متفرق مضامین

چند بزرگان کی یادیں

(انجینئر محمود مجیب اصغر۔ سویڈن)

حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب

آپ کا نام تو بچپن سے سنا ہوا تھا کہ آپ حضرت مصلح موعودؓ کے صاحبزادے ہیں اور تقسیم ہند کے بعد خلیفۂ وقت کی نمائندگی میں قادیان میں بطور درویش مقیم ہیں۔ میں آپ کو کبھی کبھی دعا کے لیے خط لکھتا رہتا تھا اور ایروگرام پر براہ راست یا نظارت خدمتِ درویشان کے ذریعے ان کا باقاعدہ جواب آتا تھا۔ خاکسار کے دل میں تڑپ تھی کہ قادیان کی زیارت کی جائے۔ ایک دفعہ محترم میاں صاحب نے خاکسار کو لکھا کہ اس حوالے سے کوشش بھی کروں۔ چنانچہ ان کی زندگی میں (اور بعد میں بھی) اللہ تعالیٰ نے چند بار فیملی سمیت اورایک بار اکیلے مجھے قادیان جانے کی توفیق دی۔ جب میں پہلی بار مع فیملی قادیان گیا تو مرکز نے اس عاجز کو اس روز امیر قافلہ مقرر کر دیا۔ لاہور سے اٹاری ٹرین پر اور اٹاری سے قادیان بس پر پہنچے۔ جہاں بسیں کھڑی ہوئیں وہاں محترم مرزا وسیم احمد صاحب خود استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ ہر ایک کو گلے لگا کر ملتے۔ نمازوں پر اور مسجد اقصیٰ میں بھی ملاقات ہو جاتی اور ہمیشہ مسکراتے ہوئے چہرے سے ملتے۔ دار المسیح میں آپ کو رہنے کی سعادت حاصل تھی۔ وہاں بھی ملاقات ہوئی۔ آپ کے دور میں اور بعد میں بھی کئی سال ہر روز بیت الدعا میں جانے کی اجازت ہوتی تھی۔
۲۰۰۷ء میں جب اپنی نواسی کی عابد خان صاحب سے شادی کے لیے ربوہ تشریف لائے تو ایک اجلاس میں آپ نے دَورِ درویشی کے حالات سنائے۔ اس وقت آپ پر اور سامعین پر بھی جذباتی کیفیت طاری ہو گئی۔ خدا کی رضا کے لیے آپ نے اپنی اہلیہ اور بچوں سمیت بہت مشکل اوقات بشاشت کے ساتھ گزارے۔ اجلاس کے بعد آپ اس عاجز کے ڈرائنگ روم میں تقریباً ایک گھنٹہ گفتگو فرماتے رہے۔ کئی ذاتی سوال پوچھے۔ اس دوران محترم میاں صاحب نےاہلیہ کے والد ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب کے بعض ایمان افروز واقعات اور چند لطائف سنائے۔ فرمایا ایک بار وہ حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ غالباً شملہ میں کھانا تناول کر رہے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ کو اتّھو آگیا۔ ڈاکٹر صاحب بڑی سادگی سے حضور کے پیچھے ہلکے ہلکے مکے مارنے لگے اور دعا بِسۡمِ اللّٰہِ مَ‍‍جۡؔرٖٮہَا وَمُرۡسٰٮہَاؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ(ہود:۴۲)پڑھتے جاتے تھے اور حضورؓ ڈاکٹر صاحب کی اس معصومانہ حرکت پر بہت ہنستے تھے۔ محترم میاں صاحب بھی یہ واقعہ سنا کر بہت ہنستے رہے۔

حضرت مرزا عبد الحق صاحب
سابق امیر صوبہ پنجاب و ضلع سرگودھا

آپ حضرت مصلح موعودؓ کے عاشق تھے۔ اعلیٰ وضع قطع اور لباس کے علاوہ ہاتھ میں سٹک رکھتے تھے۔ آپ غیر معمولی علمی شخصیت تھے۔کہتے تھے کہ عربی ،فارسی اورسنسکرت کی ڈکشنری سامنے رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم کلام پڑھا ہے۔ آپ نے خود بھی کئی کتابیں لکھیں۔ امرائے اضلاع اور شوریٰ کی میٹنگز میں کئی سال ان سے رابطہ رہا۔ بہت methodical انسان تھے۔ امرائے اضلاع کی میٹنگ کے لیے خود اپنے ہاتھ سے خط لکھتے۔بہت خوش خط تھے۔ باقاعدہ حاضری لیتے، گذشتہ اجلاس کے minutes پڑھواتے، موجودہ حالات پر تبادلہ خیال کرتے اور خلفاء کی مثالیں دےکر سمجھاتے۔ عمررسیدہ ہونے کے باوجود نوجوانوں سے بڑھ کر کام کرتے تھے۔انتخابِ خلافت خامسہ کے موقع پر لندن جاتے ہوئے ہم نے ایک ہی جہاز پر سفر کیا تھا۔انتخاب خلافت کے بعد اور اعلان سے پہلے اراکینِ مجلس انتخاب خلافت کی بیعت لیتےہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے ازراہِ شفقت آپ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ اس بیعت میں یہ عاجز بھی شامل تھا ۔
آپ کی یادداشت بہت عمدہ تھی۔ آپ کی آخری بیماری کے دوران اپنے ایک مخلص دوست طارق ندیم صاحب کے ساتھ ہم ان کی عیادت کے لیے گئے۔فرمانے لگے جسمانی کمزوری ہےلیکن ذہن ٹھیک کام کر رہا ہے۔ یہیں بیڈ پر لیٹ کر عاملہ کی میٹنگ لیتا ہوں۔ ایک واقعہ کئی بار سنایا کہ جب غالباً ۱۹۹۵ء میں جلسہ سالانہ پر لندن گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے پوچھا مرزا صاحب! آپ اب کتنی عمر میں آئے ہیں؟آپ نے عرض کیا حضور! ۹۵؍سال کی عمر میں۔ حضورؒ نے فرمایا آپ نے ۹۶؍سال کی عمر میں بھی آنا ہے اور گنتے چلے گئے غالبا ً۱۰۶؍سال تک گنتے گئے۔ مرزا صاحب کہتے تھے کہ اب اتنے سال کا ہوں چنانچہ ۱۰۶؍سال کی ہی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔

پسنی (مکران)
اور سید میر مسعود احمد صاحب کی یاد
تاریخ بلوچستان کا ایک گمشدہ ورق

ابھی مکران کوسٹل ہائی وے نہیں بنی تھی جب مجھے پسنی پاور ہاؤس کی construction supervision پر بھیج دیا گیا۔ مجھے ہر ماہ بذریعہ جہاز کراچی اور کراچی سے لاہور آنے کی اجازت تھی۔ لاہور سے دفتر کی موٹرکار مجھے ربوہ چھوڑ جاتی اور دو تین دن ربوہ رہ کر میں واپس پسنی چلا جاتا۔ ان دنوں صد سالہ جوبلی کے تحت حیاتِ ناصر کی تصنیف کا کام میرے ذمہ تھا۔ سید میر مسعود احمد صاحب اس کام کے لیے کوآرڈینیٹر تھے۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ قلّات کے والی کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ کا الہام ہے جس کے پورے ہونے کا ثبوت حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۵۳ء میں عدالت میں پیش کیا۔ تفصیل اس طرح ہے کہ میر خدا داد خان کو برٹش گورنمنٹ نے معطل کر دیا اور وہ حضرت مسیح موعودؑ کے دامن سے وابستہ ہو گیا فرمایا ’’جب یہ الہام ہوا انی تعلقت باھدابکم رجل کبیر اس کے بعد قلات کے بادشاہ معطل کی طرف سے خط آیا کہ میں آپ کے دامن سے وابستہ ہو گیا ‘‘ اصل خط حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۵۳ءکی تحقیقاتی عدالت میں پیش فرمایا تھا جس کی نقل ۱۹۵۳ءکی عدالتی رپورٹ میں موجود ہے۔ چنانچہ میں نے خالد رسالے میں ایک مضمون دیا ’’بلوچستان کا ایک گم شدہ ورق‘‘۔ سید میر مسعود احمد صاحب کا تربیت کا بڑا پیارا انداز تھا۔ ہنس ہنس کر انسان کی خاندانی تاریخ بیان فرما دیتے اور کوئی علمی اور تربیتی واقعہ بیان فرما دیتے۔ آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے بھی بڑی عقیدت کا تعلق تھا۔ حیاتِ ناصر جلد اول کی اشاعت میں بعض رکاوٹیں تھیں۔ لیکن آپ کی کوشش اور حکمتِ عملی سے یہ کتاب اشاعت کے مراحل طے کرگئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔آمین
مکران میں ذکری فرقہ (فرقہ مہدویہ) کے لوگ کثرت سے ہیں۔ میرا بھی ان سے رابطہ رہا اور ان کا لٹریچر لے کر میں نے میر صاحب کو پیش کیا جو خلافت لائبریری میں رکھوا دیا گیا۔ یہ لو گ پندرھویں صدی کے سید محمد جونپوری کو مہدی مانتے ہیں اور ان کے پیروکار ہیں۔ میر صاحب کا کہنا تھا کہ ممکن ہے انہوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہو کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نے خود فرمایا ہے کہ کئی مہدی گزرے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد عبد السلام صاحب
(نوبیل انعام یافتہ احمدی سائنس دان)

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے بچوں کی تربیت کے لیے چھوٹی چھوٹی کتابیں لکھنے اور شائع کرنے کی بابرکت تحریک فرمائی تھی۔ خدا کے خاص فضل سے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے جب نوبیل انعام حاصل کیا تو مکرم محمود احمد شاہد (بنگالی) صاحب صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ کے ذریعے ان کی سوانح پر مختصر کتاب تصنیف کرنے کا کام اس عاجز کے سپرد ہوا۔ کتاب تو خلافتِ ثالثہ میں مکمل ہوگئی تھی لیکن اس کی اشاعت خلافتِ رابعہ کے آغاز میں ہوئی۔ ۱۹۸۳ء میں عاجز جلسہ سالانہ ربوہ پر عمان سے آیا تھا۔ ان دنوں میرا بڑا بیٹا محمود منیر اکبر رومیٹک fever میں مبتلا تھا اور طبعاً سخت پریشانی کا سامنا تھا۔ میں سنگل سٹیشن پر عمان بھجوایا گیا تھا اور بیوی بچے اسلام آباد سے میرے والدین کے پاس ربوہ شفٹ ہو چکے تھے۔ بڑی سخت پریشانی تھی۔ ہماری IAAAE کی میٹنگ ۲۸؍دسمبر ۱۹۸۳ء کی شام دفتر انصاراللہ میں ہوئی۔ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بھائی انجینئر محمد عبدالسمیع صاحب اور مَیں جب باہر نکلے تو میں نے انہیں اپنے بیٹے کے لیے دعا کی درخواست کی۔ وہ کہنے لگے کہ دعا کے لیے ڈاکٹر سلام صاحب کے پاس چلتے ہیں جن پر آپ نے کتاب لکھی ہے۔ چنانچہ احمدیہ بک ڈپو سے دو کتابیں خرید کر ہم دونوں صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے گیسٹ ہاؤس ’سرائے محبت‘چلے گئے جہاں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے۔ سمیع صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے میرا تعارف کرایا اور ان کو ان پر لکھی گئی کتاب پیش کی گئی۔ پہلے تو کتاب پر بات ہوتی رہی۔ پھر سمیع صاحب نے بتایا کہ مجیب صاحب آپ سے دعا کروانے آئے ہیں۔ ڈاکٹر سلام صاحب کو تھوڑی تفصیل بتائی گئی پوچھنے لگے کس کا علاج کروا رہے ہیں؟ عرض کیا حضور ہومیوپیتھک دوائیاں دے رہے ہیں اور ڈاکٹر لطیف قریشی صاحب بھی ایلوپیتھک علاج کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے ہومیوپیتھی کی بنیاد سائنس پر نہیں ہے اس لیے میں اس کو نہیں مانتا لیکن حضرت صاحب اگر راکھ کی پڑیا بھی دے دیں تو اس سے شفا ہو سکتی ہے۔ پھر انہوں نے بتایا کہ میرا داماد ڈاکٹر حمیدالرحمان خان بھی امریکہ سے جلسے پر آیا ہوا ہے۔ انہیں کہیں کہ وہ آپ کے بیٹے کو دیکھیں۔ باہر آکر سمیع صاحب نے بتایا کہ وہ ان کے ماموں ملک حبیب الرحمٰن صاحب کی کوٹھی میں ٹھہرے ہوئے ہیں جو ٹی آئی ہائی سکول کے سامنے ہے۔ رات ہو چکی تھی لیکن میں ان کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے فرمایا صبح مسجد مبارک میں درس کے بعد محراب کی طرف آجائیں وہ بھی آجائیں گے اور وہ میرے ساتھ جاکر بچے کو دیکھ لیں گے۔ چنانچہ حسبِ پروگرام مسجد سے ہم دونوں چند منٹوں میں پیدل گھر پہنچ گئے جو مسجد انوار کے پاس محلہ دارالصدر میں واقع ہے۔ ڈاکٹر حمید الرحمان خان صاحب physiotherapist ہیں۔ انہوں نے تفصیلی معائنہ کرکے برف کے پانی کی ٹکور کرنے اور چھوٹے ربڑ کے ball لے کر مٹھی میں بار بار دبانے کے لیے کہا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور جلد ہی بیٹا شفا یاب ہوگیا۔ واپس یورپ جا کر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے اپنے مضامین پر مشتمل کتاب Ideals and Realities اور اپنے Fundamental Forces والے Thesis کے کچھ papers بھجوائے اور بعد میں بھی ان سے خط وکتابت جاری رہی۔ ان کی غیر معمولی مصروفیت کے باعث کبھی ان کی پرائیویٹ سیکرٹری کا اٹلی سے خط آتا اور کبھی ان کی اہلیہ صاحبہ کا اردو میں جواب آتا رہا۔ الحمدللہ۔آپ کی غیر معمولی علمی قابلیت اور بنی نوع انسان کی ہمدردی اور خدمت کی جھلک اس مختصر کتاب میں مل سکتی ہے۔ ڈاکٹر منصورہ شمیم صاحبہ نے جو اَب معروف سائنس دان ہیں بچپن میں جب کہ ان کو نہ ڈاکٹر صاحب کا پتا تھا نہ سائنس کا اور نہ کتاب لکھنے والے کا (جیساکہ انہوں نے بتایا اور لکھا ہے) یہ کتاب پڑھ کر مصمم ارادہ کیا کہ وہ بھی سائنس دان بنیں گی۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی فزکس کرکے اور ڈاکٹر سلام کے ICTP سے پوسٹ گریجوایٹ ڈپلومہ کر کے اور امریکہ سے پی ایچ ڈی کر کے CERN لیبارٹری جنیوا میں Higgs Particle کی دریافت کرنے والی سائنس دانوں کی ٹیم کا حصہ بنیں جو عالمی شہرت رکھتی ہیں۔
ایک یادداشت: ۱۰؍دسمبر کا دن سویڈن میں نوبیل ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے کیونکہ اس دن نوبیل انعام حاصل کرنے والوں کے لیے سٹی ہال میں تقسیم انعامات کی تقریب منعقد ہوتی ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ ۱۹۸۰ء میں ربوہ سے اسلام آباد (پاکستان) تشریف لے گئے۔ حضور کا قیام بیت الفضل گیسٹ ہاؤس میں تھا۔ ان دنوں ڈاکٹر سلام بھی پاکستان کے سرکاری دورے پر مدعو تھے اور اُن کے دورے کی خبریں اخباروں میں چھپ رہی تھیں۔ ایک دن مغرب و عشاء کی نمازوں کے بعد مجلس عرفان میں شیخ عبد الوہاب صاحب امیر جماعت احمدیہ اسلام آباد نے حضورؒ کے سامنے اس کا ذکر کیا۔ (یہ عاجز بھی وہاں موجود تھا ) غالبا ً۱۵؍نومبر ۱۹۸۰ء کی شام تھی۔ حضورؒ نے فرمایا۔ ٹھہریں میں بتاتا ہوں۔
فرمایا میں جب کسر صلیب کانفرنس پر ۱۹۷۸ء میں لندن گیا تو مجھے ڈاکٹر سلام نے ملاقات کے دوران کہا کہ مجھے میری ریسرچ پر کئی انعام مل چکے ہیں لیکن ابھی تک سب سے بڑا انعام یعنی نوبیل انعام نہیں ملا جس کے لیے حضور سے دعا کی درخواست ہے۔ حضور نے کچھ توقف کے بعد فرمایا میں نے انہیں کہا کہ اب تک آپ کا جو کام سامنے آیا ہے اس پر تو نہیں، لیکن اگلے سال (یعنی ۱۹۷۹ء میں) حضورؒ کے فرمان کے مطابق آپ کو نوبیل انعام مل جائے گا۔چنانچہ ان کو خدا کے فضل سے ۱۹۷۹ء میں نوبیل انعام مل گیا۔ ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء واللّٰہ ذوالفضل العظیم

ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب
(مبلغ سلسلہ و انچارج مرکزی ترکش ڈیسک)

جیسا کہ اکثر احباب کو علم ہوگا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ جب تعلیم السلام کالج میں پرنسپل تھے تو آپ کی خواہش تھی کہ ہر ڈیپارٹمنٹ میں لائق پروفیسروں کو پی ایچ ڈی کروائی جائے۔ چنانچہ پروفیسر نصیر احمد خان صاحب نے فزکس میں پی ایچ ڈی کر کے تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں ایم ایس سی فزکس کی کلاسیں شروع کروائیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو خلافت کے تخت پر متمکن فرمایا تو آپؒ نے بعض مربیان کو اعلیٰ تعلیم اور پی ایچ ڈی کے لیے پاکستان سے باہر بھجوانا شروع کیا۔
محمد جلال شمس صاحب کی ترکی میں تعلیمی اور تبلیغی سرگرمیوں کا ذکر ان کی وفات پر خطبہ جمعہ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ تفصیلی فرما چکے ہیں۔ آپ خدا کے فضل سے بہت قابل اورعالم تھے۔
میں پہلی مرتبہ یوکے ۱۹۸۵ء میں گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی لندن ہجرت کے بعد یہ پہلا عالمی جلسہ سالانہ تھا۔ میرے جس عزیز نے مجھے ایئر پورٹ سے receive کیا وہ اگلے روز مسجد فضل لندن کے احاطہ میں مجھے چھوڑنے آئے۔ اتفاق سے وہاں محمد جلال شمس صاحب سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے کمال مہربانی سے میرے منع کرنے کے باوجود میرا اٹیچی کیس پکڑ لیا۔
اس کے بعد ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۹ء تک اللہ تعالیٰ تقریباً ہر سال جلسہ پر جانے کی توفیق دیتا رہا۔ اور ترجمانی کی ٹیکنیکل ٹیم کے ساتھ ڈیوٹی دیتے ہوئے انہیں ٹرکش ٹرانسلیشن کیبن میں دیکھتا اور ملتا رہا۔
مسجد فضل لندن میں رمضان میں ان کے قرآن کریم کے درس سننے کا بھی موقع ملتا رہا۔ ان کے درس سے معرفت کے کئی نئے نکات سننے کوملتے تھے۔
ایک بار قرآن اور سائنس پر ان سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے فرمایا: The Bible ، The Qur’an and Science by Maurice Bacaille پڑھیں۔ چنانچہ میں نے اس کتاب سے بہت استفادہ کیا اور انگلش اور اردو میں کئی مضمون لکھے۔
جب یہ اپنے بیٹے کی شادی کے لیے ربوہ تشریف لائے تو انہوں نے سارے انتظامات مولانا محمد اعظم اکسیر صاحب مرحوم کے سپرد کردیے جو جامعہ احمدیہ میں آپ کے دوست تھے۔ وہ میرے بھی دوست تھے۔ اس دوران تحریکِ جدید کے گیسٹ ہاؤس میں خلیفہ وقت کی دعا سے ترکی میں جماعت کی معجزانہ رجسٹریشن اور کئی ایمان افروز واقعات سناتے رہے۔ اس عاجز کا نام بھول جاتے تو کہتے ’انجینئر صاحب‘۔

کیپٹن ڈاکٹر اقبال احمد خان صاحب
(سابق امیر ضلع مظفرگڑھ )

یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد کسی بھی امیر ضلع سے پہلا واسطہ عملی زندگی میں مجھے ڈاکٹر اقبال احمد خان صاحب امیر ضلع مظفر گڑھ سے پڑا۔ آپ ایک لمبا عرصہ ضلع مظفر گڑھ کے امیر رہے ہیں۔ آپ کے دَور میں آپ کی کوششوں سے مظفر گڑھ شہر کی مسجد بنی۔ آپ بہت مہمان نواز تھے۔ مرکز سے جو علماء دوروں پر آتے وہ سب آپ کے ذاتی مہمان ہوتے تھے۔اس عاجز کے دورِ امارت میں شیخ محبوب عالم خالد صاحب جب بھی آتے ان کے پاس ٹھہرتے۔ وہ فرماتے تھے ڈاکٹر صاحب میرے مزاج شناس ہیں اور ڈاکٹر صاحب کا یہ comment ہوتا تھا کہ چڑیا کے برابر کھانا کھاتے ہیں۔ چودھری شبیر احمد صاحب وکیل المال تو ان کے قریبی رشتےدار بھی تھے۔ڈاکٹرصاحب کی ایک خوبی یہ تھی کہ کسی احمدی سے فیس نہیں لیتے تھے۔ جب میری شادی ہوئی تو میں اپنی بیوی کو لے کر مظفر گڑھ گیا جہاں میری ملازمت تھی۔انہوں نے دو تین دن ہمیں اپنے گھر رکھا۔آپ نے علاقے کے کئی نوجوانوں کو تعلیم دلوائی اور ڈاکٹر بنوایا۔
اس وقت لیہ بھی مظفر گڑھ میں شامل تھا جو بعد میں الگ ضلع بن گیا۔ آپ کا ضلع کی تمام جماعتوں اور اسی طرح ضلع کی انتظامیہ سے گہرا تعلق تھا۔ایک مشکل وقت میں آپ نے ایس پی اور ڈی سی کو ملوایا اور ایک خطرناک جلسہ منسوخ کروایا۔

صوفی عبد المجید صاحب
(صدر جماعت میر پور، آزاد کشمیر)

ڈاکٹر مبشر حسن صاحب بہت نامور اور چوٹی کے انجینئر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے جنرل سیکرٹری تھے۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد انجینئرز کو نوکریوں کا بڑا بحران پیدا ہوگیا۔ان کے مشورے سے اسمبلی میں بل پاس ہوا اور نیشنل لیول پر اور پرائیویٹ طور پر کئی کنسلٹنگ انجینئرنگ فرمز معرض وجود میں آئیں۔ ان میں سے ایک Engineers Intlتھی۔ جس میں مجھے کچھ عرصہ منگلا ڈیم 220 کے وی لائن پر کام کرنے کا موقع ملا۔ جب ہماری رہائش میر پور آزاد کشمیر میں تھی اس وقت میر پور شہر میں صرف ایک ہی احمدی گھرانہ تھا یعنی صوفی عبدالمجید صاحب کا۔ آپ کو ایران اور منگلا ڈیم پر بطور مکینک کام کرنے کا اتفاق ہوا اور پھر میر پور میں آباد ہوگئے اور جماعت قائم کی۔ آپ کسی زمانے میں حضرت مصلح موعودؓ کے ڈرائیور رہ چکے تھے اور حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ ان کے عشق کا یہ عالم تھا کہ ادھر حضرت مصلح موعودؓ کا نام لیا ادھر بارش کے قطروں کی طرح ان کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگتے تھے۔ آپ سلسلہ کا بہت درد رکھنے والے اور نہایت ہمدرد قسم کے انسان تھے۔ مولوی محمد صدیق امرتسری ان کی اہلیہ کے بھائی تھے اور یہ بہت دیندار گھرانا تھا۔ بعد میں ان کی اولاد مستقل طور پر میر پور میں آباد ہو گئی۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے عبد الرزاق صاحب امیر ضلع میرپور آزاد کشمیر اور ناظم ضلع مجلس انصار اللہ کے طور پر کئی سال خدمت کی توفیق پاتے رہے ہیں۔وہ خلافت کمیٹی کے ممبر کے طور پر خلافتِ خامسہ کے انتخاب میں شامل تھے۔

رضا محمد صاحب سندھی

میں سروس کے دوران ساری عمر رولنگ سٹون بنا رہا ہوں اور کئی جماعتوں اور مخلصین سے متعارف ہوتا رہا ہوں۔ ۱۹۷۳۔۱۹۷۴ء میں نواب شاہ سندھ میں تھا وہاں ایک مجذوب بزرگ رضا محمد صاحب سندھی ہوا کرتے تھے۔بہت عبادت گزار۔ ۳/۱ کے موصی اور صاحب کشوف و رؤیاتھے۔ وہ نواب شاہ میں اکیلے ہی رہتے تھے۔اہلیہ فوت ہو چکی تھیں اور ایک بیٹی ان کے احمدی ہونے سے پہلے کسی گوٹھ میں بیاہی ہوئی تھی۔ درزی کا کام کرتے تھے۔ اگر کبھی کوئی ان سے کپڑے سلوا لیتا تو اجرت وصول کرکے مسجد آکر حصہ آمد ادا کرتے۔ مجھ سے بہت جلد بے تکلف ہو گئے۔ میں نے ایک دن ان سے پوچھا آپ کیسے احمدی ہوئے تھے ؟ کہنے لگے میں اَن پڑھ ڈھور ڈنگر چرانے والا تھا۔ ایک معلم نے مجھے تبلیغ کی کہ امام مہدی کا ظہور ہو چکا ہے اور ان کی بیعت کرنا ضروری ہے۔انہوں نے پوچھا کہ انہیں کیسے پتا چلے گا کہ وہ سچے ہیں؟ انہیں معلم صاحب نے کہا کہ نماز پڑھیں اور دعا کریں اللہ تعالیٰ خود ہی بتا دے گا۔ انہوں نے کہا ڈھور ڈنگر چراتا ہوں، کپڑے پاک نہیں ہوتے۔انہیں کہا گیا اس کی فکر نہ کریں بس نمازیں پڑھیں اور دعا کریں۔ آپ نے بتایا ایک ہفتے کے اندر خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت امام مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام کو دیکھا ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔ ایک طرح کا لباس ہے۔قد بھی ایک ہے صرف چہرہ الگ ہے گویا ایک اصل اور دوسرا ظل ہے۔ اس پر انہوں نے بیعت کرلی۔
ان کی مالی حالت بہت کمزور تھی اور جماعت ان کا خیال رکھتی تھی اور جلسہ سالانہ پر ربوہ لے جاتی تھی۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے بہت بڑے عاشق تھے۔ ایک بار ملاقات کے دوران کہنے لگے حضور میرا دل چاہتا ہے آپ کا منہ چوم لوں۔ اس پر حضور مسکرا دیے۔ جماعت کا ان کے ساتھ وعدہ تھا کہ ان کی وفات پر انہیں ربوہ لے جائیں گے اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہو گی لیکن کہیں اپنی بیٹی کے گاؤں میں گئے اور وہیں فوت ہوگئے۔ نہ جماعت کو علم کہ ان کی بیٹی کہاں ہے اور نہ ان کے رشتہ داروں کو جماعت کا علم۔ انہوں نے وہیں جنازہ پڑھ کر دفن کر دیا۔ بعد میں جماعت نے بہت کوشش کی کہ ان کے گاؤں کا اور بیٹی کا پتا کیا جائے۔ لیکن انہیں کامیابی نہ ہوئی۔

خواجہ محمد اکرم صاحب

آپ لاہور میں محمد آباد میں رہتے تھے اور ریلوے میں ملازم تھے۔ جب ہم انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو انہوں نے ہمیں چائے پر اپنے گھر مدعو کیا جہاں تک مجھے یاد ہے چھ تو ہم تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے گئے تھے (ملک لال خان، کریم احمد طاہر، عبد السلام ارشد، بشیر احمد خان طارق، افضل مبشر اور یہ عاجز)۔ اس کے علاوہ حیدرآباد سندھ سے ظفر احمد تالپور اور لاہور سے ملک طاہر احمد۔ آپ بہت نیک فطرت انسان تھے۔ عملی زندگی میں ان سے حیدرآباد میں ملاقات ہوئی۔ فرمانے لگے کہ مجھے گدو بیراج دکھا دیں۔ میرے پاس موٹر کار کی سہولت تھی، ان کو لے کر گدو بیراج پہنچا اس دوران عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ ہم نے اکٹھے ایک طرف ہو کر باجماعت نماز ادا کی۔ آپ کو قرآن کریم سے بہت عشق تھا۔ ہر جگہ قرآن پڑھانے کے لیے بچے تلاش کر لیتے۔ حیدر آباد میں بھی قرآن کریم پڑھاتے تھے۔ ان کے بڑے صاحبزادے ۱۹۸۱ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے قافلے کے پیچھے دو اور خدام کے ہمراہ جارہے تھے تو ان کی کار کو حادثہ پیش آگیا جس میں ان کے بڑے بیٹے بھی شہید ہوگئے۔ آپ جن دنوں اسلام آباد میں تھے ملک لال خان اور یہ عاجز ان کے پاس تعزیت کے لیے گئے۔ نہایت صبر کا نمونہ دکھایا اگرچہ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ آپ کے شہید صاحبزادے اس نوجوانی میں بھی موصی تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے قبر میں اتارا۔ لاہور مسجد دارلذکر گڑھی شاہو میں حضرت چودھری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ نے ان شہداء پر خطبہ دیا۔
آپ اسلام آباد بھی بچوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ربوہ آگئے اور دفتر انصاراللہ میں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ دارالرحمت وسطی کے صدر بھی تھے۔ ساری عمر بڑی خندہ پیشانی سے ملتے رہے۔ ان کے ایک بیٹے مربی ہیں اور ایک عرصہ تک جامعہ احمدیہ میں ترجمہ و تفسیر القرآن پڑھانے کی سعادت پاتے رہے۔

مولوی عزیز الرحمٰن منگلا صاحب

وضع قطع کے لحاظ سے بہت سادہ انسان تھے۔ بہت عالم فاضل تھے۔ ان کی عربی میں نظمیں دیکھ کر کوئی گمان نہیں کر سکتا تھا کہ یہ منظوم کلام اس سادہ لوح ٹھیٹھ سرگودھا ریجن کی پنجابی بولنے والے انسان کا ہے۔ میرے ساتھ ان کا للّہی محبت کا رشتہ تھا۔ ان کو بھیرہ اور میرے والد صاحب سے پورا تعارف تھا۔ میرے مضامین جماعتی اخبار میں آتے تھے۔ بھیرہ کے عظیم صحابہ کا بعد میں بھیرہ کی کمزور حالت کو دیکھ کر اظہار ایک مرتبہ یوں کرنے لگے۔ ’’محمود! مڑ بھیرے والے تے مر گئے نے ہک تو بھیرے دا ناں زندہ رکھیا ہویا اے ‘‘یعنی بھیرے والے تو سب فوت ہوگئے ایک آپ نے بھیرے کا نام زندہ رکھا ہوا ہے۔ میں ان کو دعا کے لیے لکھتا تھا اور وہ دعا کرتے تھے۔ آپ کی طبیعت میں مزاح بھی تھا۔ آپ جب ضلع سرگودھا کے مربی ضلع تھے تو ایک دفعہ اس وقت کے مقامی امیر مولوی محمد اشرف صاحب (والد مولانا محمد اعظم اکسیر صاحب) صبح کے وقت ریلوے اسٹیشن کی طرف سیر کو نکلے ہوئے تھے اور میرے والد صاحب مجھے ٹرین پر بٹھانے جارہے تھے۔ میں اس وقت انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کا سٹوڈنٹ تھا اور ہم بھیرہ سے ملکوال ، ٹرین بدل کر ملکوال سے لالہ موسیٰ اور لالہ موسیٰ سے ٹرین بدل کر لاہور جایا کرتے تھے۔ میرے والد صاحب نے اس عاجز کا تعارف کرایا۔ طبیعت میں بہت بشاشت تھی۔ فرمانے لگے میری پوزیشن سرگودھا میں ڈپٹی کمشنر کی طرح ہے۔ جیسے سارے ضلع کی ایڈمنسٹریشن ڈی سی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اسی طرح سارے ضلع کی تبلیغ و تربیت میرے ہاتھ میں ہے۔ ان کو خلافت کے ساتھ والہانہ عشق تھا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فوت ہوئے تو چند دن بعد میری ان سے مسجد مبارک کے احاطے میں ملاقات ہوئی۔روتے جاتے تھے اور حضورؒ کے ساتھ اپنی محبت کا عجیب رنگ میں اظہار کرتے جاتے تھے۔ کہنے لگے محمود! لوگوں کا تو خلیفہ فوت ہوا ہے میرا تو یار مر گیا ہے۔ دیکھو! یہ پگڑی بھی اس نے دی تھی۔ ہینڈ سٹک جو پکڑی ہوئی تھی اس نے دی تھی اور یہ شیروانی (جو پہنی ہوئی تھی) اس نے دی تھی۔ بہت گہرے دکھ قلق اور صدمے کا اظہار کرتے رہے۔ایک مرتبہ بتایا کہ ان کے سب سے چھوٹے بھائی (جو اب پی ایچ ڈی ڈاکٹر عنایت اللہ منگلا ہیں) کے رشتہ کی تجویز حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی طرف سے ملی اور حضور نے فرمایا دعا کر کے صبح تک بتائیں۔ کہنے لگے میں ساری رات جاگ کر مسجد مبارک میں دعا کرتا رہا اور صبح تک شرح صدر ہو گیا اور میں نے اس کی حضور کو اطلاع دی اور حضور بہت خوش ہوئے۔ میں بھی ان کو دعا کے لیے لکھتا تھا۔ میرے نزدیک آپ ولی اللہ تھے جنہوں نے درویشی میں زندگی گزار دی۔ ان کے خاندان کے ایک مربی صاحب نے بتایا کہ ایک بار اپنے بھائی کو پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس لاہور ملنے کے لیے گئے۔ اَور بھی احمدی طالب علم تھے۔ جاتے ہوئے پنجابی میں کہنے لگے کہ میں عنایت اللہ کے لیے دعا کر چلا ہوں اب اس سے کوئی آگے نہیں نکلے گا۔ چنانچہ ایم اے اکنامکس میں ان کے بھائی اول آگئے اور بعد میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے رہے اور پھر امریکہ شفٹ ہوگئے۔

محترم رشید احمد امریکن صاحب
(سابق نیشنل صدر جماعت احمدیہ امریکہ)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس عاجز کو جلسہ سالانہ یو کے شعبہ ترجمانی میں ٹیکنیکل ٹیم کے ساتھ بھی کئی سال پاکستان سے یو کے جا کر ڈیوٹی دینے کی توفیق ملی۔ ہمارے ٹیم لیڈر انجینئر منیر احمد فرخ سابق امیر ضلع اسلام آباد صاحب ہوا کرتے تھے۔ اسلام آباد (ٹلفورڈ) کے cabins میں ہمارا سٹور، ورکشاپ اور آفس ہوا کرتے تھے۔ایک روز جلسہ ختم ہونے کے بعد دو احمدی تشریف لائے اور ان سے تعارف حاصل ہوا۔ دونوں افریقن امریکن تھے۔ ایک کا نام جیسا کہ انہوں نے بتایا ’’رشید احمد امریکن‘‘ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں وہ احمدی ہوئے تھے اور تعلیم و تربیت کے لیے حضورؒ نے انہیں ربوہ بلوا لیا۔ ان دنوں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بانی مشنری امریکہ ربوہ میں ریٹائرڈ لائف گزار رہے تھے۔ حضور نے ان کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ روزانہ مفتی صاحبؓ کو ملا کریں اور مسیح موعودؑ کے زمانے اور امریکن مشن کی باتیں سنا کریں اور پھر ایک ہفتے کے بعد مفتی صاحبؓ کو لے کر حضور کو ملا کریں۔ چنانچہ جو باتیں اور کوائف مفتی صاحب سے وہ discuss کرتے تھے وہ حضورؓ ان سے سنا کرتے تھے اور بعض امور میں حضورؓ فرماتے مفتی صاحب ایسے نہیں ایسے ہوا تھا۔ رشید امریکن صاحب کی dedication کا یہ عالم تھا کہ ڈائری میں تاریخ کی قید کے ساتھ وہ حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ ملاقاتوں کو نوٹ کرلیتے تھے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے جب ۱۹۷۶ء میں امریکہ کا دورہ فرمایا، اُس وقت امریکہ کے نیشنل صدر رشید احمد امریکن تھے۔ ان کی حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفائے کرام سے محبت اور عقیدت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے جتنی بھی ملاقاتیں کیں انہیں اپنی ڈائریوں میں نوٹ کرلیا۔رشید احمد امریکن کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے ان کا تفصیل سے ذکر خیر فرمایا تھا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی تھی۔ اس عاجز نے بھی ان پر ایک مختصر نوٹ لکھا تھا جو ۴؍مارچ ۲۰۱۶ء کے روزنامہ الفضل میں شائع ہوا۔ گذشتہ دنوں مشنری انچارج امریکہ مکرم اظہر حنیف صاحب جلسہ سالانہ سویڈن پر حضور کا نمائندہ بن کر آئے تھے۔ جلسہ تو گوتھن برگ میں تھا۔ جلسے کے بعد سٹاک ہوم تشریف لائے۔ انہوں نے بتایا کہ رشید امریکن صاحب کی اہلیہ کا کچھ عرصہ قبل وصال ہوا ہے اور ان کی بھی بے لوث خدمات اور خلافت سے بے پناہ محبت کا ذکر کرتے رہے۔یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا زندہ نشان ہیں اور پیچھے سے آکر بہتوں سے آگے نکل گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان تمام بزرگان سے مغفرت و رحم کا سلوک فرمائے،ان کے درجات بڑھاتا چلا جائے اور ہمیں ان کی نیکیاں اور خوبیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اے خدا بر تربت او ابرِ رحمت ہا ببار
داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: سفرایک رات کا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button