متفرق مضامین

حرمِ محترم

(’م م محمود‘)

حقیقت میں جس محترم خاتون کا اس نظم میں ذکر کیا ہے وہ کوئی معمولی عورت نہیں بلکہ اس معزز خاتون کی والدہ ماجدہ ہیں جس کواللہ تعالیٰ نے کُل انبیاء علیہم السلام کے موعود اور بروز مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجیت کے لیے برگزیدہ کیااور اسے ام المومنین ٹھہرایا (ایڈیٹر الحکم)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے متبعین احمدی شعراء کی صف میں ایک نیک اور پارسا وجود حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ ہیں۔جنہیں نہ صرف حضرت اقدسؑ کے غلامان میں شامل ہونے کی سعادت حاصل تھی بلکہ آپؓ کے حصہ میں امام الزمان علیہ السلام کے خسر ہونے کا فخر بھی آیا ۔حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ۱۸۴۵ء کے قریب پیدا ہوئے۔ آپؓ دلّی کے معروف شاعر اور صوفیانہ شاعری کے امام کہلانے والے بزرگ خواجہ میر دردؒ کی اولادمیں سےتھے۔یعنی یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وصفِ شعر گوئی آپ کو وراثت اورخون میں ملا۔ ۱۸۹۲ء میں قادیان منتقل ہونے کے بعد حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے مکمل طور پر خود کو سلسلہ کی خدمت میں وقف کردیا تھا۔آپؓ ایک عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ نثر نگار بھی تھے۔نظم اور نثر ہر دو اصناف میں خداتعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھا۔بیعت سے قبل انجمن حمایتِ اسلام کا جب نیا نیا دور شروع ہوا تو آپؓ نے اس کے سالانہ جلسہ میں ایک نظم پڑھی جس کا یہ شعر نہایت مقبول ہوا اور اس شعر کے ذریعہ مذکورہ انجمن کو خوب آمدنی ہوئی

پھولوں کی گر طلب ہے تو پانی چمن کو دے
جنّت کی گر طلب ہے تو زَر انجمن کودے

غرباءکی امداد کے لیے بھی آپؓ نے نظمیں کہیں۔

آپؓ نے متنوع موضوعات کو اپنی شاعر ی کاموضوع بنایا اور طویل نظمیں لکھیںجن میں اسلام کا درد اور مخلوقِ خدا کی ہمدردی کا رنگ عیاں ہوتاہے۔آپؓ نے سلسلہ کے مصارف اورضروریات کی خاطر چندہ اکٹھا کرنے کی غرض سے ہندوستان کے دُور دراز علاقوں کا سفر اختیار کیا اور اس سفر کے بارہ میں ایک لمبی نظم بعنوان’’سفرنامہ ناصر‘‘ کہی جو ازاں بعد کتابی صورت میںبھی شائع ہوئی۔گو کہ باقاعدہ طور پر آپؓ کا مجموعہ کلام اشاعت پذیر نہ ہو سکا تاہم سلسلے کے لٹریچر میں آپؓ کاکثرت سے منظوم کلام ملتا ہے جس کوپڑھنے سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ کی شاعری مقصدیت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔آپؓ کے اشعار میں سلاست اور سادگی پائی جاتی ہے۔دلّی سے تعلق کے باعث نظم و نثر میں اہلِ دلّی کی ٹھیٹھ زبان اور ٹکسالی محاورے کا گہرا اثر تھا۔
جیسا کہ بالائی سطور میں ذکر ہواکہ آپؓ نے میدانِ شعر و سخن میں متعدد موضوعات پرفکروخیال کی اسپ سواری کی۔ان موضوعات میں ایک منفرد اور نرالا موضوع اپنی شریکِ حیات کے متعلق ان کی زندگی میں ایک طویل نظم ہے۔ اگرچہ اردو ادب کی تاریخ میں شاعری کے خاصے بڑے حصے کا موضوع صنف ِ نازک ہی رہا ہے لیکن بیوی کی توصیف و تعریف میں خال خال بلکہ نہ ہونے کے برابر شعراء نے خامہ فرسائی کی ہے۔ طرفہ یہ کہ اگر شعراء نے اس موضوع کو اپنایا بھی تو محض طنز و مزاح کے طور پر۔ بدقسمتی سے سنجیدہ شاعری میں بیوی کو جگہ اس کی وفات کے بعد شخصی مرثیہ کے طور پرہی مل سکی ہے۔لیکن حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے اس حوالے سے شاعری کو ایک نئی جہت دی کہ اپنی شریکِ حیات کے بارے میں حقیقی توصیف سے مزین ایک منفرد نظم تحریر فرمائی۔
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی زوجہ حضرت سیّدہ بیگم صاحبہؓ دلّی کی رہنے والی تھیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی مبشر اولاد کی نانی ہونے کی وجہ سے حضرت سیّدہ بیگم صاحبہ ’’نانی امّاں‘‘ کے لقب سے مشہور تھیں۔حضرت اماں جانؓ کی والدہ ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ بھی آپؓ کا بے حد احترام فرمایا کرتے تھے۔آپؓ اپنے خاوند حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی خدمتِ خلق اور فلاح و بہبود کے کاموں میں ممد اور معاون بنی رہیں۔ ایک مرتبہ حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ بہت بیمار ہوگئے۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ اُس وقت محلہ دارالضعفاء میں غرباء کے لیے مکانات تعمیر کروارہے تھے۔ حضرت نانی جان نے اُنہیں پیغام بھیجا کہ بیٹا بیمار ہے اُس کے لیے دعا کریں۔ آپؓ نے جواباً فرمایا کہ غرباء کے مکانات کی تعمیر کے لیے مجھے روپیہ کی اشد ضرورت ہے اگر بچے کی صحت کے لیے دعا کروانی ہے تو اپنے سونے کے کڑے بھیج دو۔ یہ پیغام ملتے ہی حضرت نانی جان نے اپنے کڑے اتار کر آپؓ کو بھجوادیئے۔(حیاتِ نورصفحہ۶۶۷،۶۶۶از شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل)
اسی طرح حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ والدہ صاحبہ کی شادی بارہ تیرہ سال کی عمر میں ہوگئی تھی اور اس جوڑے میں دلی تعلقِ محبت تھا۔ ابتدائے عمر میں جب حضرت میر صاحبؓ ملازم نہ تھے تو والدہ صاحبہ کا ہزارہا روپیہ کا زیور سب گھر کے خرچ میں کام آیا۔ ۱۹۱۲ء میں والدہ صاحبہ نے کئی دفعہ سونے کے کڑے پہننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مجھے کہیں سے معقول رقم دستیاب ہوئی تو مَیں نے اُن کی خواہش پوری کردی۔ لیکن اگلے سال مَیں قادیان گیا تو ہاتھ خالی تھے۔ پوچھا کڑے کہاں گئے تو فرمایا کہ تمہارے ابّا کے حج پر خرچ ہوگئے۔(الفضل ۲۲ ؍دسمبر۱۹۳۲ءصفحہ۹)
حضرت نانی اماں کے درج بالا مختصر تعارف کے بعد اب وہ نظم پیش ہے جو حضرت میر صاحبؓ نے اپنی اہلیہ کے بارہ میں کہی۔یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ حضرت نانی جانؓ کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم شعری مبالغہ کی آمیزش سے بکلی مستثنیٰ ہے کیونکہ حضرت میر صاحبؓ نے جن اوصاف کا ذکر کیا ہے موصوفہ بخوبی ان کی حامل تھیں۔یہ شاہکار، اچھوتا اور نایاب کلام زیرِعنوان ’’حرمِ محترم‘‘ ۲۴؍فروری ۱۹۰۶ء کو اخبار الحکم میں شائع ہوا۔اس نظم کے متعلق مدیر الحکم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے بوقتِ اشاعت ایک نوٹ بھی تحریر فرمایا جو لائقِ مطالعہ ہے۔حضرت عرفانیؓ نے تحریر فرمایا کہ ’’ذیل میں ایک عجیب نظم درج کی جاتی ہےجومیرے واجب الاحترام مخدوم میرناصر نواب صاحب سلمہ اللہ الوہاب نے اپنے دلی جوش کے اظہار سے لکھی ہے۔اگرچہ اس نظم کا تعلق ایک واجب العزّت عصمت مآب خاتون کی ذاتِ خاص تک ہے لیکن اخبار کے کالموں میں اس نظم کے آنے کی غرض کیا ہو سکتی ہے۔اس کا اظہار میرا فرض ہے۔میں اس نظم کو محض اس غرض سے شائع کرتا ہوں تا ہماری مستورات کو ایک اعلیٰ نمونہ ہمارے خاوندوں کی فرمانبرداری کا معلوم ہو اور وہ اس پاک نمونہ سے اپنے شوہروں کے لیے اطاعت ووفاداری کا خاص سبق سیکھیں۔حقیقت میں جس محترم خاتون کا اس نظم میں ذکر کیا ہے وہ کوئی معمولی عورت نہیں بلکہ اس معزز خاتون کی والدہ ماجدہ ہیں جس کواللہ تعالیٰ نے کُل انبیاء علیہم السلام کے موعود اور بروز مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجیت کے لیے برگزیدہ کیااور اسے ام المومنین ٹھہرایا۔اس حیثیت سے ام المومنین کی واجب الاحترم والدہ ماجدہ ایک عالم کی ماں ٹھہرتی ہیں۔ اس پاک نمونہ سے یہی معلوم ہو گا کہ ایسی محترم اور پاکباز خاتون اور اس کے واجب العزّت شوہر کے کیسے نیک اور پاک ارادے اپنی اولاد کے متعلق ہوں گے۔یہ ذکر کرنابھی ضروری ہے کہ اس خاندان کو اللہ تعالیٰ نے دوہرا شرف عطا فرمایا ہے۔پہلے آلِ رسولﷺ ہونے کا شرف تھا ہی۔اس پر بروزِ محمدﷺ کے خاندان کے ساتھ تعلق ہونے کی وجہ سے دوسرا فضل کیا۔ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِـيْمِ۔خدا کرے کہ ہمارے گھروں میں ایسے ہی پاک نمونے ہوں۔آمین۔اگر عورتوں میں اس قسم کی وفاداری،محبت اور اطاعت اپنے خاوند کے لیے ہو تو پھرکیا وجہ ہے کہ معاشرت اعلیٰ درجہ کی نہ ہو۔‘‘
۵۷؍ اشعار پر مشتمل اس نظم کے ابتدائی ۳۶؍اشعار میں حضرت میر صاحبؓ نے اپنی زوجہ کے خصائل و عادات اور وفا و جاںنثاری کا ذکر کیا ہے۔جبکہ آخری ۲۱؍ اشعار میں اسلام کی شان و شوکت ، غلبہ اور دنیا میں نیکی اور امن کے فروغ کے متعلق دعائیں کی ہیں۔مذکورہ نظم ذیل میں درج کی جاتی ہے۔

اے میرے دل کی راحت میں ہوں ترا فدائی
تکلیف مَیں نے ہرگز تجھ سے کبھی نہ پائی
صورت سے تیری بڑھ کر سیرت میں دِلربائی
میں ہوں شکستہ خاطر اور تُو ہے مومیائی
مجھ کو نہ چَین تجھ بن بے میرے سکھ نہ تجھ کو
مَیں تیرے غم کی دارو تُو میری ہے دوائی
شرمندہ ہوں مَیں تجھ سے، مجھ سے نہیں خجل تُو
مجھ میں رہی کدورت تجھ میں رہی صفائی
تُونے کرم کیا ہے میرے ستم کے بدلے
دیکھی نہ مَیں نے تجھ سے اِک ذرّہ بے وفائی
تُو لعلِ بےبہا ہے، انمول ہے تُو موتی
ہے نقش میرے دل پر بس تیری پارسائی
مَیں نے قدر نہ تیری پہچانی ایک ذرّہ
ہیرے کو مَیں نے سمجھا افسوس ایک پائی
خاطر سے تُونے میری کنبے کو اپنے چھوڑا
جنگل میں ساتھ میرے اپنے وطن سے آئی
تھی ناز کی پلی تُو اور مَیں غریب گھر کا
تُو نے ہر اک مصیبت گھر میں مرے اٹھائی
محنت کا تیری ثمرہ اللہ تجھ کو بخشے
چولہے میں سر کھپایا، بچوں پہ جاں کھپائی
دکھ سکھ میں ساتھ میرا تُو نے کبھی نہ چھوڑا
خود ہو گئی مقابل جب غم کی فوج آئی
دنیا کے رنج و غم کو ہنس ہنس کے تُو نے کاٹا
اللہ رے تیری ہمّت بل بے تری سمائی
بچوں کو تُو سلاتی اور آپ جاگتی تھی
بچوں کے پالنے میں لاکھوں اٹھائے صدمے
جب تک یہ سلسلہ تھا راحت نہ تو نے پائی
ہوتا تھا ایک پیدا اور دوسرا گزرتا٭
تھی صابرہ تُو ایسی ہرگز نہ بلبلائی
صدمے کو اپنے دل کے لاتی نہ تُو زباں پر
جُہّال کی طرح سے دیتی نہ تُو دُہائی
تنگی میں عمر کاٹی، بچوں کو خوب پالا
شکوہ نہ سختیوں کا لب پر کبھی تُو لائی
جو مَیں نے تجھ کو بخشا تُو نے لیا خوشی سے
مانگی نہ تُو نے مجھ سے ساری کبھی کمائی
دھوکہ دیا نہ ہرگز، بولی نہ جھوٹ گاہے
مجھ سے نہ بات کوئی تُو نے کبھی چھپائی
تھی جتنی تجھ میں طاقت کی تُو نے میری خدمت
خود کھایا رُوکھا سوکھا نعمت مجھے کھلائی
عیبوں کو تُو نے میرے اغیار سے چھپایا
تھا تیرے بس میں جتنا عزّت مری بنائی
صدمے سے میرے صدمہ تجھ کو ہوا ہمیشہ
جب شاد مجھ کو پایا تُو نے خوشی منائی
تھی میرے دشمنوں کی تُو جان و دل سے دشمن
اور میرے دوستوں سے تیری رہی صفائی
جو کچھ تھا میرا مذہب، تھا وہ ہی تیرا مشرب
تھی تیرے دل میں الفت ایسی مری سمائی
مجھ پر کیا تصدّق جو تیرے پاس زر تھا
یاں تک کہ پاس تیرے باقی رہی نہ پائی
کرتا ہوں شکر حق کا جس نے تجھے ملایا
اور میری تیری قسمت آپس میں یوں ملائی
ہو تجھ پہ حق کی رحمت، تجھ کو عطا ہو جنّت
اور میری تیری اِک دم ہووے نہ واں جدائی
آرام تجھ کو دیوے فضل و کرم سے مولیٰ
ہر رنج و غم سے بخشے مالک تجھے رہائی
ہر گز نہ تُو دکھی ہو، ہر وقت تُو سکھی ہو
بچوں کا عیش دیکھے تُو اور تیری جائی
فضلِ خدا کی بارش دن رات تجھ پہ برسے
پانی میں مغفرت کے ہر دم رہے نہائی
دولت ہو تجھ سے ہمدم، عزّت ہو ساتھ تیرے
اولاد میں ہو برکت، کہلائے سب کی مائی
تیرا نہیں ہے ثانی لاکھوں کی ہے تُو نانی
عیسیٰ سے کر کے رشتہ دولت یہ تُو نے پائی
اسلام پر جئیں ہم، ایمان سے مریں ہم
ہردَم خدا کے در کی حاصل ہو جَبّہ سائی
جب وقتِ موت آئے بے خوف ہم سدھاریں
دل پر نہ ہو ہمارے اندوہ ایک رائی
مہدیؑ کے مقبرہ میں ہم پاس پاس سوئیں
دنیا کی کشمکش سے ہم کو ملے رہائی
اک اور بھی دعا ہے اب میرے دل میں آئی
ہے جوش کا یہ عالم جاتی نہیں چھپائی
ہو قوم کو ہدایت، اللہ کی آئے نصرت
آقا کرے ہمارا دنیا کی رہنمائی
مثلِ مدینہ ہووے اسلام کا یہ مرکز
قصبے میں قادیاں کے آئے نظر خدائی
مہدیؑ کو لوگ مانیں، عیسیٰ کے معتقد ہوں
پھر جائے چار جانب اسلام کی دُہائی
دنیا سے دُور ہووے ہر طَور کی کدورت
جس سمت آنکھ اٹھے آئے نظر خدائی
اسلام میں ہو داخل بس فوج فوج دنیا
اعداء گلے سے مل کر بن جائیں بھائی بھائی
آنکھوں سے ہم کو اپنی وہ دن خدا دکھائے
جب قوم سے ہماری، کُل دُور ہو برائی
آنکھیں کھلیں ہماری، روشن دماغ ہوویں
ہووے شعار اپنا تقویٰ و پارسائی
دنیا سے دُور ہوویں جتنے ہیں بُت جہاں میں
اللہ کی ہو عبادت جس کی ہے کُل خدائی
قرآن کی حکومت دنیا میں ہووے قائم
ہو کفر پارہ پارہ اور شرک رائی کائی
روشن ہو دینِ احمدؐ فضلِ خدا سے ہر دم
جو ہیں جنم کے اندھے ان کو بھی دے دِکھائی
دینِ محمدیؐ کا اقبال خوب چمکے
باطل پرست جو ہیں اُن کی ہو جگ ہنسائی
توحید کا ہو دورہ، تثلیث ہو شکستہ
حق کی ہو بادشاہی، باطل نہ دے دکھائی
قرآں کا نور چمکے، کندن کی طرح دمکے
سورج کی روشنی سے ہو بڑھ کے روشنائی
شر اور فساد جاوے، دنیا میں امن آوے
ظاہر میں خیر و خوبی، باطن میں ہو بھلائی
بچے ہوں نیک بچے، اور ہوں جوان صالح
ہوں لائقِ زیارت دنیا میں باپ مائی
ہر نشّہ دُور ہووے، سچا سُرور ہووے
جو سُود خور ہیں یاں اُن کو ملے نہ پائی
جھوٹے طبیب جائیں، سچے امین آئیں
دھوکے سے جو نہ بیچیں مخلوق میں دوائی
ہو صدق و راستی کا دنیا میں بول بالا
ہو جھوٹ کی تباہی، پھیلے یہاں سچائی
آپس میں ہو محبت، جائے یہ بغض و نفرت
جو دل شکن ہیں اُن میں آ جائے دلربائی
اب یہ دعا ہے میری دن رات صدقِ دل سے
ناصرؔ کی اِس دعا کو حق تک ملے رسائی

٭آپ کے ہاں تیرہ بچے پیدا ہوئے لیکن اکثر بچپن میں ہی وفات پاگئے اور صرف تین بچوں یعنی حضرت امّاں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ، حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ نے عمر پائی۔

مزید پڑھیں: سفرایک رات کا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button