حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

کسی کی غلطی کی ستّاری کرنا بھی ضروری ہے

ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ کسی کے عیب اور غلطیاں تلاش کرنا تو دور کی بات ہے اگر کوئی کسی کی غلطی غیر ارادی طور پر بھی علم میں آ جائے تو اس کی ستّاری کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ہر ایک کی ایک عزت نفس ہوتی ہے۔ اس چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ دوسرے اگر کوئی برائی ہے، حقیقت میں کوئی ہے تو اس کے اظہار سے ایک تو اس کے لئے بدنامی کا باعث بن رہے ہوں گے دوسرے دوسروں کو بھی اس برائی کا احساس مٹ جاتا ہے، جب آہستہ آہستہ برائیوں کا ذکر ہونا شروع ہو جائے۔ اور آہستہ آہستہ معاشرے کے اور لوگ بھی اس برائی میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ہمیں واضح حکم ہے کہ جو باتیں معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والی ہوں یا بگاڑ پیدا کرنے کا باعث ہو سکتی ہوں، ان کی تشہیر نہیں کرنی، ان کو پھیلانا نہیں ہے۔ دعا کرو اور ان برائیوں سے ایک طرف ہو جاؤ۔ اور اگر کسی سے ہمدردی ہے تو دعا اور ذاتی طور پر سمجھا کر اس برائی کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہی سب سے بڑا علاج ہے۔ سوائے اس کے کہ ایسی صورت ہو کہ جس میں جماعتی خبر ہو یا جماعت کے خلاف کوئی بات سنیں، جماعتی نقصان کا احتمال ہو اور کوئی ایسی بات پتہ لگے جیسا کہ میں نے کہا، جس سے جماعتی نقصان ہونے کا خدشہ ہو تو پھر متعلقہ عہدیداروں کو، یا مجھ تک یہ بات پہنچائی جا سکتی ہے۔ ادھر ادھر باتیں کرنے کا پھر بھی کوئی حق نہیں اور کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے برائی پھیلتی ہے۔ اگر مثلاً اس غلطی کرنے والے شخص کی اصلاح کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی یا جھوٹ بول کر غلط بیانی کرکے وقتی طور پر اس نے اپنی جان بچا لی تو دوسرے بھی جن کی طبیعت میں کمزوری ہے وہ بھی بعض دفعہ ایسی باتیں کر جائیں گے، اپنی کمزوریاں ظاہر کرنے لگ جائیں گے۔ کیونکہ ان کے ذہنوں میں بھی یہ ہوتا ہے کہ فلاں شخص کی غلطی پکڑ کے اس عہدیدار نے یا اس شخص نے کیا کر لیا جو ہمارے خلاف ہوجائے گا۔ اس شخص کا کیا بگڑ گیا ہے۔ زبان کا مزہ لینے کے لئے بعض باتیں کر لو بعد میں دیکھی جائے گی۔ اس قسم کی باتیں برائیاں پھیلاتی ہیں، حجاب اٹھ جاتے ہیں۔تو بہرحال یہ تو ایسے لوگوں کی سوچ کا قصور ہے، تقویٰ کی کمی ہے لیکن جس شخص کو نظام کے خلاف کوئی بات پتہ چلے، اس کا بہرحال یہ فرض بنتا ہے کہ ایسی بات صرف نظام جماعت کو ہی بتائے اور ادھر ادھر نہ کرے۔

(خطبہ جمعہ ۱۹؍ نومبر ۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل مورخہ ۳؍ دسمبر ۲۰۰۴ء)

مزید پڑھیں: اسلامی تعلیم کے عین مطابق فی زمانہ جہاد بندہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button