سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

ولی کے ہاتھ پر کرامت کا ظاہر ہونا اس کے پیشوا نبی کا معجزہ ہے اسی کرامۃ سے اس کا ولی ہونا ظاہر ہوتا ہے کیونکہ ولی وہی شخص ہے جو نبی کی اطاعت کا اقرار کرے اور اگر یہ ولی خود اپنی نبوت کا دعویٰ کرے تو یہ ولی ہو ہی نہیں سکتا اور نہ اُس کے ہاتھ پر کرامت ظاہر ہو سکتی ہے

براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میں ابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو

اِن تمثیلات کی نسبت فریق اوّل کا خیال و مقال اور اُس کا ابطال

اس بحث سے ثابت ہوا کہ تمثیلات ثلٰثہ قرآنیہ جن میں غیر نبی کا بعض مغیبات پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مطلع ہونا پایا جاتا ہے بلا مزاحمت ثابت ہیں اور ان تمثیلات کی نسبت فریق اوّل کا یہ خیال کہ وہ پہلی امتوں سے مخصوص ہیں یا یہ عذر کہ اس امت محمدیہ یا خاص کر صحابہ سے پچھلے اولیاء کی اطلاع غیب پر اسلام میں کوئی شہادت پائی نہیں جاتی صحیح نہیں۔ اور ان تمثیلات اور ان کی نظائر سے جو امّۃ محمدیہ میں پائی جاتی ہیں۔ یقیناً و قطعاً معلوم ہوتا ہے کہ آیۃ متمسکہ فریق اول میں غیر رسول کے لیے اطلاع غیب کی نفی مطلقاً ہرگز مراد نہیں اور استدلال نقلی فریق اول اس آیۃ سے بتقلید جار اللہ زمخشری معتزلی باطل ہے۔
استدلال عقلی (عوام فریق اول) بھی معتزلہ ہی کا استدلال ہے جو انہوں نے عموماً (الہام وغیرہ) کرامات اولیاء کی نفی میں پیش کیا ہے اور وہ کتب کلامیہ (شرح مواقف شرح عقائد۔ شرح فقہ اکبر۔ تمہید سالمی وغیرہ) میں منقول ہے۔ اور اس کا جواب بھی ان کتب میں موجود ہے۔ ہم اس مقام میں ان کتابوں کی اصل عبارات معہ حاصل مطالب جو اس استدلال کے علاوہ فریق اول کے اور وساوس و خیالات کے جواب پر بھی مشتمل ہیں نقل کرتے ہیں۔
شرح مواقف میں لکھا ہے: المقصد التاسع فی کرامات الاولیاء و انھا جایزۃ واقعۃ۔ اما جوازھا علی اصولنا فھو اَن وجود الممکنات مستند الی قدرتہ الشاملۃ و لا یجب غرض فی افعالہُ و لا شک ان الکرامۃ امر ممکن اذ لیس یلزم من فرض وقوعھا محال و امّا وقوعھا فلقصۃ مریم حیث حبلت بلا ذکر و وجد الرزق عندھا بلاسبب و تساقط علیھا الرّطب من النخلۃ الیابسۃ و جعل ہذہ الامور معجزہ لزکریا او ارھاصًا لنبّوۃ عیسی صلوۃ اللّٰہ علیھما مما لا یقدم علیہ منصف و قصۃ آصف و قصۃ اصحاب الکھف و شی منھا لم یکن معجزاً لفقد شرطہ و من انکر الکرامۃ احتج بانھا لا تتمیز عن المعجزۃ فلا تکون المعجزۃ ح دالۃ علی النبوۃ و ینسد باب اثباتھا و الجواب انھا تتمیز بالتحدی مع ادعائیہ النبّوۃ فی المعجزۃ و عدمہ التحدی مع ذالک الادعاء فی الکرامۃ۔ (شرح مواقف صفحہ ۷۰۲)
مقصد نہم اس بیان میں ہے کہ کرامات اولیاء (جن میں الہام غیبی بھی داخل ہے) جایز (ممکن) اور واقع ہیں۔ اس کا جواز تو ہمارے (اہلسنت کے) ان اصول سے ثابت ہے کہ ’’جو امر ممکن ہو خدا اس پر قادر ہے‘‘ اور خدا کے کسی فعل میں اس کی ذاتی غرض ضروری نہیں اور یہ ظاہر ہے کہ کرامت امر ممکن ہے کیونکہ اس کا وقوع فرض کرنے سے کوئی محال لازم نہیں آتا ہے اور اس کا وقوع حضرت مریم علیھا السلام کے ان حالات سے کہ ’’وہ بغیر مرد کے حاملہ ہو گئی اور اُس کے پاس رزق غیبی پہنچا اور خشک درخت خرما سے اُس پر کھجوریں گرائی گئیں‘‘ثابت ہے۔ (ان امور کو حضرت زکریا کا معجزہ (حاشیہ: سرگروہ فریق اوّل کے بعض دست گرفتہ لوگوں سے ہم نے یہی سنا ہے۔ یہ لوگ اس کے جواب کو جو اس مقام میں اور بصفحہ (۲۱۶) ہے بغور پڑھیں) یا نبوت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے انتظار (یا پیشگی معجزہ) قرار دینا ایسا امر ہے کہ کوئی منصف اس پر متوجہ نہیں ہو سکتا) اور قصہ آصف اور قصہ اصحاب کہف سے بھی ان کا وقوع ثابت ہے۔ ان امور سے معجزہ کوئی نہ تھا۔ کیونکہ مُعجزہ کی شرط (جس کا ذکر عنقریب آتا ہے) اس میں پائی نہیں گئی۔ جو لوگ کرامات کے منکر ہیں وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ کرامّۃ معجزہ کی مثل واقع ہو تو اُس میں اور معجزہ میں فرق نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں معجزہ دلیل نبوت نہیں رہتا اور اثبات نبوت کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ معجزہ اور کرامّۃ میں فرق یہ ہے کہ معجزہ میں دعویٰ نبوت کے ساتھ مقابلہ کا مطالبہ ہوتا ہے اور یہ امر کرامت میں نہیں ہوتا یعنی اس میں ولی اپنی نبوت کا دعویٰ کر کے بالمقابلہ کرامّۃ نہیں دکھاتا اور نہ اُس کا معارضہ چاہتا ہے۔
اور شرح عقاید نسفی میں ان تمثیلات وقوع کرامّۃ کے علاوہ بعض اولیاء اللہ کا پانی پر چلنا اور ہوا میں اڑنا اور بعض اولیاء سے حیوانات اور جمادات کا کلام کرنا اور حضرت عمر فاروق کا صف جنگ ساریہ کو غیب سے مشاہدہ کرنا اور حضرت خالد کا زہر کھانے سے ضرر نہ پانا اور حضرت فاروق کے فرمان سے دریاء نیل کا جاری ہونا وغیرہ نقل کر کے اِن کے مقابلہ میں اس استدلال معتزلہ کو نقل کیا اور اس کا جواب یہ دیا ہے کہ لما استدلت المعتزلۃ المنکرۃ لکرامۃ الاولیاء بانہ لوجاز ظھور خوارق العادات من الاولیاء لاشتبہ بالمعجزۃ و لم یتمیز النبی من غیر النبی اشار الی الجواب و یکون ذلک الظھور انی ظھور الخوارق من الولی الذی ھو من احاد الامۃ معجزۃ للرسول الذی ظھرت ھذا الکرامۃ لواحدٍ من امتہ لانہ یظھر بھا ای بتلک الکرامۃ انہ ولی و لن یکون محقًا فی دیانتہ و دیانتہ الاقرار بالقلب و اللسان برسالۃ رسولہ مع الطاعۃ لہ فی اوامرہ و نواھیہ حتی لو ادعیٰ ھذا الولی الاستقلال بنفسہ و عدم المتابعۃ لہ لم یکن ولیًا و لم یظھر ذلک علی یدہ۔ و الحاصل ان الخارق للعادۃ ھو بالنسبۃ الی النبی معجزۃ سواء ظھر من قبلہ او من قبل احاد امۃ۔ وبالنسبۃ الی امتہ کرامۃ لخلوہ عن دعوی نبوّۃ من ظھر ذلک من قبلہِ۔ (شرح عقاید) ولی کے ہاتھ پر کرامت کا ظاہر ہونا اس کے پیشوا نبی کا معجزہ ہے اسی کرامّۃ سے اس کا ولی ہونا ظاہر ہوتا ہے کیونکہ ولی وہی شخص ہے جو نبی کی اطاعت کا اقرار کرے اور اگر یہ ولی خود اپنی نبوت کا دعویٰ کرے تو یہ ولی ہو ہی نہیں سکتا اور نہ اُس کے ہاتھ پر کرامت ظاہر ہو سکتی ہے۔
حاصل یہ کہ امر خلاف عادت جو ہو وہ نبی کا معجزہ ہے۔ خود اس سے صادر ہو۔ خواہ اُس کی امت سے اور وہی امر امت کی نسبت کرامت ہے۔ معجزہ اس لیے نہیں کہ جس سے وہ سرزد ہوتا ہے اس کی طرف سے اپنی نبوت کا دعویٰ پایانہیں جاتا۔
اس کے بعد شرح عقاید میں معجزہ اور کرامّۃ میں وجوہ فرق بیان کی ہیں۔ ہم نے بنظرِ اختصار اور نیز اس خیال سے کہ بعض وجوہ فرق کا بیان اور کتب خصوصاً شرح فقہ اکبر کی عبارات میں اچھے طور پر ہوا ہے۔ پوری عبارت شرح عقاید کو نقل نہیں کیا۔
یہی جواب تمہید ابو شکور سالمی میں معتزلہ کے اس استدلال کا دیا ہے پھر اس کے معارضہ و مقابلہ میں مذہب اہلسنت پر یہ استدلال قائم کیا ہے کہ والذی یدل علی صحۃ ھذا ھو ان الکرامتہ لو لا یجوز اثباتھا للاولیاء فلا یجوز اثباتھا لانبیاء لان النبی قبل الوحی و قبل ظھور النبوّۃ یکون ولیا عند الناس و ان کان نبیًا عند اللّٰہ و یجوز اثبات الکرامۃ لہ قبل ظھور نبوّتہِ کما کان لنبینا علیہ السلام و کان لابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ و غیرھم من الانبیاء علیھم السلام فقبل الوحی و النبوّۃ یسمی عند الناس ولیًا فلو لا یجوز اثبات الکرامۃ للولی فلا یجوز اثباتہ للنبی قبل الوحی فلیکن فیہ نفی الکرامہ عن النبی صلعم و ھو محال۔ الی ان قال قبل الدعوی لا یحب الفرق بین النبی و الولی عند الناس و لا یحب الایمان قبل الدعوی و اذا ادعی فلا تبقی شبھتہ فلا یلزم۔ (تمہیدسالمی) اگر اولیاء کے لیے اثبات کرامت جایز نہ ہو تو نبی کے لیے بھی کرامات کا اثبات جائز نہ ہو گا۔ کیونکہ نبی دعویٰ ثبوت سے پہلے لوگوں میں ولی ہی کہلاتا ہے اور قبل نبوت اس کی کرامات کا ظاہر ہونا ممکن ہے۔ چنانچہ آنحضرت و حضرت ابراہیم و حضرت موسیٰ وغیرہ سے کرامات ظاہر ہوئی ہیں۔ پس اگر ولی کے لیے اثبات کرامات جایز نہ ہو تو قبل از وحی نبی کے لیے بھی جایز نہ ہو گا۔ اس میں آنحضرت کی کرامات کا قبل از وحی سرزد نہ ہونا لازم آتا ہے جو محال ہے یہ کہہ کر فرمایا ہے کہ قبل دعویٰ نبوّت نبی اور ولی میں فرق ضروری نہیں اور نہ نبی پر قبل دعویٰ نبوّت ایمان لانا واجب ہے اور جب دعویٰ نبوت ہو گا تو اس سے خود شبہ جاتا رہے گا۔ پس کرامت کا معجزہ میں شبہ ڈالنا ثابت نہ ہوا۔
ثم ظاھر کلام الامام الاعظم فی ہذا المقام موافق لما علیہ جمھور العلماء الاعلام من ان کل ما جازا فتکون کرامتہ لو لیٍ لا فارق بینھما الا التحدی خلاقا للقشیری و من تبعہ کان السبکی حث قالا الانحو ولد دون والد وقلب جماد بھیتمہ فلا تکون کرامتہ ھذا۔ و الکتاب و السنۃ ینطق بظھور الکرامۃ من مریم و صاحب سلیمان۔ و اما ما قیل من ان الاول ارھاص لنبوّۃ عیسیٰ علیہ السلام او معجزہ لزکریا و الثانی معجزہ لسلیمان علیہ السلام فمدفوع بانا لا ندعی الا جواز الخوارق لبعض الصالحین غیر مقرون بدعوی النبوّۃ و لا یضرنا تسمیتہ ارھاصًا او معجزۃ لنبی ھو من امۃ سابقًا او لا حقا و سیاق القصۃ یدل علی انہ لم یکن ھناک دعوی النبوۃ بل و لم یکن لزکریا علمًا بتلک القصۃ و الا لما سأل عن الکیفیتہ و الحاصل ان الامر الخارق للعادۃ فھو بالنسبۃ الی النبی معجزۃ سواء ظھر من قبلہ او من قبل امتہ لدلالتہ علی صدق نبوّتہ و رسالتہ فھذا الاعتبار جعل معجزۃ لہ و الا فحقیقتہ المعجزۃ ان تکون مقارنتہ للتحدی علی ید المدعی و بالنسبۃ الی الولی کرامۃ الی ان ذکر خوارق اعداء اللّٰہ (فرعون و دجّال) و قال انھا قضاء حاجات لاکرامات ثم قال و اعلم ان ظھور خوارق العادۃ بطریق الموافقتہ علی ید للمتالہ جائز دون المتمنبی لان ظھورہ علی ید المتبنی و یوجب انسداد باب معرفۃ النبی و اما ظھورہ علی ید المتالہ لا یوجب انسداد باب معرفۃ اللّٰہ لان کل عاقل یعرف ان المدعی المشتمل علی دلا لات الحدوث و سماۃ القصور لا یکون الھاً و ان رأی منہ الف خارق للعادۃ۔ (شرح فقہ اکبر)ظاہر کلام امام اعظمؒ اس مقام (فقہ اکبر) میں جمہور علماء کے موافق ہے کہ جو امر خارق عادت بطور معجزہ نبی کے لیے جائز ہے وہ بطور کرامت ولی کے لیے جائز ہے۔ معجزہ اور کرامت میں بجز تحدی کوئی فرق نہیں ہے۔ اس میں امام قشیری اور اُس کے متبع ابن السبکی کو اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں اس قسم کی کرامّۃ کہ ’’بدون باپ بیٹا تولد ہو یا پتھر کا جانور بن جائے‘‘ ولی سے سرزد نہیں ہوسکتی اس قسم کے سواء اور کرامات کا سرزد ہونا جائز ہے اور قرآن و حدیث ظہور کرامات (اولیاء) حضرت مریم اور آصف سے صاف ناطق ہیں۔ ان کرامات کی نسبت جو کہا گیا ہے کہ پہلے (کرامۃ حضرت مریم) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا پیشگی معجزہ تھا یا حضرت زکریا علیہ السلام کا معجزہ۔ اور دوسری (کرامۃ آصف) حضرت سلیمان کا معجزہ تھا۔ اس کا جواب (حاشیہ: دیکھو نوٹ صفحہ۲۱۲) یہ ہے کہ ہم کو تو صرف یہ دعویٰ ہے کہ امر خارق عادت جس کے ساتھ دعویٰ نبوت نہ ہو نبی کے سواء اور صالحین سے سرزد ہونا جائز و ممکن ہے اس کو کوئی ارہاص یا معجزہ اُس نبی کا جس کی امّۃ سے وہ سرزد ہوا ہے (نبی پہلا ہو خواہ پچھلا) کہے تو ہمارے دعویٰ کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔ اور قصہ کی روانگی (بیان) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بوقت ظہور خوارق مریم یا آصف کسی کی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا گیا۔ بلکہ حضرت زکریا کو تو خوارق حضرت مریم کا علم بھی نہیں تھا ورنہ آپ اس کی کیفیت نہ پوچھتے۔ حاصل یہ کہ امر خلاف عادت نبی کے حق میں معجزہ ہے اُس سے ظاہر ہو خواہ اُس کی امّۃ سے۔ کیونکہ وہ نُبوّت نبی کی صداقت پر شہادت دیتا ہے۔ اسی لحاظ سے اس کو معجزہ کہا گیا ہے۔ ورنہ حقیقت میں تو معجزہ وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ دعویٰ نبوّت اور تحدی (طلب معارضہ) مقرون ہو۔ اور وہی امر خلاف عادت ولی کے حق میں کرامت ہے اس کے بعد ملا علی قاری نے امور خلاف عادت اعداء دین فرعون و دجّال وغیرہ کو ذکر کیا اور ان میں اور معجزات انبیاء میں یہ فرق بتایا کہ خوارق اعداء دین کو کرامّۃ نہیں کیا جاتا۔ ان لوگوں کی حاجت روائی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جس سے مقصود ان لوگوں کی اہانت و عقوبت ہے پھر فرمایا کہ یہ جان رکھو کہ اعداء دین سے جو مدعی الوہیت ہو اُس کے ہاتھ سے ایسے خوارق عادت کاظاہر ہونا جائز ہے نہ اُس شخص کے ہاتھ سے جو خود بخود نبی بن بیٹھے یہ اس لیے کہ ناحق مدعی نبوت کے ہاتھ پر ایسے امور ظاہر ہوں تو سچے نبی کی نبوت کے پہچان کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور اس میں اور جھوٹے نبی کے امر خارق عادت میں فرق معلوم نہیں ہوتا۔ اور مدعی الوہیت سے امر خارق عادت ظاہر ہوتو خدا تعالیٰ کی ربوبیت کی پہچان کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔ کیونکہ جھوٹے مدعی الوہیت کا جھوٹ اس کے حال سے کہ وہ حادث (نو پیدا) ہے اور اس میں علامات نقصان و عجز (کھانا پینا جگہ کا محتاج ہونا وغیرہ) پائے جاتے ہیں ظاہر ہو جاتا ہے۔ خواہ اس سے ہزار امر خارق مشاہدہ میں آوے۔
ان تقریرات و عبارات میں عقلی استدلال فریق اوّل کا جواب مع زوائد و فوائد ادا ہوا اور بخوبی ثابت ہو گیا کہ ولی کا الہام غیبی یا اس کی اور کرامات وہبی الہام انبیاء اور ان کے اور معجزات میں شبہ انداز نہیں ہیں۔بلکہ اور مؤید اور منکروں کےلئے تازہ شواہد و نظائر ہیں۔ خصوصاً ایسے شخص کے الہامات و کرامات جو اُن کو اپنے نبی کی نبوت کی تائید و شہادت میں پیش کرے اور منکرین الہام نبی کو اُس کے نظائر دکھائے اور بصد زبان یہ کہے کہ یہ سب برکات میرے نبی افضل الرسل کے متبع اور خادم ہونے کا صدقہ ہے اور اِسی کی کرامات و معجزات چنانچہ مؤلف براہین احمدیہ سے واقع (حاشیہ: اس کی کتاب کا صفحہ ۲۴۳ و صفحہ ۴۸۸ و صفحہ ۴۹۹و صفحہ ۵۲۱ و صفحہ ۵۵۸ وغیرہ کو ملاحظہ میں لاؤ اور قیامت کو حساب کو ایمان کو قرآن کو پیش چشم رکھ کر خلاف واقع سوء ظن سے باز آؤ۔) ہوا ہے۔
مقالات و استدلالات فریق اول کا جواب تمام ہوا۔ اب فریق دوم (لودہیانہ کے مکفرین)کا جواب و خطاب شروع ہوتا ہے۔(باقی آئندہ)

مزید پڑھیں: تمام برکات خلیفۃ المسیح کی اطاعت میں مضمرہیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button