مذہبی آزادی اور جہاد کی حقیقت
مذہبی امور میں آزادی ہونی چاہیے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ(البقرۃ: ۲۵۷) کہ دین میں کسی قسم کی زبردستی نہیں ہے۔اس قسم کا فقرہ انجیل میں کہیں بھی نہیں ہے۔لڑائیوں کی اصل جڑ کیا تھی۔اس کے سمجھنے میں ان لوگوں سے غلطی ہوئی ہے۔اگر لڑائی کا ہی حکم تھا تو تیرہ برس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو پھر ضائع ہی گئے کہ آپ نے آتے ہی تلوار نہ اٹھائی۔صرف لڑنے والوں کے ساتھ لڑائیوں کا حکم ہے۔اسلام کا یہ اصول کبھی نہیں ہوا کہ خود ابتداءِ جنگ کرے۔لڑائی کا کیا سبب تھا اسے خود خدا نے بتلایا ہے کہ ظُلِمُوْا (الحج:۴۰) خدا نے جب دیکھا کہ یہ لوگ مظلوم ہیں تو اب اجازت دیتا ہے کہ تم بھی لڑو۔یہ نہیں حکم دیا کہ اب وقت تلوار کا ہے تم زبردستی تلوار کے ذریعہ لوگوں کو مسلمان کرو بلکہ یہ کہا کہ تم مظلوم ہو اب مقابلہ کرو۔مظلوم کو تو ہر ایک قانون اجازت دیتا ہے کہ حفظِ جان کے واسطے مقابلہ کرے۔ایسے خیالات کی اشاعت کا الزام پادریوں پر نہیں ہے بلکہ اسے خود ملّانوں نے اپنے اوپر پختہ کیا ہے خدا کا ہرگز یہ منشا نہیں ہے کہ ایک غافل شخص جسے دین کی حقیقت معلوم نہیں ہے اسے جبراً مسلمان کیا جاوے۔اب ایک بنیا جس کی عمر پچاس یا ساٹھ سال کی ہے اور اسے دین کی خبر ہی نہیں تو اس کے گلے پر تلوار رکھ کر اس سے لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کہلانے سے کیا حاصل ہوگا؟ خدا تعالیٰ کا منشا ہے کہ غفلت چونکہ بہت ہو گئی ہے۔اب دلائل سے سمجھادے اگر جہاد کرے بھی تو کس سے کرے؟ سب سے اول تو انہیں مسلمانوں سے کرنا چاہیے کہ جنہوں نے دین کو تباہ کر دیا ہے۔صحابہ کرامؓ تو خد اکے فرشتے تھے۔اور جب ناعاقبت اندیش لوگوں نے تلواریں اٹھائیں تو خدا نے ان کے ذریعہ ان کو سزائیں دلوائیں۔مگر آج کل کے یہ لوگ کہ جن کی مثال ڈاکوئوں کی ہے کیا یہ خدا کے وکیل ہوسکتے ہیں؟ قرآن سے تو ثابت ہوتا ہے کہ کافر سے پہلے فاسق کو سزا دینی چاہیے۔خدا نے اسی لئے چنگیز خان کو ان پر مسلّط کر دیا تھا تاکہ مماثلت پوری ہو جیسے یہودیوں پر بخت نصر کو متعین کر دیا تھا ویسے ہی ان پر چنگیز خان کو۔اس کے وقت میں ایک بزرگ تھے ان کے پاس لوگ گئے کہ وہ دعا کریں۔انہوں نے جواب دیا کہ تمہاری حرام کاریوں کی وجہ سے ہی تو چنگیز خان مسلّط ہواہے۔قتل کے بعد سنا ہے کہ چنگیز خان نے اسلام کے علماء فضلاء کو بلا کر پوچھا کہ اسلام کیا ہے انہوں نے کہا کہ پنج وقتہ نماز ہے۔کہنے لگا کہ یہ تو عمدہ بات ہے کہ اپنے کاروبار میں پانچ وقت دن میں خدا کو یاد کرنا۔پھر انہوں نے زکوٰۃ بتلائی اس کی بھی تعریف کی۔ تیسرے انہوں نے حج بتلایا اس کی اسے سمجھ نہ آئی۔اس کے بیٹے کااسلام کی طرف رجوع تھا مگر آخر پوتا بالکل مسلمان ہو گیا۔اسی طرح بخت نصر یہودیوں پر مسلّط ہوا تھا۔مگر خدا نے اسے کہیں ملعون نہیں کہا ہے بلکہ عِبَادًا لَّنَا(بنی اسرائیل: ۶) ہی کہا ہے۔یہ خدا کا دستور ہے کہ جب ایک قوم فاسق فاجرہوتی ہے تو اس پر ایک اور قوم مسلّط کر دیتا ہے۔
(ملفوظات جلد ۴، صفحہ ۲۹ تا ۳۱، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
مزید پڑھیں: ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں