دَور حاضر میں دعا کی طاقت کے نظارے(قسط اوّل)
یہ عجیب بات ہے کیا کوئی اس بھید کو سمجھ سکتا ہے کہ ان لوگوں کے خیال میں کاذب اور مفتری اور دجال تو میں ٹھہرا۔ مگر مباہلہ کے وقت میں یہی لوگ مرتے ہیں(حضرت اقدس مسیح موعودؑ)
خلافت خامسہ کے مبارک دور میں دعا کی طاقت کا ایک عظیم نظارہ تب دیکھنے کو ملا جب سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ قادیان ۲۰۰۵ء میں شرکت کا فیصلہ فرمایا اور یہ ہدایت دی کہ تمام خطابات و خطبات ایم ٹی اے کے ذریعہ سے براہ راست نشر ہوں۔ اُس وقت تک قادیان سے براہ راست پروگرام نشر ہونے کا نہ انتظام تھا نہ ہی تصور۔ جماعت کے منتظمین نے ایک براڈکاسٹنگ ٹی وی کمپنی سے معاہدہ کر لیا اور حکومت کو اجازت کے لیے جولائی میں درخواست بھی دے دی چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا مگر کوئی امید نظر نہ آتی تھی۔ آخر حضور دہلی پہنچ گئے اور ۱۵؍دسمبر کو حضور انور نے دہلی سے قادیان کے لیے روانہ ہونا تھا اور اجازت نہیں ملی تھی۔۱۴؍دسمبر کی صبح جب یہ صورت حال حضور کے علم میں لائی گئی تو حضور نے فرمایا میں اُس وقت تک قادیان نہیں جاؤں گا جب تک پروگرام لائیونشر کرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔اور دعاؤں میں لگ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعا کو قبول فرمایا اور اسی روز شام ۵ بجے اجازت نامہ آ گیا اور حضور کے پانچ خطبات جمعہ اور ایک خطبہ عیدالاضحی کے علاوہ جلسہ سالانہ کے تین خطابات بھی پہلی مرتبہ قادیان سے ایم ٹی اے پر براہ راست نشر ہوئے۔ (ہفت روزہ البدر قادیان ۱۹؍مئی ۲۰۲۲ء)خاکسار کو بھی قادیان میں یہ خطاب سننے کی توفیق ملی۔
اس دعا کی طاقت کی بشارت اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر دی ہے اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَیَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ۔ (النمل:۶۳) یعنی وہ کون ہے جو بےقرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دُور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اَور معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔
یعنی اللہ تمہاری اضطراری دعائیں سن کر تمہیں زمین میں خلافت اور تمکنت عطا کرے گا اور مشکلات دُور کرے گا۔ رسول کریم ﷺ کے ایک عرصہ بعد امت محمدیہ یہ سبق بھول گئی تب خدا نے دوبارہ اپنا نمائندہ بھیجا اور دوبارہ وہی نظارے دکھائے۔
مندرجہ بالا واقعہ اس دور میں دعا کی طاقت کا وہ نظارہ تھا جس کا آغاز حضرت مسیح موعودؑ نے یہ کہہ کرفرمایا کہ وہ جوعرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اورگونگوں کی زبانوں پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور ایک ایسا انقلاب عظیم پیدا ہواکہ نہ اس سے پہلے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ وہ ایک فانی فی اللہ محمد رسول اللہﷺ کی دعاؤں کا معجزہ تھا۔ (ماخوذ از برکات الدعا، روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۱۰)
رسول اللہﷺ کی دعاؤں اور قوتِ قدسیہ سے اس دَور میں وہ مسیح موعودؑ بھی آیا جس نے دعاکے مضمون کو دوبارہ زندہ کیا اس زمانہ کے بڑے بڑے دانشور دعا کو محض عبادت اور تسکین قلب کا موجب سمجھتے تھے۔ (روزنامہ الفضل ۲۸؍دسمبر ۲۰۱۵ء صفحہ۳۳)مسیح موعودؑ نے اسے ایک زبردست ہتھیار بناکر اپنی جماعت کے ہر فرد کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اس کی دعا نے رحمت کے نشان بھی دکھائے اور خدا کے غضب کے نظارے بھی دکھائے وہ مسیح موعودؑ کی دعا تھی جس نے بیماروں کو شفا دی۔ مردوں کو نئی زندگی دی۔بے اولادوں کے گھر اولاد سے بھرگئے اس کی دعا نے غریبوں کو شہرت دی اور بادشاہوں کے تخت و تاج اچھال دیے۔ اس کے خلفاء کا امتیازی نشان ہی قبولیت دعا ہے آئیے اس کے چند نظارے دیکھتے ہیں۔
٭…دعوے سے پہلے کی بات ہے کہ حضورؑ شدید بیمار ہو گئے اور موت تک نوبت پہنچ گئی آخری وقت سمجھ کر تین مرتبہ ا ٓپ کو سورت یٰسٓ سنائی گئی مگر خداتعالیٰ نے آپ کو خود دعا سکھائی سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم اللّٰھم صل علیٰ محمد وآل محمد۔اور اسے قبول فرما کر بغیر کسی دوا کے شفا بخشی۔ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۰۸)
٭…رحمت کے نظاروں میں ایک بڑا نشان اس مقدس روح کا ہے جو دعاؤں کے ذریعہ آسمان سے منگوائی گئی اس کا دائرۂ اثر قیامت تک پھیلا ہوا ہے وہ دعا ہی تھی جس نے چالیس دن کی گریہ و زاری سےمصلح موعود کو تخلیق کیا اور خدا نے فرمایا قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ (مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۸۵) حضرت مصلح موعود ؓنے ۵۲؍ سال تک جماعت احمدیہ کی قیادت فرمائی۔ وعدہ کے مطابق اس نے زمین کے کناروں تک شہرت پائی اور قومیں آج بھی اس سے برکت پا رہی ہیں۔
٭…بچپن میں حضرت مسیح موعودؑ کے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی آنکھیں بہت خراب ہوگئیں۔ پلکیں گر گئی تھیں اور پانی بہتا رہتا تھا۔ حضورؑ نے دعا کی تو الہام ہوا:’’بَرَّقَ طِفْلِیْ بَشِیْرٌ‘‘ یعنی میرے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں اچھی ہوگئیں۔ اس الہام کے ایک ہفتہ بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دے دی اور آنکھیں بالکل تندرست ہوگئیں۔(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ۶۰۸) اسے خدا نے قمر الانبیاء کے لقب سے نوازا۔ اس کی ظاہری اور باطنی بینائی کو برقی تجلی سے روشن کیاگیا۔ جس کی تحریریں ایک دل موہ لینے والا کلام ہے۔ اس کی کتاب سیرت خاتم النبیینؐ دشمنوں سے بھی خراج تحسین وصول کر چکی ہے۔
٭…طاعون کے دنوں میں حضرت مسیح موعودؑ کے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمد صاحبؓ بھی سخت بیمار ہوگئے۔ بالکل بیہوش ہوگئےاور نوبت موت تک پہنچ گئی۔ حضورؑ کو خیا ل آیا کہ اگر لڑکا ان دنوں میں فوت ہو گیا تو تمام دشمن اس کو طاعون کی موت ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کی پاک وحی کی تکذیب کریں گے قریباً رات کے بارہ بجے حضور نماز کے لیے کھڑےہوگئے فرماتے ہیں :مَیں اس خدا کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ میں نے کشفی نظر سے دیکھا کہ لڑکابالکل تندرست ہے۔ تب وہ کشفی حالت جاتی رہی اور میں نے دیکھا کہ لڑکا ہوش کے ساتھ چار پائی پر بیٹھا ہے اور لڑکے کی حالت بالکل تندرستی کی تھی۔ مجھے اس خدا کی قدرت کے نظارہ نے الٰہی طاقتوں اور دعا قبول ہونے پر ایک تازہ ایمان بخشا۔ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۸۸,۸۷)
اسی بچے کو الٰہی کلام میں بادشاہ اور حکم اور قاضی کے نام سے یاد کیا گیا۔ جسے خلافِ توقع عمر اور امارت دیے جانے کی پیشگوئی کی گئی۔(تذکرہ صفحہ ۶۵۸۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء) مسیح موعودؑ کی بعض پیشگوئیاں باپ، بعض بیٹے، اور بعض پوتے کے حق میں پوری ہو رہی ہیں۔ یعنی سیدی حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ کے متعلق جو اَب سریر آرائے منصب خلافت ہیں۔
٭…خدا نے ۲۳؍اگست ۱۹۰۶ء کو الہام کیاکہ آج کل کوئی نشان ظاہر ہو گا۔ پھر حضرت میر محمد اسحاق صاحب ؓکو بخار اور پھوڑے نکلے جو طاعون کی علامت ہے لیکن دعا کے بعد چند گھنٹوں میں بچہ ٹھیک ہو گیا اور کھیلنے کودنے لگ گیا۔ (حقیقةالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۴۰)یہ دعا کی طاقت تھی۔
حضورؑ نے ایک مرتبہ شدید دردِ گردہ کی حالت میں دعا کی۔ دعا ابھی ختم ہوئی ہی تھی کہ اللہ کے فضل سے آرام آگیا۔(تذکرہ صفحہ ۴۰۱ )یہ دعا کی طاقت تھی۔
٭…خواجہ غلام احمد یانپوری کے لڑکے کو کھانسی ہو گئی اس سے سانس باہر کھنچا جاتا تھا اور کئی منٹ تک واپس نہ آتا تھا اور بےہوش ہو جاتا تھا حضرت مسیح موعودؑ کو دعا کے لیے لکھا ابھی اس خط کا جواب نہ آیا تھا کہ وہ لڑکا اس عارضہ سے نجات پاگیااورمعلوم ہوا کہ جس روز حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے دعا کی تھی اسی روز لڑکا صحت یاب ہو گیا تھا۔(رجسٹر روایات نمبر۳ صفحہ ۵۰) یہ دعا کی طاقت تھی۔
بےشمار احمدیوں کو حضورؑ کی دعا سے اولاد نصیب ہوئی۔
٭…ایک صحابی حضرت منشی قدرت اللہ صاحبؓ کو ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ کی اولاد نہیں ہو سکتی انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں خط لکھا اور اپنی بیوی کے ہاتھ بھیج دیا حضور نے اسے فرمایا :تیری اتنی اولاد ہو گی کہ تو اسے سنبھال نہیں سکے گی اس کے بعد اس صحابیہ کے سولہ بچے پیدا ہوئے۔ (سیرت المہدی روایت ۱۳۴۱)
٭…حضرت میاں فضل محمد صاحب کو آنکھوں پر ہمیشہ پھنسیاں نکلتی رہتی تھیں۔ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ سے دعا کی درخواست کی تو حضور نے دعا کر کے ان کی آنکھوں پر دم کر دیا اس واقعہ کے تیس برس بعد وہ بیان کرتے ہیں کہ میری آنکھوں میں نہ کبھی درد ہوئی اور نہ کبھی پھنسیاں بنیں۔ (سیرت المہدی روایت نمبر ۱۲۴۷)
٭…میں اس نوجوان عبدالکریم کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں جو قادیان میں پڑھنے کے لیے آیا مگر اس کو باؤلے کتے نے کاٹ لیا۔ اس وقت کے ماہر انگریز ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ یہ لاعلاج ہے:Nothing can be done for Abdul karimمگر مسیح موعودؑ کا دل اس کے لیے تڑپ اٹھااور اس کی دعا سے گویا مردہ زندہ ہو گیا (حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۴۸۰ تا ۴۸۲) اوراس کے بعد لمبا عرصہ زندہ رہا اور اس کی اولاد بھی موجود ہے۔
٭…یہ واقعہ خلافتِ ثانیہ میں پھر دہرایا گیا۔ لکھنؤکے سیّد ارتضیٰ علی صاحب بچے تھے کہ ان کی ٹانگ میں زخم ہوگیااوربڑھتے بڑھتے ناسور بن گیا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ بچے کی زندگی چاہتے ہو تو فوراً ٹانگ کٹوا دو۔ گھروالے بھی راضی ہوگئے یہ دیکھ کر ارتضیٰ علی صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں خط لکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی دعا سے طالب علم عبدالکریم صحت مند ہو گیا تھا مَیں بھی طالب علم ہوں حضور دعا کریں کہ میری ٹانگ ٹھیک ہو جائے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ تم قادیان چلے آؤ وہاں حضور کی دعاؤں سے صحت مند ہو گئے ڈاکٹروں نے یہ بھی کہا تھاکہ تم شادی نہ کرنا۔ورنہ ٹانگ کی تکلیف دوبارہ لوٹ آئے گی لیکن حضرت مصلح موعودؓ کے مشورہ سے انہوں نے شادی بھی کی اور حضور کی دعاؤں کے طفیل نو بچے پیدا ہوئے۔ (روزنامہ الفضل ربوہ ۱۵؍جون ۱۹۶۷ء) یہ دعا کی طاقت تھی۔
٭…قادیان سے چار میل دور ایک گاؤں میں لچھمن سنگھ رہتاتھا اس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی۔ اس نے ایک صحابی حضرت منشی امام الدین صاحبؓ کے ذریعہ حضرت مصلح موعودؓ سے دعا کروائی۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعدا س کے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ لچھمن سنگھ اور اس کا بیٹا جلسہ سالانہ پر بٹالہ سے آنے والی سڑک پر احمدی دوستوں کو گنوں کا رس پلایا کرتا تھا ۔(الحکم جوبلی نمبر۲۰دسمبر ۱۹۳۹ء) اور لچھمن سنگھ کا بیٹا بتاتا تھا کہ میں مرزا صاحب کی دعا سے پیدا ہوا۔ اب میرا اتنا تو فرض ہے کہ میں ان کے مریدوں کی یہ تھوڑی سی خدمت کروں۔(الفضل انٹرنیشنل ۲۸ دسمبر ۲۰۱۸ء صفحہ ۹)
اس کے مقابل پر وہ لوگ بھی تھے جن کی نسل کو دعا کی طاقت نے برباد کر دیا۔ مثلاً:
٭…سعد اللہ لدھیانوی مسیح موعودؑ کو ابتر یعنی بے اولادی کے طعنے دیا کرتا تھا اس کے متعلق خدا نے فرمایا کہ وہ خود ابتر رہے گا چنانچہ اس کے بعد مسیح موعودؑ کے ہاں تین لڑکے پیدا ہوئے مگر سعد اللہ کے گھر کوئی اولاد نہ ہوئی اور جو لڑکا موجود تھا اس کی بھی کوئی اولاد نہ ہوئی وہ ابتر ہو گیا (حیات طیبہ صفحہ ۳۲۰)مگر مسیح موعودؑ کی اولاد ساری دنیا میں پھیل گئی ہے۔
٭…میں اس الیگزینڈر ڈوئی کا ذکر بھی کروں گا جو امریکہ کی سرزمین پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرتا تھا۔ مسیح موعودؑ نے ہزاروں میل دور قادیان سے اسے للکارا اور کہا کہ وہ میری دعا سے میری زندگی میں نیست و نابود ہوجائے گا چنانچہ وہ جب اپنی طاقت کے عروج پر تھا اس پر اور اس کے فرقہ پر اور شہر پر فالج گرا اور نہایت حسرت کے ساتھ چل بسا۔(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۰۴) یہ دعا کی طاقت تھی۔
٭…میں اس لیکھرام کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی کر کے مسیح موعودؑ کو بہت تڑپایا تب وہ خدا کے حضور جھکا اور فیصلہ کا طلبگار ہوا تو خدا نے اسے بتایا کہ یہ شخص زبان درازی کے جرم میں چھ سال کے عرصے میں غیر معمولی موت کا شکار ہو گا چنانچہ ۶؍مارچ ۱۸۹۷ء کو لیکھرام اس شخص کے ہاتھوں قتل ہوا جو اس کا مرید ہونے آیا تھا اور پھر قتل کے بعد ایسا غائب ہوا کہ آج تک اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ (تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحہ ۵۹۰ )یہ بھی دعا کی طاقت کا نظارہ تھا۔
لیکھرام کی موت کے بعد آریوں نے اس کے قتل کا الزام بڑی شدت سے مسیح موعودؑ پر لگایا ان کے اصرار پر حضرت مسیح موعودؑکے گھر کی تلاشی بھی ہوئی۔ پولیس کے وفد میں ایک میاں محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ بھی شامل تھا۔ دوران تلاشی میاںمحمد بخش کی ایک زیادتی پر حضورؑ نے فرمایا آپ تو اس طرح مخالفت کرتے ہیں مگر آپ کی اولاد میرے غلاموں میں داخل ہو جائے گی۔ (تاریخ احمدیت جلد ۱۷صفحہ۱۷۲)
بعد میں ایک مقدمہ کے دوران محمد بخش تھانیدار نے کہا کہ آگے تو مرزا مقدمات سے بچ کر نکل جاتا رہا ہے۔ اب میرا ہاتھ دیکھے گا۔ حضور نے فرمایا:’’اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔‘‘ تھوڑے عرصہ بعد اس کی ہتھیلی میں سخت درد شروع ہو گئی۔ وہ اس درد سے تڑپتا تھا۔ اور آخرطاعون سے چل بسا۔(سیرت المہدی جلد ۳۔تاریخ احمدیت جلد۱۷ صفحہ۱۷۲)اس کے بیٹے شیخ نیاز محمد صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ ایک مرتبہ وہ قادیان آئےتو حضرت ام المومنین کے لیے ایک کپڑا تحفہ کے طور پر لائے تو حضرت مسیح موعودؑ نےحضرت ام المومنین کو وہ کپڑا دے کر فرمایا کہ یہ کپڑا محمد بخش تھانیدار کے لڑکے نے دیا ہے جس نے لیکھرام کے قتل کے موقع پرتلاشی کے وقت تمہارے ٹرنک کھولے تھے۔ (سیرت حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ۴۷۱-۴۷۲)یہ دعا کی طاقت تھی۔
وہ دعا ہی تھی جس نے سلطان القلم سے پچاسی کتب تحریر کرائیں۔ اس نے ۱۸۹۶ء کے جلسہ مذاہب عالم کے لیے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘نامی مضمون لکھا جس کی سطر سطر پر دعا کی گئی اور تمام مذاہب پر وہ مضمون بالا رہا۔ دعاؤں نے اسے عربی کے ہزاروں مادے سکھائے اسے علم قرآن دیا۔ اعجازالمسیح جیسی سورت فاتحہ کی تفسیر سکھائی اعجاز احمدی جیسا قصیدہ عطا فرمایاجس کے ساتھ دس ہزار کا انعامی چیلنج ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی پُردرد دعاؤں نے طاعون کی شکل اختیار کی۔حضور نے اعلان فرمایا کہ یہ نشان میری صداقت کے لیے ظاہر ہوا ہے اس لیے میری تعلیم پر عمل کرنے والے احمدی اس بیماری سے متاثر نہیں ہوں گے۔ حکومت برطانیہ نے ویکسین کا انتظام کیا تھا مگر حضور نے احمدیوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ ٹیکا نہ لگوائیں تاکہ نشان ظاہر ہو۔ پیشگوئی کے مطابق طاعون آئی اور صرف پنجاب میں بائیس لاکھ ہلاکتیں ہوئیں خاص طور پر مسیح موعودؑ کے کئی بڑے بڑے مخالف اس کا شکار ہوئے۔ مولوی رسل بابا امرتسری۔ محمد بخش بٹالہ، چراغ دین جموں، نور احمد حافظ آباد، زین العابدین سیالکوٹی اس کے گھر کے سترہ افراد بھی طاعون سے مارے گئے۔ کریم بخش لاہور، حافظ سلطان سیالکوٹی گھر کے دس افراد کے ساتھ طاعون سے ہلاک ہوا۔ (حقیقة الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۴۴) یہ دعا کی طاقت تھی۔
٭…حضرت چودھری غلام حسین بھٹی صاحبؓ فرماتے ہیں: میں نے ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی۔ چند دن بعد میری بیوی اور بچےکو بخار ہوا۔گاؤں کے لوگوں نے مجھے مسجد سے نکال دیا اور کہا تو نے مرزا صاحب کی بیعت کی ہے اس لیے سب سے پہلے تیری بیوی بچے کو ہی طاعون ہوئی۔ میں نے گھبرا کر حضور کی خدمت میں خط لکھا۔ آپؑ نے جواب میں اللہ تعالیٰ آپ کی بیوی اور بچہ دونوں کو تندرست کر دے گا۔ دونوں زندہ رہےمگر اسی گاؤں میں ستر آدمی طاعون سے ہلاک ہوئے۔ (رجسٹر روایات نمبر ۱ صفحہ۲۲) یہ دعا کی طاقت تھی۔
٭…حضرت میاں فضل محمدؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں بھی طاعون شروع ہوئی تو میں نے حضورؑ سے دعا کی درخواست کی۔ فرمایا گھر چھوڑ کر کھلی ہوا میں چلے جاؤ۔چنانچہ میرے ساتھ گاؤں کے بہت سے لوگ باہر چلے گئے مگر میرا ایک چچا زاد بھائی باہر نہ گیا اور چند دن بعد طاعون سے مر گیا۔ (سیرت المہدی روایت نمبر ۱۵۵۴)
٭…۱۹۱۰ء کے اوائل میں ہندوستان میں پھر طاعون حملہ آور ہوئی۔ قادیان کے اردگرد طاعون سے اموات واقع ہوئیں تو حضرت خلیفہ اولؓ کی دعا سے وہ رُک گئی اور احمدی محفوظ رہے۔(الحکم ۷ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۴)
۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کوحضرت مسیح موعودؑ وفات پا گئے۔ حضرت ام المومنینؓ نے اپنے بچوں کو جمع کیا اور فرمایاکہ ’’بچو! گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لیے کچھ نہیں چھوڑ گئے۔ انہوں نے آسمان پر تمہارے لیے دعا ؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا۔‘‘(سیرت طیبہ صفحہ ۲۴۲)یہ خزانہ صرف جسمانی اولاد کے لیے نہیں تھا بلکہ قیامت تک آنے والی روحانی اولاد کے لیے بھی تھا جو سچی محبت اور اخلاص کے ساتھ آپ کے روحانی گھر میں مقیم رہیں گے اس کے سب سے پہلے اور بڑے وارث آ پؑ کے خلفاء ہیں۔
٭…حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ سے ایک احمدی فوجی افسر نے درخواست دعا کی کہ میں لڑائی میں بھی نہ جاؤں اور مجھے فلاں تمغہ بھی مل جائے۔ فرمایا بغیر لڑائی میں جانے کے کیونکر مل سکتا ہے۔ اس کے اصرار پر حضورؓ نے دعا کی۔ کچھ عرصہ بعد وہ آئے اور بتایا کہ تمغہ مل گیا ہے وجہ یہ بتائی کہ میرے نام حکم پہنچا کہ لڑائی کے میدان میں پہنچو۔ میں چل پڑا۔ راستہ میں حکم ملا کہ واپس چلے آؤ۔ صلح ہو گئی ہے مگر میں وہ شرائط پوری کرچکا تھا۔ جس کے عبور کرنے پر ایک فوجی افسر تمغہ کا حقدار ہوتا ہے۔ (اصحاب احمد جلد۳ صفحہ ۷۷)
یہ وہ شخص تھا جس نے خانہ کعبہ کو پہلی بار دیکھ کر دعا کی تھی کہ میں جب بھی کوئی دعا کروں تُو اسے قبول کرنا۔خدانے اس کی سن لی اور اس کی دعا نے عجیب معجزے دکھائے۔
٭…۱۹۰۹ء کے موسم برسات میں ایک دفعہ لگاتار آٹھ روز بارش ہوتی رہی جس سے قادیان میں سیلاب آ گیا۔ ایک دن حضرت خلیفةالمسیح الاوّلؓ نے ظہر کے بعد فرمایا کہ میں بارش رکنے کے لیےدعا کرتا ہوں۔ دعا کے وقت بارش بہت زور سے ہورہی تھی اس کے بعد بارش بند ہوگئی اور عصر کی نمازکے وقت آسمان بالکل صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ یہ دعا کی طاقت تھی۔(رزنامہ الفضل ۲۸؍دسمبر ۲۰۱۵ء صفحہ ۴۳)
٭…۲۰۰۴ء میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنائیجیریا سے بینن پہنچے تو عصر کا وقت تھا۔ موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ بارش کی وجہ سے نماز پڑھنا محال تھا۔ یہاں بارش شروع ہوجائے تو کئی کئی گھنٹے جاری رہتی ہے۔ حضورباہر تشریف لائے توامیرصاحب نے عرض کیاکہ بارش کی وجہ سے مشکل ہورہی ہے۔ حضورانور نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور فرمایا دس منٹ بعد نماز پڑھیں گے ابھی دو تین منٹ ہی گزرے تھے کہ بارش تھم گئی۔ آسمان صاف ہوگیا۔ اور دھوپ نکل آئی۔ (روزنامہ الفضل ۲۸ دسمبر ۲۰۱۵ء صفحہ ۴۳)یہ دعا کی طاقت تھی۔
٭…حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کا ایک ثمر حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ تھے۔ جن کی حیات قدسی حقیقت میں ایک قدسی کی سوانح ہے۔ ان کو نو دفعہ رؤیا میں خدا تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوئی۔(حیات قدسی جلد ۳ صفحہ ۵۴) خدا تعالیٰ کی طرف سے دعاؤں کا فوری جواب ان کے ساتھ خاص شفقت تھی۔ بیعت سے پہلے رؤیا میں گیارہ انبیاء کرام نے آپؓ کو گڑھے سے نکالا اور پھر رؤیا میں رسول اللہﷺ کے لشکر میں شمولیت کی۔ جن کے دامن میں جبریل امین نے چودھویں کا چاند ڈال دیا۔ (حیات قدسی جلد۱ صفحہ ۹، ۱۱)ان کی آپ بیتی حیات قدسی میں بیسیوں واقعات کا ذکر ملتا ہے کہ تبلیغی جلسوں سے پہلے بارش ہونے لگی تو مولوی صاحب کی دعاؤں سے رُک گئی اور پھر انہی بادلوں نے مخالفین کے جلسوں میں تباہی مچا دی۔
٭…حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ ایک گاؤں میں تبلیغ کے لیے گئے تو وہاں کے مولوی محمد عالم نے ان کو قتل کرنے کے لیے ایک آدمی جیون خان کومقرر کر دیا۔ راجیکی صاحب کو معلوم ہوا اور دعا کی تو الہام ہوا تَبَّتْ يَدَآ أَبِي لَهَبٍ وَّتَبَّ۔مَآ أَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَمَا كَسَبَ۔ چند دن بعد محمد عالم کو ایک بداخلاقی کی بنا پر مسجد کی امامت سے علیحدہ کر دیا گیا جیون خان ایک خطرناک بیماری کا شکار ہو گیا اورمولوی راجیکی صاحب سے گڑگڑا کر معافی مانگی وہ صحت یاب ہو گیا مگر مولوی محمد عالم کو خدا نے اس طرح پکڑا کہ اس کا جسم بالکل سیاہ ہو گیا اور اسی بھیانک مرض میں کوچ کر گیا۔(حیات قدسی جلد ۱ صفحہ ۲۶)
دعانے مخالفت کی آندھیوں کے آگے بھی بند باندھ دیے۔
٭…۱۹۳۴ء میں جب احراری حکومت برطانیہ کے بعض افسران کو ساتھ ملا کر قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی فکر میں تھے تومصلح موعودؓ کے خدا نے اس کی دعائیں سن کر ان کے پاؤں تلے سے زمین نکال دی۔
٭…۱۹۵۳ء میں جب ہر طرف آگ لگائی جا رہی تھی توحضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ میرا خدا میری مدد کے لیے دوڑا چلا آتا ہے۔
٭…یہ ہمارا چشم دید واقعہ ہے کہ جب عالم اسلام کے بہتر فرقے مل کر۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کو دائرہ اسلام سے باہر نکالنے اور اس کے ہاتھ میں کشکول پکڑانا چاہ رہے تھے۔ خدا اپنے پیارے مرزا ناصر احمد کو تسلی دے رہا تھا کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ اِنَّا کَفَیۡنٰکَ الۡمُسۡتَہۡزِءِیۡنَ کہ تم اپنے مکانات اور مقامات کو وسعت دو۔تمسخر کرنے والوں کا بندوبست ہم خود کریں گے۔ پھر ہم نے ان تمسخر کرنے والوں کو پھانسی پر جھولتے اور ہواؤں میں جلتے اور بکھرتے دیکھا۔ میں نے خود حضور کی زبان مبارک سے سنا کہ ۵۳ گھنٹے ۱۰ منٹ مجھ پر اسمبلی میں جرح ہوئی اور ۵۳ گھنٹے ۱۰ منٹ مَیں نے خدا کے فرشتوں کو اپنے پہلوؤں پر کھڑا پایا۔
۱۹۷۴ء میں احباب جماعت جن دکھوں سے گزر رہے تھے ان میں ان کا محبوب خلیفہ بھی ساتھ تھا۔ حضور کئی کئی راتیں مسلسل جاگ کر دعاؤں میں گزارتے۔
٭…صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے بتایا کہ ان دنوں وہ پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ ایک دن گوجرانوالہ سے امیر صاحب ضلع نے فون کیا کہ حضورؒ کو اطلاع کر دیں کہ سب احمدی ایک جگہ اکٹھے ہیں دشمن نے چاروں طرف سے گھیرلیاہے حضور دعا کریں۔ حضورؒ دعا میں لگ گئے تھوڑی دیر بعد فون آیا کہ خطرہ اَور بڑھ گیا ہے کچھ دیر بعد فون آیا کہ حضور کی خدمت میں ہمارا آخری سلام قبول ہو کیونکہ اب بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ حضورؒ جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور قریبی کمرے میں جا کر سجدے میں گر گئے اور جب کافی دیر بعد اٹھے تو فون آیا کہ خطرہ ٹل گیا ہے اور سب احمدی خیریت سے ہیں اس طرح خلافت کی بے قرار دعائیں موت کے منہ سے کھینچ لاتی ہیں۔ (الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍اکتوبر۲۰۲۳ء)
٭…جب ساری حکومتی مشینری اور ایجنسیاں حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو پکڑنے کے لیے سرگرم عمل تھیں تو خدا نے اپنی حفاظت میں انہیں دشمن کے نرغے سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچایا اور جماعت احمدیہ پر ترقی کا ایسا روشن باب وا کیا کہ دشمن کے ہاتھ پچھتاوے کے سوا کچھ نہ آیا۔
٭…حضرت میاں اللہ دتہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضر ت مسیح موعودؑ سے دعا کی درخواست کی کہ میرا والد سلسلہ کا سخت مخالف ہے۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ تم دعاوٴں میں لگے رہو اور ہم بھی دعا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ دعاوٴں کو ضائع نہیں کرے گا۔ والد صاحب نے بعدازاں سخت مخالفت کی سولہ سال برابر مخالفت پر اڑے رہے مگر میں دعا متواتر کرتا رہا۔ایک دفعہ جلسہ پر جانے کے لیے میں نے ان کو تحریک کی چنانچہ والد صاحب جلسہ پر آگئے اور جلسے کے دوران میں بیعت کرلی۔ (رجسٹر روایات نمبر ۳ صفحہ ۶۱) یہ دعا کی طاقت تھی۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:یہ عجیب بات ہے کیا کوئی اس بھید کو سمجھ سکتا ہے کہ ان لوگوں کے خیال میں کاذب اور مفتری اور دجال تو میں ٹھہرا۔ مگر مباہلہ کے وقت میں یہی لوگ مرتے ہیں۔
٭…میاں معراج دین لکھتے ہیں کہ ایسا ہی کریم بخش نام لاہور میں ایک ٹھیکہ دار تھا وہ سخت بے ادبی اور گستاخی حضور کے حق میں کرتا تھا اور اکثر کرتا ہی رہتا تھا میں نے کئی دفعہ اس کو سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا۔ آخر جوانی کی عمر میں ہی شکار موت ہوا۔
٭…حافظ سلطان سیالکوٹی نے ارادہ کیا تھا کہ سیالکوٹ میں حضورؑ کی سواری گزرنے پر آپ پر راکھ ڈالے آخر وہ سخت طاعون سے ۱۹۰۶ء میں ہلاک ہوا اور اس کے گھر کے نو یا دس آدمی بھی طاعون سے ہلاک ہوئے۔ حکیم محمد شفیع جو بیعت کرکے مرتد ہو گیا تھا اور سیالکوٹ کے محلہ لوہاراں کے لوگوں کے ساتھ مخالفت میں شریک ہو گیا۔ وہ بھی طاعون کا شکار ہوا اور اس کی بیوی اور اس کی والدہ اور اس کا بھائی سب یکے بعد دیگرے طاعون سے مرے اور اس کے مدرسہ کو جو لوگ امداد دیتے تھے وہ بھی ہلاک ہوگئے۔
٭…مرزا سردار بیگ سیالکوٹی جو اپنی گندہ دہنی اور شوخی میں بہت بڑھ گیا تھا ایک دن اس نے شوخی سے جماعت احمدیہ کے ایک فرد کو کہا کہ کیوں طاعون طاعون کرتے ہو ہم تو تب جانیں کہ ہمیں طاعون ہو پس اس سے دو دن بعد طاعون سے مرگیا۔
٭…مولوی رشید احمد گنگوہی پہلے اندھا ہوا اور پھر سانپ کے کاٹنے سے مر گیا اور بعض دیوانہ ہو کر مر گئے جیسا کہ مولوی شاہ دین لودھیانوی اور مولوی عبدالعزیز اور مولوی محمد اور مولوی عبداللہ لودھیانوی جو اول درجہ کے مخالف تھے تینوں فوت ہوگئے ایسا ہی عبدالرحمٰن محی الدین لکھوکے والے اپنے اس الہام کے بعد کہ کاذب پر خدا کا عذاب نازل ہوگا فوت ہوگئے۔
٭…حضورؑ فرماتے ہیں میں نے اپنی کتاب نورالحق کے صفحہ ۳۵ سے صفحہ ۳۸ تک یہ پیشگوئی لکھی ہے کہ خدا نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ رمضان میں جو خسوف کسوف ہوا یہ آنے والے عذاب کا ایک مقدمہ ہے۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق ملک میں ایسی طاعون پھیلی کہ اب تک تین لاکھ کے قریب لوگ مرگئے۔‘‘(حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ ۲۳۹,۲۳۸)
٭…عبد العزیز صاحب پٹواری سیکھواں کو طاعون کے دنوں میں بخار ہو گیا اور گلٹی بھی نکل آئی پھر حضور کی دعا سے شفا یاب ہو گئے۔ (سیرت المہدی روایت نمبر ۱۲۹۶ )
٭…میانی میں ایک صحابیہ کے بچے اسحاق کو دو سال کی عمر میں طاعون کی گلٹیاں نکل آئیں حضور کو دعا کے لیے لکھا اور لڑکا ٹھیک ہو گیا۔(سیرت المہدی روایت ۱۳۴۸)
(باقی منگل ۲۹؍اپریل کے شمارے میں ان شاء اللہ)
مزید پڑھیں: سفرایک رات کا