حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

عہدیداران کو چند زریں نصائح

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۸؍اگست ۲۰۰۳ء)

ہمارے نظام جماعت میں عہدیداروں کا نظام مختلف سطحوں پرہے۔ اس زمانے میں ہر احمدی جہاں، جس ملک میں رہتاہے اس ملک میں دنیاوی سطح پر امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرنے کی کوشش کرتاہے، ان تک پہنچانے کی کوشش کرتاہے۔ اور اس کا فرض ہے کہ اپنے اس فرض کی صحیح ادائیگی کرے اور حق دار لوگوں تک اس امانت کو پہنچائے وہاں نظام جماعت بھی ہر احمدی سے خواہ عہدیدار ہو یا عام احمدی اس سے یہی توقع رکھتاہے کہ وہ اپنی امانتوں کی صحیح ادائیگی کرے۔ ا ب سب سے پہلے تو افراد جماعت ہیں جو نظام جماعت چلانے کے لئے عہدیدار منتخب کرتے ہیں ۔ان کا کیا فرض ہے، انہوں نے کس طرح جماعت کی اس ا مانت کو جو ان کے سپرد کی گئی ہے صحیح حقدار وں تک پہنچانا ہے۔تواس کے لئے جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں انتخابات سے پہلے قواعد بھی پڑھ کر سنائے جاتے ہیں ،عموما ً یہ جماعتی روایت ہے۔دعا کرکے اپنے ووٹ کے صحیح استعمال کی کوشش کی جاتی ہے اورپھر آپ کس کو ووٹ دیتے ہیں یا کم از کم یہی ایک متقی کی کوشش ہونی چاہئے کہ اس کو ووٹ دیا جائے جو آپ کے نزدیک سب سے زیادہ اللہ کاخوف رکھنے والاہے۔ جس عہدے کے لئے منتخب ہو رہاہے اس کا کچھ نہ کچھ علم بھی اس کو ہو۔ پھر جماعت کے کاموں کے لئے وقت بھی دے سکتاہو۔ جس حد تک اس کی طاقت میں ہے وقت کی قربانی بھی دے سکتاہو۔ پھر صرف اس لئے کسی کو عہدیدار نہ بنائیں کہ وہ آپ کا عزیز ہے یا دوست ہے۔اور اتنا مصروف ہے کہ جماعتی کاموں کے لئے وقت نکالنا مشکل ہے۔لیکن عزیز اور دوست ہونے کی وجہ سے اس کو عہدیدار بنانے کی کوشش کی جائے تو یہ ہے امانت کے حقدار کو امانت کو صحیح طرح نہ پہنچانا۔ اس نیت سے جب انتخابات ہوں گے کہ صحیح حقدار کو یہ امانت پہنچائی جائے تو اس میں برکت بھی پڑے گی، انشاء اللہ۔اور اللہ سے مدد مانگنے والے، نہ کہ اپنے اوپر ناز کرنے والے، اپنے آپ کو کسی قابل سمجھنے والے عہدیدار اوپر آئیں گے۔ اور جن کے ہر کام میں عاجزی ظاہر ہوتی ہوگی اور یہی لوگ آپ کے حقوق کا صحیح خیال رکھنے والے بھی ہوں گے۔اورنظام جماعت کو صحیح نہج پر چلانے والے بھی ہوں گے۔بعض دفعہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں عہدیدار بناؤ۔ ان کے بارہ میں یہ حدیث ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح اوّل نے حقائق الفرقان میں Quote کی ہے کہ حضرت نبی کریم ؐکے روبرو دو شخص آئے کہ ہمیں کام سپرد کیجئے، ہم اس کے اہل ہیں ۔ فرمایا: جن کو ہم حکم فرمادیں ، خُدا اُن کی مدد کرتا ہے۔ جو خود کام کو اپنے سر پر لے، اس کی مدد نہیں ہوتی۔ پس تم عہدے اپنے لئے خود نہ مانگو۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد نمبر ۲صفحہ ۳۰)
پھر عہدیداران ہیں ان کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے بلکہ جماعت کاہر کارکن یہ بات یاد رکھے کہ اگر کسی دفتر میں کسی عہدیدار کے پاس کوئی معاملہ آتاہے یا کسی کارکن کے علم میں کوئی معاملہ آتاہے چاہے وہ ان کی نظر میں انتہائی چھوٹے سے چھوٹا معاملہ ہو۔وہ اس کے پاس امانت ہے اور اس کوحق نہیں پہنچتا کہ اس سے آگے یہ معاملہ لوگوں تک پہنچے۔ ایک راز ہے، ایک ا مانت ہے،پھر کسی کی کمزوریوں کو اچھالنا تو ویسے بھی ناپسندیدہ فعل ہے اور منع ہے بڑی سختی سے منع ہے۔ اور بعض دفعہ تو یہ ہوتاہے کہ کسی بات کا وجود ہی نہیں ہوتا اوروہ بات بازار میں گردش کر رہی ہوتی ہے۔ اورجب تحقیق کرو تو پتہ چلتاہے کہ فلاں کارکن نے فلاں سے بالکل اور رنگ میں کوئی بات کی تو جو کم از کم نہیں تو سو سے ضرب کھا کر باہر گردش کررہی ہوتی ہے۔ تو جس کے متعلق بات کی جاتی ہے جب اس تک یہ بات پہنچتی ہے تو طبعی طورپر اس کے لئے تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ اول تو بات اس طرح ہوتی نہیں اور اگر ہے بھی تو تمہیں کسی کی عزت اچھالنے کا کس نے اختیار دیاہے۔
پھر مشورے ہیں اگر کوئی کسی عہدیدار سے یا کسی بھی شخص سے مشورہ کرتاہے تو یہ بالکل ذاتی چیز ہے،ایک امانت ہے۔ تمہارے پاس ایک شخص مشورہ کے لئے آیا، تم نے اپنی عقل کے مطابق اسے مشورہ دیا تو تم نے امانت لوٹانے کا حق ادا کردیا۔ اب تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ اس مشورہ لینے والے کی بات آگے کسی اور سے کرو۔اور اگر کرو گے تو یہ خیانت کے زمرے میں آ جائے گی۔عہدیداران کو بھی، کارکنان کو بھی اس حدیث کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرنا۔سائل نے عرض کیا :یا رسو ل اللہ ! ان کے ضائع ہونے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا:جب نااہل لوگوں کو حکمران بنایا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔ (بخار ی۔کتاب الرقاق۔باب رفع الامانۃ)
پھرطبرانی کبیر میں یہ روایت آئی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: جس میں امانت نہیں ، اس میں ایمان نہیں جس کو عہد کا پاس نہ ہو اس میں دین نہیں ، اُس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے کسی بندے کا اُس وقت تک دین درست نہ ہوگا جب تک اُس کی زبان درست نہ ہو۔ اور اُس کی زبان درست نہ ہوگی جب تک اُس کادل درست نہ ہوگا۔ اور جو کوئی کسی ناجائز کمائی سے کوئی مال پائے گا اور اُس میں سے خرچ کرے گا تو اُس کو اُس میں برکت نہیں دی جائے گی، اور اگر اُس میں سے خیرات کرے گا تو قبول نہیں ہوگی اور جو اُس میں سے بچ رہے گا وہ اُسے دوزخ کی طرف لے جانے کا موجب ہوگا۔ بُری چیزبُری چیز کا کفارہ نہیں بن سکتی ہے، البتہ اچھی چیز اچھی چیز کا کفارہ ہوتی ہے۔ (المعجم الکبیر الطبرانی جلد ۱۰ صفحہ ۲۲۷)
ہمیشہ یادرکھنا چاہئے عہدیداران کو، کارکنان کو کہ عہدہ بھی ایک عہد ہے، خدمت بھی ایک عہد ہے جو خدا اور ا س کے بندوں سے ایک کارکن، ایک عہدیدار، اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے کرتاہے۔ اگر ہر عہدیدار یہ سمجھنے لگ جائے کہ نہ صرف قول سے بلکہ دل کی گہرائیوں سے اس بات پر قائم ہو کہ خدمت دین ایک فضل الٰہی ہے۔ میری غلط سوچوں سے یہ فضل مجھ سے کہیں چھن نہ جائے تو ہماری ترقی کی رفتار اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ہم سب کے لئے لمحہ ٔفکریہ ہے، ایک سوچنے کا مقام ہے کہ امانت ایمان کا حصہ ہے، اگر امانت کی صحیح ادائیگی نہیں کر رہے،اگر اپنے عہد پر صحیح طرح کاربند نہیں ،جو حدود تمہارے لئے متعین کی گئی ہیں ان میں رہ کر خدمت انجام نہیں دے رہے تو اس حدیث کی رُو سے ایسے شخص میں دین ہی نہیں اور دین کو درست کرنے کے لئے اپنی زبان کو درست کرنا ہوگا۔ اور فرمایا کہ زبان اس وقت تک درست نہ ہوگی جب تک دل درست نہ ہوگا۔ اور پھر ایک کڑی سے دوسری کڑی ملتی چلی جائے گی۔ تو حسین معاشرے کو قائم رکھنے کے لئے ان تمام امور کی درستگی ضروری ہے۔
ایک بات اور واضح ہو کہ صرف منہ سے یہ کہہ دینے سے کہ میرا دل درست ہے،کافی نہیں ۔ ہروقت ہم میں سے ہرایک کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ دلوں کا حال جانتاہے۔ وہ ہماری پاتال تک سے واقف ہے۔وہ سمیع و بصیر ہے اس لئے اپنے تمام قبلے درست کرنے پڑیں گے۔ تو خدمت دین کرنے کے مواقع بھی ملتے رہیں گے۔تو یہ تقویٰ کے معیار قائم رہیں گے تو نظام جماعت بھی مضبوط ہوگا اور ہوتا چلا جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ ایسے عہدیدار جو پورے تقویٰ کے ساتھ خدمت سرانجام دیتے ہیں اور دے رہے ہیں ان کے لئے ایک حدیث میں جو مَیں پڑھتاہوں ، ایک خوشخبری ہے۔ حضرت ابوموسیٰ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ وہ مسلمان جو مسلمانوں کے اموال کا نگران مقرر ہوا اگر وہ ا مین اور دیانتدار ہے اور جو اسے حکم دیا جاتاہے اسے صحیح صحیح نافذ کرتاہے اور جسے کچھ دینے کا حکم دیا جاتا ہے اسے پوری بشاشت اور خو ش دلی کے ساتھ اس کاحق سمجھتے ہوئے دیتاہے تو ایساشخص بھی عملاً صدقہ دینے والے کی طرح صدقہ دینے والا شمار ہوگا۔ (مسلم کتاب الزکوٰۃ باب اجر الخازن الامین والمرأۃ…)
تو دیکھیں نیکی سے کس طرح نیکیاں نکلتی چلی جا رہی ہیں ۔ خداکی جماعت کی خدمت کا موقع بھی ملا،خدا کی مخلوق کی خدمت کا موقع بھی ملا، حکم کی پابندی کرکے، امانت کی ادائیگی کر کے، صدقے کا ثواب بھی کما لیا۔ بلاؤں سے بھی اپنے آپ کو محفوظ کر لیا۔اور اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہو گئی۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: عہدیداران اور واقفین اپنے اور دوسروںکے علمی معیار بلند کرنے کی کوشش کریں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button