خیال تھا کہ چند منٹوں کا مہمان ہے۔ چونکہ میری تمام پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ہاتھ فریکچر تھے۔ میرے گھٹنے فریکچر تھے۔ غرضیکہ میرے جسم کا کوئی حصہ سلامت نہیں تھا۔اس پر حضورانور کو دعا کے لیے لکھاگیا تو حضورکی طرف سے پیغام آیا کہ مجھے ربوہ لایاجائے۔

ربوہ کے ڈاکٹروں نے کہا آپ کا علاج انسانی طاقت سے باہر ہے۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم آپ کو کیا دیں، کیا نہ دیں۔ ڈاکٹرمرزامبشر احمد صاحب گھر گئے اور ایک چمچ اور ایک چھوٹی سی شہد کی بوتل اٹھا لائے۔ اس چمچ سے شہد نکالا اور پیالی میں حل کر کے مجھے دیا۔ جب میں نے شہد پی لیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ وہ چمچ ہے جو حضرت مسیح موعودؑ اپنے استعمال میں لایاکرتے تھے

اس شہد کے علاوہ انہیں اور کوئی دوائی نہ دی گئی پھر وہ ہالینڈ چلے گئے وہاں کے ڈاکٹروں نے مجھے چار ہسپتالوں میں چیک اپ کے لیے بھیجا۔ وہ جب ایکسرے لیتے تو حیران ہوتے کہ اس کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، چار پانچ جگہ فریکچر ہے، اس کا گھٹنا فریکچر ہے، اس کے ہاتھ فریکچر ہیں۔ یہ چلتا پھرتا کیسے ہے؟ رشید صاحب ان سے کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسیح موعودؑ جب آئے گا تو مردوں کو زندہ کرےگا۔ میں وہ مردہ ہوں جو مسیح موعودؑ کی برکت سے اور خلیفة المسیح کی دعا سے زندہ ہوا ہوں اور آج آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔ (احمدیہ گزٹ کینیڈا دسمبر ۲۰۲۴ء)

٭…مکرم عبدالسمیع نون صاحب آف سرگودھا بیان کرتے ہیں:میرے ایک دوست کو غنڈوں نے اغوا کر لیا اور ۵۰لاکھ روپے تاوان مانگا۔ میں نے خلیفہ رابع کا در کھٹکھٹایا۔ حتیٰ کہ ایک دن میں دو دو بار فیکس بھی دی۔ حضور کی دعائیں مستجاب ہوئیں اور خلاف توقع نہ صرف ساتویں دن ان کی رہائی ہوئی اور وہ لوگ ۱۰۰؍معززین کا وفد لے کر معذرت کے لیے آئے اور ۵۰؍لاکھ روپیہ وصول شدہ تاوان بھی واپس کرگئے۔(روزنامہ الفضل ۲۹؍مئی ۲۰۰۳ء)

وہ دعا ہی تھی جس نے گنتی کے مخلصوں کے اموال و نفوس میں برکت ڈالی۔ مسیح موعودؑ کے متبعین ملکوں ملکوں پھیل گئے۔ وہ خطہ خطہ قدم جماتے رہے۔ وہ قریہ قریہ آباد ہوئے۔ وہ چپہ چپہ پھرتے رہے۔ وہ نگر نگر طلوع ہوئے وہ شہر شہر ظاہر ہوئے۔ دنیا کے کونے کونے میں بس گئے۔ شاخ شاخ بسیرا کیا۔ ڈال ڈال بہار دکھائی۔ مگر پھر ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو گئے۔ ایک امام کے گرد جمع ہیں ایک قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ ایک شجر کے سائے میں ہیں۔

وہ دعا ہی ہے جس نے جماعت احمدیہ کو قدرت ثانی اور خلافت کی نعمت سے نوازا ہے۔ وہ امام دیا ہے جس سے خدا ہمکلام ہوتا ہے۔ جس کو خدا اپنی رضامندی کی راہیں دکھاتا ہے جس کی دعاؤں سے مردے زندہ ہو جاتے ہیں اور بیمار صحت مند، ناکام طالب علم کامیابی کا منہ دیکھتے ہیں اور بےاولاد صاحب اولاد ہو جاتے ہیں۔ جس کا ہر آنسو خدا سے نئی بشارتیں لے کر آتا ہے۔ جس کے منصوبوں کو خدا تمکنت دیتا ہے اور دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں حق و صداقت کی آواز گونجتی ہے۔

٭…مکرم فتح محمد صاحب نے۱۹۲۱-۲۲ء میں گاوٴں کے چار افراد کے ساتھ احمدیت قبول کی تو پورے علاقے میں مخالفت شروع ہوگئی۔ اتفاق سے پانچوں افراد کی لڑکیاں تھیں اور کسی کی نرینہ اولاد نہ تھی گاوٴں کے بوڑھوں نے کہنا شروع کردیا کیاہوا کہ یہ لوگ مرزائی ہوگئے ہیں۔ ان کو لڑکیاں ہی ملتی ہیں۔ اس بات کا ان کو بڑا صدمہ ہوااورانہوں نے حضرت مصلح موعودؓکی خدمت میں دعا کی درخواست کی اس پر حضور نے جواب دیا خدا تعالیٰ آپ سب کو نرینہ اولاد دے گا۔فتح محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہم پانچوں کو نرینہ اولاد سے نوازا۔یہ دعا کی طاقت ہے۔(روزنامہ الفضل ۲۸؍اپریل۱۹۶۶ء)

٭…میاں محمد اسلم صاحب آف پتو کی لکھتے ہیں کہ شادی کے بارہ سال گزر گئے مگر کوئی اولاد نہ ہوئی۔ لیڈی ڈاکٹر نے کہاتھاکہ طبی لحاظ سے یہ عورت اولاد پیدانہیں کرسکتی رشتہ داروں اور گاوٴں والوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ چونکہ قادیانی ہوگیاہے لہٰذا ابتر رہے گا۔میں نے ہر قسم کا علاج کروایالیکن اولاد نہ ہوئی۔ اسی اثنا میں خاکسار نے حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی خدمت میں تمام حالات لکھ کر درخواست دعا کی۔ خط کے جواب میں حضورؒ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ضرور نرینہ اولاد سے نوازے گا۔خلیفہ وقت کی اس دعا کے بعد میرے چار لڑکے ہوئے۔ سب لوگ حیران تھے کہ اس کی اولاد کس طرح ہوگئی۔ یہ دعا کی طاقت ہے۔(الفضل انٹر نیشنل ۲۰؍فروری۲۰۲۴ء)

٭…گھانا کے ایک عیسائی چیف تھے ان کی بیوی کا حمل ہردفعہ ضائع ہوجاتاتھا۔ وہ عیسائی پادریوں اور دم کرنے والوں کے پاس گئے۔ کوئی فائدہ نہ ہوا۔ جب ہر طرف سے مایوس ہوگئے تو عبد الوہاب آدم صاحب کے پاس آئے اور کہاکہ مجھے عیسائیت پر سے دعا کا یقین اٹھ گیا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ خدا آپ لوگوں کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ آپ اپنے امام کو میری طرف سے سارے حالات بتاکر لکھیں کہ ہمارے لیے دعاکریں حضور نے ان کو جواب لکھا کہ آپ کو بچہ نصیب ہوگااور بہت ہی خوبصورت اور عمر پانے والا بچہ ہوگا۔ چنانچہ جب ان کی بیوی کو حمل ہوا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ نہ صرف یہ بچہ مرجائے گا بلکہ بیوی کو بھی لے مرے گا۔ اس لیے تم اس حمل کو ضائع کروادو۔اس چیف نے کہا ہر گز نہیں۔ مجھے جماعت احمدیہ کے امام کا خط آیا ہے۔ نہ میری بیوی کو کوئی نقصان پہنچے گا نہ میرے بچے کو نقصان پہنچے گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہایت ہی خوبصورت صحت مند بچہ عطا فرمایا اور ان کی بیگم صاحبہ بھی بالکل ٹھیک ٹھاک رہیں حضور جب دورے پر گھانا گئے تو انہوں نے بیعت کر لی۔

٭…جرمنی میں بلغاریہ کے ایک مخلص نواحمدی دوست Etem صاحب اپنی فیملی کے ہمراہ جلسے میں شامل ہوئے۔ موصوف نے چند سال قبل عیسائیت سے اسلام قبول کیاتھا۔لیکن ان کی بیوی نے بیعت نہیں کی تھی۔ ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ میری تین بیٹیاں ہیں۔ اگر مجھے بیٹا مل جائے تو میں بھی احمدی ہوجاوٴں گی۔ موصوفہ نے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کے لیے لکھا۔ اگلے سال جب وہ دوبارہ جلسہ میں آئیں تو سات ماہ کی حاملہ تھیں۔ ملاقات کے دوران انہوں نے بچے کے لیے نام رکھنے کی درخواست کی تو حضورانور نے صرف لڑکے کانام’جاہد‘ تجویز فرمایا۔جلسہ سے واپس جاکرموصوفہ نے مربی صاحب سے کہا کہ ڈاکٹرز نے بتایاہے کہ لڑکی ہے اس لیے حضورانور کی خدمت میں دوبارہ درخواست کریں کہ لڑکی کا نام تجویز فرمائیں۔

اس پر مربی صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر جو چاہیں کہیں، ان کی مشینیں جو چاہیں ظاہر کریں لیکن اب آپ کا بیٹا ہی ہوگا کیونکہ خلیفة المسیح نے بیٹے کا نام رکھا ہے۔ چنانچہ جب بچہ کی پیدائش ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹے سے ہی نوازا۔ وہ جلسہ کے موقع پر اس بیٹے کو ساتھ لے کر آئی تھیں اور لوگوں کو بتارہی تھیں کہ دیکھو! یہ خلیفہ وقت کی دعاوٴں کی قبولیت کا نشان ہے۔(احمدیہ گزٹ کینیڈا دسمبر ۲۰۲۴ء)

٭…ایڈیٹر الفضل قادیان خواجہ غلام نبی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرا نکاح حضرت مصلح موعودؓ نے پڑھا مگر کئی سال تک اولاد نہ ہوئی اور نہ ہی کبھی اس کے لیے دعا کی درخواست کی، اس خیال سے کہ حضور کو معلوم ہی ہےآخر ایک دن میں نے اولاد کے لیے درخواستِ دعا لکھ کر حضور کی خدمت میں پیش کر دی۔ اس کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے شادی کے ساڑھے آٹھ سال بعد لڑکی عطا فرمائی۔(الفضل ۲۸؍ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۵۳)

٭…ایک خاتون نے حضرت مصلح موعودؓ سے عرض کیا کہ میری شادی کو چودہ سال گذر گئے ہیں آپ میرے لیے اولاد کی دعا کریں۔ حضورؓ نے فرمایا: ’’آپ کے انیس سال بعد اولاد ہوگی۔‘‘ چنانچہ حضورؓ کی دعا سے ان کی شادی کے ٹھیک انیس سال بعد جبکہ وہ امید ختم کرچکے تھے تواللہ تعالیٰ نےانہیں بیٹی سے نوازا۔(روزنامہ الفضل انٹر نیشنل ۱۲؍فروری ۲۰۲۴ء)

٭…سیرالیون میں ایک زیر تبلیغ دوست السید امین خلیل شامی کی چھوٹی لڑکی سخت بیمار ہو گئی اور اُسے Black Water Fever ہو گیا جو وہاں کی سب سے زیادہ مہلک بیماریوں میں سے ہے۔ اس بیماری کا مریض عام طور پر چوبیس گھنٹے میں مرجاتا ہے انہوں نے کافی علاج کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر لڑکی قریب المرگ ہو گئی۔ مبلغ نے ان کو دعا کی طرف متوجہ کیا اور حضرت مصلح موعودؓ کو دعا کے لیے تار دیا اور حضور کی دعا کی برکت سے وہ مرتی ہوئی لڑکی اللہ تعالیٰ نے ان کو واپس دیدی۔(روزنامہ الفضل قادیان ۲۶؍ جولائی ۱۹۴۵ء صفحہ ۴)

یہ دعا ہی ہے جس نے جماعت احمدیہ کے دل میں توحید کے قیام کا بے پناہ جوش پید اکیا ہے۔ یہ ساری دنیا میں خدا کی وحدانیت کا علم بلند کرتے ہیں۔ یہ جگہ جگہ خدا کے گھر بناتے ہیں۔ تمام زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم چھاپنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ یہ قرآن کریم کی نمائشیں لگاتے ہیں اور امن کا پیغام امن عام کرتے ہیں۔ دیوانہ وار خدا کی طرف بلانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ اشاعت کے ذرائع میڈیا، اخبارات و رسائل استعمال کرتے ہیں اور زمین کے کناروں تک اللہ اور رسولﷺ کا پیغام پہنچاتے ہیں۔

٭…۱۹۹۶ء میں امریکہ اور کینیڈا کے لیےایم ٹی اے کی ڈیجیٹل سروس شروع کی جا رہی تھی ابھی ڈیجیٹل ریسیور بھی دستیاب نہ تھے۔ بڑی مشکلات کے بعد ایک کمپنی سے معاہدہ طے پایا مگر اچانک اس کمپنی کا فون آیا کہ ہم کچھ مشکلات میں گھرگئے ہیں۔ لہٰذا اب ہم ریسیور نہیں بنا سکیں گے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کو بتایا گیا چند گھنٹے کے اندر ہی حضور کا پیغام آیا اور فرمایا ان اللّٰہ معنا یعنی اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس واقعہ کے تیسرے دن ایک دوسری کمپنی نے جس کا جماعت کو علم ہی نہ تھا۔ ریسیور بنانے کی پیشکش یوں کی کہ پہلے سے ایک تہائی قیمت پر سودا ہو گیا اور پھر انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں ڈیجیٹل ریسیور ہماری عین ضرورت کے مطابق تیار کیے یہ سب دعا کی طاقت تھی۔(الفضل ۲۷ دسمبر ۲۰۰۳ء)

دورہ سیرالیون۱۹۷۰ء کے دوران حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نےایک سکول کے افتتاح فرمایا۔اس موقع پر Boشہر کے ایک پرانے احمدی زاروقطار رونے لگے۔کسی نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ۳۰؍سال پہلے مولانا نذیر احمد صاحب علی ہمارے اسی گاؤں میں تبلیغ کے لیے آئے تھے سارا دن وہ لوگوں کے پیچھے پھرتے رہے کہ میری بات سن لو مگر کسی نے نہ سنی اور مار مار کر گاؤں سے نکال دیا انہوں نے ایک جنگل میں رات گزاری۔ صبح میں ہمدردی کی وجہ سے ان کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے ساری رات خدا سے دعا کی اور میرے رب نے مجھے بتایا ہے کہ اسی جگہ جماعت کا بڑا سکول ہو گا ۔ چنانچہ چند سالوں میں ہی اللہ تعالیٰ نے ان کی بات پوری کردی۔(احمدیہ گزٹ کینیڈا دسمبر ۲۰۲۴ء)

٭…کینیڈا میں کیلگری مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جانا تھا تو ایک دن قبل امیرصاحب کینیڈا نے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی خدمت میں عرض کیا کہ موسمی پیشگوئی کے مطابق کل یہاں بڑی شدید بارش ہے اور طوفانی ہوائیں ہیں۔ مہمان بھی آرہے ہیں۔ دعا کریں۔اس پر حضورانور نے کچھ دیر دعا کی اورفرمایا:’’اللہ فضل فرمائے گا۔‘‘ چنانچہ اگلے روز بارش کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ سنگ بنیاد کی تقریب ہوئی۔ قریباً دو گھنٹے کا پروگرام تھا۔ تقریب سے فارغ ہوکر حضورانور واپسی کے لیے جب اپنی کار میں بیٹھے تو کار کا دروازہ بند ہوتے ہی اچانک شدید بارش شروع ہوگئی اور ساتھ تندوتیز ہوائیں چلنے لگیں جو مسلسل تین چار گھنٹے جاری رہیں یہ دعا کی طاقت تھی۔(احمدیہ گزٹ کینیڈا دسمبر ۲۰۲۴ء)

٭…حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب ۲۰۰۴ء میں غانا تشریف لے گئے تو ایک موقع پر سفر کے دوران حضورنے اہل گھانا کو بشارت دی کہ گھانا کی زمین سے تیل نکلے گا۔ چنانچہ جب ۲۰۰۸ء میں حضورانور خلافت جوبلی کے موقع پردوبارہ گھانا تشریف لے گئے تو گھانا کے صدر مملکت نے ملاقات کے دوران حضور سے کہاکہ حضور کی ہمارے ملک کے لیے دعائیں قبول ہو رہی ہیں۔ حضور نے اپنے گذشتہ دورہ کے دوران فرمایاتھا کہ گھانا کی زمین میں تیل ہے اور یہاں سے تیل نکلے گا۔ حضورانور کی یہ دعا بڑی شان سے قبول ہوئی اور گھانا سے تیل نکل آیا۔

گھانا کے مشہور نیشنل اخبار Daily Graphic نے اپنے ۱۷؍اپریل ۲۰۰۸ء کے شمارہ میں پہلے صفحہ پر حضورانور اور صدر گھانا کی ملاقات کی رپورٹ شائع کرتے ہوئے لکھا: خلیفة المسیح نے اپنے دورہ گھانا ۲۰۰۴ء کے دوران گھانا میں تیل کی دریافت پر بڑے پرزور طریق سے اپنے یقین کا اظہارکیاتھا اور یہی یقین گزشتہ سال حقیقت میں بدل گیا۔ اور گھانا کی سرزمین سے تیل نکل آیا۔(احمدیہ گزٹ کینیڈا دسمبر ۲۰۲۴ء)

یہ دعا ہی ہے جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ خدمت خلق کے لیے سر گرم عمل ہے۔humanity first بھوکوں، پیاسوں، بے مکانوں کے لیے ایثار کے نئے نمونے قائم کرتی ہے۔ ہر قدرتی آفت میں اپنے وسائل سے بڑھ کر کام کرتی ہے۔ یہ یتیموں کی پناہ گاہ ہے۔ بیوائوں کا آسرا ہے۔ کمزوروں کی ڈھال ہے اور دشمنوں سمیت سب کی خیر خواہ ہے۔

اپنے پر موت وارد کرنے والے زندگی پاتے ہیں۔ دعا کائنات کی جان ہے۔ زندگی کی مراد ہے۔ نبوت کا ماحصل ہے۔ روح کی پکار ہے۔ دل کی دھڑکن ہے۔ یہ کتاب قیّمہ ہے۔ یہ قرآن کا خلاصہ ہے۔ یہ عبادت کا مغز ہے۔ یہ ہر بلندی کا پہلا زینہ اور ہر سچائی کا آغاز ہے۔ یہ تقویٰ کا دوسرا نام ہے اسی سے زندگی کا بھرم ہے۔ یہ نوحہ خوشیوں کی برسات ہے۔ یہ آنسو آخرت کے موتی ہیں۔ یہ غم مسرتوں کا سرچشمہ ہے۔دعا وسیلہ ہے دعا حوصلہ ہے دعا محبت ہے دعا راز ہے دعا ہمدردی ہے دعا طاقت ہے دعا کائنات ہے دعا بخشش ہے۔ دعا ہی سب کچھ ہے۔حضرت مسیح موعودؑ نے دعاؤں سے مدد پا کر دعا کی حقیقت پریوں روشنی ڈالی ہے:’’دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے دعاایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے وہ فنا کرنے والی چیز ہے وہ گداز کرنے والی آگ ہے وہ رحمت کو کھینچنے والی مقناطیسی کشش ہے وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر اس سے تریاق ہو جاتا ہے۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۲۲۲ ،۲۲۳)

حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفاء اور عظیم مبلغین نے دعا کے جو چیلنج دیے ہیں انہوں نے ایک دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ فرمایا اگر کوئی سچ کا طالب ہے … اس کے لیے خوب موقعہ ہے جو میرے مقابل پر کھڑا ہو جائے۔ اگر وہ امور غیبیہ کے ظاہر ہونے اور دعاوٴں کے قبول ہونے میں میرا مقابلہ کرسکا تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنی تمام جائیداد غیرمنقولہ جو دس ہزار روپیہ کے قریب ہوگی ا س کو دے دوں گا۔(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۲۷۶) آپ کے مباہلے کے چیلنج آپ کے خلفاء دہراتے رہتے ہیں۔

آپ نے مریضوں کی شفایابی کے لیے دعا کا چیلنج دیا کہ دونوں فریق قرعہ اندازی کے ذریعہ مریضوں کو تقسیم کر لیں پھر دیکھیں کہ خدا کس کے مریضوں کو شفا دیتا ہے۔(حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۱۔چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ۴) کاش!دنیا اس چیلنج کو قبول کرتی اور ہزاروں مریض شفا پاجاتے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۸؍مارچ ۱۹۲۴ء کو تمام مذاہب کو دعا کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:’’دنیا کا کوئی مذہب… میرے مقابلہ میں دعا کرکے دیکھ لے کہ خدا میری مدد کرتا ہے یا اس کی اور میں یہ اپنے متعلق ہی نہیں کہتا میرے مرنے کے بعد بھی لمبے عرصہ تک جماعت احمدیہ میں ایسے انسان ہوں گے کہ جو نشان دکھائیں گے۔(بہائی فتنہ انگیزوں کا راز کیونکر فاش ہوا۔ صفحہ۳۸)

حضرت مسیح موعودؑ نے جلسہ سالانہ کے لیے جو دعائیں کی تھیں انہوں نے ۷۵؍افراد سے شروع ہونے والے جلسہ کو عالمگیر بنا دیا۔آج اس جلسہ میں شامل ہر فرد دعا کی طاقت کی گواہی دے رہا ہے۔کینیڈا کا پہلا جلسہ سالانہ ۱۹۷۷ء میں سکاربرو کے ایک سکول میں منعقد ہوا جس میں ۵۰۰؍افراد شریک ہوئے۔ اسی کے ساتھ پہلی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی جس کامرکزی ایجنڈا یہ تھا کہ مسجد کیسے بنائی جا ئے پہلا مشن ہاؤس دو کمروں کا کرایہ کے اپارٹمنٹ میں تھا۔(تاریخ جماعت احمدیہ کینیڈا صفحہ ۶۷،۶۴)ان لوگوں کی بے قرار دعاؤں نے ان ۵۰۰؍کو پچاس ہزار بنا دیا ہے اور ۳۴؍مساجد سمیت ۷۷؍ پراپرٹیز عطا کر دی ہیں۔ ۱۹۷۶ء میں کینیڈا میں پہلا مبلغ آیا تھا (تاریخ جماعت احمدیہ کینیڈا صفحہ ۶۴)آج یہاں مربیان کی تعداد ۱۰۰؍سے زیا دہ ہے۔پس یاد رکھیں کہ پہلی فتوحات بھی دعاؤں سے ہوئی تھیں اور آئندہ بھی جو کچھ ہو گا دعا سے ہو گا حضرت مسیح موعودؑ نے دعاؤں سے مدد پا کر دعا کی حقیقت پریوں روشنی ڈالی ہے کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے (سیرۃ المہدی روایت نمبر ۱۲۴۹)

انسان اور اس کے معبود کے درمیان سب سے بڑا رشتہ دعا کا ہے۔ اس رشتے کو قائم رکھنے والے سلامت رہتے ہیں۔ عاجزی سے خدا کے حضور جھکنے والے رفعتیں پاتے ہیں۔ گرنے والے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

پس تربیت بھی ضروری ہے تبلیغ بھی ضروری ہے جانی اور مالی قربانیاں بھی ضروری ہیں مگر ان کی جان دعا ہے اور دعا کا مطلب خدا سے زندہ تعلق ہے یہ نعمت آج صرف اور صرف جماعت احمدیہ کو نصیب ہے۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیںکہ ‘‘مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے مبارک وہ اندھے جو دعاؤںمیں سست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے مبارک وہ جوقبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے مبارک تم جبکہ دعا کرنے میں ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لیے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھانے کے لیے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بیتاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا۔(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۲۲۲ ،۲۲۳)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: چند بزرگان کی یادیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button