ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب(دورہ یورپ۔ ستمبر و اکتوبر ۲۰۱۹ء کے چند واقعات۔ حصہ سوم)
اے چھاؤں چھاؤں شخص!تری عمر ہو دراز
Strasbourgمیں آمد
۹؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے Strasbourgکا سفر اختیار فرمایا جہاں آپ نے دورہ ٔفرانس کے آخری ایام گزارنے تھے۔
احمدیوں کے جذبات
۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو حضورِ انور نے اسٹراسبرگ میں فیملی ملاقاتیں فرمائیں۔حضور سے ملاقات کرنے والوں میں ایک اُنیس سالہ نوجوان خالد کامران بھی تھا جو ۲۰۱۳ء میں پاکستان سے فرانس براستہ چین ہجرت کر کے آیاتھا۔حضورِ انور سے پہلی مرتبہ ملاقات کے فوراً بعدکامران نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میں جب پاکستان میں تھا یا چین میں یا اب یہاں فرانس میں ہوں تو میں نے کبھی تصوّر بھی نہیں کیا تھا کہ ایک دن حضرت خلیفۃ المسیح (ایدہ اللہ تعالیٰ) سے ملاقات کا شرف حاصل ہوگا۔ حضور نہایت حسین ہیں۔ اُن کی آواز میری توقع سے زیادہ دلکش تھی، مگر ان کا لہجہ ایسا پُرتاثیر تھا جس سے میرے دل کو سکون ملا۔ حضور کو دیکھ کر میرے ایمان میں مزید یقین اور مضبوطی پیدا ہوگئی ہے۔ مغربی معاشرے میں بہت سی دنیاوی ترغیبات موجود ہیں لیکن حضور کو دیکھنے کے بعد میں نے یہ پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ میں ان لغویات سے دُور رہوں گا اور اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزاروں گا۔
کامران نے مزید کہا کہ فرانس کے لوگ یاکم از کم جن سے میرا واسطہ پڑا ہے، اسلام کے بارے میں وسیع النظر سوچ نہیں رکھتے۔ وہ ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں اور اگر کھل کر نہیں بھی کہتے تو محسوس کیا جا سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں یہی خیال ہے۔ میں نہایت شکر گزار ہوں کہ حضور یہاں تشریف لائے ہیں کیونکہ ان کی موجودگی اور صرف ان کی موجودگی ہی ان لوگوں کے دل بدل سکتی ہے۔
اسی شام حضور سے ملاقات کرنے والوں میں اڑتیس سالہ ایک مراکشی نو احمدی Kharicha Rashid بھی شامل تھےجو اسٹراسبرگ میں رہتے ہیں ۔ جب وہ خود ابھی کم عمر نوجوان ہی تھےتو ان کے بڑے بھائی نے ۱۹۹۰ء کی دہائی میں احمدیت قبول کر لی تھی۔ Kharicha صاحب نے اپنے احمدیت قبول کرنے کے سفر کے بارے میں بتایا کہ میں کبھی کبھار اپنے بھائی کے ساتھ احمدیہ مسجد جایا کرتا تھا۔ میں کم عمر تھا لیکن اس وقت بھی مجھے محسوس ہوتا تھا کہ احمدیت سچی ہے اور اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے۔ لیکن میں بہت چھوٹا تھا اور مجھ میں نہ تو صلاحیت تھی اور نہ ہی ہمت کہ میں احمدیت قبول کر سکوں۔ سچ کہوں تو اُس وقت میں اتنا مذہبی بھی نہیں تھا۔میں نے بالآخر رواں سال کے اوائل میں احمدیت قبول کی جس کے بعد سے میں نے سگریٹ نوشی ترک کر دی ہے ، ملازمت بھی حاصل کرلی ہے اور سب سے بڑھ کر میرے دل کو حقیقی سکون حاصل ہو گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ احمدیت ہی وہ واحد سبب تھا جس کی بدولت میں انتہا پسند بننے سے بچ سکا ورنہ میں بھی فرانس کے دوسرے بہت سے مسلمانوں کی طرح انتہا پسندی کی طرف جا سکتا تھا۔ وہ سب میرے جیسے ہی لوگ ہیں لیکن میں خوش قسمت تھا ۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے Kharicha صاحب نے کہا کہ نائن الیون(۱۱؍۹) کے بعد سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت میں شدید اضافہ ہوا اور بطور مسلمان ہم نے اسے محسوس بھی کیا۔ ہمیں غصہ تھا اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا صرف احمدیوں اور ان کی تعلیمات کو جاننے کی وجہ سے میں نے اس نفرت کا جواب شدت پسندی یا انتہا پسندی کے ذریعے نہیں دیا۔ میں نے غیر احمدی اماموں کو دیکھا جو آ کرہم جیسے نوجوانوں کو پُرتشدد جہاد کے لیے بھڑکاتے تھے۔ میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو انتہا پسند تنظیموں کے لیے فنڈز جمع کررہے تھے۔ میری جنریشن کے بہت سے نوجوانوں کو انتہا پسندی نے اپنی طرف راغب کر لیا کیونکہ مقامی لوگ انہیں دشمن سمجھتے تھے۔ یہ بیان سے باہر ہے کہ میں خود کو کتنا خوش نصیب سمجھتا ہوں جو میں بچ گیا۔
Kharicha نے فرانس میں اپنے growing up وقت کے تجربات بیان کرنے کے بعد آج کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آج میں نے پہلی بار حضور انور سے ملاقات کی اور مجھے اب تک یقین نہیں آرہا کہ میں نے خلیفۃ المسیح سے ملاقات کی ہے۔ وہ آج دنیا میں سب سے اعلیٰ اور بلند روحانی مقام پر فائز ہیں اور پھر بھی میں ان خوش نصیبوں میں شامل تھا جنہیں ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ یہاںاسٹراسبرگ میں ہماری خوبصورت مسجد ہےلیکن یہ چھوٹی ہے۔ اور حضور انور کے پاس بے پناہ مصروفیات ہیں، اس کے باوجود وہ اتنا طویل سفر طے کر کے اس کے افتتاح کی خاطر یہاں تشریف لائے ہیں۔ اس سے حضور کی عاجزی اور ہم سے محبت ظاہر ہوتی ہے۔
موصوف نے مزید کہا کہ حضور انور سے ملاقات سے پہلےمیں ایک عجیب قسم کے خوف میں مبتلا تھا کہ میں ایک عظیم شخصیت سے ملنے جا رہا ہوں مگر ملاقات میں مَیں نے حضور کونہایت محبت کرنے والا، نہایت شفیق اور مجھ جیسے ایک عام شخص میں بھی دلچسپی لیتے ہوئے پایا۔ یہ ایمان افروز تھا۔
حضورِ انور کی افرادجماعت سے محبت
انٹرویو ختم ہونے کے بعدحضور انور کمپلیکس کے صحن میں تشریف لائے اور کھانے کے خیمے کی طرف دیکھا جہاں بہت سے احمدی احباب جو جمعہ کی نماز کے لیے آئے تھے اور اب دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے۔امیر صاحب فرانس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ یہ یقینی بنائیں کہ ہر فرد صحیح سے سیر ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص بھوکا یا پیٹ بھرے بغیر واپس جائے۔ اگر کھانے کے اخراجات کے لیے پیسے کم ہیں تو میں ذاتی طور پر یہ رقم ادا کر دوں گا لیکن کسی کو بھی کھانے سے محروم نہیں رہنا چاہیے اور نہ ہی کسی کو کم کھانے کے لیے کہا جانا چاہیے۔
یہ ایک نہایت خوبصورت تبصرہ تھا جو حضور انور کی ہر احمدی کے لیے محبت کو نمایاں کرتا تھا۔مجھے معلوم نہیں کہ یہ بات حضور انور نے بے اختیاری میں فرمائی تھی یا اس سے قبل کسی نے یہ شکایت کی تھی کہ کھانا کم ہے، بہر حال جو بھی پس منظر ہو، حضور انور کے یہ الفاظ افرادجماعت کے لیے آپ کے مسلسل فکر کو ظاہر کر رہے تھے۔
جب حضور انور اپنی رہائش گاہ کی طرف واپس تشریف لے جانے لگے تو حضور کی صحت کے پیش نظرمیں نے عرض کیا کہ حضور! کاش میں ڈاکٹر ہوتا تاکہ آپ کو کچھ آرام فراہم کرسکتا۔
اس پر حضور انور نے مسکرا کر فرمایا کہ ڈاکٹر بھی کچھ نہیں کر سکتے! بس صحت یاب ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔
جب حضور انور اپنی رہائش گاہ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے، تو میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ حضور کچھ دیر آرام فرما لیں۔مگر کچھ ہی دیر بعدحضور انور دوبارہ اپنے دفتر تشریف لے آئے اور ایک بھرپور ملاقات سیشن میں درجنوں احمدی فیملیوں سے ملاقات فرمائی۔
ایک خاص گھڑی(A special watch)
[دورہ سے قبل انگریزی خطابات کی تیاری کے سلسلے میں]ملاقاتوں کے دوران جب زیادہ تر وقت کام میں گزرتا کبھی کبھار حضور انور ایک دو منٹ کے لیے توقف فرماتے۔ایک مختصر وقفے کے دوران حضور انور نے مجھ سے میرے بچوں کے بارے میں دریافت فرمایا۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ میرا بڑا بیٹا، ماہد اُس گھڑی کو بڑی دلچسپی سے دیکھتا ہے جو حضور نے مجھے چند سال قبل از راہِ شفقت عطا فرمائی تھی۔ میں نے یہ بھی ذکر کیا کہ ماہد کی اگلی بات نے مجھے حیران کر دیا۔گھڑی دیکھنے کے بعد، ماہد جو صرف چھ سال کا ہے بہت معصومیت سے کہنے لگا کہ ابا، جب آپ فوت ہو جائیں گے تو کیا میں وہ گھڑی لے سکتا ہوں جو حضور نے آپ کو دی تھی؟یہ سن کر حضور انور زور سے ہنس پڑے اور اُس معصوم کی بےساختگی سے بہت محظوظ ہوئے۔ پھر حضور مسکراتے ہوئے فرمانے لگے کہ تمہارے گھر میں ماہد وہ شخص ہے جو بغیر کسی جھجک اور خوف کے بے تکلف بات کر دیتا ہے!
یہ فرما کر حضور انور نے اپنی کرسی گھمائی اور اپنی الماریوں اور کتابوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ مجھے لگا کہ شاید حضور حوالے کے لیے کسی کتاب کی تلاش میں ہیں۔ مگر میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی جب دو تین منٹ بعدحضور انور نے دوبارہ کرسی گھمائی اور ان کے ہاتھ میں ایک سلور رنگ کی گھڑی (silver watch)تھی۔حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ گھڑی میری طرف سے ماہد کو دے دو۔میں حضورِ انور کی اس شفقت اور میرے بیٹے کے جذبات کی قدر کرنے پر بہت متاثر ہوا۔
’’Burnt his boats‘‘
(اپنی کشتیاں جلادیں)
ایک موقع پر مختصر وقفے کے دوران، میں نے حضور انور کی خدمت میں ایک ویڈیو کا ذکر کیا جو چند دن پہلے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی۔ اس ویڈیو میں کچھ خدام چائنیز وِسپرز (پیغام رسانی)کے انداز میں ایک کھیل کھیل رہے تھے۔اس کھیل میں زبانی پیغام پہنچانےکی بجائے ایک دوسرے کو کچھ مخصوص حرکات پہنچانی ہوتی تھیں۔ جیسے جیسے حرکات ایک شخص سے دوسرے تک پہنچتی گئیں وہ عجیب و غریب ہوتی چلی گئیں اور اصل حرکات سے بالکل مختلف ہو گئیں۔
حضور انور نے خود بھی یہ ویڈیو دیکھی تھی اور اس سے محظوظ ہوئے تھے۔ اس پر حضور انور مسکراتے ہوئے فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ذکر فرمایا کہ ایک بار چائنیز وِسپرز کے کھیل میں اصل جملہ The prince of Wales is coming تھا، لیکن کھیل کے اختتام پر یہ جملہ بدل کر ’Give me two pence‘ بن چکا تھا!
یہ سن کر میں نے حضور انور سے دریافت کیا کہ آیا حضرت مصلح موعودؓ انگلش بول اور سمجھ سکتے تھے؟ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ہاں، وہ انگریزی زبان کو بخوبی سمجھتے تھے اور بول بھی لیتے تھے۔ مثال کے طور پر ۱۹۲۴ء میں ویمبلے کانفرنس کے دوران جب حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ نے ان کا لیکچر انگریزی میں پڑھ کر سنایا تو اس سے قبل حضرت مصلح موعودؓ نے خود انگریزی میں مختصر خطاب فرمایا تھا۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ ایک اَور موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک ایسے اجلاس کی صدارت فرمائی جہاں انگریزی میں گفتگو ہو رہی تھی۔ اجلاس کے دوران ایک مندوب نے بہت فخریہ انداز میں بات کی۔ وہ اپنی کامیابیوں کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا تھا اور شیخیاں بگھارنے (boastful) کے انداز میں گفتگو کر رہا تھا۔ اپنی تقریر میں اس نے ایک انگریزی محاورہ استعمال کیا، ’I burnt my boats‘ (یعنی میں نے اپنے واپسی کے تمام راستے بند کر دیے)۔
اس کی شیخی بھری باتوں سے سامعین تنگ آ چکے تھے۔ چنانچہ جب حضرت مصلح موعودؓ نے اجلاس کے اختتامی کلمات ارشاد فرمائے تو آپؓ نے یہ کہتے ہوئےآغاز فرمایا کہ
The gentleman may have ‘burnt his boat‘ but he did not burn his boasts!
یعنی شریف آدمی نے شاید اپنی کشتیاں جلا دی ہوں، مگر انہوں نے اپنی شیخیاں نہیں جلائیں!‘
یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضور انوراس انداز سے مسکرائے اور ہنسے جس سے آپ کی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے گہری محبت و عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔
(مترجم: طاہر احمد، انتخاب: مظفرہ ثروت)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات