الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
بُت شکن بابا نانکؒ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے علمی حقائق کے بیان میں حضرت بابا نانکؒ کو ایک مسلمان ولی کے طور پر ثابت کرنا بھی شامل ہے۔ بعدازاں بہت سے محقّقین نے اس کی تصدیق میں دلائل کے انبار لگادیے۔ چنانچہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۲؍فروری۲۰۱۴ء میں ڈاکٹر گوپال سنگھ صاحب کا ایک تحقیقی مضمون اخبار ’’نوائے وقت‘‘سے منقول ہے۔
ڈاکٹر گوپال سنگھ صاحب اپنی کتاب ’’گوروگرنتھ صاحب کی ساہتک وشیتا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مغربی اور مشرقی دانشوروں نے سکھ مذہب کو اسلام کا ہی صوفی اثر کے تحت آیا ہوا، پنجابی رُوپ بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر تاراچند اپنی کتاب ’’ہندی کلچر میں اسلام کے اثرات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ بابا نانک نے پیغمبراسلام کو اپنا مثالی راہنما بنالیا تھا اور ان کی تعلیمات اسلامی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔ علامہ محمداقبالؒ اپنی ایک نظم بعنوان ’’نانک‘‘ (بانگ درا) میں کہتے ہیں:
بُت کدہ پھر بعد مدّت کے مگر روشن ہوا
نُورِ ابراہیمؑ سے آذر کا گھر روشن ہوا
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اِک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
ہندوستان کا المیہ ہے کہ آریائی حملہ آوروں نے جھوٹ، مکر اور دہشت گردی کے ذریعے مقامی آبادی کو غلام بنالیا اور اس غلامی کو پختہ تر کرنے کے لیے ہندو مذہب کا اجرا کیا جس کی بنیاد ذات پات، رنگ و نسل پر استوار کی گئی۔ چنانچہ چار آریائی نسلوں (برہمن، کھشتری، ویش اور شودر) کے علاوہ تمام ہندی آبادی کو غیرانسانی حیوانی اور انسان دشمن قرار دے کر دائمی غلامی کا شکار بنالیا۔ اگرچہ بدھ مت اور جین مت نے ہندو آریائی ذات پات کے نظام کے خلاف بغاوت کی مگر ناکام رہے۔ پھر لِنگایت، سکھ اور بھگتی تحریکوں نے جنم لیا۔ سکھ اور بھگتی تحریک دراصل اسلامی تعلیم کے زیراثر پروان چڑھی۔ علامہ اقبال نظم نے ’نانک‘ کا آغاز گوتم بدھ کی تعلیمات کی تعریف سے کرتے ہوئے کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ؎
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
آہ بدقسمت رہے آوازِ حق سے بےخبر
غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
آشکار اُس نے کیا جو زندگی کا راز تھا
ہند کو لیکن خیالی فلسفے پر ناز تھا
بابا نانکؒ ۲۰؍اکتوبر۱۴۶۹ءکو تلونڈی (حالیہ ننکانہ صاحب) کے ہندو آریائی کھتری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپؒ نے انسانی مساوات اور وحدت الٰہی کی تعلیم کا بیڑا اٹھایا اور ہندومت کے پیروکاروں کے اعمال پر تنقید کی۔ انسان دوست تھے۔ ابتدائی تعلیم مولوی قطب الدین سے حاصل کی اور بعدازاں میر سیّد حسن سے دینی علوم سیکھے جو علاقے میں صاحب کرامت ولی مانے جاتے تھے۔ بابا نانکؒ کے گھر کے قریب مہتہ کالو رہتے تھے جن سے بابا نانکؒ نے دینی و دنیوی علوم پڑھے۔ چنانچہ بابانانکؒ عربی اور فارسی زبان کے ماہر تھے اور اسلامی تعلیمات کو آسان پنجابی میں بخوبی بیان کرسکتے تھے۔ آپؒ نے آنحضورﷺ کی شان میں عربی اشعار بھی کہے۔ آپؒ کے ایک عربی شعر کا ترجمہ ہے: ’’ہندوستان کے ظالم لوگ مجھے اپنی طرف بلالیتے ہیں، خدائے ذی العرش کا شکر ہے کہ مَیں مسلمان ہوں۔‘‘ بابا نانکؒ نے دو حج بھی کیے اور مکہ و مدینہ میں وعظ اور اذان بھی دی۔
بابا نانکؒ کی پہلی شادی ہندوگھرانے میں ہوئی۔ بائیس برس کی عمر میں سلطان پورہ کے دولت خان لودھی کے مودی خانہ میں ملازم ہوگئے اور علاقے کے قبرستان میں رہائش اختیار کرلی۔ زندگی بھر مسلمانوں کے ساتھ رہے، ہندو مذہب کی سختی سے مخالفت کی۔ بغداد میں بہلول دانا کے خلیفہ حضرت مراد کے ہاتھ پر چشتیہ سلسلہ میں بیعت کی۔ چھ سال تک بغداد میں اسلامی تعلیم حاصل کی اور گوروجی کو قرآنی آیات والاچولہ ملا۔ آپؒ کی دوسری شادی حیات خان منجھ کی بیٹی بی بی گوہر خانم سے ہوئی۔ جب آپؒ نے دربار صاحب کرتارپور (تحصیل شکرگڑھ) میں رہائشی مکان بنوایا تو ملحقہ ایک مسجد بھی تعمیر کروائی اور اس میں امام الصلوٰۃ بھی مقرر کیا۔ بابا نانکؒ کے دوست، استاد، مربی وغیرہ سب مسلمان علماء اور اولیاء تھے۔
۲۲؍ستمبر۱۵۳۹ء کو بابا نانکؒ کے وصال پر مسلمان اور ہندو مریدوں میں تنازع پیدا ہوگیا کیونکہ مسلمان اُن کی تدفین چاہتے تھے جبکہ ہندو چتا جلانا چاہتے تھے۔ جنم ساکھی کلاں میں رقم ہے کہ بعض سمجھدار لوگوں نے فساد رفع کرنے کے لیے نعش چپکے سے غائب کرکے کسی مناسب جگہ پر دفنادی اور نعش کی جگہ ڈولے میں چادر بچھادی۔ پھر آدھی چادر مسلمانوں کو دفنانے کے لیے اور باقی آدھی ہندوؤں کو جلانے کے لیے دیدی گئی۔
سکھوں کی مقدّس کتاب گرنتھ صاحب کے ۳۶؍ابواب ہیں جن میں سے ۳۰؍ابواب میں قرآن شریف کا من و عن ترجمہ ہے اور بقیہ چھ ابواب میں سنّت رسولﷺ اور بابا نانکؒ اور آپؒ کے خلفاء مثلاً فرید ثانی وغیرہ کے پندونصائح ہیں۔ بابا فرید گنج شکر کا عارفانہ کلام بھی ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں بابا نانکؒ لکھتے ہیں کہ ’’ہوا ہے قرآن مجید کُل جگ میں منظور و مقبول۔‘‘ گرنتھ صاحب میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور نظریہ توحید کی تبلیغ کی گئی ہے۔
بابا نانکؒ نے برہمن کے چھوت چھات کے عقائد کے خلاف بھرپور مزاحمت کی لیکن بعد میں سکھ مت بھی ذات پات کا شکار ہونے لگا اور جاٹ سکھوں نے اچھوت، دلت اور نیچ ذاتوں سے وابستہ سکھوں کو غلام بنانے کا عمل شروع کردیا۔ چنانچہ دلت سکھوں کو گرنتھ صاحب پڑھنے کی اجازت نہیں ہے اور وہ جاتی کے گردواروں میں داخل نہیں ہوسکتے۔
………٭………٭………٭………
اسلام کے چند معاشرتی زرّیں اصول
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۹؍جنوری۲۰۱۴ء میں مکرم طلحہ احمد صاحب کے قلم سے شذرات شامل اشاعت ہیں جن میں شہروں کو آباد کرنے کے حوالے سے اسلام کے چند زرّیں اصولوں کا بیان انور غازی کے کالم مطبوعہ روزنامہ ’‘جنگ‘‘ ۲۷؍مئی۲۰۱۳ء سے منقول ہے۔
علامہ محمد اقبال ایک بار مسولینی سے ملے تو دورانِ گفتگو آنحضرتﷺ کی اس پالیسی کا ذکر بھی کیا کہ شہر کی آبادی میں غیرضروری اضافے کی بجائے دوسرے شہر آباد کیے جائیں۔ مسولینی نے برملا کہا کہ شہری آبادی کی منصوبہ بندی کا اس سے بہتر حل دنیا میں موجود نہیں ہے۔
آنحضورﷺ کا ارشاد تھا کہ مدینہ کی گلیاں کشادہ رکھو، ہر گلی میں سے دو لدے ہوئے اونٹ آسانی سے گزر سکیں۔ آپؐ نے مدینہ کے وسط میں مرکزی مارکیٹ ’’سوقِ مدینہ‘‘ قائم فرمائی تھی۔ آج کی تہذیب یافتہ دنیا کہتی ہے کہ جس شہر کے درمیان مارکیٹ نہ ہو وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ تمہاری مارکیٹ ہے اس میں ٹیکس نہ لگاؤ۔ آج دنیا ٹیکس فری مارکیٹ کی طرف رجحان رکھتی ہے۔ آپؐ نے ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا۔ اگر اس حکم پر عمل کیا جاتا تو خوراک کا عالمی بحران کبھی پیدا نہ ہوتا۔ آپؐ نے فرمایا کہ سود اور سٹے کے کاروبار سے نفع نہیں نقصان ہوتا ہے۔ آج یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے۔
رسول اللہﷺ نے مفتوحہ علاقوں میں بھی درختوں کو کاٹنے اور آگ لگانے سے منع فرمایا۔ ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کا یہ بہترین نسخہ ہے۔کسی شخص نے مدینہ کے بازار میں بھٹی لگالی تو حضرت عمرؓ نے اُسے حکم دیا کہ اسے شہر سے باہر لے جاؤ۔ آج دنیا کے مہذّب ممالک میں انڈسٹریل علاقے شہر سے باہر قائم کیے جاتے ہیں۔ آپؐ نے مدینہ کے باہر ’’محی النقیع‘‘ نامی سیرگاہ بنوائی جس میں کثرت سے پودے لگوائے۔ آپؐ خود بھی وہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ آج ہر شہر میں ایسے پارک قائم کیے جاتے ہیں۔
آنحضورﷺ نے مدینہ کے قبائل میں میثاق کروایا جو باون دفعات پر مشتمل تھا۔ یہ دراصل مدینہ کی شہری حکومت کا دستورالعمل تھا جس نے جھگڑوں کو ختم کردیا۔
مسجد نبوی کو مدینہ میں مرکزی سیکرٹریٹ کا درجہ حاصل تھا۔اس کے صحن میں ایک ہسپتال بھی بنوایا گیا تھا۔
اسرائیلی وزیراعظم گولڈہ مائرہ نے لکھا ہے کہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران مجھے مسلمانوں کے پیغمبر کی زندگی کا وہ پہلو یاد آگیا جب چراغ میں تیل نہیں تھا مگر دیوار پر ۹؍تلواریں لٹک رہی تھیں۔
آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ مَیں ایک دن کھانا کھاکر شکر اور دوسرے دن بھوکا رہ کر صبر کرنا چاہتا ہوں۔ فتوحات کے بعد اور دولت ملنے کے بعد بھی آپؐ ایک کچے مکان میں کھجور سے بنے ہوئے بستر پر سوتے رہے۔ انتہائی سادہ زندگی بسر کی، بھوک کی وجہ سے بارہا پیٹ پر پتھر باندھنے پڑتے۔ یہی انداز آپ کو آج بھی چیدہ چیدہ نظر آتا ہے۔ چنانچہ دنیا کے کئی ارب پتی پُرتعیّش کی بجائے سادہ زندگی گزار رہے ہیں۔ مثلاً امریکی بازار حصص کے سب سے بڑے بروکر وارین یافٹ اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں۔ ایک عام مکان میں رہتے ہیں۔ بڑا مکان نہ لینے کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں کہ جب دوسروں کے پاس ایسا ذاتی مکان بھی نہیں ہے تو مَیں بڑے مکان کی خواہش کیوں کروں۔ اسی طرح سویڈن کے ارب پتی اور ایکتا فرم کے مالک انکیفر کامریڈ کا کہنا ہے کہ میری کمپنی کی مصنوعات غریب لوگ خریدتے ہیں اس لیےمَیں بھی غریبانہ زندگی گزارتا ہوں۔
………٭………٭………٭………
محترمہ آمنہ بی بی (امۃالرشید) صاحبہ
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ۲۱؍جنوری۲۰۱۴ءمیں مکرمہ آمنہ بی بی (امۃالرشید)صاحبہ کا ذکرخیر مکرم حکیم منور احمد عزیز صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ ہماری والدہ محترمہ بخت بی بی صاحبہ بنت حضرت میاں کرم دین صاحبؓ نے بچوں میں احمدیت کی محبت اور اخلاق کی ترویج کی انتہائی کوشش کی۔ میری بہن امۃالرشید کی پیدائش ۱۹۴۳ء میں ہوئی۔ بچپن میں ایک مرتبہ شدید گرم موسم میں روزے رکھنے کی وجہ سے اتنی بیمار پڑگئیں کہ زندگی کی امید ختم ہوگئی لیکن اللہ تعالیٰ نے شفا عطا فرمادی۔ آپ کو والد محترم کی طرف سے دو آنے روزانہ ملا کرتے جو آپ جمع کرتی رہیں اور گھر کے حالات کے پیش نظر یہ رقم اپنی والدہ کو اپنا جہیز تیار کرنے کے لیے دے دی۔ عزیزہ کی شادی مکرم مرزا لطیف احمد صاحب کے ساتھ ۱۹۵۶ء میں ہوئی جو قادیان سے ہجرت کرکے ننکانہ صاحب آبسے تھے۔ شادی کے بعد یہ فیملی ربوہ منتقل ہوگئی۔ آپ کی ساس صاحبہ نے ایک خواب کی بِنا پر آپ کا نام آمنہ بی بی سے بدل کر امۃالرشید رکھ دیا تھا۔
مرحومہ نے بچوں کی تربیت پر بہت محنت کی، صبح نماز اور تلاوت کے بعد ناشتہ ملتا۔ بچے جماعتی کاموں میں بھرپور حصہ لیتے۔ بچیوں کی سہیلیوں کا خود جائزہ لے کر انتخاب کرتیں۔ وصیت کا چندہ ہر آمد پر پہلے ادا کرتیں۔ دعاگو اور تہجدگزار تھیں۔ تسبیحات سے رغبت تھی۔ ایک نوجوان بیٹے کی وفات کا صدمہ نہایت صبر سے برداشت کیا۔ غرباء کی مدد باقاعدگی سے کیا کرتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالی۔ بڑی رحم دل اور متوکّل علی اللہ خاتون تھیں۔ چنانچہ آپ کے ایک بیٹے مرزا نعیم احمد صاحب کو ۲۰۱۲ء میں جرمنی میں قیام کے دوران برین ہیمرج ہوگیا تو وہ روزانہ ایک بکرا صدقہ کرتے رہے اور صحت یابی پر کئی ہزار یورو کی رقم غرباء کے لیے حضورانور ایدہ اللہ کی خدمت میں پیش کی جو حضورانور نے افریقہ کے ترقیاتی منصوبوں میں جمع کروانے کا ارشاد فرمایا۔
محترمہ امۃالرشید صاحبہ۷؍مارچ۱۹۹۷ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک ہوئیں۔بوقت وفات آپ نے شوہر کے علاوہ پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑے جو سب نظام وصیت میں شامل اور خوشحال ہیں۔
………٭………٭………٭………
مزید پڑھیں: اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما!