از مرکز

اگر سب واقفین دل وجان سے اسلام کی ترقی کے لیے کوشاں ہو جائیں تو اسلام کی ترقی لازمی ہے(خلاصہ اختتامی خطاب برموقع سالانہ اجتماع واقفینِ نو برطانیہ)

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اسلام آباد ٹلفورڈ سے براہ راست خطاب

٭…مسجد بیت الفتوح مورڈن میں کُل حاضری ۲۰۷۸؍ رہی

(مسجد بیت الفتوح،۲۷؍اپریل ۲۰۲۵ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) آج مورخہ ۲۷؍اپریل ۲۰۲۵ء بروز اتوار مسجد بیت الفتوح مورڈن میں جماعت احمدیہ برطانیہ کے واقفین نو کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا جس کے اختتامی اجلاس سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسلام آباد ٹلفورڈ میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے براہ راست بصیرت افروز اختتامی خطاب فرمایا۔

اختتامی اجلاس کی کارروائی

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے چار بج کر بتیس منٹ پر ایم ٹی اے سٹوڈیوز اسلام آباد سے ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کا تحفہ عنایت فرمایا۔ عزیزم احسان احمد نے سورۃ النور کی آیات ۵۵ تا ۵۷ کی تلاوت کی جس کے بعد عزیزم عدیل طیب نے متلو آیات کا اردو جبکہ عزیزم فواد عالم نے انگریزی زبان میں ترجمہ پیش کیا۔ عزیزم عبد الحئی سرمد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاکیزہ منظوم کلام

اَے خدا اَے کارساز و عیب پوش و کردگار
اَے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار

میں سے منتخب اشعار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ان اشعار کا انگریزی ترجمہ عزیزم داؤد خان نے پیش کیا۔

بعد ازاں ڈاکٹر انس احمد رانا صاحب نیشنل سیکرٹری وقف نو یوکے نے اجتماع کی رپورٹ پیش کی۔

چار بج کر باون منٹ پر حضور انور ایده الله تعالیٰ منبر پر تشریف لائے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا اور انگریزی زبان میں اختتامی خطاب کا آغاز فرمایا

خلاصہ اختتامی خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آج آپ وقف نو کے اس اجتماع میں شامل ہیں اور اس کی اختتامی تقریب ہو رہی ہے۔ اگر ہم صرف یوکے میں واقفین نو کی تعداد دیکھیں تو وہ ہی ہزاروں میں ہے لیکن ان کا فائدہ تب ہی ہے کہ جب یہ جماعت کے کام آئیں۔ ان میں سے کچھ جامعہ جائیں اور اس کے علاوہ ہمیں ڈاکٹروں کی اور بعض دوسرے شعبوں میں بھی واقفین کی ضرورت ہے۔

بہت سے واقفین ہیں جو کہ پڑھائی کے بعد اپنا کام کر رہے ہیں ان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح جماعت کی خدمت کرسکتے ہیں۔ ان کو صرف دولت کمانے اور کام میں مہارت پر توجہ نہیں دینی بلکہ اصل میں روحانی ترقی کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے وقفِ زندگی کے بارے میں فرمایا کہ اگر آپ نجات چاہتے ہیں تو اپنی زندگی خدا کے لیے وقف کریں اورآپ کا جینا، مرنا سب خدا کے لیے ہو جائے۔ جب تک کہ ہر فرد خدا کا نہیں ہو جاتا اور خدا کے لیے مکمل طور پر زندگی وقف نہیں کر دیتا تو اس وقت تک نجات حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس بات کے مخاطب سب احبابِ جماعت عموماً جبکہ آپ واقفین خصوصاً ہیں۔ ام نصائح سے آپ میں واضح تبدیلی پیدا ہو جانی چاہیے۔

وقف آسان کام نہیں جیسا کے حضرت ابراھیمؑ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ آپ کا دل اور دماغ ہر وقت یہ سوچتا رہے کہ کیا آپ وقف کے تقاضے پورے کر رہے ہیں یا نہیں۔ اسی طرح یہ کہ آپ عجلت میں نماز پڑھنے والے نہیں بلکہ تسلی، سکون سے اور ٹھہر کر انہماک سے نماز ادا کرنے والے ہوں، قرآن کریم کا غور سے مطالعہ کرنے والے ہوں، دینی علم کو بڑھانے کے لیے کتب حضرت مسیح موعودؑ کا بغور مطالعہ کرنے والے ہوں۔ صرف تب ہی آپ وقف کے تقاضے نبھانے والے اور اسلام کا صحیح پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے والے بن سکیں گے۔

اگر تمام واقفین نو لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد دیکھیں تو ایک لاکھ کے قریب پہنچ رہی ہے۔ اگر یہ سب اس مقصد کو پانے کے لیے دل و جان سے اسلام کی ترقی کے لیے کوشاں ہو جائیں تو اسلام کی ترقی لازمی ہے، لیکن ابھی ہم اس سے بہت دور ہیں۔

دنیا داری اور اس دنیا کی چمک دمک سے لوگ متاثر ہیں۔ معصوم لوگ جنگوں میں مارے جا رہے ہیں اور یہ امیروں اور طاقتوروں کے صرف ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ہے۔

آپ واقفین کو اپنا کام معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ اس ذمہ داری کو مکمل اخلاص اور دعاؤں سے ادا کرنے والے بنیں گے۔

بطور واقفین نو آپ جہاں بھی ہیں اور جو بھی کام کر رہے ہیں آپ کو روزانہ مستقل بنیادوں پر جماعتی کاموں کو وقت دینا ہے اور تھکنا نہیں۔

حضرت ابراھیمؑ کی جو تعریف قرآن میں آئی ہے وہ اسی لیے ہے کہ جو وعدہ انہوں نے خدا سے کیا تھا باوجود مشکلات اور مصائب کے وہ اس پر پورے اترے اس لیے خدا نے ان کو وفا کرنے والا کہا۔ یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ہمارے لیے ایک عملی نمونہ ہے۔ اگر ہم بھی ایسا کریں گے تو ہم اپنے وعدے سے وفا کرنے والے ہوں گے۔ اور اپنے وعدے کو پورا نہ کرنے والے خدا تعالیٰ کو جواب دہ ہوں گے۔

آپ اور آپ کے بیوی بچوں کے وقف نو کی سکیم میں ہونے کا تبھی فائدہ ہے جب آپ سب اپنے وقف کے تقاضوں کو بھی نبھانے والے بنیں گے۔

اس کا معیار حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بتایا ہے کہ دنیا کی تمام آسائش اور آرام کو چھوڑ کر خدا کی راہ میں ہر قسم کی مشکل اورتکلیف قبول کرنا جو کہ دراصل موت قبول کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے لیے انسان کو ہر قسم کی تکلیف کو صبر سے برداشت کرنا ہو گا اور نیت خدا کی رضا کا حصول کرنا ہوگا۔ اگر ایک وقف زندگی کو یہ معیار حاصل ہو جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ وقف کے تقاضے پورا کرنے والا ہے۔

آپ نے صرف اپنے وقف کے تقاضے ہی نہیں نبھانے بلکہ اپنی نسلوں کے سامنے اچھا نمونہ بھی بننا ہے تا کہ اس کو دیکھ کر وہ بھی ایسا ہی کریں ورنہ اگر آپ ان کو صرف زبانی کہہ رہے ہیں تو آپ کی نسلیں بھی ایسا نہیں کریں گی کیونکہ ان کو آپ میں دو رنگی دکھائی دے گی۔

ایک اور طرح سے بھی یہ وقف کے تقاضے حاصل ہو سکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ ہر ایک قسم کی بت پرستی کو چھوڑ دیں۔ یہ بت صرف لکڑی یا پتھر کے ہی نہیں ہوتے بلکہ ہر وہ چیز جو کہ خدا کی راہ میں حائل ہو وہ بت ہے۔ اس لیے کسی چیز کو خدا کی راہ میں حائل نہ ہونے دیں۔

اگر آپ کی دنیاوی مصروفیت آپ کو نماز اور تلاوت قرآن کریم سے غافل کر رہی ہے تو یہ آپ کے لیے بت ہے جو خدا کے راستے میں آ رہا ہے ۔

اسی طرح ایک مومن اور خصوصاً واقفِ زندگی کو زیبا نہیں کہ دنیا کے ہی ہو کر رہ جائیں اور دین سے دور ہو جائیں ورنہ یہ دنیا داری کے پیچھے پڑنا آپ کے لیے بت بن جائے گا۔ جو بھی آپ کام کریں یہ نیت رکھیں کہ خدا کی رضا اور اسلام کی سربلندی لے لیے کرنا ہے تو آپ دیکھیں گے کس طرح کامیابی اور جنت کے دروازے آپ کےلیے کھلتے ہیں۔

دیکھیں! حضرت ابراھیمؑ سے کیسے اللہ نے آپ کے بیٹے کی قربانی مانگی اور جواب میں آپؑ نے اس بچہ کی گردن پر چھری رکھ دی۔ یہ آپ کے بچے کی بھی سعادت مندی تھی کہ خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لیے تیار ہو گیا۔

پس جو خدا کے لیے مصائب اور مشکلات کو برداشت کرتا ہے تو خدا خود اپنے بندے کو ان سے بچا لیتا ہے

جیسے کہ حضرت ابراھیمؑ کے واقعہ میں ان کے بچے کو بچالیا گیا اور مشکل میں نہ ڈالا گیا یا خود حضرت ابراہیمؑ کی مثال ہے کہ آگ آپ کے لیے ٹھنڈی ہو گئی۔

ہر واقف نو کو خدا کی راہ میں انہی قربانیوں کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ اگر نہیں تو محض نام کے وقفِ نو ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر آپ کے تقویٰ کے معیار، نمازوں کی ادائیگی، قرآن کریم کی تلاوت، اخلاقیات کا معیار، باہمی لین دین، دینی علم میں بڑھنا، جماعت کو وقت دینا، اپنے عزیز رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور محبت کے ساتھ رہنا، اپنے رفقائے کار کے ساتھ ہمدردانہ سلوک اور اپنے ہر عمل میں عاجزی عام لوگوں سے بڑھ کر نہیں اور اس کے بجائے آپ میں تکبر اور غرور ہے تو آپ کے واقفِ نو ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔

آپ اپنے اعمال کو نیکیوں میں بڑھاتے چلے جائیں، استقامت سے نیکیوں پر دوام فرض ہے ۔

حضرت مسیح موعودؑ نے بتایا کہ جیسے جنت میں داخل ہونے کے بہت سے دروازے ہیں اسی طرح جہنم میں بھی جانے کے بہت سے دروازے ہیں۔

اب جب آپ اس اجتماع سے واپس جائیں تو ان سب باتوں کو یاد رکھتے ہوئے عمل کریں۔ اگر آپ گھر جانے تک یہ باتیں بھول گئے تو آپ کے وقف نو ہونے کا نہ آپ کو کوئی فائدہ ہے اور نہ جماعت کو۔ اس لیے اپنے علمی اور عملی اوراخلاقی معیار کو بڑھانے والے بنیں تو ہی آپ کے اس وقف نو کی تحریک میں ہونے کا فائدہ ہے جو کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے شروع فرمائی تھی۔

اللہ کرے کہ آپ میں سے ہرکوئی اس روحانی انقلاب کو لانے والا بنے اور اللہ آپ کو وقف نو کے حقیقی مقاصد کو پورا کرنے والا بنائے اور آپ دنیا بھر میں حقیقی اسلام کی تعلیمات کو پھیلانے والے ثابت ہوں۔ آمین

حضور انور کا خطاب پانچ بج کر ۲۹؍ منٹ تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضور انور نے اختتامی دعا کروائی۔

اجتماع رپورٹ

یاد رہے کہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطاب سے قبل انس رانا صاحب سیکرٹری وقفِ نو جماعت احمدیہ برطانیہ نے اجتماع کی رپورٹ پیش کی۔ موصوف نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت وقف نو کے سالانہ اجتماع کا اختتامی اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ اجتماع کا افتتاحی اجلاس مکرم عبد الماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں آپ نے خلافت کی برکات اور دعاؤں کی طاقت کا تذکرہ کیا۔ اس کے بعد واقفین نو کو عمر کے اعتبار سے مختلف گروپس میں تقسیم کر کے پروگرامز کا انعقاد کیا گیا جس میں اسلام کی دیگر ادیان پر برتری، حقیقتِ خلافت اور ایک وقف زندگی کی زندگی کے موضوعات شامل تھے۔ چھوٹی عمر کے واقفین نو اور والدین کے لیے بھی ایک سیشن منعقد ہوا۔ بڑی عمر کے واقفین نو کے لیے پریزنٹیشنز منعقد ہوئیں جو عصرِ حاضر میں کیے جانے والے بعض اعتراضات پر تھیں۔ محترم امیر صاحب جماعت احمدیہ برطانیہ کے ساتھ ایک سوال و جواب کی مجلس بھی منعقد ہوئی۔

حاضری کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے موصوف نے بتایا کہ تجنید کےمطابق سات سال سے بڑی عمر کے واقفین نو کی کُل تعداد ۳ہزار ۴۹۰ ہے۔ امسال کُل حاضری ۴۶ فیصد یعنی ایک ہزار ۶۱۵؍ ہے جبکہ گذشتہ سال حاضری اکاون فیصد تھی۔ مہمانوں سمیت کل حاضری ۲۰۷۸؍ ہے۔

خاکسار اجتماع کمیٹی کے تمام ممبران کا شکر گزار ہے جنہوں نے ناظم اعلیٰ اجتماع عثمان احمد صاحب کی زیر نگرانی کام کیا۔ اسی طرح سیکرٹری صاحب وقف نو نے محترم امیر صاحب برطانیہ، ضیافت ٹیم، سمیع بصری ٹیم، بیت الفتوح مینجمنٹ، ایم ٹی اے کے کارکنان، وقف نو مرکزیہ، پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ یوکے اور مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کا شکریہ ادا کیا۔

آخر پر موصوف نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اجتماع کے دونوں دن (آن لائن) شرکت پر تشکر کے جذبات کا اظہار کیا اور حضور انور سے واقفین نو کے لیے درخواست دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button