خلاصہ خطبہ جمعہ

سنہ سات اور آٹھ ہجری کے بعض غزوات اور سرایا کے تناظر میں سیرت نبویﷺ کا بیان نیز بعض مرحومین کا ذکر خیر۔ خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍اپریل ۲۰۲۵ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭… تمہیں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے اوراپنے ساتھ کے مسلمانوں سے بھلائی کی وصیت کرتا ہوں۔ اللہ کے نام کے ساتھ اللہ کے منکرین سے مقابلہ کرو۔ نہ دھوکا دینا، نہ خیانت کرنا، نہ کسی شِیر خوار بچّے کو قتل کرنا، نہ کسی عورت اور نہ کسی عمر رسیدہ کو قتل کرنا، نہ کسی کھجور کے درخت کو کاٹنا، نہ کسی اور درخت کو کاٹنا، نہ کسی عمارت کو گرانا (رسول اللہﷺ کی اسلامی لشکر کو الوداع کرتے ہوئے نصیحت)

٭… آج بھی ایک اطلاع ہے قصور کے ایک قصبہ میں ایک احمدی نوجوان کو شہید کیا گیا ہے

٭… اللہ تعالیٰ ان ظالموں کی جلد پکڑ کے سامان فرمائے۔ ان کے لیے تو اب یہی ہے: اَللّٰھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَ سَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا

٭…مکرم لئیق احمد چیمہ صاحب شہید آف کراچی ، مکرمہ صاحبزادی امة المصور نوری صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹرمسعودالحسن نوری صاحب آف ربوہ اور مکرم حسن سانوغو ابو بکر صاحب لوکل مبلغ برکینافاسو کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۵؍اپریل ۲۰۲۵ء بمطابق ۲۵؍ شہادت ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامسايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۲۵؍اپریل۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب(مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

آنحضرتﷺ کے زمانے کی مختلف مہمات کا ذکر ہورہا ہے۔ان میں ایک

سریہ غالب بن عبداللہ بطرف فدک

کا ذکر بھی ملتا ہے۔ حضرت بشیر بن سعد ؓشعبان ۷؍ہجری میں ۳۰؍افراد کےساتھ فدک میں بنو مرّہ کی طرف گئے۔ بنو مرّہ نے بشیربن سعدؓکےتمام ساتھیوں کو شہید کردیا۔ رسول اللہﷺ کو جب اس کی خبرہوئی تو آپؐ نے زبیربن عوّام ؓکو تیار کیا اور ان کےساتھ دو سوصحابہ ؓکو بھجوایا۔اس مہم میں مسلمانوں کو کامیابی ہوئی اور مالِ غنیمت بھی حاصل ہوا۔

پھر ایک

سریہ شجاع بن وہب

ہے، یہ سریہ ربیع الاوّل۸؍ہجری میں ہوا۔ حضرت شجاعؓ غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شامل ہوئے، آپؓ نے چالیس برس کی عمر میں جنگِ یمامہ میں شہادت پائی۔ رسول اللہﷺ کو بنو ہوازن کے مسلمانوں کے خلاف سازشوں کی اطلاعات مل رہی تھیں۔ ان اطلاعات پر آپؐ نے حضرت شجاع ؓکی قیادت میں ۲۴؍سپاہیوں کو روانہ فرمایا۔ حضرت شجاعؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ راتوں کو سفر کرتےہوئے بنو ہوازن تک جاپہنچے اور صبح کے وقت اُن پر حملہ کردیا، حضرت شجاعؓ نے اپنے ساتھیوں کو تعاقب سے روک دیا اور مالِ غنیمت سمیت مدینے واپس آگئے۔

اس کے بعد ایک

سریہ کعب بن عمیر غفاری

کا ذکر ہے، یہ سریہ ۸؍ربیع الاوّل ۸؍ہجری کو ہوا۔ آپؐ نے حضرت کعب بن عمیر غفاری ؓکی قیادت میں پندرہ صحابہ ؓکو ذات اطلاح کی طرف روانہ فرمایا جو وادی القریٰ کی پشت پر تھا۔ اس سریہ میں تمام صحابہ ؓشہید ہوگئے، البتہ ایک صحابی بچ نکلے اور آنحضرتﷺ کے پاس پہنچ گئے۔ آپؐ نےاسی وقت ایک لشکر تیار کیا مگر پھر اطلاع ملی کہ وہ لوگ کہیں اور جا چھپے ہیں تو اس پر آپؐ نے ارادہ ملتوی کردیا۔

غزوہ موتہ

جمادی الاولیٰ ۸؍ہجری یا ستمبر ۶۲۹ءمیں ہوا۔ موتہ شام کی سرزمین پر مدینے سے تقریباً ۶۰۰؍میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ اس غزوے کا سبب مسلمانوں کے قاصد حارث بن عمیرؓ  کی دردناک شہادت تھی، جو آپؐ پر بہت گراں گزری تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے غسان قبیلے کے رئیس کو جو رومی حکومت کی طرف سے بصرہ کا حاکم تھا یا خود قیصر روما کو خط لکھا، اس خط میں غالباً رومی قبائل کی شکایت ہوگی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور انہوں نے پندرہ مسلمانوں کو بےدردی سے قتل بھی کیا ہے۔ یہ خط حضرت حارثؓ کے ہاتھ بھجوایا گیا جو موتہ مقام پر ٹھہرے، جہاں غسان قبیلے کا ایک رئیس شرحبیل انہیں ملا، اور اس نے حضرت حارثؓ کو گرفتار کرکے قتل کروادیا۔ رسول اللہﷺ کو جب حارثؓ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپؐ نے اِس واقعے اور گذشتہ واقعے کی سزا کے طور پر تین ہزار کا لشکر تیار کروایا اور زید بن حارثہ کو اس کا امیر مقرر فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر زید شہید ہوجائیں تو حضرت جعفربن ابی طالب امیر ہوں گے اور اگر جعفربن ابی طالب شہیدہوگئے تو حضرت عبداللہ بن رواحہ امیر ہوں گے اور اگر عبداللہ بن رواحہ بھی شہید ہوگئے تو مسلمان جسے چاہیں اپنا امیر مقرر کرلیں۔

نعمان نامی ایک یہودی وہاں موجود تھا،اس نے کہا کہ اے ابو القاسم! اگر آپؐ نبی ہیں تو جن جن کا آپ نے نام لیا ہے وہ سب شہید ہوجائیں گے۔پھر اسی یہودی نے حضرت زیدؓ سے کہا کہ زیدؓ! وصیت کرلو۔ اگر محمد(ﷺ) سچے نبی ہیں تو تم واپس لوٹ کر نہیں آسکو گے۔ حضرت زیدؓ نے کہا کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے سچے نبی ہیں۔ جب آپؐ امیر مقرر فرما رہے تھے تو حضرت جعفرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! مجھے گمان نہ تھا کہ آپ مجھ پر زید کو امیر مقرر فرمائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم جاؤ! تم نہیں جانتے کہ بہتر کیا ہے۔

رسول اللہﷺ نے حضرت زید کو ایک سفید جھنڈا دیا اور ہدایت فرمائی کہ حضرت حارثؓ کی شہادت کی جگہ پہنچ کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں اگر تو وہ قبول کرلیں تو ٹھیک ورنہ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر جنگ کریں۔ رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کو وداع کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ

تمہیں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے اوراپنے ساتھ کے مسلمانوں سے بھلائی کی وصیت کرتا ہوں۔ اللہ کے نام کے ساتھ اللہ کے منکرین سے مقابلہ کرو۔ نہ دھوکا دینا، نہ خیانت کرنا، نہ کسی شِیر خوار بچّے کو قتل کرنا، نہ کسی عورت اور نہ کسی عمر رسیدہ کو قتل کرنا، نہ کسی کھجور کے درخت کو کاٹنا، نہ کسی اور درخت کو کاٹنا، نہ کسی عمارت کو گرانا۔

پھر لشکر کے سپہ سالار کو فرمایا کہ

جب تم کسی مشرک سے ملو تو اسے تین امور کی دعوت دینا، اگر وہ ان میں سے کوئی بھی امر مان لے تو اسے قبول کرلینا اور انہیں اذیت نہ دینا۔

انہیں دعوت دینا کہ وہ اپنے شہر سے مہاجرین کے شہر میں منتقل ہوجائیں،

اگر وہ اس طرح کرلیں تو انہیں بتانا کہ ان کے لیے وہی ہے جو مہاجرین کے لیے ہے اور ان پر وہی ہے جو مہاجرین کے لیے ہے۔

اگر وہ انکار کردیں تو انہیں کہنا کہ

وہ مسلمانوں میں سے اہلِ بادیہ کی طرف جائیں۔

ان کے لیے اللہ کا وہی حکم ہوگا جو باقی مسلمانوں کے لیے ہے، لیکن انہیں مالِ غنیمت اور مالِ فے میں سے حصّہ نہیں ملے گا یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں۔

اگر وہ اس کا بھی انکار کردیں تو ان سے جزیے کا مطالبہ کرنا۔

اگر وہ مان جائیں تو قبول کرلینا اور انہیں اذیت دینے سے رُک جانا، اگر وہ اس کا بھی انکار کردیں تو اللہ تعالیٰ سے ان کے خلاف مدد مانگنا اور ان سے جہاد کرنا۔ اگر تم کسی قلعہ یا شہر کا محاصرہ کرلو اور وہ تم سے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ مقرر کرنے کا ارادہ کریں تو ان سے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ مقرر نہ کرنا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ یہ واقعہ بالکل اسی طرح پورا ہوا، پہلے حضرت زید ؓشہید ہوئے، اس کے بعد حضرت جعفر ؓنے لشکر کی کمان سنبھالی اور وہ بھی شہید ہوگئے، اس کے بعد عبداللہ بن رواحہؓ نے لشکرکی کمان سنبھالی اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ قریب تھا کہ لشکر میں انتشار پیداہوجاتا کہ حضرت خالدبن ولیدؓ نے بعض مسلمانوں کے کہنےپر اسلامی جھنڈے کو پکڑ لیاا ور اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذریعے مسلمانوں کو فتح دی اور وہ خیریت سے اسلامی لشکر کو واپس لے آئے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ یہ ذکر جاری ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ چلے گا۔ ابھی مَیں ایک شہید اور بعض مرحومین کا ذکر کروں گا اور نماز کے بعد ان کی نمازِ جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔

۱۔مکرم لئیق احمد چیمہ صاحب ابن مکرم چودھری نذیر احمد چیمہ صاحب۔ انہیں ۱۸؍اپریل کوکراچی میں ایک ہجوم نے حملہ کرکےاینٹیں اور پتھر مار کر نہایت ظالمانہ طور پر شہید کردیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ شہید کی عمر ۴۷؍سال تھی۔ شہید مرحوم ایک ورک شاپ چلاتے تھےاوران کی دیانت داری کی وجہ سے ان کاکاروبارکافی وسیع ہوگیا تھا۔ مرحوم موصی تھے، نہایت مستعدجماعتی کارکن، صوم و صلوٰة کے پابند،تہجدگزار، ملنسار، محبت کرنے والے،بہت بہادر اور دوسروں کو ہمت دلانے والے، خلافت سے خاص تعلق رکھنے والے، خطبات غور سے سننے والے، جماعتی ڈیوٹیز اور مقدمات کی پیروی میں پیش ہونے کے لیے ہردم تیار رہتے تھے۔ شہادت کے واقعے سے دو روز قبل مخالفین کی جانب سے عدالت میں انہیں دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔ قرآن کریم سے شہید کو والہانہ عشق تھا۔ پسماندگان میں دو بیویاں ، اور سات بچے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بہن اور بھائی بھی ہیں۔

شہید مرحوم کے ذکر کے ذیل میں حضورِانورنے فرمایا کہ

آج بھی قصور کے ایک گاؤں میں نوجوان احمدی کی شہادت کی اطلاع ہے، تفصیلات ابھی نہیں آئیں۔

اس کے بعد حضورِانور نے مخالفین کے متعلق دعا کی کہ

اللہ تعالیٰ ان ظالموں کی پکڑکے جلد سامان کرے

ان کے لیے اب یہی ہے کہ اَللّٰھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَ سَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا

۲۔محترمہ امة المصور نوری صاحبہ اہلیہ ڈاکٹرمسعودالحسن نوری صاحب۔ مرحومہ گذشتہ دنوں وفات پاگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ  کی پوتی اور حضرت نواب امة الحفیظ بیگم صاحبہ ؓکی نواسی اور مرزا داؤد احمد صاحب کی بیٹی تھیں۔حضورِانور نے فرمایا کہ میری چچا زاد بہن تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ مرحومہ صوم و صلوٰة کی پابند، متوکل، نیک طبیعت، مختلف مذاہب کا مطالعہ کرنے والی، خاوند کا ساتھ دینےوالی، صابر، مخلص خادم دین، قرآن کریم سے محبت رکھنے والی، غریبوں کی ہمدرد، حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ کرنے والی، واقفینِ زندگی کی عزت کرنے والی خاتون تھیں۔

۳۔مکرم حسن سانوغو ابوبکر صاحب لوکل مبلغ برکینافاسو۔ آپ ۶۳؍سال کی عمر میں گذشتہ دنوں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم لوکل زبان میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے جو ریڈیو پر نشر ہوتا تھا۔ مرحوم نے الازہر یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کررکھی تھی۔ مرحوم نیک، تبلیغ کا شوق رکھنے والے، بہادر، بہترین مقرر، خطیب، قرآن کریم سے محبت رکھنے والے ، ہنس مکھ انسان تھے۔ حضورِانور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ایسے خدمت کرنے والے جماعت کو ہمیشہ عطا فرماتا رہے۔

خطبے کے آخر میں حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا کی۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: سنہ سات اور آٹھ ہجری کے بعض غزوات اور سرایا کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعاؤں کی تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۸؍اپریل ۲۰۲۵ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button